مولانا کی فرنٹ ڈور ڈپلومیسی

ashfaqkhan@express.com.pk

جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن امارت اسلامیہ افغانستان کے دورے سے واپس پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ مولانا کی فرنٹ ڈور ڈپلومیسی کا آغاز عین اس وقت ہوا جب دو برادر اسلامی ممالک افغانستان و پاکستان کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں دونوں ممالک ایک دوسرے کے دست و بازو اور خیر خواہ رہے مگر بد قسمتی سے اسلام دشمن عناصر کی شرارتوں کی وجہ سے آج ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔

جس پر ہر محب وطن پاکستانی اور ہر افغانستانی کو تشویش ہے۔ میرے باباجان رحمہ اللہ کے شہزادوں اور امارت اسلامیہ افغانستان کے اکابرین و ذمے داران کے ساتھ میرا ایک روحانی اور قلبی رشتہ ہے اور پاکستان مجھے میری جان سے زیادہ عزیز ہے۔

اس لیے میں ذاتی طور پر کرب و اذیت میں مبتلا ہوں۔ اور دونوں ممالک کے بدخواہ نہ صرف خوش ہیں بلکہ وہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کشیدگی کو مزید ہوا دینے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں مولانا فضل الرحمن کی فرنٹ ڈور ڈپلومیسی کی اہمیت و افادیت دو چند ہوجاتی ہے۔

ماہ دسمبر میں افغانستان کے عبوری سفیر سردار احمد جان شکیب نے مولانا سے ملاقات کی اور انھیں امارت اسلامیہ افغانستان کے دورے کی باضابطہ دعوت دی۔

ترجمان امارت اسلامیہ مولانا ذبیح اللہ مجاہد نے مولانا کو دورے کے مقاصد پر ان الفاظ میں روشنی ڈالی ''قائد جمعیت مولانا فضل الرحمان کو امارت اسلامیہ افغانستان نے سرکاری دعوت دی ہے کہ وہ افغانستان آئیں اور مملکت پاکستان اور پاکستانی عوام کے حوالے سے افغان عوام اور امارت اسلامیہ کے مؤقف سے آگاہی حاصل کریں۔ پھر واپس جاکر پاکستانی عوام کو بتائیں کہ ہم پاکستان میں بدامنی نہیں چاہتے۔ ہرگز نہیں چاہتے کہ پاکستان سے تعلقات خراب ہوں یا پاکستان کے خلاف کوئی اقدام کیا جائے۔

اس حوالے سے مولانا فضل الرحمان صاحب بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں''۔ امارت اسلامیہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات ڈیڈ لاک پیدا ہونے کی وجہ سے منجمد ہوچکے تھے، اس ڈیڈ لاک اور انجماد کو توڑنے کے لیے امارت اسلامیہ کے اکابرین نے نہایت سوچ بچار کے بعد دونوں ممالک کے خیرخواہ مولانا فضل الرحمن کا انتخاب کیا۔

اور مولانا نے دل و جان سے یہ دعوت اپنے لیے اعزاز سمجھ کر قبول کی۔ ایک طرف مولانا فضل الرحمن اور امارت اسلامیہ کے اکابرین کے درمیان نسل در نسل عقیدت و احترام کا مقدس رشتہ ہے اور دوسری طرف مولانا پاکستان کی سب سے بڑی دینی سیاسی جماعت جمعیت علماء اسلام کے ہی سربراہ نہیں، پاکستان کے طول و ارض میں پھیلے ہوئے ان لاکھوں مدارس کے سرپرست ہیں جہاں سے امارت اسلامیہ افغانستان کے اکابرین نے قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کی اور پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں مولانا کا ایک نمایاں و منفرد مقام ہے جس کو کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا۔

بلا مبالغہ دونوں اسلامی ممالک کو قریب لانے کے لیے مولانا سے موثر ترین شخصیت کوئی اور نہیں ہوسکتی۔

