جنوبی افریقہ کو ہی غصہ کیوں آیا

اچھی بات یہ ہے کہ کسی عرب یا مسلمان ملک کے ہاتھوں یہ کام انجام نہیں پایا

یہ تو آپ جانتے ہیں کہ جنوبی افریقہ پہلا ملک ہے جس نے ایک نسل پرست، نسل کش ریاست اسرائیل کو عالمی عدالتِ انصاف ( آئی سی جے) کے کٹہرے میں کھڑا کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔اب فیصلہ جب بھی ہو، جو بھی ہو ،کم ازکم یہ دیومالائی تاثر ٹوٹ گیا کہ اسرائیل کے گریبان پر کوئی مائی کا لال ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔

اچھی بات یہ ہے کہ کسی عرب یا مسلمان ملک کے ہاتھوں یہ کام انجام نہیں پایا بلکہ ایک سیکولر غیر عرب، غیر مسلم اکثریتی ریاست کے ہاتھوں یہ کارِ خیر ہوا ۔لہٰذا اس پیٹیشن کو روایتی یہود دشمن مسلمان تعصب بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اسرائیل اور جنوبی افریقہ کے تعلقات کی تاریخ میں جائیں تو یہ اسرائیل اور ایران کے تعلقاتی اتار چڑھاؤ سے بہت مماثل ہیں۔ایران ان چند ممالک میں شامل تھا جنھوں نے اسرائیل کا ریاستی وجود بہت شروع میں ہی تسلیم کر لیا تھا۔شاہی ایران کو ایک پولیس اسٹیٹ بنانے میں اسرائیل نے بھرپور آلاتی و مہارتی مدد کی۔بالخصوص خفیہ ایجنسی ساواک کو سفاک بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

تہران فروری انیس سو اناسی تک سی آئی اے اور موساد کا ایشیا میں سب سے بڑا نگراں اسٹیشن تھا۔ جب ایران میں انقلاب نے ہر شے الٹ دی تو اس الٹ پلٹ میں اسرائیل ، امریکا اور ایران بھی راتوں رات ایک دوسرے کے پکے دوستوں سے پکے دشمنوں میں بدل گئے۔ البتہ اسرائیل کے وجود میں آتے ہی جس اعلیٰ بیرونی عہدیدار نے اس غصب شدہ زمین پر قدم رنجہ فرمایا، وہ کھلم کھلا نسل پرست جنوبی افریقہ کی گوری اقلیتی حکومت کے وزیرِ اعظم ڈینیل ملان تھے۔انیس سو اکسٹھ میں جنوبی افریقہ کے اگلے وزیرِ اعظم ہنڈرخ ورورڈ نے تل ابیب کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ ''ہم دو نظریاتی نسل پرست دوست ریاستیں ہیں۔'' (جب یہی بات اکسٹھ برس بعد ایمنٹسی انٹرنیشنل نے کہی تو اسے یہود دشمنی قرار دیا گیا)۔

انیس سو پچھتر میں دونوں ریاستوں نے نسل پرستی کے تصور کو ایک خوشنما زود ہضم نظریے کی شکل دینے کے خاطر سیاسی و نفسیاتی پروپیگنڈے کی جدت کاری کے لیے ایک مشترکہ سیکرٹیریٹ تشکیل دیا۔انیس سو چھہتر میں جنوبی افریقہ کے وزیرِ اعظم جان وورسٹر نے اسرائیل کا دورہ کیا۔

اسرائیل نے یہ جاننے کے باوجود ان کے لیے سرخ قالین بچھایا کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانیہ نے جان وورسٹر کو ایک نازی ہمدرد ہونے کی پاداش میں کچھ عرصے قید میں بھی رکھا۔جان وورسٹر کے دورے کے نتیجے میں اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے جنوبی افریقہ کے عالمی بائیکاٹ کے سبب جنوبی افریقہ کے فوجی افسروں کو تربیت کے لیے اسرائیل بھیجا جانے لگا۔انیس سو اکیاسی تک لگ بھگ دو سو اسرائیلی فوجی مشیر جنوبی افریقہ کی نسل پرست فوج سے منسلک ہو چکے تھے۔

اسرائیل نے جنوبی افریقہ کے ایلیٹ کمانڈو یونٹ کی تشکیل و تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔یہ یونٹ جنوبی افریقہ کے اندر اور اردگرد کے ممالک میں افریقن نیشنل کانگریس سمیت دیگر حریت پسند سیاہ فام تنظیموں کو تتر بتر کرنے کی نیت سے قائم کیا گیا۔

یوں اسرائیل نے تنظیم آزادی فلسطین ( پی ایل او ) کے ''دہشت گردوں '' سے نپٹنے کا تجربہ جنوبی افریقہ کے نسل پرستوں کو منتقل کیا۔اسرائیل کی سب سے بڑی اسلحہ ساز کمپنی ایلبیت سسٹمز نے جنوبی افریقہ کو جدید الیکٹرونکس آلات و اسلحہ سازی کی مقامی صنعت استوار کرنے کے لیے ہر طرح کی مدد بہم پہنچائی۔

