عالمی معیشت کی سست روی اور کرایوں میں کمی

نئی حکومت کے قیام پر ڈالر نے خوشی کے شادیانے ایسے بجائے کہ اس کی پرواز دیکھے نہ دیکھی جا رہی تھی

آئی ایم ایف سے 70 کروڑ ڈالر مل گئے ہیں اور یو اے ای کا 2 ارب ڈالر قرض رول اوور ہونے کے باعث رواں ماہ کے بجائے اب اگلے سال واپس کرنا ہوگا۔ وہ بھی اس طرح کہ ایک ارب ڈالر پر تین فی صد اور ایک ارب ڈالر پر 6.5 فی صد منافع دیا جائے گا۔

اس قسط کے ملنے کے بعد پاکستان اگلی قسط کی وصولی پر نظریں جمائے بیٹھا ہے جس کی مالیت 1.1 ارب ڈالر ہے اور آخری اقتصادی جائزے کے بعد مزید 1.1 ارب ڈالر ملیں گے جس کے لیے اگلے ماہ مذاکرات ہوں گے۔ بتایا جا رہا ہے کہ انتخابات کے باعث شیڈول تبدیل ہونے کا امکان ہے۔

گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستانی معیشت اسی طرح قرضوں کے سہارے چلتی جا رہی ہے۔ نتیجے میں عوام کو جو کچھ بھگتنا پڑ رہا ہے اسے کسی حکومت نے مجبوری کہا کسی نے کڑوی گولی کہا۔ اور سب سے مزے کی بات ہر آنے والی حکومت نے اپنے سے پہلے والی حکومت کے اوپر سارا ملبہ ڈال کر دونوں ہاتھ جھاڑ کر بیٹھے رہے۔

ادھر ورلڈ اکنامک فورم نے بھی کووڈ A کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ کہا ہے کہ رواں برس عالمی معیشت سست روی کا شکار رہے گی۔ ایسا معلوم دے رہا ہے کہ غزہ پر بمباری سے امریکا یورپ صنعتی ممالک اور دیگر کئی ممالک تو متاثر نہیں ہوئے۔ ان کے کان میں جوں تک نہ رینگی، لیکن عالمی معیشت جوکہ بظاہر بے جان ہے لیکن اس نے اپنا شدید رد عمل ظاہر کر دیا ہے۔ بلکہ امریکا اسرائیل برطانیہ کی معیشت بھی سخت ترین احتجاج ریکارڈ کرا رہی ہے۔

اسرائیل کو زبردست خسارے کا سامنا ہے۔ برطانیہ کی مالی حالت مزید پتلی ہو رہی ہے۔ امریکا پر قرضوں کا پہاڑ ہے کہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ غزہ کے شہیدوں کے خون کے خوف سے عالمی معیشت سکڑ رہی ہے۔ سست رفتاری کا شکار ہو رہی ہے۔ عالمی معیشت پکار رہی ہے کہ غزہ کے لہو سے عالمی معیشت سست روی کا شکار ہو رہی ہے۔

ورلڈ بینک بھی ایسا ہی کہہ چکا اب ورلڈ اکنامک فورم نے جو سروے کرایا ہے اس کے نتائج بھی سراپا احتجاج ہیں کہ عالمی معیشت سست رو بن کر رہ گئی ہے۔روس، یوکرین جنگ کے اثرات نے دنیا بھر کی معیشتوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ جنگ جوکہ ابھی تک جاری ہے لیکن اس کا نتیجہ عالمی غذائی منڈی کے لیے انتہائی خوفناک ثابت ہوا۔ انھی دنوں پاکستان کو گندم کی قلت کا سامنا کرنا پڑگیا، اپریل 2022 میں پاکستان میں نگران حکومت قائم ہوئی جس کے آتے ہی دھڑا دھڑ اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔

ادھر نئی حکومت کے قیام پر ڈالر نے خوشی کے شادیانے ایسے بجائے کہ اس کی پرواز دیکھے نہ دیکھی جا رہی تھی۔ 190 سے بڑھ کر 300 پھر بڑھتی ہی چلی گئی اور روپیہ بے جان ہو کر گرتا ہی چلا جا رہا تھا کہ نگراں حکومت نے آ کر اس کی ڈھارس بندھوائی حوصلہ دلایا۔


