بنیادی مسائل کا حل بااختیار بلدیاتی نظام

بلدیاتی اداروں میں جگہ نہ ہونے کے باوجود ہر حکومتی پارٹی وہاں اپنے لوگ بھرتی کرتی ہے

m_saeedarain@hotmail.com

عوامی سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور میں مضبوط اور بااختیار بلدیاتی نظام کی شمولیت یقینی بنائیں جس میں عام انتخابات کی طرح مقامی حکومتوں کی مدت بھی پانچ سال مقرر ہو۔

اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی اور بلدیاتی نظام کا تسلسل یقینی بنانے کے لیے آئینی ترمیم کی جائے تو ہی عوام کے بنیادی مسائل حل ہو سکیں گے۔ مضبوط اور بااختیار بلدیاتی نظام کی عدم موجودگی کے باعث عوام کو درپیش بنیادی مسائل حل نہیں ہو رہے بلکہ مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے لوگ سخت پریشان ہیں۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی پارٹیاں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی خود بااختیار اور مضبوط بلدیاتی نظام کی حمایتی نہیں رہی ہیں اور ان دونوں پارٹیوں نے ملک میں عوام کے مفاد کا نظام اپنی حکومتوں میں آنے ہی نہیں دیا بلکہ آمر کہلانے والے جنرل پرویز مشرف نے ملک کو 2001 میں جو بااختیار و مضبوط ضلعی حکومتوں کا نظام دیا تھا وہ 2008 میں اقتدار میں آنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے سندھ و پنجاب کی اپنی اپنی حکومتوں میں ختم کر دیا تھا اور صوبہ سرحد میں اے این پی اور پی پی کی مخلوط حکومت نے ختم کردیا تھا۔

بلوچستان میں بھی پی پی کی مخلوط حکومت تھی جہاں صوبے کے سردار اور بااثر لوگ بھی ضلعی نظام کے خلاف تھے اس لیے چاروں صوبائی حکومتوں نے اقتدار میں آتے ہی پہلا وار مقامی حکومتوں پر کیا تھا اور جنرل پرویز مشرف نے ضلعی حکومتوں کو ختم کر کے جنرل ضیا الحق کا 1979 کے دور کا بے اختیار اور کمزور بلدیاتی نظام اپنی اسمبلیوں کے ذریعے منظور کرا کے ثابت کیا تھا کہ سیاسی حکومتوں میں آمرانہ حکومتوں کے دیے گئے بلدیاتی نظام کے مقابلے میں عوام کو بااختیار مقامی حکومتوں جیسا کوئی بھی نظام دینے کی صلاحیت ہی نہیں تھی۔ سیاسی حکومتوں نے اپنی حکومتوں میں جنرل ضیا کے مارشل لا سے قبل بھی ملک کو بااختیار بلدیاتی نظام دیا نہ بلدیاتی انتخابات کرائے۔

ملک میں پہلی بار بنیادی جمہوریت کے لیے بی ڈی سسٹم کے تحت جنرل ایوب خان نے کرائے تھے جس کے بعد 1979 سے 1987 تک تین بلدیاتی انتخابات جنرل ضیا نے اور 2001 میں اور 2005 میں جنرل پرویز نے کرائے تھے۔


2008 کے بعد اقتدار میں آنے والی کسی سیاسی حکومت نے انتخابات نہیں کرائے اور 2015 کے بلدیاتی انتخابات بھی سپریم کورٹ کے حکم پر کرائے گئے تھے جو جماعتی بنیاد پر تھے جب کہ جنرلوں کے دور میں ہونے والے 6 بلدیاتی الیکشن غیر جماعتی ہوئے تھے۔

2015 کے جماعتی بلدیاتی الیکشن میں صوبوں میں برسر اقتدار مسلم لیگ (ن)، پی پی اور پی ٹی آئی نے سرکاری اثر و رسوخ استعمال کرکے اپنی پارٹی کے امیدواروں کو کامیاب کرایا تھا اور چاروں صوبوں میں بے اختیار اور کمزور بلدیاتی نظام بھی ان تینوں پارٹیوں نے ہی دیے تھے اور کوئی پارٹی اپنے صوبے کو بااختیار اور مضبوط نظام دینا ہی نہیں چاہتی تھی کیونکہ ارکان اسمبلی ہی نہیں چاہتے کہ مضبوط بلدیاتی نظام یا بااختیار مقامی حکومتیں قائم ہوں اور ارکان اسمبلی کی من مانیاں ختم ہوں۔

ہر صوبے کا محکمہ بلدیات تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتا ہے اور نچلی سطح کے بلدیاتی اختیارات برائے نام ہی بلدیاتی عہدیداروں کو دیتا ہے تاکہ ارکان اسمبلی کی اہمیت برقرار رہے اور بلدیاتی عہدیدار ان کے محتاج رہیں۔

ملک میں تمام ہی محکموں میں کرپشن ہے مگر بلدیاتی اداروں میں کرپشن سب سے زیادہ ہے اور ہر صوبے میں وزیر اعلیٰ کے بعد وزیر بلدیات کا عہدہ اہم ہے۔

بلدیاتی اداروں میں جگہ نہ ہونے کے باوجود ہر حکومتی پارٹی وہاں اپنے لوگ بھرتی کرتی ہے۔جو سرکاری گرانٹ بلدیاتی اداروں کا حق ہے وہ سیاسی رشوت کے طور پر ارکان اسمبلی کو ترقیاتی کاموں کے نام پر دے دی جاتی ہے تو ارکان اسمبلی ان اداروں میں کیوں اختیارات اور الیکشن چاہیں گے اور بااختیار و مضبوط مقامی حکومتیں اور ان کے باقاعدہ انتخابات آئینی ترمیم کے بغیر ممکن نہیں اور کوئی بھی وفاقی یا صوبائی حکومت آئین میں ترمیم ہونے نہیں دے گی تو ملک میں بااختیار مقامی حکومتیں کون قائم ہونے دے گا۔

ایسی تجاویز بس دی تو جا سکتی ہیں مگر اصل مسئلہ عمل کا ہے اور بلدیاتی الیکشن اور مضبوط و بااختیار بلدیاتی ادارے آمرانہ حکومتوں میں ہی میسر آئے ہیں نام نہاد جمہوری حکومتیں آئین میں ایسی ترامیم کبھی نہیں ہونے دیں گی۔
Load Next Story