سانحۂ منگوال 17 معصوم زندگیاں آن کی آن میں راکھ ہوگئیں
’’اس ملک کاقانون کب اندھا ہوگا؟‘‘ متاثرین کا سوال، سارے بااثر آزاد، سزا پانے کو غریب ڈرائیور ہی رہ گیا
کچھ حالات و واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کے تجربات کی روشنی میں قومیں ، حکومتیں اپنی اگلی منزل کی طرف بہتر راہیں متعین کرتی ہیں لیکن ہمارے معاشرہ کا آج بھی سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے اردگرد رونما ہونے والے الم ناک حادثات سے سبق سیکھنے کے بہ جائے ان سے نظر چراتے ہیں مگر ان واقعات سے جڑے خاندانوں کے لیے کرب کی وہ گھڑیاں زندگی بھر کا روگ بن جاتی ہیں، اس کرب سے کسی طور پنڈ نہیں چھوٹتا۔
ایسے ہی بدنصیب لوگوں میں گجرات کے ایک نہیں بل کہ پانچ دیہات کے پانچ خاندان شامل ہیں، جو ایک سال بیت جانے کے باوجود زندہ جل بجھنے والے اپنے سترہ معصوم بچوں اور ایک ٹیچر کے سانحے سے باہرنکل ہی نہیں پارہے اور جب کسی علاقے سے کسی ننھنے فرشتے کی ہلاکت کی خبرآتی ہے تو اُن کی آنکھوں میں آنسو اور لبوں پر سسکیاں اور آہیں آجاتے ہیں۔ ایک سال قبل 25 مئی 2013 کو گجرات کے گائوں کوٹ گھکہ روڈ پرصبح ساڑھے چھے بجے جناح پبلک پرائیویٹ اسکول منگووال کے 24 بچوں اور خاتون ٹیچر کو قریبی گائوں کا ستائیس سالہ محمد عرفان ہائی ایس نمبرایس جی جی 9076 پر اسکول لا رہا تھا کہ اچانک وین سے آگ اور دھوأں اٹھنے لگا اور اس کے ساتھ ہی ہول طاری کردینے والی چیخوں کی آوازیں اٹھنے لگیں، پھر دیکھتے ہی دیکھتے آگ ایسی بھڑکی کہ بس رہے نام رب کا۔
بس ایک ڈرائیور محمد عرفان ، آٹھ سالہ دائود الطاف ، 10سالہ ما ہ نور ہی زندہ سلامت نکالے جاسکے، باہر نکلنے کی کوشش میں راجیکی کا پانچ سالہ علی حسن ، چار سالہ حمدان زاہد ، نو سالہ حفظہ ریاض ، بارہ سالہ عبیرہ اور دس سالہ پاکیزہ کو شعلوں کی کی زبانیں چاٹ گئیں۔ اہل علاقہ کے جائے وقوعہ پر پہنچنے تک 17 ننھے فرشتے، کنول فردوس ، عبداللہ ریاض ، زارہ ریاض ، حسنات حفیظ ، عمارہ فاطمہ ، تیمور اکبر ، عائشہ سجاد ، ایمان سجاد ، محمد ریحان سجاد ، آفتاب احمد ، محمد ہاشم ، محمد عبداللہ ، ثقلین اشتیاق ، طاہر شہزاد ، احمد شہزاد ، آمنہ بت اور سلیمان اپنی بیس سالہ ٹیچر سمعیہ نورین کے ہم راہ راکھ ہوگئے۔ جن لوگوں نے یہ منظر دیکھا تھا وہ آج بھی اس کا ذکر کرتے ہیں تو ان کی روح تک لرز جاتی ہے۔
