سندھ کی جامعات اور مسائل
میں اس وقت جامعہ کراچی کی سماعت گاہ کلیہ فنون میں بیٹھا ایک انتہائی اہم مسئلے پر مقررین کی باتیں غور سے سن رہا ہوں
میں اس وقت جامعہ کراچی کی سماعت گاہ کلیہ فنون میں بیٹھا ایک انتہائی اہم مسئلے پر مقررین کی باتیں غور سے سن رہا ہوں۔ ان مقررین میں جامعات کے اساتذہ کی تنظیم "FAPUASA" کے صدر ڈاکٹر وحید چوہدری اور انجمن اساتذہ جامعہ کراچی کے صدر ڈاکٹر جمیل کاظمی کے علاوہ سندھ بھر کی سرکاری جامعات کے نمایندے شامل ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ 2013 ایکٹ سندھ کی سرکاری جامعات کی خود مختاری پر کاری ضرب ہے اور اس سلسلے میں سندھ حکومت کی جانب سے جامعات کی غیر تدریسی آسامیوں پر تقرریوں کے لیے اشتہار دینا خلاف قانون بھی ہے۔
ڈاکٹر جمیل کاظمی کا کہنا تھا کہ وہ اپنے اس پرامن احتجاج کو جاری رکھیں گے اور اس کا دائرہ پورے پاکستان کی جامعات تک وسیع کریںگے، نیز قانونی جنگ بھی لڑیںگے۔ اس موقع پر جامعہ کراچی کے ایک استاد اسامہ شفیق کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کی جانب سے سیاسی مداخلت اور سیاسی بنیادوں پر تقرریوں کی کوششیں بھی بند ہونی چاہیے بلکہ خود جامعہ میں جو سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کی گئیں ہیں ان کا بھی ازالہ ہونا چاہیے۔ میرٹ کا قیام از حد ضروری ہے۔
بلاشبہ 2013 ایکٹ کے حوالے سے سندھ بھر کی جامعات کے اساتذہ کے تحفظات اپنی جگہ وزن رکھتے ہیں لیکن راقم کے خیال میں اس ساری صورت حال اور چند ایک دیگر فیصلوں کے تناظر میں یہ مسائل مستقبل میں کچھ اور رنگ اختیار کر جائیںگے اور اس نئے رنگ کے ایشوز سندھ کی سیاست پر بھی اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں چند گزارشات ہیں جن پر غور کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔
صوبہ سندھ پاکستان کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں ایک الگ شناخت بھی رکھتا ہے اور منفرد لسانی مسائل بھی رکھتاہے جس کی دو بنیادی وجوہات ہیں، ایک یہ کہ یہاں کی قدیم مقامی آبادی سندھی زبان کی حامل ہے لیکن یہ زیادہ تر دیہی علاقوں کی آبادی پر مشتمل ہے، یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ یہاں کہ منتخب نمایندوں نے کبھی بھی سندھ کی اس قدیم آبادی کو سندھ کی ترقی کی دوڑ میں دانستہ یا نادانستہ طور پر شامل نہیں ہونے دیا بلکہ صد افسوس کہ انھوں نے دیہی علاقوں میں زندگی کی بنیادی ضروری اور صحت و تعلیم جیسی اہم ضرورت بھی مہیا کرنے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا اور مزید ظلم یہ کہ اس پر لسانی سیاست بھی کی۔
چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سندھی زبان بولنے والی مقامی آبادی ایک جانب سندھ میں ہونے والی تیز تر ترقی کا ساتھ نہ دے سکی، دوسری جانب تعلیم کی سہولیات نہ ہونے کے باعث سندھ کے دیگر باشندوں سے جس میں اردو بولنے والے اور پاکستان کے دیگر علاقوں سے آنے والے شامل ہیں، سے مقابلے میں پیچھے رہ گئی۔ یوں ایک ہی ملک کے باشندے سندھ میں اس مدو جزر یا غلط حکمت عملیوں کے باعث آپس میں محبت کے وہ رشتے رکھنے سے قاصر رہے جو بحیثیت ایک پاکستانی قوم ہونا چاہیے تھا۔ رہی سہی کسر اس سیاسی عمل نے پوری کردی جس کے تحت اقتدار میں آنے کے لیے لسانی نعروں کو اپنایا گیا اور یہ عمل حکومتی سطح پر بھی پوری طرح نظر آیا، مثلاً کوٹہ سسٹم کا مسئلہ دیکھ لیجیے کہ ایک طویل عرصے سے اس کا نفاذ چلا آرہا ہے، حالانکہ کئی مرتبہ اس کی مدت بھی ختم ہوگئی مگر پھر اس کی مدت میں اضافہ کردیا گیا۔
کوٹہ سسٹم کے لیے جواز یہ ڈھونڈا گیا کہ دیہی علاقوں کے لوگوں کے پاس چونکہ علم حاصل کرنے کے مواقع بہت کم ہوتے ہیں سہولیات بھی نہیں ہوتیں لہٰذا کوٹہ سسٹم کے ذریعے انھیں آگے لانے کے لیے ایک ہمدردانہ طریقہ اختیار کیا جارہا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ دیہی علاقوں کے لوگوں کو تعلیم اور صحت کی بنیادی ضروریات ان کے دروازے پر فراہم کرکے ان کی مدد کیوں نہیں کی جاتی؟ شاید اس لیے کہ تعلیم، شعور دیتی ہے اور اگر نچلی سطح پر عوام میں شعور آگیا تو کچھ لوگوں کی سیاسی دکانیں بند ہوجائیں گی، کچھ کے مفادات پر کاری ضرب پڑے گی۔
ظاہر ہے کہ جب دیہی عوام کو پڑھنے کے لیے سہولیات ہی نہیں، انھیں تو روٹی، کپڑا اور مکان کے جھنجھٹ سے ہی چھٹکارا نہیں ملتا تو وہ بھلا تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کیسے حاصل کریںگے؟ جب تعلیم حاصل نہیں کریں گے تو سرکاری ملازمت کے لیے سندھ دیہی کوٹہ کی درخواستیں کیسے دے سکتے ہیں؟ گویا کوٹہ کے تحت دیہی لوگ درخواستیں دیںگے جو ڈگریاں رکھتے ہیں اور ڈگریاں کن کے پاس ہوںگی؟ ان ہی کے پاس جو تعلیم کو افورڈ یعنی اس کے اخراجات برداشت کرسکتے ہوں اور ایسے لوگ دیہی علاقوں کے وڈیرے یا سیاسی جماعتوں کے کرتے دھرتے ہی ہوسکتے ہیں، تو گویا کوٹہ سسٹم کے تحت سندھ کے دیہی عوام کے غریب نہیں بلکہ ایلیٹ کلاس مثلاً وڈیرے وغیرہ ہی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
ایک ایسی ہی مثال کراچی شہر کے قلب میں واقع لیاری کے علاقے کی لے لیجیے، سب کو پتہ ہے کہ لیاری میں ہمیشہ ووٹ کس کو ملتا ہے، کون جیتتا ہے، مگر کسی ایک نمایندے نے کبھی لیاری کے لوگوں کو پانی، صحت اور تعلیم کی سہولیات دیں؟ روزگار فراہم کیا؟ اگر یہ سب کچھ کیا ہوتا تو آج لیاری سے گینگ وار کے خوف سے وہاں کے مکین خود علاقہ چھوڑ کر بھاگ نہ رہے ہوتے بلکہ دیہی علاقوں سے بھی لوگ یہاں تعلیم حاصل کرنے آتے۔
مختصراً کہ سندھ حکومت میں شامل ماضی کے حکمرانوں نے سندھی بولنے والوں کے مسائل کے حل کا نعرہ لگاکر جو فیصلے کیے ان سے یہاں لسانی کشیدگی تو ضرور پیدا ہوئی مگر سندھ کے قدیم اور غریب باشندوں کی قسمت نہیں بدلی۔ اب بھی بعض فیصلے جو بظاہر یہاں کے باشندوں کی بہتری کے دعوے کے طور پر کیے جارہے ہیں ان کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں۔ سندھ کی جامعات میں ناظم امتحانات، ڈائریکٹر فنانس رجسٹرار جیسی اہم آسامیوں پر تقرری کے لیے جامعات کے حق کو سلب کرنا سندھ کے مفادات میں نہیں۔
