مزاح و خوش طبعی
اس لطیف احساس سے آدمی کا بالکل خالی ہونا ایک عیب ہے
اسلام ایک کامل دین ہے، جو دنیائے انسانیت کے لیے اﷲ رب العزت کا ایک حسین اور لاجواب تحفہ ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے اس کے احکام و قوانین وضع فرمائے ہیں اور یہ احکام و قوانین عین انسانی فطرت کے مطابق و موافق ہیں۔ دین اسلام کی پاکیزہ تعلیمات میں جہاں عقائد و عبادات، معاشرت و معاملات اور اخلاقیات و آداب کے اہم مسائل کی طرف توجہ مرکوز کی گئی ہے، وہاں سستی اور کاہلی کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے چستی، مزاح و خوش طبعی کو پسند کیا گیا ہے۔
مزاح و خوش طبعی شرعی دائرہ کار میں رہتے ہوئے جس طرح انسانی زندگی کا ایک خوش کن عنصر ہے، اسی طرح اس لطیف احساس سے آدمی کا بالکل خالی ہونا ایک عیب ہے۔
رسول کریم ﷺ اپنی تمام تر عظمت و رفعت اور شان و مقام کے باوجود اپنے جاں نثار صحابہ کرامؓ کے ساتھ مزاح فرمایا کرتے تھے۔
سیدنا حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ بعض صحابہ کرامؓ نے رسول اﷲ ﷺ سے عرض کیا کہ یارسول ﷺ! آپ ہم سے مزاح فرماتے ہیں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ''میں مزاح میں بھی حق بات ہی کہتا ہوں۔'' (المعجم للطبرانی)
یعنی اس میں کوئی بات غلط اور باطل نہیں ہوتی۔
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ان سے فرمایا: ''اے دوکان والے۔''(مشکوٰۃ شریف)
رسول اﷲ ﷺ کا حضرت انسؓ سے ''اے دو کان والے'' کہنا بھی ظرافت اور خوش طبعی کے طور پر تھا۔ اور ظرافت کا یہ انداز تو ہمارے عرف میں بھی رائج ہے مثلاً کبھی اپنے بے تکلف دوست سے یا ذہین طالب علم سے ناراضی کا اظہار اس انداز میں کیا جاتا ہے کہ ایک چپت رسید کروں گا تو تمہارا سر دو کانوں کے درمیان ہوجائے گا۔ حالاں کہ وہ پہلے سے وہیں پر ہوتا ہے۔
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول ﷺ سے سواری طلب کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں سواری کے لیے اونٹنی کا بچہ دوں گا تو سائل نے عرض کیا کہ میں اونٹنی کے بچے کا کیا کروں گا۔ تو رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کیا اونٹنی اونٹ کے علاوہ بھی کسی کو جنتی ہے؟ (مشکوٰۃ شریف)
ملاحظہ فرمائیے، رسول اﷲ ﷺ نے یہاں سائل سے مزاح بھی فرمایا اور اس میں حق اور سچائی کی رعایت بھی فرمائی کہ سواری طلب کرنے پر آپؐ نے جب اونٹنی کا بچہ مرحمت فرمانے کا وعدہ فرمایا تو سائل کو تعجب ہُوا کہ مجھے سواری کی ضرورت ہے اور اونٹنی کا بچہ اس قابل نہیں ہوتا کہ اس پر سواری کی جائے، تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے تعجب کو دور کرتے ہوئے اور اپنے مزاح کا انکشاف کرتے ہوئے فرمایا کہ بھائی میں تجھے سواری کے قابل اونٹ ہی دے رہا ہوں مگر وہ بھی تو اونٹنی ہی کا بچہ ہے۔
البتہ یہ خیال ضرور رکھا جائے کہ ہمارا مزاح اور خوش طبعی کسی کی دل شکنی اور ایذاء رسانی کا باعث نہ بنے۔ اس میں اعتدال کو ملحوظ رکھا جائے، مزاح سچائی پر مشتمل ہونا چاہیے ناکہ جھوٹ پر۔
رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جو بات کرتا ہے اس میں جھوٹ بولتا ہے تاکہ قوم کو ہنسا سکے اس کے لیے تباہی اور ہلاکت ہے۔'' (ابوداؤد شریف)
ان احادیث مبارکہ سے یہی سبق ملتا ہے کہ مزاح کے طور پر جو گفت گُو کی جائے، وہ ظرافت و لطافت کے وصف سے متصف صحیح اور درست ہو۔ خوش طبعی کے لیے جھوٹ کا سہارا لینا بھی مذموم ہے۔
