یو ٹیوب
ترکی کی عدالت نے حکومت کی جانب سے یوٹیوب پر عائد پابندی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حکم جاری کیا ہے
''ترکی کی عدالت نے حکومت کی جانب سے یوٹیوب پر عائد پابندی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے حکم جاری کیا ہے کہ عوام کو ویب سائٹ تک رسائی کی فوری اجازت دی جائے''
express.pk پر یہ خبر پڑھنے کے بعد میں سوچ رہا ہوں کہ پاکستان میں تو یہ پاپولر ویب سائٹ گزشتہ حکومت نے بند کی تھی مگر ایک برس سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک اس پر پابندی نہیں ہٹائی گئی۔ حالانکہ حکومت ہٹ گئی۔ جس ایشو کے حوالے سے مسلمان ممالک میں احتجاج ہوا وہ ایشو لوگ بھول بھی چکے ہیں مگر پابندی ہے کہ ہٹنے کا نام تک نہیں لے رہی۔ اس حوالے سے مجھے سندھ کی تاریخ کا ایک دلچسب اور دل خراش واقعہ یاد آ رہا ہے۔
جب سندھ پر تالپور خاندان کی حکومت تھی، تب ایک بادشاہ کے مرنے بعد جب اس کا بیٹا تخت نشین ہوا تو اس نے بادشاہ بننے کی خوشی میں معمولی جرائم والے قیدیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا اور ان قیدیوں کو دربار میں بلایا تو ان قیدیوں میں ایک قیدی سفید بالوں والا بھی تھا۔ اس قیدی سے نئے بادشاہ نے دریافت کیا کہ تم کو کس جرم میں جیل ہوئی تھی۔ اس نے جواب دیا کہ حضور میں نے شاہی باغ کے درخت سے ایک بیر توڑ کر کھایا تھا اور مجھے اس جرم میں جیل ہوئی۔ بادشاہ نے حیران ہوکر پوچھا کہ تمہیں جیل میں رہتے ہوئے کتنا عرصہ گزر گیا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے ستر برس ہوگئے ہیں۔ آپ کے دادا نے مجھے جیل میں ڈالا تھا۔ یہ بات سن کر بادشاہ نے کہا کہ پھر تو تم ہمارے آباؤ اجداد کی نشانی ہو، ہم تمہیں کس طرح چھوڑ سکتے ہیں؟
اس وقت یہی حال انٹرنیٹ کی مقبول ویب سائٹ ''یوٹیوب'' کا ہورہا ہے۔ کیوں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی تبدیلی کے ساتھ بہت کچھ تبدیل ہوگیا ہے۔ صدر، وزیراعظم، چیف جسٹس، آرمی چیف، وزراء، گورنر اور بیوروکریٹ مگر نہیں بدلا تو گزشتہ حکومت کا وہ فیصلہ جس کے باعث آج تک اس ویب سائٹ پر پابندی عائد ہے جس کو جدید سافٹ ویئرز نے ''برائے نام پابندی'' بنا دیا ہے۔ اس ملک میں لوگ آج بھی اس ویب سائٹ کسی نہ کسی پراکسی کے معرفت دیکھتے رہتے ہیں مگر حکومت اس کو جمہوریت کی نشانی سمجھ کر ابھی تک گلے سے لگائے ہوئے ہے۔ حالانکہ اس ویب سائٹ پر پابندی ہٹائے جانے کے حوالے سے قومی اسمبلی میں متفقہ قرارداد بھی پیش ہوچکی ہے۔ مگر ابھی تک پوری دنیا میں پاکستان کی موجودہ جمہوری حکومت کے حوالے سے اس بات کا حوالہ آ رہا ہے کہ ''پاکستان میں یوٹیوب پر پابندی عائد ہے''
فیض احمد فیض نے کہا ہے کہ:
کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی؟
سنتے تھے کہ وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی
مگر وہ سحر کب آئے گی؟
آزادی کی سحر! اس سمجھ کی سحر کہ اب وہ دور گزر گیا جب حکومتیں میڈیا پر پابندی عائد کیا کرتی تھیں۔ اس سمجھ کی سحر کہ مذکورہ ویب سائٹ پر صرف توہین رسالت کی ایک قابل مذمت وڈیو نہیں بلکہ اسی ویب سائٹ پر اسلام کی تشہیر کے حوالے سے اتنا مواد موجود ہے جتنا شاید ہی کسی ویب سائٹ پر ہو۔ اس ویب سائٹ پر میں نے خود سنی ہیں وہ نعتیں جن کی صدا سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس ویب سائٹ پر علمائے دین کے ایسے لیکچرز موجود ہیں جن کو سن کر ہم خود کو اندھیرے سے روشنی کی طرف آتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔
مگر چند جاہلوں کی ایک حرکت کی وجہ سے کروڑوں لوگ اس ویب سائٹ سے محروم کردیے گئے جو اپنے اپنے مسائل کا حل اس ویب سائٹ کو دیکھ کر نکالا کرتے تھے۔ کسی کو کوئی کھانا بنانا ہو یا کسی کو کسی علمی بات کو جاننا ہو۔ کسی کو کسی ان دیکھے شہر کے مناظر دیکھنے ہوں یا کسی کو کسی واقعے کی وڈیو دیکھنی ہو۔ کسی کو جدید سائنس کی نئی تحقیق جاننی ہو یا کسی کو آرٹ کے خوبصورت اظہار کے انداز سے لطف اندوز ہونا ہو۔ اس ویب سائٹ پر سب کچھ موجود تھا۔ مگر ان لوگوں سے یہ حق چھینا گیا جو اسے دیکھنا چاہتے ہیں۔
کس قدر اچھا لگتا تھا ہم کو جب ہم بھولے بسرے انگریزی اور اردو گیت سنا کرتے تھے۔ مگر حکومت کے ایک حکم سے اس سب پر پابندی عائد ہوگئی جو سب کچھ ہم سب کو اچھا لگا کرتا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ وڈیو شیئرنگ کی دوسری ویب سائٹس بھی ہیں مگر جتنا مواد یوٹیوب پر ہے اتنا اور کسی ویب سائٹ پر نہیں۔ اگر میرا دل چاہے کہ میں کہ وہ گیت سنوں جس کے بول ہیں کہ:
آ نیلے گگن تلے پیار ہم کریں
تو اس خوبصورت گیت کی صدا مجھے کہاں میسر ہوگی؟ میں جانتا ہوں کہ انٹرنیٹ کی دنیا بہت وسیع ہے مگر یوٹیوب کے ہونے سے ایک سہولت تھی۔ ہم بیحد آسانی سے وہ کچھ دیکھا کرتے تھے جو ہمیں اب میسر نہیں۔ اس حکومت کا یہ فرض تھا کہ وہ اس ویب سائٹ پر قابل اعتراض مواد کو بلاک کرتی اور باقی ویب سائٹ کو عوام کے لیے کھول دیتی مگر اس حکومت نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے کہ بھلے لوگ ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم رہیں جن کے باعث وہ اپنے غم بھلا دیا کرتے تھے۔
ہمارے لوگوں کے پاس بہت تھوڑا ہے اور انھیں ذرا تھوڑے کی ضرورت ہے۔ مگر جو کچھ انھیں میسر تھا اس پر بھی قدغن لگانے والی روایت کی راہ کو نہ چھوڑنے کا فیصلہ کرکے اس پر عمل کرنے والی اس حکومت کو یہ بات کب سمجھ میں آئے گی کہ آزادیاں چھیننے سے لوگ غلامی کے زنجیروں میں قید ہوجاتے ہیں اور وہ غلام قید میں رہتے ہوئے بغاوت کے بارے میں ہی سوچا کرتے ہیں۔ ایک پرامن اور پرسکون معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ ہم پابندیوں سے نجات پائیں اور ان آزادیوں کی طرف سفر کریں جن آزادیوں کا تعلق ہماری روح سے ہے۔ انسان کا جسم تو حالات کی سختی کو برداشت کرسکتا ہے مگر انسان کی روح پابندی میں بہت اداس ہوجایا کرتی ہے۔