شروع میں تو یہ یقین دلا رہے تھے کہ ڈالر جوکہ 330 روپے سے اوپرکی جانب گامزن تھا اس کی ناک میں نکیل ڈالی جائے گی جب سابق وزیر خزانہ لندن سے تشریف لائے تو قوم کو مژدہ سنایا کہ ڈالر کو 160 روپے پر واپس لے کر جائیں گے۔ پھر جلد ہی کہہ دیا کہ 200 تک لے آئیں گے اور وہ آئی ایم ایف سے بھی نمٹ لیں گے۔

آئی ایم ایف کو بھی نہ جانے کیا سوجھی کہ اس نے بھی آتے آتے مزید 4 سے 5 ماہ گزار دیے اس دوران ملکی معیشت کی خوب درگت بنی۔ ہر شے کی قیمت بڑھی۔ عالمی منڈی میں روس، یوکرین جنگ کے باعث عالمی غذائی منڈی، تیل کی منڈی کے خوب بھاؤ چڑھے اور پاکستان میں ڈالر توانا اور روپے کی بگڑتی ہوئی حالت نے آٹا، چینی اور دیگر اشیا کی اسمگلنگ نے، کھاد کی قلت نے پانی کی کمی نے جعلی ادویات کی بھرمار نے، عوام اور صنعتکاروں پر بجلی بموں کی برسات نے، گیس کے بڑھتے ہوئے نرخوں کی بارات نے عوام اور صنعتکاروں کو خوب لوٹا۔

چند ماہ قبل اگست میں نگراں حکومت آئی۔ اس کے ساتھ ہی ان لوگوں کی شامت آئی جو کہ مافیاز تھے، ذخیرہ اندوز تھے۔ پھر چھاپے پڑنا شروع ہوئے، بڑی بڑی سنسان عمارتیں گودام کی شکل میں پکڑی جانے لگیں، ڈالر کا ایسا بھٹہ بٹھایا کہ 333 روپے کا ڈالر گرتا چلا گیا۔

پہلے تو عوام اس خوش فہمی میں مبتلا تھی کہ جلد ہی ڈالر 260 تک پہنچ جائے گا لیکن ابھی زیادہ فرق نہیں ہے صرف 20 روپے کا ہے۔ البتہ حکومت نے پٹرول کی قیمت گھٹا، گھٹا کر اسے 260 تک پہنچا دیا ہے۔ لیکن اس کے تمام تر فوائد ٹرانسپورٹروں کو، ٹرک مالکان کو، بس مالکان کو، منی بس والوں کو، مزدا والوں کو ہی پہنچ رہے ہیں۔

حکومت نے مختلف اعداد و شمار پیش کرکے بس مالکان کو راضی کرنے کی کوشش کی کہ کم ازکم کرایوں میں 15 فی صد کمی کی جائے۔ ابھی چند دن ہوئے پٹرول کی قیمت میں 8 روپے کی کمی کردی گئی۔ گزشتہ ماہ ڈیزل کی قیمت میں کمی کی گئی، اب دو باتیں ہیں اول عالمی منڈی میں قیمت میں اضافے کے امکانات ہیں دوسرے ملک میں عالمی منڈی کے اثرات مرتب ہوں گے۔

اس صورت حال میں حکومت اس جانب متوجہ ہو کہ جس طرح گزشتہ کئی ماہ سے پٹرول، ڈیزل کی قیمت کم کر رہی تھی اس کے مثبت اثرات عوام تک پہنچانے کے لیے انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ اعداد وشمار کی روشنی میں بسوں کے کرایوں، منی بسوں، مزدا، چنگچی، ٹرک والوں کے کرایوں میں اسی تناسب کے لحاظ سے کمی لے کر آئے۔

اس طرح ہی ملک میں بہت سی اشیا کی قیمتوں میں کمی ممکن ہو سکے گی۔ بصورت دیگر پٹرول کی عالمی قیمت میں اضافے کے باعث پٹرول کی قیمت میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹرانسپورٹرز کرایوں میں مزید اضافہ کردیں گے، پھرکیا ہوگا؟
Load Next Story