اﷲ پاک دین اسلام کی پاکیزہ تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اﷲ تعالیٰ نے اس کے احکام و قوانین وضع فرمائے ہیں اور یہ احکام و قوانین عین انسانی فطرت کے مطابق و موافق ہیں۔ دین اسلام کی پاکیزہ تعلیمات میں جہاں عقائد و عبادات، معاشرت و معاملات اور اخلاقیات و آداب کے اہم مسائل کی طرف توجہ مرکوز کی گئی ہے، وہاں سستی اور کاہلی کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے چستی، مزاح و خوش طبعی کو پسند کیا گیا ہے۔
مزاح و خوش طبعی شرعی دائرہ کار میں رہتے ہوئے جس طرح انسانی زندگی کا ایک خوش کن عنصر ہے، اسی طرح اس لطیف احساس سے آدمی کا بالکل خالی ہونا ایک عیب ہے۔
رسول کریم ﷺ اپنی تمام تر عظمت و رفعت اور شان و مقام کے باوجود اپنے جاں نثار صحابہ کرامؓ کے ساتھ مزاح فرمایا کرتے تھے۔
سیدنا حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ بعض صحابہ کرامؓ نے رسول اﷲ ﷺ سے عرض کیا کہ یارسول ﷺ! آپ ہم سے مزاح فرماتے ہیں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ''میں مزاح میں بھی حق بات ہی کہتا ہوں۔'' (المعجم للطبرانی)
یعنی اس میں کوئی بات غلط اور باطل نہیں ہوتی۔
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ان سے فرمایا: ''اے دوکان والے۔''(مشکوٰۃ شریف)
رسول اﷲ ﷺ کا حضرت انسؓ سے ''اے دو کان والے'' کہنا بھی ظرافت اور خوش طبعی کے طور پر تھا۔ اور ظرافت کا یہ انداز تو ہمارے عرف میں بھی رائج ہے مثلاً کبھی اپنے بے تکلف دوست سے یا ذہین طالب علم سے ناراضی کا اظہار اس انداز میں کیا جاتا ہے کہ ایک چپت رسید کروں گا تو تمہارا سر دو کانوں کے درمیان ہوجائے گا۔ حالاں کہ وہ پہلے سے وہیں پر ہوتا ہے۔
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول ﷺ سے سواری طلب کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں سواری کے لیے اونٹنی کا بچہ دوں گا تو سائل نے عرض کیا کہ میں اونٹنی کے بچے کا کیا کروں گا۔ تو رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کیا اونٹنی اونٹ کے علاوہ بھی کسی کو جنتی ہے؟ (مشکوٰۃ شریف)
ملاحظہ فرمائیے، رسول اﷲ ﷺ نے یہاں سائل سے مزاح بھی فرمایا اور اس میں حق اور سچائی کی رعایت بھی فرمائی کہ سواری طلب کرنے پر آپؐ نے جب اونٹنی کا بچہ مرحمت فرمانے کا وعدہ فرمایا تو سائل کو تعجب ہُوا کہ مجھے سواری کی ضرورت ہے اور اونٹنی کا بچہ اس قابل نہیں ہوتا کہ اس پر سواری کی جائے، تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے تعجب کو دور کرتے ہوئے اور اپنے مزاح کا انکشاف کرتے ہوئے فرمایا کہ بھائی میں تجھے سواری کے قابل اونٹ ہی دے رہا ہوں مگر وہ بھی تو اونٹنی ہی کا بچہ ہے۔
البتہ یہ خیال ضرور رکھا جائے کہ ہمارا مزاح اور خوش طبعی کسی کی دل شکنی اور ایذاء رسانی کا باعث نہ بنے۔ اس میں اعتدال کو ملحوظ رکھا جائے، مزاح سچائی پر مشتمل ہونا چاہیے ناکہ جھوٹ پر۔
رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جو بات کرتا ہے اس میں جھوٹ بولتا ہے تاکہ قوم کو ہنسا سکے اس کے لیے تباہی اور ہلاکت ہے۔'' (ابوداؤد شریف)
ان احادیث مبارکہ سے یہی سبق ملتا ہے کہ مزاح کے طور پر جو گفت گُو کی جائے، وہ ظرافت و لطافت کے وصف سے متصف صحیح اور درست ہو۔ خوش طبعی کے لیے جھوٹ کا سہارا لینا بھی مذموم ہے۔
اﷲ پاک دین اسلام کی پاکیزہ تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین