بجٹ کی بجلی عوام پر گرے گی
ایک سال گزرنے کے بعد گردشی قرضہ 350 ارب روپے تک دوبارہ پہنچ چکا ہے۔
ایک سال گزرنے کے بعد گردشی قرضہ 350 ارب روپے تک دوبارہ پہنچ چکا ہے۔ ہر گزرتا دن اس مد میں ایک ارب روپے کا اضافہ کر دیتا ہے جس کا بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈالتا ہے۔ اسی طرح اس مد میں ہونے والا اضافہ اور کی جانے والی کرپشن کا سدباب کرنے کے بجائے عوام کو صرف یہ بتایا جاتا ہے کہ لوڈشیڈنگ اس لیے ہے کہ گردشی قرضہ ادا کرنا ہے اور وہ عنقریب ادا کردیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیاں 24 کلو گرام تیل سے kwh 100 بجلی پیدا کرتی ہیں، جب کہ عالمی سطح پر بجلی گھر 14 کلو گرام تیل سے اتنی بجلی پیدا کرتے ہیں۔
اسی طرح پاکستان میں گیس کے 12 ہزار BTU سے بجلی کا ایک یونٹ پیدا ہوتا ہے جب کہ بھارت میں وہی یونٹ 5 ہزار BTU سے پیدا ہوتا ہے۔ لیکن حکمران اس بدعنوانی پر آئی پی پی کا محاسبہ نہیں کریں گے کیونکہ ان کے شیئرز بھی ان میں ہیں۔ ایسے قرضے لے کرمصنوعی طور پر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضا فہ تو ہوگا جو آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق ضروری ہے لیکن اس سود کی ادائیگی کہاں سے ہوگی، اس کے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا۔ دوسرا زرمبادلہ کے یہ ذخائر آئی ایم ایف کے قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی میں صرف ہوجائیں گے جس کے بعد پاکستان کے خزانے میں صرف ادائیگیوں کی رسیدیں موجود ہوں گی اور اس کا بوجھ مزید قرضوں کے ذریعے پورا کرنے کی ناکام کوشش جاری رہے گی۔ لیکن اس سارے عمل میں معیشت کی تباہی کے ساتھ ساتھ ریاست کے مالیاتی اداروں کی تباہی کا سفر بھی جاری ہے۔
اسی طرح معاشی بجٹ خسارے کو کم دکھانے کے لیے بہت سی ایسی رقوم آمدن کے طور پر دکھائی جارہی ہیں جو پہلے کبھی بھی نہیں دکھائی گئیں۔ بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافے کے باوجود ہدف نہ پورا ہونے کے باعث ٹیکسوں کے علاوہ آمدن کی مد کو کھینچ تان کر ہدف تک لایا جا رہا ہے۔ غیر ملکی امداد کو پہلی دفعہ نان ٹیکس ریونیو کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ اسی طرح سرکاری اداروں کی آمدن، اسٹیٹ بینک کے منافع، گیس ڈویلپمنٹ سرچارج سمیت بہت سی ایسی آمدن کو نان ٹیکس ریونیو میں شامل کیا جا رہا ہے جسے پہلے 67 سال میںکبھی نہیں کیا گیا۔ اس بنیاد پر دعویٰ کیا جارہا ہے کہ بجٹ خسارہ کم ہو رہا ہے جب کہ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں۔
جولائی سے فروری تک بجٹ خسارہ 1005 ارب روپے ہے جو جی ڈی پی کا 3.9 فیصد ہے۔ تمام ہیرپھیر کے باوجود پورے مالی سال کا متوقع بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 6.7 فیصد ہے جو 5.8 کے ہدف سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر آئی پی پیز کو گردشی قرضہ ادا کیا جاتا ہے تو یہ خسارہ جی ڈی پی کے 7.6 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔
اسی طرح زرمبادلہ کے ذخائر کے لیے آئی ایم ایف کی جانب سے متعین کردہ ہدف کا حصول بھی مشکل ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کے متعلق بیانات میں کمرشل بینکوں کے اکاؤنٹ میں موجود ذخائر کو بھی شمار کیا جارہا ہے، اس لیے وہ زیادہ نظر آتے ہیں ۔ 2 مئی تک اسٹیٹ بینک کے پاس موجود ذخائر 7.2 ارب ڈالر تھے۔ اس میں یہ ''خوشخبری'' بھی سنائی جارہی ہے کہ آئی ایم ایف یکم جون تک 550 ملین ڈالر مزید جاری کرے گا۔ جب کہ آیندہ مالی سال میں آئی ایم ایف سے کل 2.2 ارب ڈالر ملیں گے۔ لیکن اسی دوران آئی ایم ایف کو 3 ارب ڈالر ادا کرنے ہوں گے، یعنی جتنے آئیں گے اس سے زیادہ واپس چلے جائیں گے جب کہ سود کے چکر کے باعث ادائیگیوں کا بوجھ موجود رہے گا۔
معیشت کو برباد کرنے والی ان پالیسیوں کو آئی ایم ایف کی جانب سے سراہے جانے کا راز بھی اسی امر میں پوشیدہ ہے۔ ساتھ ہی عالمی معاشی بحران اور سرمایہ داری کے زوال کے باعث عالمی مالیاتی ادارے بھی زوال پذیر ہیں اور معاشی پالیسیوں سے زیادہ اپنی پھنسی ہوئی رقم کی وصولی کے بارے میں فکرمند ہیں۔ اس لیے وہ ایک طرف وزیر خزانہ کو سراہتے ہیں اور دوسری طرف اس پر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے پر زور دیتے ہیں تاکہ وہاں سے انھیں محفوظ مقام پر منتقل کیا جاسکے۔ اس سارے گھن چکر میں عوام کی حالت اس شخص کی سی ہوگئی ہے جو سود کے چکر میں اپنی نسلوں تک کو گاؤں کے بنیے کے پاس گروی رکھوا چھوڑتا ہے، لیکن پھر بھی قرضہ ادا نہیں ہوپاتا۔
حالیہ اعداد و شمار کے مطابق موجودہ حکومت نے ایک سال میں 15.3 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کا اضافہ کیا ہے۔ اس مالی سال کے اختتام تک پاکستان پر بیرونی قرضوں کا حجم 72 ارب ڈالر ہوجائے گا جو گزشتہ سال 57 ارب ڈالر تھا۔ اس سال قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے 27.7 فیصد تک پہنچ جائے گا، جو گزشتہ سال 24.9 فیصد تھا۔
اس صورتحال میں آیندہ سال بھی تمام تر معاشی سرگرمی کا مقصد غیر ملکی قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی ہوگا اور اس کے لیے 18 کروڑ عوام کو محنت کی چکی میں پیسا جائے گا۔ آیندہ سال کے لیے مختص 3.9 کھرب روپے کے بجٹ میں سے 1550 ارب روپے قرضوں کی ادائیگی کے لیے رکھے جارہے ہیں جب کہ 720 ارب روپے دفاعی اخراجات کے لیے۔ ٹیکسوں کی مد میں آمدن کا ہدف 2.8 کھرب روپے رکھا گیا ہے۔
اس مد میں بھی ہدف پہلے کی طرح پورا نہیں ہوسکے گا۔ پہلے تو تمام تر ٹیکس بالواسطہ طور پر لگائے جاتے ہیں، جن میں پٹرول، بجلی سمیت ہر قسم کی اشیائے ضرورت شامل ہیں۔ اس سے کھرب پتی افراد اور بیروزگار نوجوان سمیت ہر شخص ایک ہی جتنا ٹیکس ادا کرتا ہے۔ پاکستان بالواسطہ (direct) ٹیکس لگانے والے ممالک میں آخری نمبر پر آتا ہے، جہاں آمدن، منافع، شئیرز کے لین دین اور کاروباروں پر ٹیکس لگانے کے بجائے چھوٹ دی جاتی ہے۔ مختصراً دولت مند افراد کے لیے ٹیکسوں کی چھوٹ اور عوام کے لیے پکڑ۔ آیندہ مالی سال میں بھی اس پالیسی کو جاری رکھا جائے گا۔
اسی طرح تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کا عندیہ دیا گیا ہے جو حقیقی افراط زر سے کہیں کم ہے۔ آئی ایم ایف کے حالیہ بیان کے مطابق افراط زر 9.2 فیصد ہے۔ خوراک کی اشیاء پر افراط زر کہیں زیادہ ہے۔ ایسے میں دس فیصد اضافے کے بعد بھی حقیقی تنخواہوں میں کمی ہوگی۔ اسی طرح نجی سطح پر محنت کش کی کم از کم تنخواہ دس ہزار روپے مقرر کی گئی ہے جب کہ ایک تولہ سونا پچاس ہزار روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔ حقیقی اجرتوں میں یہی کمی سرمایہ داروں کے منافعوں میں اضافے کا باعث ہے۔
پاکستان میں درست اعداد و شمار ملنا ناممکن ہے لیکن اندازاً کہا جاسکتا ہے کہ کم از کم گزشتہ 30 سال سے حقیقی اجرتیں مسلسل کم ہورہی ہیں۔ ٹریڈ یونین کی زوال پذیری اور نجکاری جیسی مزدور دشمن پالیسیوں کا نفاذ بھی اجرتوں کو کم سطح پر رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سادہ الفاظ میں حکمرانوں کی معاشی پالیسیاں کھلے عام سرمایہ داروں اور لٹیروں کو نواز رہی ہیں جب کہ محنت کش ذلت کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔
اسی دوران یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ صرف سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر سے زائد موجود ہیں۔ حقیقت اس سے کہیں زیادہ ہے جب کہ دوسرے محفوظ مقامات پر بھی کئی ارب ڈالر موجود ہیں جو اس ملک کے بدنصیب افراد کی محنت کا پیسہ ہے۔ اگر صرف یہ 200 ارب ڈالر واپس آجائے تو نہ صرف دس سال تک ٹیکس فری بجٹ بنایا جاسکتا ہے بلکہ تمام غیر ملکی قرضے بھی سود سمیت ادا کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن موجودہ نظام میں رہتے ہوئے اس کی توقع کرنا جرم ہے۔ الیکشن کمیشن کی تبدیلی کا ڈھنڈورا پیٹنا عوام کو دھوکا دینے کے لیے ہے تاکہ دولت مند افراد کی آمریت کا تسلسل جاری رہے۔
سیکڑوں نہیں ہزاروں ارب ڈالر کی اس دولت کے حصول سمیت ملک میں موجود تمام دولت اور معدنی ذخائر عوام کی فلاح و بہبود کے لیے صرف اسی وقت استعمال ہوسکتے ہیں جب اس نظام کا خاتمہ کیا جائے اور ذرایع پیداوار کو نجی ملکیت سے نکال کر محنت کش عوام کی اجتماعی ملکیت میں دے دیا جائے۔ ایسا صرف اور صرف ایک کمیونسٹ انقلاب کے ذریعے کیا جاسکتا ہے، ورنہ اشرافیہ عوام کی ہڈیاں اور خون ایسے ہی نچوڑتے رہیں گے اور سرمائے کا شکنجہ ہر روز ہزاروں افراد کو نگلتا رہے گا۔
اسی طرح پاکستان میں گیس کے 12 ہزار BTU سے بجلی کا ایک یونٹ پیدا ہوتا ہے جب کہ بھارت میں وہی یونٹ 5 ہزار BTU سے پیدا ہوتا ہے۔ لیکن حکمران اس بدعنوانی پر آئی پی پی کا محاسبہ نہیں کریں گے کیونکہ ان کے شیئرز بھی ان میں ہیں۔ ایسے قرضے لے کرمصنوعی طور پر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضا فہ تو ہوگا جو آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق ضروری ہے لیکن اس سود کی ادائیگی کہاں سے ہوگی، اس کے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا۔ دوسرا زرمبادلہ کے یہ ذخائر آئی ایم ایف کے قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی میں صرف ہوجائیں گے جس کے بعد پاکستان کے خزانے میں صرف ادائیگیوں کی رسیدیں موجود ہوں گی اور اس کا بوجھ مزید قرضوں کے ذریعے پورا کرنے کی ناکام کوشش جاری رہے گی۔ لیکن اس سارے عمل میں معیشت کی تباہی کے ساتھ ساتھ ریاست کے مالیاتی اداروں کی تباہی کا سفر بھی جاری ہے۔
اسی طرح معاشی بجٹ خسارے کو کم دکھانے کے لیے بہت سی ایسی رقوم آمدن کے طور پر دکھائی جارہی ہیں جو پہلے کبھی بھی نہیں دکھائی گئیں۔ بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافے کے باوجود ہدف نہ پورا ہونے کے باعث ٹیکسوں کے علاوہ آمدن کی مد کو کھینچ تان کر ہدف تک لایا جا رہا ہے۔ غیر ملکی امداد کو پہلی دفعہ نان ٹیکس ریونیو کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ اسی طرح سرکاری اداروں کی آمدن، اسٹیٹ بینک کے منافع، گیس ڈویلپمنٹ سرچارج سمیت بہت سی ایسی آمدن کو نان ٹیکس ریونیو میں شامل کیا جا رہا ہے جسے پہلے 67 سال میںکبھی نہیں کیا گیا۔ اس بنیاد پر دعویٰ کیا جارہا ہے کہ بجٹ خسارہ کم ہو رہا ہے جب کہ حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں۔
جولائی سے فروری تک بجٹ خسارہ 1005 ارب روپے ہے جو جی ڈی پی کا 3.9 فیصد ہے۔ تمام ہیرپھیر کے باوجود پورے مالی سال کا متوقع بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 6.7 فیصد ہے جو 5.8 کے ہدف سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر آئی پی پیز کو گردشی قرضہ ادا کیا جاتا ہے تو یہ خسارہ جی ڈی پی کے 7.6 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔
اسی طرح زرمبادلہ کے ذخائر کے لیے آئی ایم ایف کی جانب سے متعین کردہ ہدف کا حصول بھی مشکل ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر کے متعلق بیانات میں کمرشل بینکوں کے اکاؤنٹ میں موجود ذخائر کو بھی شمار کیا جارہا ہے، اس لیے وہ زیادہ نظر آتے ہیں ۔ 2 مئی تک اسٹیٹ بینک کے پاس موجود ذخائر 7.2 ارب ڈالر تھے۔ اس میں یہ ''خوشخبری'' بھی سنائی جارہی ہے کہ آئی ایم ایف یکم جون تک 550 ملین ڈالر مزید جاری کرے گا۔ جب کہ آیندہ مالی سال میں آئی ایم ایف سے کل 2.2 ارب ڈالر ملیں گے۔ لیکن اسی دوران آئی ایم ایف کو 3 ارب ڈالر ادا کرنے ہوں گے، یعنی جتنے آئیں گے اس سے زیادہ واپس چلے جائیں گے جب کہ سود کے چکر کے باعث ادائیگیوں کا بوجھ موجود رہے گا۔
معیشت کو برباد کرنے والی ان پالیسیوں کو آئی ایم ایف کی جانب سے سراہے جانے کا راز بھی اسی امر میں پوشیدہ ہے۔ ساتھ ہی عالمی معاشی بحران اور سرمایہ داری کے زوال کے باعث عالمی مالیاتی ادارے بھی زوال پذیر ہیں اور معاشی پالیسیوں سے زیادہ اپنی پھنسی ہوئی رقم کی وصولی کے بارے میں فکرمند ہیں۔ اس لیے وہ ایک طرف وزیر خزانہ کو سراہتے ہیں اور دوسری طرف اس پر زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے پر زور دیتے ہیں تاکہ وہاں سے انھیں محفوظ مقام پر منتقل کیا جاسکے۔ اس سارے گھن چکر میں عوام کی حالت اس شخص کی سی ہوگئی ہے جو سود کے چکر میں اپنی نسلوں تک کو گاؤں کے بنیے کے پاس گروی رکھوا چھوڑتا ہے، لیکن پھر بھی قرضہ ادا نہیں ہوپاتا۔
حالیہ اعداد و شمار کے مطابق موجودہ حکومت نے ایک سال میں 15.3 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کا اضافہ کیا ہے۔ اس مالی سال کے اختتام تک پاکستان پر بیرونی قرضوں کا حجم 72 ارب ڈالر ہوجائے گا جو گزشتہ سال 57 ارب ڈالر تھا۔ اس سال قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے 27.7 فیصد تک پہنچ جائے گا، جو گزشتہ سال 24.9 فیصد تھا۔
اس صورتحال میں آیندہ سال بھی تمام تر معاشی سرگرمی کا مقصد غیر ملکی قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی ہوگا اور اس کے لیے 18 کروڑ عوام کو محنت کی چکی میں پیسا جائے گا۔ آیندہ سال کے لیے مختص 3.9 کھرب روپے کے بجٹ میں سے 1550 ارب روپے قرضوں کی ادائیگی کے لیے رکھے جارہے ہیں جب کہ 720 ارب روپے دفاعی اخراجات کے لیے۔ ٹیکسوں کی مد میں آمدن کا ہدف 2.8 کھرب روپے رکھا گیا ہے۔