راجیکی ، کنگ سہالی ، کوٹ گھکہ اور کنگ چنن کے ان ننھنے فرشتوں کی مائیں بہنیں اُن کی تصویریں، کپڑے اور کتابیں آنکھوں سے لگا لگا کر ایسے کرب سے روتی ہیں کہ دیکھیں تو دل حلق میں آن اٹکتا ہے۔ ان کی ڈھارس بندھانے کے لیے ہر سیاسی جماعت کے قائد ین نے دلی دکھ کا اظہار کیا اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا، اہل اقتدار نے قصورواروں کو عبرت ناک سزا ئیں دلوانے کے وعدے کیے، قانون سازی کی یقین دہانیاں بھی کرائیں، صرف یہ ہی نہیں، سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چودھری اور لاہور ہائی کورٹ نے از خود نوٹس بھی لیے، تھانہ کنجاہ نے راجیکی کے رہائشی تین بچوں کی ہلاکت کے غم سے نڈھال ٹریفک کانسٹیبل ریاض احمد کو مدعی بنا کر وقوعہ کے دوران مشتعل لوگوں کے مزاج کو بھانپ کر روپوش ہونے والے وین ڈرائیور محمد عرفان کو ناکارہ گاڑی میں پٹرول سے بھری کین رکھنے اور سی این جی استعمال کرنے کا تنہا ملزم نام زد کر ڈالا۔
مگر ورثا کے جذبات ٹھنڈا کرنے اور معاملے کو دبانے کے لیے اقتدار کے ایوانوں اورضلع میں براجمان حکام نے وین اور اسکول کے پارٹنرز پرنسپل شفقت حسین ، محمد رضوان ، اسکول کی بلڈنگ کے مالک محمد احسان، گیس کِٹ نصب کرنے والے مستری محمد الیاس، موٹر وے ایگزامینر فرخ سہیل اور سیکرٹری آر ٹی اے محسن ریاض کو ایف آئی آر میں نام زد کروا دیا اور ان کی گرفتاریوں سمیت ایسے احکامات صادر کیے، جیسے انہوں نے واقعی بگڑے معاشرہ کو سدھارنے کی ٹھان لی ہے۔
اس واقعہ پر نگران صوبائی حکومت،کمشنر گوجرانوالہ، آر پی او گوجرانوالہ خدابخش، ڈی سی او آصف بلال لودھی اور ڈی پی او دار علی خٹک نے اپنی سیٹیں جانیں بچانے کے لیے چھٹے روز ڈرائیور عرفان سمیت پانچ افرادگرفتار کرلیے جب کہ سیکرٹری آر ٹی اے محسن ریاض، موٹر وہیکل ایگزمینر فرخ سہیل کو بھی معطل کر کے ان کہ گرفتاری کا حکم دے دیا لیکن انہوں نے عبوری ضمانتیں کروالی اور پولیس کو ٹھینگا دکھا دیا کہ وہ زیادہ بااثر ہیں۔
31 مئی 2013 کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عمر عطا بندیال نے سیکرٹری آر ٹی اے محسن ریاض کو ذمہ دار قرار دیا اور گاڑیوں کو غیر معیاری کٹ لگانے پر پابندی عائد کرنے کا حکم دیا، 13جون کو سپریم کورٹ نے صوبائی حکومت کے چیف سیکرٹریز، آئی جی اوگرا، صوبائی ریجنل اتھارٹی ٹرانسپورٹ، چیف کمشنرز اور وزارت پٹرولیم کو طلب کرکے انہیں غفلت برتنے اور سانحے کی ذمہ داری قبول نہ کرنے پر جھاڑ پلائی اور اپنی ریٹائرمنٹ سے چند روز قبل کیس نمٹاتے ہوئے 9 دسمبر کو آئی جی پنجاب حاجی حبیب الرحمن کو واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا۔
اوگرا کو پٹرول، سی این جی، کی غیر قانونی فروخت روکنے، کمرشل گاڑی مالکان کو منظور شدہ سی این جی سلنڈر لگوانے، غیر قانونی سی این جی اسٹیشن، پٹرول پمپوں کے خلاف ایکشن لینے، کٹھارہ گاڑیوں کو سڑکوں پر آنے سے روکنے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے کا 20 صفحات پر مشتمل فیصلہ سنا دیا لیکن حکم رانوں نے اپنے پر اٹھی انگلیوں کو جھکانے کے لیے وقوعہ کے دوران تعینات ڈی سی او آصف بلال لودھی کو گجرات سے چکوال، ڈی پی او دار علی خٹک کو اسلام آباد اور موٹر وہیکل ایگزامینر فرخ سہیل کو بہ حال کردیا جب کہ واقعہ کے مرکزی کردار سیکرٹری آر ٹی اے محسن ریاض کو ڈیرہ غازی خاں بھیج دیا۔