بظاہر یہ شہری دیہی مسئلہ نہیں کیوں کہ اس میں سندھ بھر کی سرکاری جامعات بھی شامل ہیں لیکن چونکہ جامعہ کراچی نہ صرف سندھ کے شہر کراچی بلکہ پورے ملک کی بڑی جامعہ ہے اور یہ کراچی کے شہریوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کا ایک بڑا اور واحد ذریعہ ہے لہٰذا سندھ حکومت کی جانب سے اہم آسامیوں پر براہ راست تقرریوں میں ذرا سی بے احتیاطی اور غلطی سے لسانی کشیدگی کی چنگاری بھڑک سکتی ہے۔ اسی طرح جامعہ کراچی کے حوالے سے ایک اور اہم مسئلہ جامعہ کراچی کے اندرون سندھ دو کیمپس کی بنیاد رکھنے کے حوالے سے ہے۔ جامعہ کراچی کے اندرون سندھ دو کیمپس شروع کرنے کی ابتدائی منظوری جامعہ کراچی کے سینڈیکٹ کے اجلاس سے ہوچکی ہے۔
حکومت سندھ کی طرف سے اس سلسلے میں ایک طویل عرصے سے دبائو تھا۔ سوال یہ ہے کہ آخر جامعہ کراچی کے ہی کیمپس کیوں اندرون سندھ کے علاقوں میں کھلے جارہے ہیں؟ سندھ کی دیگر جامعات کے ذریعے یہ کمی پوری کیوں نہیں کی جاسکتی؟ بظاہر یہ مسئلہ گمبھیر نہیں لیکن عقل کہتی ہے کہ جامعہ کراچی کے اندرون سندھ کیمپس شروع کرنے سے سندھ کے لسانی مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔ کیوں کہ جب اندرون سندھ جامعہ کا کیمپس کام شروع کرے گا تو یقیناً وہاں سندھی اسپیکنگ اسٹاف بھرتی ہوگا اور جب وہاں کا کوئی ملازم شہر کراچی میں جامعہ کے کیمپس میں ٹرانسفر ہوگا یا کراچی شہر کے کیمپس سے کسی کا تبادلہ ہوگا تو یہ تمام عمل ایک نئے فساد کو جنم دے گا اور یہ عمل سیاسی شعبدہ بازوں کے لیے موقع فراہم کرے گا وہ اس پر لسانی سیاست کریں گے۔
ماضی میں بھی ڈاکٹر حضرات کی اندرون سندھ اور شہر کراچی میں تبادلے لسانی کشیدگی کا باعث بن چکے ہیں۔ آیئے غور کریں اور کوشش کریں کہ کم از کم تعلیمی میدان میں آج کوئی ایسا عمل سرزد نہ کریں جو کل ہمارے مسائل میں مزید اضافے کا باعث ہو اور جس سے عوام کی یکجہتی کمزور پڑے۔
ڈاکٹر جمیل کاظمی کا کہنا تھا کہ وہ اپنے اس پرامن احتجاج کو جاری رکھیں گے اور اس کا دائرہ پورے پاکستان کی جامعات تک وسیع کریںگے، نیز قانونی جنگ بھی لڑیںگے۔ اس موقع پر جامعہ کراچی کے ایک استاد اسامہ شفیق کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کی جانب سے سیاسی مداخلت اور سیاسی بنیادوں پر تقرریوں کی کوششیں بھی بند ہونی چاہیے بلکہ خود جامعہ میں جو سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کی گئیں ہیں ان کا بھی ازالہ ہونا چاہیے۔ میرٹ کا قیام از حد ضروری ہے۔
بلاشبہ 2013 ایکٹ کے حوالے سے سندھ بھر کی جامعات کے اساتذہ کے تحفظات اپنی جگہ وزن رکھتے ہیں لیکن راقم کے خیال میں اس ساری صورت حال اور چند ایک دیگر فیصلوں کے تناظر میں یہ مسائل مستقبل میں کچھ اور رنگ اختیار کر جائیںگے اور اس نئے رنگ کے ایشوز سندھ کی سیاست پر بھی اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں چند گزارشات ہیں جن پر غور کرنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔
صوبہ سندھ پاکستان کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں ایک الگ شناخت بھی رکھتا ہے اور منفرد لسانی مسائل بھی رکھتاہے جس کی دو بنیادی وجوہات ہیں، ایک یہ کہ یہاں کی قدیم مقامی آبادی سندھی زبان کی حامل ہے لیکن یہ زیادہ تر دیہی علاقوں کی آبادی پر مشتمل ہے، یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ یہاں کہ منتخب نمایندوں نے کبھی بھی سندھ کی اس قدیم آبادی کو سندھ کی ترقی کی دوڑ میں دانستہ یا نادانستہ طور پر شامل نہیں ہونے دیا بلکہ صد افسوس کہ انھوں نے دیہی علاقوں میں زندگی کی بنیادی ضروری اور صحت و تعلیم جیسی اہم ضرورت بھی مہیا کرنے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا اور مزید ظلم یہ کہ اس پر لسانی سیاست بھی کی۔
چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سندھی زبان بولنے والی مقامی آبادی ایک جانب سندھ میں ہونے والی تیز تر ترقی کا ساتھ نہ دے سکی، دوسری جانب تعلیم کی سہولیات نہ ہونے کے باعث سندھ کے دیگر باشندوں سے جس میں اردو بولنے والے اور پاکستان کے دیگر علاقوں سے آنے والے شامل ہیں، سے مقابلے میں پیچھے رہ گئی۔ یوں ایک ہی ملک کے باشندے سندھ میں اس مدو جزر یا غلط حکمت عملیوں کے باعث آپس میں محبت کے وہ رشتے رکھنے سے قاصر رہے جو بحیثیت ایک پاکستانی قوم ہونا چاہیے تھا۔ رہی سہی کسر اس سیاسی عمل نے پوری کردی جس کے تحت اقتدار میں آنے کے لیے لسانی نعروں کو اپنایا گیا اور یہ عمل حکومتی سطح پر بھی پوری طرح نظر آیا، مثلاً کوٹہ سسٹم کا مسئلہ دیکھ لیجیے کہ ایک طویل عرصے سے اس کا نفاذ چلا آرہا ہے، حالانکہ کئی مرتبہ اس کی مدت بھی ختم ہوگئی مگر پھر اس کی مدت میں اضافہ کردیا گیا۔
کوٹہ سسٹم کے لیے جواز یہ ڈھونڈا گیا کہ دیہی علاقوں کے لوگوں کے پاس چونکہ علم حاصل کرنے کے مواقع بہت کم ہوتے ہیں سہولیات بھی نہیں ہوتیں لہٰذا کوٹہ سسٹم کے ذریعے انھیں آگے لانے کے لیے ایک ہمدردانہ طریقہ اختیار کیا جارہا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ دیہی علاقوں کے لوگوں کو تعلیم اور صحت کی بنیادی ضروریات ان کے دروازے پر فراہم کرکے ان کی مدد کیوں نہیں کی جاتی؟ شاید اس لیے کہ تعلیم، شعور دیتی ہے اور اگر نچلی سطح پر عوام میں شعور آگیا تو کچھ لوگوں کی سیاسی دکانیں بند ہوجائیں گی، کچھ کے مفادات پر کاری ضرب پڑے گی۔
ظاہر ہے کہ جب دیہی عوام کو پڑھنے کے لیے سہولیات ہی نہیں، انھیں تو روٹی، کپڑا اور مکان کے جھنجھٹ سے ہی چھٹکارا نہیں ملتا تو وہ بھلا تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کیسے حاصل کریںگے؟ جب تعلیم حاصل نہیں کریں گے تو سرکاری ملازمت کے لیے سندھ دیہی کوٹہ کی درخواستیں کیسے دے سکتے ہیں؟ گویا کوٹہ کے تحت دیہی لوگ درخواستیں دیںگے جو ڈگریاں رکھتے ہیں اور ڈگریاں کن کے پاس ہوںگی؟ ان ہی کے پاس جو تعلیم کو افورڈ یعنی اس کے اخراجات برداشت کرسکتے ہوں اور ایسے لوگ دیہی علاقوں کے وڈیرے یا سیاسی جماعتوں کے کرتے دھرتے ہی ہوسکتے ہیں، تو گویا کوٹہ سسٹم کے تحت سندھ کے دیہی عوام کے غریب نہیں بلکہ ایلیٹ کلاس مثلاً وڈیرے وغیرہ ہی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