اس مد میں بھی ہدف پہلے کی طرح پورا نہیں ہوسکے گا۔ پہلے تو تمام تر ٹیکس بالواسطہ طور پر لگائے جاتے ہیں، جن میں پٹرول، بجلی سمیت ہر قسم کی اشیائے ضرورت شامل ہیں۔ اس سے کھرب پتی افراد اور بیروزگار نوجوان سمیت ہر شخص ایک ہی جتنا ٹیکس ادا کرتا ہے۔ پاکستان بالواسطہ (direct) ٹیکس لگانے والے ممالک میں آخری نمبر پر آتا ہے، جہاں آمدن، منافع، شئیرز کے لین دین اور کاروباروں پر ٹیکس لگانے کے بجائے چھوٹ دی جاتی ہے۔ مختصراً دولت مند افراد کے لیے ٹیکسوں کی چھوٹ اور عوام کے لیے پکڑ۔ آیندہ مالی سال میں بھی اس پالیسی کو جاری رکھا جائے گا۔
اسی طرح تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کا عندیہ دیا گیا ہے جو حقیقی افراط زر سے کہیں کم ہے۔ آئی ایم ایف کے حالیہ بیان کے مطابق افراط زر 9.2 فیصد ہے۔ خوراک کی اشیاء پر افراط زر کہیں زیادہ ہے۔ ایسے میں دس فیصد اضافے کے بعد بھی حقیقی تنخواہوں میں کمی ہوگی۔ اسی طرح نجی سطح پر محنت کش کی کم از کم تنخواہ دس ہزار روپے مقرر کی گئی ہے جب کہ ایک تولہ سونا پچاس ہزار روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔ حقیقی اجرتوں میں یہی کمی سرمایہ داروں کے منافعوں میں اضافے کا باعث ہے۔
پاکستان میں درست اعداد و شمار ملنا ناممکن ہے لیکن اندازاً کہا جاسکتا ہے کہ کم از کم گزشتہ 30 سال سے حقیقی اجرتیں مسلسل کم ہورہی ہیں۔ ٹریڈ یونین کی زوال پذیری اور نجکاری جیسی مزدور دشمن پالیسیوں کا نفاذ بھی اجرتوں کو کم سطح پر رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سادہ الفاظ میں حکمرانوں کی معاشی پالیسیاں کھلے عام سرمایہ داروں اور لٹیروں کو نواز رہی ہیں جب کہ محنت کش ذلت کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔
اسی دوران یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ صرف سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر سے زائد موجود ہیں۔ حقیقت اس سے کہیں زیادہ ہے جب کہ دوسرے محفوظ مقامات پر بھی کئی ارب ڈالر موجود ہیں جو اس ملک کے بدنصیب افراد کی محنت کا پیسہ ہے۔ اگر صرف یہ 200 ارب ڈالر واپس آجائے تو نہ صرف دس سال تک ٹیکس فری بجٹ بنایا جاسکتا ہے بلکہ تمام غیر ملکی قرضے بھی سود سمیت ادا کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن موجودہ نظام میں رہتے ہوئے اس کی توقع کرنا جرم ہے۔ الیکشن کمیشن کی تبدیلی کا ڈھنڈورا پیٹنا عوام کو دھوکا دینے کے لیے ہے تاکہ دولت مند افراد کی آمریت کا تسلسل جاری رہے۔
سیکڑوں نہیں ہزاروں ارب ڈالر کی اس دولت کے حصول سمیت ملک میں موجود تمام دولت اور معدنی ذخائر عوام کی فلاح و بہبود کے لیے صرف اسی وقت استعمال ہوسکتے ہیں جب اس نظام کا خاتمہ کیا جائے اور ذرایع پیداوار کو نجی ملکیت سے نکال کر محنت کش عوام کی اجتماعی ملکیت میں دے دیا جائے۔ ایسا صرف اور صرف ایک کمیونسٹ انقلاب کے ذریعے کیا جاسکتا ہے، ورنہ اشرافیہ عوام کی ہڈیاں اور خون ایسے ہی نچوڑتے رہیں گے اور سرمائے کا شکنجہ ہر روز ہزاروں افراد کو نگلتا رہے گا۔