وہ دونوں ممالک کو جوڑنے کے لیے بہت احسن طریقے سے پل کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اور شاید اس لیے مولانا کا دورہ افغانستان دونوں ملکوں کے بد خواہوں اور خاص کر بغض مولانا کے لاعلاج مرض میں مبتلا ان کے سیاسی حریفوں کو ہضم نہیں ہو رہا۔ ہر ایک نے قبل از وقت اپنے اپنے گٹر کے منہ کھول دیے ہیں، کوئی کہتا ہے مولانا کو امارت اسلامیہ نے دعوت ہی نہیں دی، کوئی کہتا فلاں نے ملاقات سے انکار کردیا، کوئی کہتا ہے حکومت پاکستان نے دورے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے، کوئی کہتا ہے یہ ان کا نجی دورہ ہے اور ان کی خواہش پر ہوا۔ کوئی کہتا ہے کہ مولانا کا دورہ ناکام ہوا کیونکہ دونوں ممالک نے طورخم بارڈر بند کر دیا۔

کوئی کہتا کہ اس دورے سے مولانا انتخابی سیاست میں ہمدردیاں سمیٹنا چاہتے ہیں۔ اگر مولانا کی فرنٹ ڈور ڈپلومیسی ملک و قوم کے مفاد میں ہوئی تو لازمی طور پر ان کو سیاسی فائدہ بھی ہوگا اور مولانا کا قد بھی مزید بڑا ہوگا۔ مگر مولانا کے ناقدین یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس وقت مولانا کے علاوہ وہ کون ہے جس پر دونوں ممالک اعتبار کرتے ہیں اور یہ کشیدگی کم کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ یہ سب بغض مولانا میں ریاست دشمنی پر اتر آئے ہیں، مولانا نے کبھی سیاسی شعبدہ بازیوں کا سہارا نہیں لیا، ان کی لائن بڑی واضح ہوتی ہے اس لیے میں نے اس مہم کو فرنٹ ڈور ڈپلومیسی کا نام دیا۔


اپنی انتخابی مہم چھوڑ کر ان کا افغانستان جانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ دونوں برادر اسلامی ممالک کے سب سے بڑے خیر خواہ ہیں۔ 6 جنوری کو اتوار کو مولانا فضل الرحمان افغان سفیر، کابل میں پاکستانی ناظم الامور عبیدالرحمان نظامانی اور دیگر علماء سمیت اسلام آباد ایئرپورٹ سے خصوصی پرواز میں شام کے وقت کابل پہنچے۔

مولانا فضل الرحمان کے ساتھ دوسری اہم شخصیت نامور عالم دین شیخ الحدیث مولانا محمد ادریس کی تھی جو بیشتر افغان طالبان کے لیے شیوخ میں اپنا اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔کابل پہنچنے پر امارت اسلامیہ کی جانب سے غیرمعمولی پروٹوکول دے کر امارت اسلامیہ افغانستان کے ذمے داران نے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار کرکے مولانا کے دشمنوں کو مزید پریشان اور شدید اضطرابی کیفیت میں مبتلا کردیا۔

جومنفی پروپیگنڈہ کرکے اپنا غم کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے گالم گلوچ بریگیڈ کے ذریعے سوشل میڈیا پر یہ خبر وائرل کردی کہ مولانا کے دورہ کابل کے دوران مولانا کے خلاف افغان عوام نے مظاہرے کیے، ان کی تصاویر کو آگ لگائی گئی، حالانکہ وہ وڈیو 2015ء کی تھی، جس وقت افغانستان میں امریکا کی کٹھ پتلی حکومت قائم تھی اور عملاً کابل کا کنٹرول نیٹو فورسز کے پاس تھا، ان ہی کے ایماء پر اس وقت مولانا کے خلاف مظاہرہ کرایا گیا۔