ہم اگر مغرب کی تحریک آزادی کا مطالعہ کریں ہم کو یہ بات معلوم ہو جائے گی کہ مغرب نے انسانی آزادی کا سفر بڑی تکالیف کا سامنا کرتے ہوئے کیا ہے۔ عالمی ادب کے قارئین اس بات کو کس طرح بھول سکتے ہیں کہ جب ڈی ایچ لارنس کی مشہور کتاب ''لیڈی چیٹرلیز لور'' پر پابندی عائد ہوئی تھی تب پوری دنیا میں ادب اور آزادی کے حوالے سے مباحثے شروع ہوگئے تھے اور بالآخر برطانوی عدالت نے مذکورہ کتاب پر پابندی ہٹائی۔ کیوں کہ اس میں محبت کی بات تھی۔ اصل بات محبت کی ہی ہوا کرتی ہے۔ وہ بات جو ڈاکٹر زواگو میں کی گئی اور سوویت حکومت نے اس پر بغیر سوچے پابندی عائد کی آج سوویت یونین نہیں مگر پوری دنیا میں ڈاکٹر زواگو موجود ہے۔
وہ ڈاکٹر زواگو جس پر ایک مشہور فلم بھی بنی تھی۔ اس فلم کو میں اداس کیفیت میں یوٹیوب پر دیکھا کرتا تھا۔ مگر ہماری حکومت نے اس ویب سائٹ پر عائد کی ہوئی پابندی ہٹانے کے بارے میں سوچا تک نہیں۔ہماری حکومتیں کب سمجھیں گی کہ پیار پر پابندی کبھی نہیں رہ سکتی۔ انسان کے لیے جتنا ضروری سانس لینا ہے اتنی ضروری اس کے لیے وہ آزادی جو بیحد بڑی ہے۔ یوٹیوب اس وسیع آزادی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ ہماری موجودہ حکومت کے برادر اسلامی ملک ترکی سے اچھے تعلقات ہیں۔ ترکی سے ہماری حکومت مدد لے رہی ہے۔ کاش! وہ اس ملک سے آزادی کے حوالے سے تھوڑی سی سمجھ بھی لے اور یوٹیوب پر پڑی ہوئی پابندی ہٹانے کا کارنامہ سرانجام دے۔
express.pk پر یہ خبر پڑھنے کے بعد میں سوچ رہا ہوں کہ پاکستان میں تو یہ پاپولر ویب سائٹ گزشتہ حکومت نے بند کی تھی مگر ایک برس سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک اس پر پابندی نہیں ہٹائی گئی۔ حالانکہ حکومت ہٹ گئی۔ جس ایشو کے حوالے سے مسلمان ممالک میں احتجاج ہوا وہ ایشو لوگ بھول بھی چکے ہیں مگر پابندی ہے کہ ہٹنے کا نام تک نہیں لے رہی۔ اس حوالے سے مجھے سندھ کی تاریخ کا ایک دلچسب اور دل خراش واقعہ یاد آ رہا ہے۔
جب سندھ پر تالپور خاندان کی حکومت تھی، تب ایک بادشاہ کے مرنے بعد جب اس کا بیٹا تخت نشین ہوا تو اس نے بادشاہ بننے کی خوشی میں معمولی جرائم والے قیدیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا اور ان قیدیوں کو دربار میں بلایا تو ان قیدیوں میں ایک قیدی سفید بالوں والا بھی تھا۔ اس قیدی سے نئے بادشاہ نے دریافت کیا کہ تم کو کس جرم میں جیل ہوئی تھی۔ اس نے جواب دیا کہ حضور میں نے شاہی باغ کے درخت سے ایک بیر توڑ کر کھایا تھا اور مجھے اس جرم میں جیل ہوئی۔ بادشاہ نے حیران ہوکر پوچھا کہ تمہیں جیل میں رہتے ہوئے کتنا عرصہ گزر گیا ہے۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے ستر برس ہوگئے ہیں۔ آپ کے دادا نے مجھے جیل میں ڈالا تھا۔ یہ بات سن کر بادشاہ نے کہا کہ پھر تو تم ہمارے آباؤ اجداد کی نشانی ہو، ہم تمہیں کس طرح چھوڑ سکتے ہیں؟
اس وقت یہی حال انٹرنیٹ کی مقبول ویب سائٹ ''یوٹیوب'' کا ہورہا ہے۔ کیوں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی تبدیلی کے ساتھ بہت کچھ تبدیل ہوگیا ہے۔ صدر، وزیراعظم، چیف جسٹس، آرمی چیف، وزراء، گورنر اور بیوروکریٹ مگر نہیں بدلا تو گزشتہ حکومت کا وہ فیصلہ جس کے باعث آج تک اس ویب سائٹ پر پابندی عائد ہے جس کو جدید سافٹ ویئرز نے ''برائے نام پابندی'' بنا دیا ہے۔ اس ملک میں لوگ آج بھی اس ویب سائٹ کسی نہ کسی پراکسی کے معرفت دیکھتے رہتے ہیں مگر حکومت اس کو جمہوریت کی نشانی سمجھ کر ابھی تک گلے سے لگائے ہوئے ہے۔ حالانکہ اس ویب سائٹ پر پابندی ہٹائے جانے کے حوالے سے قومی اسمبلی میں متفقہ قرارداد بھی پیش ہوچکی ہے۔ مگر ابھی تک پوری دنیا میں پاکستان کی موجودہ جمہوری حکومت کے حوالے سے اس بات کا حوالہ آ رہا ہے کہ ''پاکستان میں یوٹیوب پر پابندی عائد ہے''
فیض احمد فیض نے کہا ہے کہ:
کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی؟
سنتے تھے کہ وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی
مگر وہ سحر کب آئے گی؟
آزادی کی سحر! اس سمجھ کی سحر کہ اب وہ دور گزر گیا جب حکومتیں میڈیا پر پابندی عائد کیا کرتی تھیں۔ اس سمجھ کی سحر کہ مذکورہ ویب سائٹ پر صرف توہین رسالت کی ایک قابل مذمت وڈیو نہیں بلکہ اسی ویب سائٹ پر اسلام کی تشہیر کے حوالے سے اتنا مواد موجود ہے جتنا شاید ہی کسی ویب سائٹ پر ہو۔ اس ویب سائٹ پر میں نے خود سنی ہیں وہ نعتیں جن کی صدا سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس ویب سائٹ پر علمائے دین کے ایسے لیکچرز موجود ہیں جن کو سن کر ہم خود کو اندھیرے سے روشنی کی طرف آتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔
مگر چند جاہلوں کی ایک حرکت کی وجہ سے کروڑوں لوگ اس ویب سائٹ سے محروم کردیے گئے جو اپنے اپنے مسائل کا حل اس ویب سائٹ کو دیکھ کر نکالا کرتے تھے۔ کسی کو کوئی کھانا بنانا ہو یا کسی کو کسی علمی بات کو جاننا ہو۔ کسی کو کسی ان دیکھے شہر کے مناظر دیکھنے ہوں یا کسی کو کسی واقعے کی وڈیو دیکھنی ہو۔ کسی کو جدید سائنس کی نئی تحقیق جاننی ہو یا کسی کو آرٹ کے خوبصورت اظہار کے انداز سے لطف اندوز ہونا ہو۔ اس ویب سائٹ پر سب کچھ موجود تھا۔ مگر ان لوگوں سے یہ حق چھینا گیا جو اسے دیکھنا چاہتے ہیں۔
کس قدر اچھا لگتا تھا ہم کو جب ہم بھولے بسرے انگریزی اور اردو گیت سنا کرتے تھے۔ مگر حکومت کے ایک حکم سے اس سب پر پابندی عائد ہوگئی جو سب کچھ ہم سب کو اچھا لگا کرتا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ وڈیو شیئرنگ کی دوسری ویب سائٹس بھی ہیں مگر جتنا مواد یوٹیوب پر ہے اتنا اور کسی ویب سائٹ پر نہیں۔ اگر میرا دل چاہے کہ میں کہ وہ گیت سنوں جس کے بول ہیں کہ:
