سہولت کاری سے گو شمالی تک
ملک میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور انتخابی معرکہ جیتنے کے لیے اپنے اپنے '' الیکٹ ایبل'' امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ بانٹ رہی ہیں۔
ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان مقابلے کا میدان سجے گا۔
اقتدار میں اپنا حصہ پانے کے لیے چھوٹی سیاسی جماعتیں اور گروپ انھی سیاسی جماعتوں سے اتحاد بنا رہے ہیں تو کہیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جا رہی ہے۔
آزاد امیدوار ہوا کا رخ دیکھ کر اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں ان کی پہلی ترجیح ہوتی ہے کہ اقتدار حاصل کرنے والی ممکنہ پارٹی کے ساتھ ملاپ کیا جائے اور اپنے '' قیمتی ووٹ'' کے عوض مراعات و سہولیات اور سیاسی فائدہ حاصل کیا جائے۔
ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کو بہت سی '' آسانیاں '' اور '' سہولتیں'' میسر ہیں۔ انتخابات جیتنے کے لیے آزادانہ انتخابی مہم چلانا اور پارٹی قیادت اور اہم رہنماؤں کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کی مکمل آزادی سب سے بڑی سہولت ہے۔
اس ضمن میں اول یہ الیکشن کمیشن کی آئینی ذمے داری ہے کہ وہ ایسا انتخابی ماحول پیدا کرے کہ جس میں انتخابات میں حصہ لینے والی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں،گروپ اور آزاد امیدوار سب پورے پاکستان میں ضابطہ اخلاق کے مطابق برابری کی سطح پر آزادانہ اپنی انتخابی مہم چلا سکیں، تب ہی شفاف، منصفانہ، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن کی شرط پوری ہوتی ہے اور انتخابی نتائج بھی سب کے لیے قابل قبول ہوتے ہیں۔
دوم، نگراں حکومت کی غیر جانبداری بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ اگر کسی بھی ادارے کی جانب سے کسی ایک سیاسی جماعت، گروپ اور مخصوص امیدواروں کی طرف داری، پس پشت حمایت اور سہولت کاری کا تاثر نمایاں ہوتا ہے اور وہ نظر بھی آ رہا ہوتا ہے اس پہ مستزاد مخالف سیاسی جماعتیں اور مبصرین و تجزیہ نگار اس ''سہولت کاری'' کو ہدف تنقید بناتے ہوں تو انتخابات کی شفافیت و غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔
طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، انھیں اپنے نمایندے منتخب کرنے کا آئینی اختیار حاصل ہے۔ ہر پاکستانی شہری کو انتخابات میں حصہ لینے اپنی سیاسی جماعت بنانے اور اپنی پسند کا انتخابی نشان رکھنے کا آئینی حق حاصل ہے۔
اسی طرح انتخابی مہم چلانے کی بھی آئینی آزادی حاصل ہے۔ بعینہ تمام ریاستی اداروں کی غیر جانبداری بھی آئینی تقاضا ہے۔ تو پھر وہ کیا اسباب، وجوہات اور عوامل ہیں کہ الیکشن 2024 پر سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔
انٹرا پارٹی الیکشن کو جواز بنا کر پی ٹی آئی کو اس کے معروف انتخابی نشان '' بلے'' سے محروم کر دیا گیا۔ ملک کی ایسی کون سی پاکیزہ سیاسی جماعت ہے جس نے اپنے انٹرا پارٹی الیکشن پوری ذمے داری اور '' ایمانداری'' سے کرائے ہوں۔
کیا مسلم لیگ (ن)، کیا پیپلز پارٹی سب پر خاندانی اجارہ داری ہے۔ کون سا سیاستدان ہے جو '' اہلیت'' کے معیار پر پورا اترنے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ سب کے دامن پر الزامات ہیں۔ کیا تمام کام آئین کے مطابق ہو رہے ہیں؟ بات نکلے گی تو پھر دور تک جائے گی اور '' الف'' سے لے کر '' ی'' تک سب کٹہرے میں ہوں گے۔
بجا کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن میں کچھ نہ کچھ کمزوریاں، خامیاں اور نقائص ہو سکتے ہیں لیکن وہ ایک طبقے کی نمایندہ جماعت ہے ۔
محض تکنیکی بنیادوں پر بے ضابطگیوں کو جواز بنا کر ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کو الیکشن سے باہر کر دینا کیسے قرین انصاف قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیا پی ٹی آئی کے الیکشن 2024 سے '' آؤٹ'' ہونے کے بعد یہ الیکشن شفاف قرار دیے جاسکتے ہیں؟ کیا اور کہاں کھچڑی پک رہی ہے؟ یہ کیسا عدل ہے۔
ادھر سینیٹ میں ایک مرتبہ پھر انتخابات 2024 کو تین ماہ کے لیے ملتوی کرانے کی قرارداد جمع کرا دی گئی ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کون کس کی پشت پر کس کی '' سہولت کاری'' کر رہا ہے اور کون کس کی ایما پر کس کی '' گوشمالی'' کر رہا ہے؟
ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان مقابلے کا میدان سجے گا۔
اقتدار میں اپنا حصہ پانے کے لیے چھوٹی سیاسی جماعتیں اور گروپ انھی سیاسی جماعتوں سے اتحاد بنا رہے ہیں تو کہیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جا رہی ہے۔
آزاد امیدوار ہوا کا رخ دیکھ کر اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں ان کی پہلی ترجیح ہوتی ہے کہ اقتدار حاصل کرنے والی ممکنہ پارٹی کے ساتھ ملاپ کیا جائے اور اپنے '' قیمتی ووٹ'' کے عوض مراعات و سہولیات اور سیاسی فائدہ حاصل کیا جائے۔
ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کو بہت سی '' آسانیاں '' اور '' سہولتیں'' میسر ہیں۔ انتخابات جیتنے کے لیے آزادانہ انتخابی مہم چلانا اور پارٹی قیادت اور اہم رہنماؤں کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کی مکمل آزادی سب سے بڑی سہولت ہے۔
اس ضمن میں اول یہ الیکشن کمیشن کی آئینی ذمے داری ہے کہ وہ ایسا انتخابی ماحول پیدا کرے کہ جس میں انتخابات میں حصہ لینے والی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں،گروپ اور آزاد امیدوار سب پورے پاکستان میں ضابطہ اخلاق کے مطابق برابری کی سطح پر آزادانہ اپنی انتخابی مہم چلا سکیں، تب ہی شفاف، منصفانہ، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن کی شرط پوری ہوتی ہے اور انتخابی نتائج بھی سب کے لیے قابل قبول ہوتے ہیں۔
دوم، نگراں حکومت کی غیر جانبداری بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ اگر کسی بھی ادارے کی جانب سے کسی ایک سیاسی جماعت، گروپ اور مخصوص امیدواروں کی طرف داری، پس پشت حمایت اور سہولت کاری کا تاثر نمایاں ہوتا ہے اور وہ نظر بھی آ رہا ہوتا ہے اس پہ مستزاد مخالف سیاسی جماعتیں اور مبصرین و تجزیہ نگار اس ''سہولت کاری'' کو ہدف تنقید بناتے ہوں تو انتخابات کی شفافیت و غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔
طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، انھیں اپنے نمایندے منتخب کرنے کا آئینی اختیار حاصل ہے۔ ہر پاکستانی شہری کو انتخابات میں حصہ لینے اپنی سیاسی جماعت بنانے اور اپنی پسند کا انتخابی نشان رکھنے کا آئینی حق حاصل ہے۔
اسی طرح انتخابی مہم چلانے کی بھی آئینی آزادی حاصل ہے۔ بعینہ تمام ریاستی اداروں کی غیر جانبداری بھی آئینی تقاضا ہے۔ تو پھر وہ کیا اسباب، وجوہات اور عوامل ہیں کہ الیکشن 2024 پر سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔
انٹرا پارٹی الیکشن کو جواز بنا کر پی ٹی آئی کو اس کے معروف انتخابی نشان '' بلے'' سے محروم کر دیا گیا۔ ملک کی ایسی کون سی پاکیزہ سیاسی جماعت ہے جس نے اپنے انٹرا پارٹی الیکشن پوری ذمے داری اور '' ایمانداری'' سے کرائے ہوں۔
کیا مسلم لیگ (ن)، کیا پیپلز پارٹی سب پر خاندانی اجارہ داری ہے۔ کون سا سیاستدان ہے جو '' اہلیت'' کے معیار پر پورا اترنے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ سب کے دامن پر الزامات ہیں۔ کیا تمام کام آئین کے مطابق ہو رہے ہیں؟ بات نکلے گی تو پھر دور تک جائے گی اور '' الف'' سے لے کر '' ی'' تک سب کٹہرے میں ہوں گے۔
بجا کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن میں کچھ نہ کچھ کمزوریاں، خامیاں اور نقائص ہو سکتے ہیں لیکن وہ ایک طبقے کی نمایندہ جماعت ہے ۔
محض تکنیکی بنیادوں پر بے ضابطگیوں کو جواز بنا کر ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کو الیکشن سے باہر کر دینا کیسے قرین انصاف قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیا پی ٹی آئی کے الیکشن 2024 سے '' آؤٹ'' ہونے کے بعد یہ الیکشن شفاف قرار دیے جاسکتے ہیں؟ کیا اور کہاں کھچڑی پک رہی ہے؟ یہ کیسا عدل ہے۔
ادھر سینیٹ میں ایک مرتبہ پھر انتخابات 2024 کو تین ماہ کے لیے ملتوی کرانے کی قرارداد جمع کرا دی گئی ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کون کس کی پشت پر کس کی '' سہولت کاری'' کر رہا ہے اور کون کس کی ایما پر کس کی '' گوشمالی'' کر رہا ہے؟