ایک ایسی ہی مثال کراچی شہر کے قلب میں واقع لیاری کے علاقے کی لے لیجیے، سب کو پتہ ہے کہ لیاری میں ہمیشہ ووٹ کس کو ملتا ہے، کون جیتتا ہے، مگر کسی ایک نمایندے نے کبھی لیاری کے لوگوں کو پانی، صحت اور تعلیم کی سہولیات دیں؟ روزگار فراہم کیا؟ اگر یہ سب کچھ کیا ہوتا تو آج لیاری سے گینگ وار کے خوف سے وہاں کے مکین خود علاقہ چھوڑ کر بھاگ نہ رہے ہوتے بلکہ دیہی علاقوں سے بھی لوگ یہاں تعلیم حاصل کرنے آتے۔
مختصراً کہ سندھ حکومت میں شامل ماضی کے حکمرانوں نے سندھی بولنے والوں کے مسائل کے حل کا نعرہ لگاکر جو فیصلے کیے ان سے یہاں لسانی کشیدگی تو ضرور پیدا ہوئی مگر سندھ کے قدیم اور غریب باشندوں کی قسمت نہیں بدلی۔ اب بھی بعض فیصلے جو بظاہر یہاں کے باشندوں کی بہتری کے دعوے کے طور پر کیے جارہے ہیں ان کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں۔ سندھ کی جامعات میں ناظم امتحانات، ڈائریکٹر فنانس رجسٹرار جیسی اہم آسامیوں پر تقرری کے لیے جامعات کے حق کو سلب کرنا سندھ کے مفادات میں نہیں۔
بظاہر یہ شہری دیہی مسئلہ نہیں کیوں کہ اس میں سندھ بھر کی سرکاری جامعات بھی شامل ہیں لیکن چونکہ جامعہ کراچی نہ صرف سندھ کے شہر کراچی بلکہ پورے ملک کی بڑی جامعہ ہے اور یہ کراچی کے شہریوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کا ایک بڑا اور واحد ذریعہ ہے لہٰذا سندھ حکومت کی جانب سے اہم آسامیوں پر براہ راست تقرریوں میں ذرا سی بے احتیاطی اور غلطی سے لسانی کشیدگی کی چنگاری بھڑک سکتی ہے۔ اسی طرح جامعہ کراچی کے حوالے سے ایک اور اہم مسئلہ جامعہ کراچی کے اندرون سندھ دو کیمپس کی بنیاد رکھنے کے حوالے سے ہے۔ جامعہ کراچی کے اندرون سندھ دو کیمپس شروع کرنے کی ابتدائی منظوری جامعہ کراچی کے سینڈیکٹ کے اجلاس سے ہوچکی ہے۔
حکومت سندھ کی طرف سے اس سلسلے میں ایک طویل عرصے سے دبائو تھا۔ سوال یہ ہے کہ آخر جامعہ کراچی کے ہی کیمپس کیوں اندرون سندھ کے علاقوں میں کھلے جارہے ہیں؟ سندھ کی دیگر جامعات کے ذریعے یہ کمی پوری کیوں نہیں کی جاسکتی؟ بظاہر یہ مسئلہ گمبھیر نہیں لیکن عقل کہتی ہے کہ جامعہ کراچی کے اندرون سندھ کیمپس شروع کرنے سے سندھ کے لسانی مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔ کیوں کہ جب اندرون سندھ جامعہ کا کیمپس کام شروع کرے گا تو یقیناً وہاں سندھی اسپیکنگ اسٹاف بھرتی ہوگا اور جب وہاں کا کوئی ملازم شہر کراچی میں جامعہ کے کیمپس میں ٹرانسفر ہوگا یا کراچی شہر کے کیمپس سے کسی کا تبادلہ ہوگا تو یہ تمام عمل ایک نئے فساد کو جنم دے گا اور یہ عمل سیاسی شعبدہ بازوں کے لیے موقع فراہم کرے گا وہ اس پر لسانی سیاست کریں گے۔
ماضی میں بھی ڈاکٹر حضرات کی اندرون سندھ اور شہر کراچی میں تبادلے لسانی کشیدگی کا باعث بن چکے ہیں۔ آیئے غور کریں اور کوشش کریں کہ کم از کم تعلیمی میدان میں آج کوئی ایسا عمل سرزد نہ کریں جو کل ہمارے مسائل میں مزید اضافے کا باعث ہو اور جس سے عوام کی یکجہتی کمزور پڑے۔