’امیدِ صبح جمال رکھنا‘ 2024ء میں نئے عزم اور بلند حوصلے کے ساتھ۔۔
گزرے برس کی تلخیوں کو ماضی تک محدود کرنا ضروری ہے
پرانے سال کی ٹھٹھرتی پرچھائیاں سمٹیں۔۔۔ نئے دن کا نیا سورج اُفق پہ اُٹھتا نظر آیا۔۔۔ زمین نے پھر نئے سرے سے نیا رخت باندھا۔۔۔ خوشی میں ہر قدم پر آفتاب آنکھیں بچھاتا نظر آیا!
سال کے سفر میں، موسموں کی پت جھڑ میں، لمحوں نے کیا جادو دکھایا سوئے ہم 2023ء کی بانہوں میں اور اٹھے تو سال 2024ء ہاتھ تھامے ہوئے نظر آیا۔ ایک سال آرہا ہے، ایک سال جا رہا ہے، لمحوں کی جستجو کرتے کچھ پرانے، کچھ نئے خوابوں میں رنگ بھرتے ہوئے ہم زندگی کے سفر کے ان گنت لمحات بتاتے ہیں۔ کچھ خوشی، کچھ غم، کچھ آہیں لیے، کچھ گیت گاتے ہوئے، ایک سفرِ مسلسل ہے، جو ہمیں رواں دواں رکھتا ہے۔
'دل ناداں تیری آرزو کیا ہے جستجو کیا ہے؟' پوچھتے ہوئے سالوں کا سفر طے کرتے ہوئے سال 2023ء سے قدم ہٹے، اور 2024ء اپنا روشن چہرہ لیے، نئی امیدیں لیے سالوں کے دوراہے پر کھڑا، نیا سفر شروع کرنے کے لیے تیار نظر آیا تو فوراً ہی ہاتھوں کی دونوں ہتھیلیاں جُڑیں اور ہاتھ اٹھا کر خدا کے حضور اس نئے سال کے لیے یوں دعا کرا گئیں۔
''ہر پھیلی ہتھیلی کی دعاؤں کو دعائیں۔۔۔ ہر پاؤں کو منزل کی طرف نئی چال مبارک ہو!''
کیوں کہ نئے سال پر قدم رکھتے ہی دل دھڑک دھڑک جاتا ہے کہ جانے اگلا لمحہ کیا ہو، کیوں کہ نیا سال محض کیلینڈر پر تاریخ بدلنے کا ہی نام نہیں، بلکہ ان ہی بدلتے لمحوں کی کہانی جو سال '' آس نراس، امید، ناامیدی، دکھ سکھ، خوشی و غم کو اپنی بانہوں میں لیے ہمارا منتظر ہے۔ ایک نیا امتحان اور ایک نئی راہ گزر ، ایک نیا سفر لیے کہہ رہا ہے۔
''اک اور سویرا جاگ اٹھا۔۔۔ راہیں بھی نئی۔۔۔ اک اور سفر کی بات کرو۔۔۔ رہ گزر نئے۔۔۔ ایسے میں پسینا کیا ہوگا۔۔۔ اب خون جگر کی بات کرو!''
اور نئے سال کی اسی آمد پر میری عزیز سہیلی کا یاس و ناامیدی میں ڈوبا ہوا جملہ ''پچھلا سال ہماری کون سی امیدیں پوری کر گیا، جو اس سال کے لیے دعائیں مانگیں۔'' سن کر دل کو ایسا دھچکا لگا کہ بے اختیار قلم تھاما ''یہ کلمات خدا کی اس دی ہوئی نعمت اور زندگی کی ناشکری ہے۔
خدا نے آپ کو صحت کے ساتھ نئے سال کی سویر دکھائی ہے، تو اس نعمت خداوندی کی شکر گزاری کے ساتھ آنے والے وقت کے لیے دعا بھی انتہائی ضروری ہیں، کیوں کہ دعائیں ہی ناممکن کو ممکن بناتی ہیں۔ راستہ بناتی ہیں، منزل تک پہنچاتی ہیں۔ پچھلا سال اگر غم و اندوہ اور دکھوں کا سال تھا، آنسوؤں کا پیغام تھا، دکھ کی لکیر تھا، یا خوشیوںکی زنجیر تھا، جو اپنے ان گنت پہلو دکھاکر آپ کی جھولی تلخ وشیریں یادوں سے بھرگیا تو یہ ضروری تو نہیں کہ یہ نیا سال بھی آپ کے لیے وہی کچھ لائے۔
کیا خبر یہ سال آپ کا دامن اتنی خوشیوں سے بھر دے۔ کتنی نئی امیدیں جگا دے، کتنے ادھورے خوابوں کی تکمیل کر دے، کون جانے یہ سال آپ کے لیے پچھلے تمام سالوں سے بڑھ کر ثابت ہو اور آپ جو تھکے، ٹوٹے ہمت ہارے بیٹھے ہوئے ہیں فوراً ہی کہہ اٹھیں۔ ''واقعی ایک سا وقت رہتا نہیں'' اس نئے سال کی خوشیاں سمیٹنے کے لیے دیپ جلائیں، پھر دیکھیے آپ کا یہ سال آپ کی امنگوں کا ترجمان بن کر آپ کی امیدوں کے وہ پھول کھلائے گا، جو پچھلے سال کھلنے سے رہ گئے۔ سمیٹنے سے پہلے بکھر گئے، بن کھلے مرجھا گئے۔
راستے کی دشواریاں پھول بن کر سمٹ جائیں گی، عزم کا نشان، منزلوں کے حصول کا نشان بن جائے گا، قدم بہ قدم اٹھتا ہوا مقصد حیات کو پالے گا، انھی سمٹے ہوئے اپنے پچھلے سال کے دکھوں کی تشہیر مت کیجیے کیوں کہ ہنستے میں سب ساتھ دیتے ہیں اور روتے میں تو سایہ بھی آپ کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔
اس لیے ان دکھوں و غموں کو سینے کی گہرائیوں میں چھپاکر دفن کر کے مسکرانا سیکھیے۔ دنیا کو وہ چہرہ دکھائیے جو پھولوں پر شبنمی قطرے لیے مسکراتا ہے۔
زندگی غم و خوشی کی دھوپ چھاؤں ہے جو یونھی قدم بڑھاتے ہوئے آپ کو لڑنا سکھاتی ہے، جینا سکھاتی ہے، حادثوں سے ہار جانا، فطرت آدم نہیں، حادثے تو ایسے ہی کھیلتے ہیں زندگی کے ساتھ، وقت مرہم بن کر ان زخموں کو مندمل کرتا ہے، دکھ کی چبھن کم کرتا ہے، پلکوں کے ستارے چن کر، سکھ کی گھنی چھاؤں بکھیر کر، دکھ کی کڑی دھوپ میں وہ سایہ کرتا ہے کہ آنے والا سال امیدوں کا جگمگاتا ہوا کارواں بن جاتا ہے۔
یاد رکھیے زندگی کا یہ سفر، زندگی کے نشیب و فراز سے نبرد آزما ہوتے ہوئے لمحوں کی جستجو میں، لاحاصل کو حاصل بنانے کے سبب ہی رواں دواں ہے، امیدوں کے کھلتے ڈھلتے جھڑتے پھولوں ہی میں، کہیں دعائیں عمر بن کر لگ جاتی ہیں اور کہیں راہ حیات کا یہ سفر تھم کر یہ نوحہ سناتا ہے کہ شجرِ عمر کا ایک پتّا اور گرا، گرتے ہی فنا ہوکر، لمحوں کی کہانی کو دُہراتا ہے، جستجو کے شوق کو بڑھاتا ہے کہ کچھ کرنا ہے تو کرلو، جانا تو سب نے وہیں ہی ہے جہاں کا خمیر ہے۔
جس مٹی سے بنے ہیں، اسی مٹی میں مل جانا ہے، مٹی ہو جانا ہے، مٹی بن جانا ہے تو پھر اس خاک کے پتلے میں ایک جان ڈالنے کے لیے کوئی تو عزم چاہیے، کوئی تو رنگ اس بے رنگ خاک میں بھرنا چاہیے، جو مرکر بھی نہ مٹے۔ رنگوں سے بنے نقش و نگار میں، برش کی جلوہ آرائیوں میں، قلم کی شعلہ بیانیوں میں، سوز و آواز کی لن ترانیوں میں، ذہن کے افق پر تازہ ہوکر کوئی نہ کوئی پیغام دیتا رہے، کوئی نہ کوئی ایسا گیت سناتا رہے کہ آپ کے نقش کو مدہم ہونے کے بجائے یوں ابھارتا رہے، یوں آپ کی یاد دلاتا رہے کہ لاکھ بھلانے کے باوجود آپ ذہن سے محو نہ ہوسکے، مٹی میں نہ چھپ سکیں بلکہ لمحوں کی بازگشت میں چھپا ہوا آپ کی ذات کا مصرع وقت کے ساتھ گنگناتا رہے۔
عمر کی یہ جاودانی، لمحوں کی جستجو ہی میں چھپی ہے۔ ذرا انہیں آواز دے کر ہی دیکھ لیں شاید یہ آپ کے ہاتھ آجائے ورنہ ''عمر کا یہ سفر رائیگاں تو ہے۔''
کل کون ہمیں کیسے یاد رکھے گا، کیسے ہماری کہانی سنائے گا کہ ہم نے آج اس 'کل' کے لیے کوئی لمحہ کار آمد بنایا ہے یا نہیں، شاید آپ کہیں کہ ''وہ لمحہ ہمیں ملا ہی نہیں'' بھلا یہ کیوں کر ممکن ہے۔ خدا نے کسی کو بلامقصد تخلیق نہیں کیا۔
ہر سینے میں دھڑکتا ہوا دل (جو احساسات وجذبات سے مزین ہے) اور سوچوں سے بھرا دماغ موجود ہے، جو ہماری تخلیق کے مقصد کو پورا کرنے میں، ہمیں مکمل کرنے کے لیے ہمہ وقت ہمارے ساتھ اور تیار ہے۔ زندگی میں ایسے لمحے آتے ضرور ہیں لیکن ہم اپنی کاہلی و سستی سے آج نہیں کل، کل نہیں پرسوں پر ٹالتے ہوئے اس لمحہ سے کُھنچ جاتے ہیں۔
وہ لمحہ کو کُھنچ گیا یعنی آپ کے ہاتھ سے نکل گیا تو وہ کبھی آپ کے ہاتھ نہیں آتا۔ سو لمحوں کے بوجھ میں سے اس لمحہ کا بوجھ کم کیجیے، جو آپ کو بے قرار و بے چین کرتا ہے، کچھ کرنے اور بننے پر اکساتا ہے۔ دست رَس میں آئے ہوئے اس لمحے سے بھرپور فائدہ اٹھائیے، کیوں کہ اس ایک لمحے کو آپ تمام عمر کی جستجو کے بعد بھی نہیں پا سکتے، حاصل نہیں کر سکتے، کیوں کہ وہ آپ کی محنتوں کا انعام اور ریاضتوں کا وہ پھل ہوتا ہے، جو غیر متوقع طور پر آپ کی کسی دعا کی قبولیت کا مظہر ہوتا ہے، جو آپ کے ''کل کر لیں گے'' کے شور میں دب کر آپ کی غفلتوں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔
وہ گوہر مقصود آپ کی جھولی میں گرتے گرتے رہ جاتا ہے، جس کے لیے آپ نے گڑگڑاکر دعائیں مانگی تھیں، سجدے کیے تھے وہ لمحہ نہ دکھائی دینے والے ''کل'' کی نذر ہو جاتا ہے ''کل'' کس نے دیکھا ہے، کل تو اَن دیکھے خوابوںکا ایک سفر ہے، اَن دیکھی منزلوں کا نشان ہے، جو وقت کی کتنی تہوں اور انبار تلے چھپا ہوا ہے۔
اس لیے آپ خواتین خانہ ہوں یا کسی بھی شعبے کی ماہر خاتون، جو کرنا ہے آج ہی شروع کیجیے، نئے سفر میں پہلا قدم یہ سوچ کر اٹھائیے کہ وقت میں جان ڈالنی ہے ہر لمحے کو قیمتی سمجھیے، ہر پل کو غنیمت جانیے، زندگی اتنی لمبی نہیں کہ اسے کل پر ٹالا جائے۔
جو سوچا ہے جو مدعا ہے، جو کچھ کرنا چاہتے ہیں آج ہی پلان کیجیے، وقت کرتا نہیں، بہتے ہوئے پانی کی تیز دھارے کی طرح بہتا ہی جاتا ہے اور اپنے ساتھ ہمیں بھی بہائے لیے جاتا ہے، عمر کی منزلیں طے کراتا ہوا اس حد تک پہنچا دیتا ہے جہاں سے آگے سارے راستے مسدود ہیں، بند ہیں، کوئی راہ فرار بھی نہیں۔ اس لیے بیتے پلوں کی کہانی بننے سے پہلے ایسا کچھ کر دکھائیے کہ آپ وقت کے ماتھے کا جھومر بن کر چمک اٹھیں۔
اب اس سال 2024ء میں جو ارادے ہیں، جو بھی سوچیں ہیں، انھیں پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا عزم کیجیے ان حسرتوں پر افسوس کرنا، جو ناتمام رہ گئیں، ان خوشیوں کے حصول کے لیے ماتھا رگڑنا اب بے کار ہے۔ جو بیت گیا، سو بیت گیا، پچھلے سال کی تلخیاں و غم بھلاکر دعاؤں کے ساتھ رب سے یہ دعا کریں جو ہم بھی آپ کے لیے کر رہے ہیں؎
نہ کوئی رنج کا لمحہ تیرے پاس آئے
خدا کرے نیا سال سب کو راس آئے
سال کے سفر میں، موسموں کی پت جھڑ میں، لمحوں نے کیا جادو دکھایا سوئے ہم 2023ء کی بانہوں میں اور اٹھے تو سال 2024ء ہاتھ تھامے ہوئے نظر آیا۔ ایک سال آرہا ہے، ایک سال جا رہا ہے، لمحوں کی جستجو کرتے کچھ پرانے، کچھ نئے خوابوں میں رنگ بھرتے ہوئے ہم زندگی کے سفر کے ان گنت لمحات بتاتے ہیں۔ کچھ خوشی، کچھ غم، کچھ آہیں لیے، کچھ گیت گاتے ہوئے، ایک سفرِ مسلسل ہے، جو ہمیں رواں دواں رکھتا ہے۔
'دل ناداں تیری آرزو کیا ہے جستجو کیا ہے؟' پوچھتے ہوئے سالوں کا سفر طے کرتے ہوئے سال 2023ء سے قدم ہٹے، اور 2024ء اپنا روشن چہرہ لیے، نئی امیدیں لیے سالوں کے دوراہے پر کھڑا، نیا سفر شروع کرنے کے لیے تیار نظر آیا تو فوراً ہی ہاتھوں کی دونوں ہتھیلیاں جُڑیں اور ہاتھ اٹھا کر خدا کے حضور اس نئے سال کے لیے یوں دعا کرا گئیں۔
''ہر پھیلی ہتھیلی کی دعاؤں کو دعائیں۔۔۔ ہر پاؤں کو منزل کی طرف نئی چال مبارک ہو!''
کیوں کہ نئے سال پر قدم رکھتے ہی دل دھڑک دھڑک جاتا ہے کہ جانے اگلا لمحہ کیا ہو، کیوں کہ نیا سال محض کیلینڈر پر تاریخ بدلنے کا ہی نام نہیں، بلکہ ان ہی بدلتے لمحوں کی کہانی جو سال '' آس نراس، امید، ناامیدی، دکھ سکھ، خوشی و غم کو اپنی بانہوں میں لیے ہمارا منتظر ہے۔ ایک نیا امتحان اور ایک نئی راہ گزر ، ایک نیا سفر لیے کہہ رہا ہے۔
''اک اور سویرا جاگ اٹھا۔۔۔ راہیں بھی نئی۔۔۔ اک اور سفر کی بات کرو۔۔۔ رہ گزر نئے۔۔۔ ایسے میں پسینا کیا ہوگا۔۔۔ اب خون جگر کی بات کرو!''
اور نئے سال کی اسی آمد پر میری عزیز سہیلی کا یاس و ناامیدی میں ڈوبا ہوا جملہ ''پچھلا سال ہماری کون سی امیدیں پوری کر گیا، جو اس سال کے لیے دعائیں مانگیں۔'' سن کر دل کو ایسا دھچکا لگا کہ بے اختیار قلم تھاما ''یہ کلمات خدا کی اس دی ہوئی نعمت اور زندگی کی ناشکری ہے۔
خدا نے آپ کو صحت کے ساتھ نئے سال کی سویر دکھائی ہے، تو اس نعمت خداوندی کی شکر گزاری کے ساتھ آنے والے وقت کے لیے دعا بھی انتہائی ضروری ہیں، کیوں کہ دعائیں ہی ناممکن کو ممکن بناتی ہیں۔ راستہ بناتی ہیں، منزل تک پہنچاتی ہیں۔ پچھلا سال اگر غم و اندوہ اور دکھوں کا سال تھا، آنسوؤں کا پیغام تھا، دکھ کی لکیر تھا، یا خوشیوںکی زنجیر تھا، جو اپنے ان گنت پہلو دکھاکر آپ کی جھولی تلخ وشیریں یادوں سے بھرگیا تو یہ ضروری تو نہیں کہ یہ نیا سال بھی آپ کے لیے وہی کچھ لائے۔
کیا خبر یہ سال آپ کا دامن اتنی خوشیوں سے بھر دے۔ کتنی نئی امیدیں جگا دے، کتنے ادھورے خوابوں کی تکمیل کر دے، کون جانے یہ سال آپ کے لیے پچھلے تمام سالوں سے بڑھ کر ثابت ہو اور آپ جو تھکے، ٹوٹے ہمت ہارے بیٹھے ہوئے ہیں فوراً ہی کہہ اٹھیں۔ ''واقعی ایک سا وقت رہتا نہیں'' اس نئے سال کی خوشیاں سمیٹنے کے لیے دیپ جلائیں، پھر دیکھیے آپ کا یہ سال آپ کی امنگوں کا ترجمان بن کر آپ کی امیدوں کے وہ پھول کھلائے گا، جو پچھلے سال کھلنے سے رہ گئے۔ سمیٹنے سے پہلے بکھر گئے، بن کھلے مرجھا گئے۔
راستے کی دشواریاں پھول بن کر سمٹ جائیں گی، عزم کا نشان، منزلوں کے حصول کا نشان بن جائے گا، قدم بہ قدم اٹھتا ہوا مقصد حیات کو پالے گا، انھی سمٹے ہوئے اپنے پچھلے سال کے دکھوں کی تشہیر مت کیجیے کیوں کہ ہنستے میں سب ساتھ دیتے ہیں اور روتے میں تو سایہ بھی آپ کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔
اس لیے ان دکھوں و غموں کو سینے کی گہرائیوں میں چھپاکر دفن کر کے مسکرانا سیکھیے۔ دنیا کو وہ چہرہ دکھائیے جو پھولوں پر شبنمی قطرے لیے مسکراتا ہے۔
زندگی غم و خوشی کی دھوپ چھاؤں ہے جو یونھی قدم بڑھاتے ہوئے آپ کو لڑنا سکھاتی ہے، جینا سکھاتی ہے، حادثوں سے ہار جانا، فطرت آدم نہیں، حادثے تو ایسے ہی کھیلتے ہیں زندگی کے ساتھ، وقت مرہم بن کر ان زخموں کو مندمل کرتا ہے، دکھ کی چبھن کم کرتا ہے، پلکوں کے ستارے چن کر، سکھ کی گھنی چھاؤں بکھیر کر، دکھ کی کڑی دھوپ میں وہ سایہ کرتا ہے کہ آنے والا سال امیدوں کا جگمگاتا ہوا کارواں بن جاتا ہے۔
یاد رکھیے زندگی کا یہ سفر، زندگی کے نشیب و فراز سے نبرد آزما ہوتے ہوئے لمحوں کی جستجو میں، لاحاصل کو حاصل بنانے کے سبب ہی رواں دواں ہے، امیدوں کے کھلتے ڈھلتے جھڑتے پھولوں ہی میں، کہیں دعائیں عمر بن کر لگ جاتی ہیں اور کہیں راہ حیات کا یہ سفر تھم کر یہ نوحہ سناتا ہے کہ شجرِ عمر کا ایک پتّا اور گرا، گرتے ہی فنا ہوکر، لمحوں کی کہانی کو دُہراتا ہے، جستجو کے شوق کو بڑھاتا ہے کہ کچھ کرنا ہے تو کرلو، جانا تو سب نے وہیں ہی ہے جہاں کا خمیر ہے۔
جس مٹی سے بنے ہیں، اسی مٹی میں مل جانا ہے، مٹی ہو جانا ہے، مٹی بن جانا ہے تو پھر اس خاک کے پتلے میں ایک جان ڈالنے کے لیے کوئی تو عزم چاہیے، کوئی تو رنگ اس بے رنگ خاک میں بھرنا چاہیے، جو مرکر بھی نہ مٹے۔ رنگوں سے بنے نقش و نگار میں، برش کی جلوہ آرائیوں میں، قلم کی شعلہ بیانیوں میں، سوز و آواز کی لن ترانیوں میں، ذہن کے افق پر تازہ ہوکر کوئی نہ کوئی پیغام دیتا رہے، کوئی نہ کوئی ایسا گیت سناتا رہے کہ آپ کے نقش کو مدہم ہونے کے بجائے یوں ابھارتا رہے، یوں آپ کی یاد دلاتا رہے کہ لاکھ بھلانے کے باوجود آپ ذہن سے محو نہ ہوسکے، مٹی میں نہ چھپ سکیں بلکہ لمحوں کی بازگشت میں چھپا ہوا آپ کی ذات کا مصرع وقت کے ساتھ گنگناتا رہے۔
عمر کی یہ جاودانی، لمحوں کی جستجو ہی میں چھپی ہے۔ ذرا انہیں آواز دے کر ہی دیکھ لیں شاید یہ آپ کے ہاتھ آجائے ورنہ ''عمر کا یہ سفر رائیگاں تو ہے۔''
کل کون ہمیں کیسے یاد رکھے گا، کیسے ہماری کہانی سنائے گا کہ ہم نے آج اس 'کل' کے لیے کوئی لمحہ کار آمد بنایا ہے یا نہیں، شاید آپ کہیں کہ ''وہ لمحہ ہمیں ملا ہی نہیں'' بھلا یہ کیوں کر ممکن ہے۔ خدا نے کسی کو بلامقصد تخلیق نہیں کیا۔
ہر سینے میں دھڑکتا ہوا دل (جو احساسات وجذبات سے مزین ہے) اور سوچوں سے بھرا دماغ موجود ہے، جو ہماری تخلیق کے مقصد کو پورا کرنے میں، ہمیں مکمل کرنے کے لیے ہمہ وقت ہمارے ساتھ اور تیار ہے۔ زندگی میں ایسے لمحے آتے ضرور ہیں لیکن ہم اپنی کاہلی و سستی سے آج نہیں کل، کل نہیں پرسوں پر ٹالتے ہوئے اس لمحہ سے کُھنچ جاتے ہیں۔
وہ لمحہ کو کُھنچ گیا یعنی آپ کے ہاتھ سے نکل گیا تو وہ کبھی آپ کے ہاتھ نہیں آتا۔ سو لمحوں کے بوجھ میں سے اس لمحہ کا بوجھ کم کیجیے، جو آپ کو بے قرار و بے چین کرتا ہے، کچھ کرنے اور بننے پر اکساتا ہے۔ دست رَس میں آئے ہوئے اس لمحے سے بھرپور فائدہ اٹھائیے، کیوں کہ اس ایک لمحے کو آپ تمام عمر کی جستجو کے بعد بھی نہیں پا سکتے، حاصل نہیں کر سکتے، کیوں کہ وہ آپ کی محنتوں کا انعام اور ریاضتوں کا وہ پھل ہوتا ہے، جو غیر متوقع طور پر آپ کی کسی دعا کی قبولیت کا مظہر ہوتا ہے، جو آپ کے ''کل کر لیں گے'' کے شور میں دب کر آپ کی غفلتوں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔
وہ گوہر مقصود آپ کی جھولی میں گرتے گرتے رہ جاتا ہے، جس کے لیے آپ نے گڑگڑاکر دعائیں مانگی تھیں، سجدے کیے تھے وہ لمحہ نہ دکھائی دینے والے ''کل'' کی نذر ہو جاتا ہے ''کل'' کس نے دیکھا ہے، کل تو اَن دیکھے خوابوںکا ایک سفر ہے، اَن دیکھی منزلوں کا نشان ہے، جو وقت کی کتنی تہوں اور انبار تلے چھپا ہوا ہے۔
اس لیے آپ خواتین خانہ ہوں یا کسی بھی شعبے کی ماہر خاتون، جو کرنا ہے آج ہی شروع کیجیے، نئے سفر میں پہلا قدم یہ سوچ کر اٹھائیے کہ وقت میں جان ڈالنی ہے ہر لمحے کو قیمتی سمجھیے، ہر پل کو غنیمت جانیے، زندگی اتنی لمبی نہیں کہ اسے کل پر ٹالا جائے۔
جو سوچا ہے جو مدعا ہے، جو کچھ کرنا چاہتے ہیں آج ہی پلان کیجیے، وقت کرتا نہیں، بہتے ہوئے پانی کی تیز دھارے کی طرح بہتا ہی جاتا ہے اور اپنے ساتھ ہمیں بھی بہائے لیے جاتا ہے، عمر کی منزلیں طے کراتا ہوا اس حد تک پہنچا دیتا ہے جہاں سے آگے سارے راستے مسدود ہیں، بند ہیں، کوئی راہ فرار بھی نہیں۔ اس لیے بیتے پلوں کی کہانی بننے سے پہلے ایسا کچھ کر دکھائیے کہ آپ وقت کے ماتھے کا جھومر بن کر چمک اٹھیں۔
اب اس سال 2024ء میں جو ارادے ہیں، جو بھی سوچیں ہیں، انھیں پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا عزم کیجیے ان حسرتوں پر افسوس کرنا، جو ناتمام رہ گئیں، ان خوشیوں کے حصول کے لیے ماتھا رگڑنا اب بے کار ہے۔ جو بیت گیا، سو بیت گیا، پچھلے سال کی تلخیاں و غم بھلاکر دعاؤں کے ساتھ رب سے یہ دعا کریں جو ہم بھی آپ کے لیے کر رہے ہیں؎
نہ کوئی رنج کا لمحہ تیرے پاس آئے
خدا کرے نیا سال سب کو راس آئے