جنوبی افریقہ کے عالمی اقتصادی و اسٹرٹیجک بائیکاٹ کے باوجود اسرائیل اقوامِ متحدہ کا واحد رکن تھا جس نے اسی کی دہائی میں جنوبی افریقہ کو پونے دو ارب ڈالر کے لگ بھگ ساٹھ کفر ساختہ لڑاکا طیارے فروخت کیے۔ان طیاروں کو ہمسائیہ ممالک انگولا ، موزمبیق اور زیمبیا میں قائم اے این سی کے ٹھکانوں پر حملوں کے لیے استعمال کیا گیا۔جنوبی افریقہ کی بحریہ کو اسرائیل نے وہی ریڈار سسٹم فروخت کیا جو وہ خود استعمال کرتا تھا۔

دراصل اسرائیل نے اپنے اسلحے کی صنعت امریکی ٹیکنالوجی کی مدد سے استوار کی اور پھر یہی امریکا ٹیکنالوجی تھرڈ پارٹی ٹرانسفر کے ذریعے جنوبی افریقہ کے ہاتھوں پہنچ گئی۔امریکا نے اس بارے میں کبھی بھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔جنوبی افریقہ کی فوج کے پاس جو اسٹینڈرڈ سب مشین گن تھی وہ اسرائیل کی اوزی سب مشین گن کی ہی ایک مقامی نقل تھی۔


اسرائیل کے جوہری پروگرام کی بقا کے لیے جنوبی افریقہ کے یورینیم کی بنیادی اہمیت تھی۔اس کے بدلے اسرائیل نے جنوبی افریقہ کو فوجی سطح کی جوہری افزودگی کی صلاحیت اور میزائل ٹیکنالوجی فراہم کی۔ جنوبی افریقہ کو کولڈ بلاسٹ کی صلاحیت فراہم کر کے اسے ایک خاموش جوہری طاقت بنایا گیا۔نسل پرست حکومت کے خاتمے کے بعد انکشاف ہوا کہ جنوبی افریقہ نے چھ ہیروشیما حجم کے ایٹم بم بنا لیے تھے۔ امریکی سی آئی اے کو یہ راز پہلے دن سے معلوم تھا۔

انیس سو نوے کے عشرے میں پی ڈبلیو بوتھا آخری وزیرِ اعظم تھے جنھوں نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ جنوبی افریقہ میں نسل پرست حکومت کے خاتمے کے سبب اسرائیل براعظم افریقہ میں اپنے سب سے قریبی حلیف سے محروم ہو گیا۔

اپارتھائیڈ نظام کے زوال کے بعد جنوبی افریقہ میں اکثریتی سیاہ فام اے این سی کی قیادت والی حکومت نیلسن منڈیلا کی سربراہی میں قائم ہوئی۔ستائیس برس کی قید سے رہائی کے بعد جب منڈیلا برے وقت میں ساتھ کھڑے رہنے والے دوستوں سے پہلی بار ملنے زیمبیا پہنچے تو یاسر عرفات بھی منڈیلا کا ماتھا چومنے کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔

نئے جنوبی افریقہ نے اسرائیل سے سفارتی و اقتصادی تعلقات برقرار رکھے۔البتہ خارجہ پالیسی کا قطب نما ایک سو اسی ڈگری گھوم گیا۔پی ایل او کو سفارتی طور پر تسلیم کیا گیا۔رام اللہ میں جنوبی افریقہ کا سفارتی دفتر قائم ہوا۔کیپ ٹاؤن کے شہریوں نے فلسطینی اتھارٹی کو دو ہزار پندرہ میں نیلسن منڈیلا کا مجسمہ پیش کیا۔جو اس وقت رام اللہ کے منڈیلا اسکوائر میں ایستادہ ہے۔

منڈیلا نے رہا ہوتے ہی ایک بات کہی جو فلسطین اور جنوبی افریقہ کی سیاہ فام اکثریت کے درمیان مظلوم کے مظلوم سے تعلق کی کہانی کو مکمل طور پر سموئے ہوئے ہے۔یعنی،'' جنوبی افریقہ کی آزادی فلسطین کی آزادی کے بغیر نامکمل ہے۔''اس جملے کی لاج جنوبی افریقہ کی ہر حکومت رکھ رہی ہے۔

بھلا جنوبی افریقہ سے زیادہ کون نسل پرستی اور نسل کشی کے زہریلے اثرات کے بارے میں جانتا ہے؟ جنوبی افریقہ کی تحریکِ آزادی کے ہیرو آرچ بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو جب پہلی بار فلسطینی اتھارٹی کی دعوت پر مقبوضہ مغربی کنارے پر پہنچے اور انھوں نے فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی فوج اور پولیس کا رویہ اور چیک پوسٹوں کا جال دیکھا تو بشپ ٹو ٹو کے منہ سے بے ساختہ نکلا '' ارے یہ سب تو میرے گھر جیسا ہے۔وہ گھر جہاں میں پیدا ہو، بڑا ہوا ، باشعور ہوا۔اور پھر اس سب سے نجات پائی۔ایک دن تم بھی وہ دن ضرور دیکھو گے ۔''

جنوبی افریقہ کی فلسطین پالیسی اس کے سوا کیا ہے ؟

سب پہ جس بار نے گرانی کی

اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا

(میر)

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
Load Next Story