اسکول کے پرنسپل شفقت حسین اور محمد رضوان نے عمارت سیل ہونے پرضمانتیں کروا لیں اور دل جلوں کے سینوں پر مونگ دلنے کے لیے اُسی عمارت کے سامنے نئے نام سے اسکول کھول لیا اور ۔۔۔ چوںکہ پھندا ہمیشہ غریب ہی کے گلے پر فٹ بیٹھتا ہے سو محمد عرفان ہی ڈسٹرکٹ جیل گجرات میں ڈرائیور ہونے کی سزا بھگت رہا ہے۔ ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے اس کا کہنا ہے کہ اسے آج بھی بے رحم شعلوں کی زد پر آئے بچوں کے چیخنے کی آوازیں اور ان کے معصوم چہرے نظر آتے ہیں، وہ سو نہین پاتا ''سمجھ میں نہین آتا کس جرم کی سزا مل رہی ہے'' محمد عرفان کا کہناہے ''ان پڑھ ہوں، جہاں واقعے کا افسوس ہے، وہاں مقدمہ میں شامل گاڑی، اسکول مالکان کی جانب سے دیے گئے دھوکے کا بھی دُکھ ہے، اب بوڑھے والدکے سوا کوئی ملنے نہیں آتا لیکن اُمید ہے، متاثرین مجھے ایک دن ضرور معاف کردیںگے''۔
دوسری جانب اس واقعہ کے بعد سے چند ماہ تک بغیرروٹ پرمٹ، بغیر فٹنس، بوسیدہ گاڑیوں اور غیر معیارسی این جی سلنڈرز کو جواز بنا کر ملک بھر میں گاڑیوں کی پکڑ دھکڑ کر کے لاکھوں روپے جرمانے وصول کیے گئے، ذمہ دران کمپنیوں کے پاس ناکارہ سلنڈروںکا تعین کرنے میں ہی الجھے رہے مگر آج بھی پٹرول پمپوں پر کھلے پٹرول کی فروخت جاری ہے بل کہ کئی غیر قانونی پٹرول پمپ اور سی این جی اسٹیشنز اور ایجنسیاں بھی سرکاری عملے کی سر پرستی میں دھندا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بڑی سیٹوں پر براجمان افسر پھر سے پرانی ڈگر پر آگئے، 17بچوں اور جواںسال ٹیچر کے غم گسار بے بسی کی تصویر بنے آج بھی سوال کر رہے ہیں کہ ان کے جگرگوشوں کو زندہ جلانے والے کیسے دندناتے پھر رہے ہیں، اس ملک میں انصاف کب اندھا ہوگا۔
نم دیدہ والدین کا کہنا ہے کہ حمزہ شہباز، مریم نواز، کیپٹن صفدر اور نجم سیٹھی نے وعدہ کیا تھا کہ سڑکوں پر دندناتے ہوئے ان بموں کا سدباب کرنے کے لیے بے لحاظ قوانین بنوائے جائیںگے۔ قوانین تو خیر کیا بنیں گے اب تک جائے سانحہ پر یادگاربنی نہ مسجد اور اسکول کی تعمیر ممکن بنائی جاسکی البتہ ضلع کی 30 لاکھ آبادی کے لیے سینیئر ڈاکٹر سرور نے برن اسپتال بنانے کا آغاز کر دیا ہے جب کہ اکلوتا منگووال روڈ ہی ایسا ہے جہاںواقعے سے جڑا منگووال چوکی کا انچارج عامر شہزا د بھدر قانون پر عمل کراتا نظر آتا ہے، وہ آج بھی علاقے میں بچوں کی کھٹارا گاڑیوںاورپٹرول کی غیرقانونی خرید و فروخت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
سماجی حلقوں کا کہنا ہے ''حکومت بدل گئی، چہرے بدل گئے مگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے رویے نہیں بدلے، آج بھی زندگیوں سے کھیلنے کا کھیل جاری ہے''۔ ڈرو خدا سے! ایسا نہ ہو کہ معصوم قبریں بولنے لگ جائیں۔
ایسے ہی بدنصیب لوگوں میں گجرات کے ایک نہیں بل کہ پانچ دیہات کے پانچ خاندان شامل ہیں، جو ایک سال بیت جانے کے باوجود زندہ جل بجھنے والے اپنے سترہ معصوم بچوں اور ایک ٹیچر کے سانحے سے باہرنکل ہی نہیں پارہے اور جب کسی علاقے سے کسی ننھنے فرشتے کی ہلاکت کی خبرآتی ہے تو اُن کی آنکھوں میں آنسو اور لبوں پر سسکیاں اور آہیں آجاتے ہیں۔ ایک سال قبل 25 مئی 2013 کو گجرات کے گائوں کوٹ گھکہ روڈ پرصبح ساڑھے چھے بجے جناح پبلک پرائیویٹ اسکول منگووال کے 24 بچوں اور خاتون ٹیچر کو قریبی گائوں کا ستائیس سالہ محمد عرفان ہائی ایس نمبرایس جی جی 9076 پر اسکول لا رہا تھا کہ اچانک وین سے آگ اور دھوأں اٹھنے لگا اور اس کے ساتھ ہی ہول طاری کردینے والی چیخوں کی آوازیں اٹھنے لگیں، پھر دیکھتے ہی دیکھتے آگ ایسی بھڑکی کہ بس رہے نام رب کا۔
بس ایک ڈرائیور محمد عرفان ، آٹھ سالہ دائود الطاف ، 10سالہ ما ہ نور ہی زندہ سلامت نکالے جاسکے، باہر نکلنے کی کوشش میں راجیکی کا پانچ سالہ علی حسن ، چار سالہ حمدان زاہد ، نو سالہ حفظہ ریاض ، بارہ سالہ عبیرہ اور دس سالہ پاکیزہ کو شعلوں کی کی زبانیں چاٹ گئیں۔ اہل علاقہ کے جائے وقوعہ پر پہنچنے تک 17 ننھے فرشتے، کنول فردوس ، عبداللہ ریاض ، زارہ ریاض ، حسنات حفیظ ، عمارہ فاطمہ ، تیمور اکبر ، عائشہ سجاد ، ایمان سجاد ، محمد ریحان سجاد ، آفتاب احمد ، محمد ہاشم ، محمد عبداللہ ، ثقلین اشتیاق ، طاہر شہزاد ، احمد شہزاد ، آمنہ بت اور سلیمان اپنی بیس سالہ ٹیچر سمعیہ نورین کے ہم راہ راکھ ہوگئے۔ جن لوگوں نے یہ منظر دیکھا تھا وہ آج بھی اس کا ذکر کرتے ہیں تو ان کی روح تک لرز جاتی ہے۔
راجیکی ، کنگ سہالی ، کوٹ گھکہ اور کنگ چنن کے ان ننھنے فرشتوں کی مائیں بہنیں اُن کی تصویریں، کپڑے اور کتابیں آنکھوں سے لگا لگا کر ایسے کرب سے روتی ہیں کہ دیکھیں تو دل حلق میں آن اٹکتا ہے۔ ان کی ڈھارس بندھانے کے لیے ہر سیاسی جماعت کے قائد ین نے دلی دکھ کا اظہار کیا اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا، اہل اقتدار نے قصورواروں کو عبرت ناک سزا ئیں دلوانے کے وعدے کیے، قانون سازی کی یقین دہانیاں بھی کرائیں، صرف یہ ہی نہیں، سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چودھری اور لاہور ہائی کورٹ نے از خود نوٹس بھی لیے، تھانہ کنجاہ نے راجیکی کے رہائشی تین بچوں کی ہلاکت کے غم سے نڈھال ٹریفک کانسٹیبل ریاض احمد کو مدعی بنا کر وقوعہ کے دوران مشتعل لوگوں کے مزاج کو بھانپ کر روپوش ہونے والے وین ڈرائیور محمد عرفان کو ناکارہ گاڑی میں پٹرول سے بھری کین رکھنے اور سی این جی استعمال کرنے کا تنہا ملزم نام زد کر ڈالا۔
