فتح پور سیکری… بھارت
حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ کے مزار پر بیک وقت مسلمان، ہندو، عیسائی اور پارسی حاضری دیتے اور منت مانتے نظر آتے ہیں
بھارت میں قیام کے دوران مجھے فتح پور سیکری بھی جانے کا موقعہ ملا۔ آگرہ سے چالیس کلومیٹر شمال مغرب کی جانب فتح پور سیکری شہر ہے۔ یہاں حضرت خواجہ شیخ سلیم چشتی ؒ کا مزار ہے۔ میں نے ڈرائیور سے پوچھا کہ سیکری کی یہ مسافت کتنے وقت میں طے ہو گی۔ اس نے بتایا کہ تقریباً چالیس منٹ میں۔ ہم نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔
حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ ہی وہ بزرگ ہیں جن کے بارے میں تاریخی کتابوں میں بارہا یہ تذکرہ آیا ہے کہ شہنشاہ اکبر اعظم کو اولاد نرینہ اور وارث تخت شہزادہ سلیم (جو جہانگیر بادشاہ بنا) انھی بزرگ کی دعاؤں کے طفیل اللہ تعالیٰ نے عطا کیا۔اکبراعظم نے گجرات کی فتح کی خوشی اور یادگار کے طور پر سیکری کا نام فتح پور رکھا اور اسے پایہ تخت بنایا۔ نیا شہر پچاس سال بعد پانی کی کمی سے بے آباد ہوگیا ، یوں پایہ تخت واپس دلی منتقل کرنا پڑا۔
فتح پور سیکری کا علاقہ بڑے قلعے کے حصار میں ہے۔ یہ قلعہ سرخ پتھروں سے بنایا گیا ہے اور اسے دہلی کے لال قلعے کی طرز پر تعمیر کیا گیا۔ قلعہ کی تین اطراف حفاظتی دیواریں بنائی گئی ہیں جن کی اونچائی پچاس فٹ ہے۔ چوتھی جانب ایک مصنوعی جھیل بھی بنائی گئی۔ شاہی قلعے میں داخلے کے لیے سات دروازے بنائے گئے۔
آج کے دور میں فتح پور سیکری کی سب سے بڑی کشش حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ کا مزار مبارک ہے۔ قلعے کے اندر ایک عظیم الشان مسجد کے احاطے میں حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کا مزار ہمہ وقت زائرین سے بھرا ہوا نظر آتا ہے۔
زائرین کی زیادہ تعداد نوجوان خواتین کی ہے، گائیڈ بتا رہا تھا کہ خواتین کی اکثریت یہاں اولاد نرینہ کے لیے منت ماننے آتی ہے۔ زائرین منت کے لیے مزار کے تین اطراف جالیوں میں خوش رنگ دھاگہ باندھتے ہیں کچھ لوگ تالے بھی باندھتے ہیں۔چھتری کی شکل میں تعمیر کیے جانے والے مزار کے کمرے میں حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کی قبر ہے۔
مزار سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے اور قبر کے گرد نصب سنگ مرمر میں خوبصورت موتی بھی نصب ہیں۔ مزار کی اندرونی چھتری صندل کی لکڑی کی بنی ہے اور اس پر سیپ اور موتیوں کی کلاکاری ہے۔مزار کے ساتھ تعمیر کی جانے والی عظیم جامع مسجد پندرھویں صدی کی سب سے بڑی مسجد شمار کی جاتی تھی۔ مسجد میں داخل ہونے کے لیے ایک سو چونتیس فٹ اونچا دروازہ بنایا گیا۔اکبر نے اس دروازے کا نام وکٹری گیٹ رکھا۔ یہ دروازہ بھی گجرات کی فتح کی یاد میں بنایا گیا۔
اکبر اعظم نے اپنے پیر و مرشد حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ سے عقیدت کے اظہار کے لیے ان کا شاندار مزار تعمیر کروایا۔ یہ مزار اسی جگہ تعمیر کیا گیا جہاں حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ اپنی زندگی میں پہاڑی ٹیلے پر ایک جھونپڑی میں رہا کرتے تھے، مزار کو اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ وہ جامع مسجد سے ملحقہ صحن میں ایک خوبصورت جھونپڑی نظر آئے۔ مزار کے ستون اس طرح تعمیر کیے گئے ہیں کہ دور سے وہ موٹی موٹی رسیاں نظر آتی ہیں۔
حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ کے مزار پر بیک وقت مسلمان، ہندو، عیسائی اور پارسی حاضری دیتے اور منت مانتے نظر آتے ہیں۔ مسجد کے دالان میں مزار کے سامنے خوبصورت فوارا ہے۔ گائیڈ نے یہ بھی بتایا کہ اکبر بادشاہ اور شہنشاہ جہانگیر اپنے دور اقتدار میں اکثر و بیشتر مزار پر حاضری دیا کرتے تھے۔
حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ کے مزار کے احاطے میں ایک سرنگ کا دروازہ بھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سرنگ سیکری سے آگرہ قلعے تک جاتی تھی۔ اس کی لمبائی نوے کلو میٹر بتائی جاتی ہے۔ اب یہ سرنگ بند ہو چکی ہے تاہم اس کا دروازہ زائرین کے لیے کھلا ہے۔
فتح پور سیکری کے شہر اور قلعے کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دنیاوی بادشاہوں کے بنائے ہوئے قلعے اور ان کے دور کی تمکنت سبھی کچھ ملیامیٹ ہو چکی ہے اور اب اس کے آثار باقی ہیں لیکن روحانی بزرگ اور برگزیدہ شخصیت حضرت خواجہ سلیم چشتی ؒ کی درگاہ ا ب بھی ہزاروں لوگوں کے لیے روزگار کا ذریعے ہونے کے ساتھ ساتھ روحانی فیض کا منبع ہے۔
حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ ہی وہ بزرگ ہیں جن کے بارے میں تاریخی کتابوں میں بارہا یہ تذکرہ آیا ہے کہ شہنشاہ اکبر اعظم کو اولاد نرینہ اور وارث تخت شہزادہ سلیم (جو جہانگیر بادشاہ بنا) انھی بزرگ کی دعاؤں کے طفیل اللہ تعالیٰ نے عطا کیا۔اکبراعظم نے گجرات کی فتح کی خوشی اور یادگار کے طور پر سیکری کا نام فتح پور رکھا اور اسے پایہ تخت بنایا۔ نیا شہر پچاس سال بعد پانی کی کمی سے بے آباد ہوگیا ، یوں پایہ تخت واپس دلی منتقل کرنا پڑا۔
فتح پور سیکری کا علاقہ بڑے قلعے کے حصار میں ہے۔ یہ قلعہ سرخ پتھروں سے بنایا گیا ہے اور اسے دہلی کے لال قلعے کی طرز پر تعمیر کیا گیا۔ قلعہ کی تین اطراف حفاظتی دیواریں بنائی گئی ہیں جن کی اونچائی پچاس فٹ ہے۔ چوتھی جانب ایک مصنوعی جھیل بھی بنائی گئی۔ شاہی قلعے میں داخلے کے لیے سات دروازے بنائے گئے۔
آج کے دور میں فتح پور سیکری کی سب سے بڑی کشش حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ کا مزار مبارک ہے۔ قلعے کے اندر ایک عظیم الشان مسجد کے احاطے میں حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کا مزار ہمہ وقت زائرین سے بھرا ہوا نظر آتا ہے۔
زائرین کی زیادہ تعداد نوجوان خواتین کی ہے، گائیڈ بتا رہا تھا کہ خواتین کی اکثریت یہاں اولاد نرینہ کے لیے منت ماننے آتی ہے۔ زائرین منت کے لیے مزار کے تین اطراف جالیوں میں خوش رنگ دھاگہ باندھتے ہیں کچھ لوگ تالے بھی باندھتے ہیں۔چھتری کی شکل میں تعمیر کیے جانے والے مزار کے کمرے میں حضرت شیخ سلیم چشتیؒ کی قبر ہے۔
مزار سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے اور قبر کے گرد نصب سنگ مرمر میں خوبصورت موتی بھی نصب ہیں۔ مزار کی اندرونی چھتری صندل کی لکڑی کی بنی ہے اور اس پر سیپ اور موتیوں کی کلاکاری ہے۔مزار کے ساتھ تعمیر کی جانے والی عظیم جامع مسجد پندرھویں صدی کی سب سے بڑی مسجد شمار کی جاتی تھی۔ مسجد میں داخل ہونے کے لیے ایک سو چونتیس فٹ اونچا دروازہ بنایا گیا۔اکبر نے اس دروازے کا نام وکٹری گیٹ رکھا۔ یہ دروازہ بھی گجرات کی فتح کی یاد میں بنایا گیا۔
اکبر اعظم نے اپنے پیر و مرشد حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ سے عقیدت کے اظہار کے لیے ان کا شاندار مزار تعمیر کروایا۔ یہ مزار اسی جگہ تعمیر کیا گیا جہاں حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ اپنی زندگی میں پہاڑی ٹیلے پر ایک جھونپڑی میں رہا کرتے تھے، مزار کو اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ وہ جامع مسجد سے ملحقہ صحن میں ایک خوبصورت جھونپڑی نظر آئے۔ مزار کے ستون اس طرح تعمیر کیے گئے ہیں کہ دور سے وہ موٹی موٹی رسیاں نظر آتی ہیں۔
حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ کے مزار پر بیک وقت مسلمان، ہندو، عیسائی اور پارسی حاضری دیتے اور منت مانتے نظر آتے ہیں۔ مسجد کے دالان میں مزار کے سامنے خوبصورت فوارا ہے۔ گائیڈ نے یہ بھی بتایا کہ اکبر بادشاہ اور شہنشاہ جہانگیر اپنے دور اقتدار میں اکثر و بیشتر مزار پر حاضری دیا کرتے تھے۔
حضرت شیخ سلیم چشتی ؒ کے مزار کے احاطے میں ایک سرنگ کا دروازہ بھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سرنگ سیکری سے آگرہ قلعے تک جاتی تھی۔ اس کی لمبائی نوے کلو میٹر بتائی جاتی ہے۔ اب یہ سرنگ بند ہو چکی ہے تاہم اس کا دروازہ زائرین کے لیے کھلا ہے۔
فتح پور سیکری کے شہر اور قلعے کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دنیاوی بادشاہوں کے بنائے ہوئے قلعے اور ان کے دور کی تمکنت سبھی کچھ ملیامیٹ ہو چکی ہے اور اب اس کے آثار باقی ہیں لیکن روحانی بزرگ اور برگزیدہ شخصیت حضرت خواجہ سلیم چشتی ؒ کی درگاہ ا ب بھی ہزاروں لوگوں کے لیے روزگار کا ذریعے ہونے کے ساتھ ساتھ روحانی فیض کا منبع ہے۔