پی ٹی آئی کے علاوہ پختون قوم کی نمایندگی اور "لر او بر یو افغان" کے دعویدار ایمل ولی خان بھی مولانا پر سیخ پا ہیں حالانکہ اگر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی ختم ہوگی تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ دونوں پار یعنی لر او بر کے پختونوں کو ہوگا مگر وہ مسلسل تنقید کر رہے ہیں۔ ان کی یہ پالیسی سمجھ سے بالا تر ہے۔ حیرت اور دکھ مولانا کے دورے پر دائیں بازو کے ایک لکھاری اور تجزیہ کار کے تبصرے پر ہوا جو ایک مکمل کالم کا متقاضی ہے۔

مولانا فضل الرحمان فقید المثال پروٹوکول کے ساتھ دارالحکومت کابل میں صدارتی محل پہنچے۔ کابینہ کے اراکین اور افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کی موجودگی میں نائب وزیر اعظم برائے سیاسی امور مولوی عبدالکبیر سے ملاقات کی۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ جس وقت مولانا فضل الرحمن کابل میں امارت اسلامیہ کے اہم ترین ذمے داروں سے ملاقاتیں کررہے تھے عین اسی وقت باجوڑ میں پولیس گاڑی پر حملے کے نتیجے میں 7 اہلکاروں کو شہید کردیاگیا۔

اس حملے کی ذمے داری کالعدم ٹی ٹی پی نے قبول کرلی۔ دونوں ملکوں کے بدخواہوں کی جانب سے یہ بڑا واضح پیغام تھا۔ 8 جنوری کو مولانا فضل الرحمان نے وفد کے ہمراہ وزیر اعظم افغانستان ملا محمد حسن اخوند سے تفصیلی ملاقات کی۔

پے درپے ملاقاتوں اور مصروف ترین شیڈول نے مولانا کوتھکا دیا اسی لیے 9 جنوری منگل کا دن اس دورے کے دوران آرام کا دن تھا اس روز صرف کابل میں پاکستانی سفارتخانے نے وفد کے اعزاز میں عشائیے کا اہتمام کیا جو بظاہر دن بھر کی واحد سرگرمی تھی۔ پروگرام کے مطابق 10 جنوری، بدھ کو طالبان کے سپریم لیڈر مولانا ہیبت اللہ اخوندزادہ سے ملاقات کے لیے مولانا فضل الرحمان قندہار چلے گئے۔

باباجان رحمہ اللہ کے شہزادوں اور حساس ترین مناصب پر فائز حضرات سے مسلسل رابطے میں رہا وہ سب انتہائی مسرور اور خوش تھے، ان کے مطابق " امارت اسلامیہ افغانستان کے سپریم لیڈر سے مولانا کی ملاقات ایک خوشگوار اور روح پرور ملاقات تھی، ملتے وقت ایک دوسرے کے پیشانی کے بوسے لیے گئے" سمجھنے والوں کے لیے اس جملے میں مولانا کی دورہ افغانستان کا خلاصہ موجود ہے مگر سمجھنے والا دماغ اور نور بصیرت والی آنکھ چاہیے۔

اس ملاقات میں جو بات چیت ہوئی چند روز میں اس کے اثرات ظاہر ہونے لگ جائیں گے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان میڈیا میں روایتی 'بلیم گیم' کا سلسلہ اب رک جانا چاہیے۔ اور افغان امور کے نام نہاد ماہرین کو بھی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔

مولانا کا دورہ کابل دونوں برادر اسلامی ممالک میں فرنٹ ڈور ڈپلومیسی کا شاندار آغاز ہے، دونوں ملک ایک بار پھر قریب آئیں گے، خطے میں امن و استحکام اور خوشحالی آئے گی۔ آنے والے چند روز میں اس دورے کے حوالے سے مزید تفصیلات سامنے آئیں گی جو پاک افغان بہتر تعلقات کے خواہشمندوں کے لیے راحت و سکون کا باعث ہوگی اور دونوں ملکوں کے بدخواہوں کے لیے مایوسی کا پیغام لائے گی۔ انشاء اللہ
Load Next Story