مگر ورثا کے جذبات ٹھنڈا کرنے اور معاملے کو دبانے کے لیے اقتدار کے ایوانوں اورضلع میں براجمان حکام نے وین اور اسکول کے پارٹنرز پرنسپل شفقت حسین ، محمد رضوان ، اسکول کی بلڈنگ کے مالک محمد احسان، گیس کِٹ نصب کرنے والے مستری محمد الیاس، موٹر وے ایگزامینر فرخ سہیل اور سیکرٹری آر ٹی اے محسن ریاض کو ایف آئی آر میں نام زد کروا دیا اور ان کی گرفتاریوں سمیت ایسے احکامات صادر کیے، جیسے انہوں نے واقعی بگڑے معاشرہ کو سدھارنے کی ٹھان لی ہے۔
اس واقعہ پر نگران صوبائی حکومت،کمشنر گوجرانوالہ، آر پی او گوجرانوالہ خدابخش، ڈی سی او آصف بلال لودھی اور ڈی پی او دار علی خٹک نے اپنی سیٹیں جانیں بچانے کے لیے چھٹے روز ڈرائیور عرفان سمیت پانچ افرادگرفتار کرلیے جب کہ سیکرٹری آر ٹی اے محسن ریاض، موٹر وہیکل ایگزمینر فرخ سہیل کو بھی معطل کر کے ان کہ گرفتاری کا حکم دے دیا لیکن انہوں نے عبوری ضمانتیں کروالی اور پولیس کو ٹھینگا دکھا دیا کہ وہ زیادہ بااثر ہیں۔
31 مئی 2013 کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عمر عطا بندیال نے سیکرٹری آر ٹی اے محسن ریاض کو ذمہ دار قرار دیا اور گاڑیوں کو غیر معیاری کٹ لگانے پر پابندی عائد کرنے کا حکم دیا، 13جون کو سپریم کورٹ نے صوبائی حکومت کے چیف سیکرٹریز، آئی جی اوگرا، صوبائی ریجنل اتھارٹی ٹرانسپورٹ، چیف کمشنرز اور وزارت پٹرولیم کو طلب کرکے انہیں غفلت برتنے اور سانحے کی ذمہ داری قبول نہ کرنے پر جھاڑ پلائی اور اپنی ریٹائرمنٹ سے چند روز قبل کیس نمٹاتے ہوئے 9 دسمبر کو آئی جی پنجاب حاجی حبیب الرحمن کو واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا۔
اوگرا کو پٹرول، سی این جی، کی غیر قانونی فروخت روکنے، کمرشل گاڑی مالکان کو منظور شدہ سی این جی سلنڈر لگوانے، غیر قانونی سی این جی اسٹیشن، پٹرول پمپوں کے خلاف ایکشن لینے، کٹھارہ گاڑیوں کو سڑکوں پر آنے سے روکنے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے کا 20 صفحات پر مشتمل فیصلہ سنا دیا لیکن حکم رانوں نے اپنے پر اٹھی انگلیوں کو جھکانے کے لیے وقوعہ کے دوران تعینات ڈی سی او آصف بلال لودھی کو گجرات سے چکوال، ڈی پی او دار علی خٹک کو اسلام آباد اور موٹر وہیکل ایگزامینر فرخ سہیل کو بہ حال کردیا جب کہ واقعہ کے مرکزی کردار سیکرٹری آر ٹی اے محسن ریاض کو ڈیرہ غازی خاں بھیج دیا۔