آ نیلے گگن تلے پیار ہم کریں
تو اس خوبصورت گیت کی صدا مجھے کہاں میسر ہوگی؟ میں جانتا ہوں کہ انٹرنیٹ کی دنیا بہت وسیع ہے مگر یوٹیوب کے ہونے سے ایک سہولت تھی۔ ہم بیحد آسانی سے وہ کچھ دیکھا کرتے تھے جو ہمیں اب میسر نہیں۔ اس حکومت کا یہ فرض تھا کہ وہ اس ویب سائٹ پر قابل اعتراض مواد کو بلاک کرتی اور باقی ویب سائٹ کو عوام کے لیے کھول دیتی مگر اس حکومت نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے کہ بھلے لوگ ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے محروم رہیں جن کے باعث وہ اپنے غم بھلا دیا کرتے تھے۔
ہمارے لوگوں کے پاس بہت تھوڑا ہے اور انھیں ذرا تھوڑے کی ضرورت ہے۔ مگر جو کچھ انھیں میسر تھا اس پر بھی قدغن لگانے والی روایت کی راہ کو نہ چھوڑنے کا فیصلہ کرکے اس پر عمل کرنے والی اس حکومت کو یہ بات کب سمجھ میں آئے گی کہ آزادیاں چھیننے سے لوگ غلامی کے زنجیروں میں قید ہوجاتے ہیں اور وہ غلام قید میں رہتے ہوئے بغاوت کے بارے میں ہی سوچا کرتے ہیں۔ ایک پرامن اور پرسکون معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ ہم پابندیوں سے نجات پائیں اور ان آزادیوں کی طرف سفر کریں جن آزادیوں کا تعلق ہماری روح سے ہے۔ انسان کا جسم تو حالات کی سختی کو برداشت کرسکتا ہے مگر انسان کی روح پابندی میں بہت اداس ہوجایا کرتی ہے۔
ہم اگر مغرب کی تحریک آزادی کا مطالعہ کریں ہم کو یہ بات معلوم ہو جائے گی کہ مغرب نے انسانی آزادی کا سفر بڑی تکالیف کا سامنا کرتے ہوئے کیا ہے۔ عالمی ادب کے قارئین اس بات کو کس طرح بھول سکتے ہیں کہ جب ڈی ایچ لارنس کی مشہور کتاب ''لیڈی چیٹرلیز لور'' پر پابندی عائد ہوئی تھی تب پوری دنیا میں ادب اور آزادی کے حوالے سے مباحثے شروع ہوگئے تھے اور بالآخر برطانوی عدالت نے مذکورہ کتاب پر پابندی ہٹائی۔ کیوں کہ اس میں محبت کی بات تھی۔ اصل بات محبت کی ہی ہوا کرتی ہے۔ وہ بات جو ڈاکٹر زواگو میں کی گئی اور سوویت حکومت نے اس پر بغیر سوچے پابندی عائد کی آج سوویت یونین نہیں مگر پوری دنیا میں ڈاکٹر زواگو موجود ہے۔
وہ ڈاکٹر زواگو جس پر ایک مشہور فلم بھی بنی تھی۔ اس فلم کو میں اداس کیفیت میں یوٹیوب پر دیکھا کرتا تھا۔ مگر ہماری حکومت نے اس ویب سائٹ پر عائد کی ہوئی پابندی ہٹانے کے بارے میں سوچا تک نہیں۔ہماری حکومتیں کب سمجھیں گی کہ پیار پر پابندی کبھی نہیں رہ سکتی۔ انسان کے لیے جتنا ضروری سانس لینا ہے اتنی ضروری اس کے لیے وہ آزادی جو بیحد بڑی ہے۔ یوٹیوب اس وسیع آزادی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ ہماری موجودہ حکومت کے برادر اسلامی ملک ترکی سے اچھے تعلقات ہیں۔ ترکی سے ہماری حکومت مدد لے رہی ہے۔ کاش! وہ اس ملک سے آزادی کے حوالے سے تھوڑی سی سمجھ بھی لے اور یوٹیوب پر پڑی ہوئی پابندی ہٹانے کا کارنامہ سرانجام دے۔