آسمانی بجلی گرنے کے مقام کی نشاندہی کیلیے جدید آلات کی تنصیب کا آغاز

لائٹنگ ڈیٹیکٹر 100 مربع کلومیٹرکےعلاقے میں آسمانی بجلی کے گرنے کی پیشگی اطلاع دے سکتا ہے،ڈائریکٹر جنرل محکمہ موسمیات

فوٹو: فائل

پاکستان میں پہلی بار آسمانی بجلی گرنے کے مقام کی نشاندہی کے لیے ملک کے مختلف حصوں میں جدیدترین آلات کی تنصیب شروع کردی گئی ہے۔ لاہورسمیت مختلف شہروں میں 25 لائٹنگ ڈیٹیکٹرز لگائے جارہے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے ان آلات سے نہ صرف آسمانی بجلی گرنے کی پیشگی اطلاع بلکہ ہوا کی رفتار، بارش کی مقدار اور سیلاب سے متعلق بھی پیشگی اطلاع حاصل کی جا سکے گی، دوسری طرف ماہرین کا کہنا ہے اس سسٹم کی صلاحیت کافی محدود ہے تاہم کچھ نہ ہونے سے بہتر ہے۔

آسمانی بجلی گرنے کی پیشگی اطلاع دینے والے 25 لائٹنگ ڈیٹیکٹرز چین کی طرف سے پاکستان کو تحفے کے طور پردیے گئے ہیں جن کی مالیت 10 لاکھ امریکی ڈالر ہے۔

ڈائریکٹر جنرل محکمہ موسمیات مہر صاحب زاد خان نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ لائٹنگ ڈیٹیکٹرز پورے ملک میں نصب کر رہے ہیں، ان ڈیٹیکٹرز کی تنصیب کے لیے اونچے ٹاور لگائے جارہے ہیں۔ لاہور میں علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ان آلات کی تنصیب کی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نئے آلات ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب قدرتی آفات کی بروقت نشاندہی کریں گے۔

پاکستان میں ہرسال آسمانی بجلی گرنے سے کتنی اموات ہوتی ہیں، اس کے درست اعدادوشمار کسی حکومتی ادارے کے پاس نہیں ہیں تاہم محکمہ موسمیات کے حکام کا کہنا ہے ہرسال آسمانی بجلی گرنے سے اوسطا 200 افراد کی موت ہوتی ہے جبکہ مویشیوں سمیت املاک کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ پاکستان میں آسمانی بجلی گرنے کے سب سے زیادہ واقعات تھرپارکر میں رپورٹ ہوتے ہیں۔

مہرصاحب زاد نے بتایا کہ لائٹنگ ڈیٹیکٹر 100 مربع کلومیٹر کے علاقے میں آسمانی بجلی کے گرنے کی پیشگی اطلاع دے سکتا ہے۔ چین نے ایک جدید ریڈار بھی دیا ہے جس کی رینج 14 ہزار مربع کلومیٹر ہے۔اس جدید ریڈار کی مدد سے نہ صرف آسمانی بجلی گرنے کی پیشگی اطلاع بلکہ ہوا کی رفتار، بارش کی مقدار، سیلاب، فلیش فلڈنگ کے متعلق بھی پیشگی اطلاع حاصل کی جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان آلات کی تنصیب کے بعد محکمہ موسمیات پاکستان کے ہر خطے اور شہر میں آسمانی بجلی گرنے کی پیشگی اطلاع دے سکے گا۔ اب تک پاکستان میں آسمانی بجلی گرنے کی پیشگی اطلاع کا جدید نظام موجود نہیں تھا۔

ماہرین کے مطابق بارش کے لیے جب فضا میں بادل جمع ہونا شروع ہوں گے تو ان آلات کی مدد سے پتا لگایا جا سکے گا کہ کتنی بارش ہو گی، گرج چمک کے ساتھ ہو گی یا نہیں، بارش کے دوران بجلی گرنے کے امکانات کتنے ہوں گے، اور یہ ممکنہ طور پر کس مقام پر گرے گی۔


محکمہ موسمیات کے ماہرین کہتے ہیں بجلی گرنے کے درست مقام کا تعین کرنا تو مشکل ہو گا لیکن جہاں آسمانی بجلی گر سکتی ہے اس علاقے کی نشاندہی ان آلات کی مدد کی جاسکتی ہے ۔ آسمانی بجلی گرنے کی پیشگی اطلاع قومی میڈیا، ریڈیو پاکستان اور متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر ز کو دی جائے گی، جو اسے فوری طور پر مقامی ذرائع ابلاغ اورسوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچائیں گے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ لائٹنگ ڈیٹیکٹر مختلف سائز اور کوالٹی کے ہیں۔ ان کے اندرسینسر لگے ہوتے ہیں جو بادلوں میں بننے والی آسمانی بجلی کی برقی چمک کو محسوس کرکے اس کی شدت اور گرنے کی جگہ کا تعین کرتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس مخصوص علاقے میں کتنی بار بجلی گر سکتی ہے۔

واضح رہے کہ ہمسایہ ملک انڈیا 2019 نے لائٹنگ ڈیٹیکٹرز استعمال کررہا ہے ۔ انڈیامیٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے مطابق ملک کی 37 ریاستوں میں ایسے لائٹنگ آلات نصب ہیں جن کی وجہ سے آسمانی بجلی گرنے کی پیشگی اطلاع کے باعث اس وجہ سے ہونیوالی اموات میں 60 فیصد تک کمی آئی ہے۔ بھارت میں 2022 کے دوران آسمانی بجلی گرنے سے اموات کی تعداد 907 رپورٹ ہوئی تھیں۔

یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے شعبہ الیکٹریکل انجینئرنگ کے پروفیسر ڈاکٹر فہیم گوہراعوان نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کیا چائنا نے جو لائٹنگ ڈیٹیکٹنگ سسٹم فراہم کیا ہے وہ ایک ابتدا کے طور پرتو اچھا ہے ،کیونکہ اس وقت تو ہمارے پاس کوئی سسٹم نہیں ہے۔

چائنا نے جو سسٹم دیا ہے وہ وی ایل ایف/ایل ایف لائٹنگ ڈیٹیکٹنگ سسٹم ہے، یہ دنیا کے مختلف ممالک میں استعمال ہورہاہے لیکن اس کے ساتھ مزید ٹیکنالوجی بھی استعمال ہورہی ہے اس لیے اس سسٹم کی افادیت محدود ہے لیکن کچھ نہ ہونے سے تو بہتر ہے۔

ڈاکٹرفہیم گوہراعوان نے کہا کہ آسمانی بجلی گرنے کی پیشگی اطلاع دینا کافی مشکل ہے۔ جس طرح سونامی کی پیشگی اطلاع دینا مشکل ہوتا ہے لیکن اس میں پھر بھی اتنا وقت مل جاتا ہے کہ شہریوں کو خبردار کیا جاسکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آسمانی بجلی گرنے کی پیشگی اطلاع میں بہت کم وقت ملے گا۔ تاہم جوچائنا نے سسٹم دیا ہےاس کے ساتھ وی ایچ ایف سنگلز ،آپٹیکل ریڈی ایشن سگنلز اور سیٹلائٹ امیجری کو مشترکہ سسٹم میں استعمال کرتے ہوئے یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آسمانی بجلی کب اور کہاں گرے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لیے عملے کی ٹریننگ کی ضرروت بھی ہوگی۔

ماہرین کے مطابق محکمہ موسمیات اگران جدید آلات کی مدد سے آسمانی بجلی گرنے سے متعلق پیشگی معلومات حاصل کربھی لیتا ہے تو کیا یہ ممکن ہوگا کہ ملک کے دوردراز علاقوں خاص طورپرتھرپارکر میں بسنے والوں تک باآسانی یہ اطلاع پہنچائی جاسکے تاکہ وہ محفوظ مقامات پرمنتقل ہوسکیں۔

آسمانی بجلی گرنے سے نہ صرف انسانی جانیں ضائع ہوتی ہیں بلکہ عمارتوں اور برقی تنصیبات کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ آسمانی بجلی اونچی عمارتوں کو زیادہ نقصان پہنچاتی ہے اسی وجہ سے عماتوں کو ارتھ کیا جاتا ہے تاکہ وہ آسمانی بجلی گرنے کی صورت میں نقصان سے محفوظ رہیں۔
Load Next Story