اسکول کے پرنسپل شفقت حسین اور محمد رضوان نے عمارت سیل ہونے پرضمانتیں کروا لیں اور دل جلوں کے سینوں پر مونگ دلنے کے لیے اُسی عمارت کے سامنے نئے نام سے اسکول کھول لیا اور ۔۔۔ چوںکہ پھندا ہمیشہ غریب ہی کے گلے پر فٹ بیٹھتا ہے سو محمد عرفان ہی ڈسٹرکٹ جیل گجرات میں ڈرائیور ہونے کی سزا بھگت رہا ہے۔ ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے اس کا کہنا ہے کہ اسے آج بھی بے رحم شعلوں کی زد پر آئے بچوں کے چیخنے کی آوازیں اور ان کے معصوم چہرے نظر آتے ہیں، وہ سو نہین پاتا ''سمجھ میں نہین آتا کس جرم کی سزا مل رہی ہے'' محمد عرفان کا کہناہے ''ان پڑھ ہوں، جہاں واقعے کا افسوس ہے، وہاں مقدمہ میں شامل گاڑی، اسکول مالکان کی جانب سے دیے گئے دھوکے کا بھی دُکھ ہے، اب بوڑھے والدکے سوا کوئی ملنے نہیں آتا لیکن اُمید ہے، متاثرین مجھے ایک دن ضرور معاف کردیںگے''۔
دوسری جانب اس واقعہ کے بعد سے چند ماہ تک بغیرروٹ پرمٹ، بغیر فٹنس، بوسیدہ گاڑیوں اور غیر معیارسی این جی سلنڈرز کو جواز بنا کر ملک بھر میں گاڑیوں کی پکڑ دھکڑ کر کے لاکھوں روپے جرمانے وصول کیے گئے، ذمہ دران کمپنیوں کے پاس ناکارہ سلنڈروںکا تعین کرنے میں ہی الجھے رہے مگر آج بھی پٹرول پمپوں پر کھلے پٹرول کی فروخت جاری ہے بل کہ کئی غیر قانونی پٹرول پمپ اور سی این جی اسٹیشنز اور ایجنسیاں بھی سرکاری عملے کی سر پرستی میں دھندا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بڑی سیٹوں پر براجمان افسر پھر سے پرانی ڈگر پر آگئے، 17بچوں اور جواںسال ٹیچر کے غم گسار بے بسی کی تصویر بنے آج بھی سوال کر رہے ہیں کہ ان کے جگرگوشوں کو زندہ جلانے والے کیسے دندناتے پھر رہے ہیں، اس ملک میں انصاف کب اندھا ہوگا۔
نم دیدہ والدین کا کہنا ہے کہ حمزہ شہباز، مریم نواز، کیپٹن صفدر اور نجم سیٹھی نے وعدہ کیا تھا کہ سڑکوں پر دندناتے ہوئے ان بموں کا سدباب کرنے کے لیے بے لحاظ قوانین بنوائے جائیںگے۔ قوانین تو خیر کیا بنیں گے اب تک جائے سانحہ پر یادگاربنی نہ مسجد اور اسکول کی تعمیر ممکن بنائی جاسکی البتہ ضلع کی 30 لاکھ آبادی کے لیے سینیئر ڈاکٹر سرور نے برن اسپتال بنانے کا آغاز کر دیا ہے جب کہ اکلوتا منگووال روڈ ہی ایسا ہے جہاںواقعے سے جڑا منگووال چوکی کا انچارج عامر شہزا د بھدر قانون پر عمل کراتا نظر آتا ہے، وہ آج بھی علاقے میں بچوں کی کھٹارا گاڑیوںاورپٹرول کی غیرقانونی خرید و فروخت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
سماجی حلقوں کا کہنا ہے ''حکومت بدل گئی، چہرے بدل گئے مگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے رویے نہیں بدلے، آج بھی زندگیوں سے کھیلنے کا کھیل جاری ہے''۔ ڈرو خدا سے! ایسا نہ ہو کہ معصوم قبریں بولنے لگ جائیں۔