ننھی کلیوں کو رندنے سے بچائیے

چند مفید باتیں جو ہر ماں کو ضرور جاننی چاہئیں

چند مفید باتیں جو ہر ماں کو ضرور جاننی چاہئیں ۔ فوٹو : فائل

آئے روز معصوم کلیوں کو روندھے جانے کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں اور پھر بچوں کو اس حوالے سے خصوصی تعلیم کی ایک بحث شروع ہوجاتی ہے۔

میں نہیں سمجھتی کہ آپ اپنے بیٹا یا بیٹی کا ہاتھ پکڑے انھیں سامنے بیٹھائے اور کوئی لیکچر دے ڈالیں، کچھ فعل بے ضرر ہوتے ہیں، مگر وہ فعل ہی بچوں کا مستقبل محفوظ کررہے ہوتے ہیں معمعولی سے کچھ امور ایسے ہیں، جو مائیں سرانجام دے رہی ہوتی ہیں اور انھیں احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ غلط کررہی ہیں ان امور سے خود کو روک کر بچوں کا مستقبل محفوظ بنایا جاسکتا ہے آئیں ان چند امور کی جانب میں آپ کی توجہ مبذول کراتی ہوں۔

کزن کے ساتھ باہر آنا جانا

ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہے جہاں بہت سی جگہوں پر مشترکہ خاندانی نظام موجود ہیں۔ سب اکٹھے رہتے ہیں، ایسے میں کزن بھی اکٹھے اٹھتے بیٹھتے ہیں، دوستانہ ماحول کھیل کود معمول کا حصہ ہوتا ہے اور اس کا ہونا بھی کچھ غلط نہیں۔ مگر بچیوں کو غیروں سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ بڑے ہونے کے دوران کزن کے ساتھ بھی باہر بھیجنے سے گریز کیا جائے تاکہ وہ کسی غیر کے ساتھ باہر جانے سے خود ہی اجتناب برتے۔

٭ پبلک ٹرانسپورٹ میں احتیاط

اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ رکشے کی پچھلی سیٹ پر خواتین سوار ہیں اور آگے ڈرائیور کے ساتھ چھوٹی عمر کی بچی بیٹھی ہوئی ہے۔ جو ماں اس وقت پچھلی سیٹ پر براجمان ہوتی ہے اس کی یہیں سوچ ہوتی ہے کہ چوں کہ وہ ساتھ ہے اس لیے ڈرائیور کوئی بدنیتی نہیں کرے گا، یقیناً ڈرائیور آپ کے زیر نگرانی ہونے کے باعث کسی بھی عمل سے خود کو باز رکھے گا۔ مگر جب آپ موجود نہیں ہوں گی اور اسکول وین ڈرائیور بچی کو اگلی سیٹ پر اپنے ساتھ بٹھائے گا، تو وہ اسے غلط نہیں سمجھے گی کیوں کہ وہ آپ کے زیر نگرانی ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ چکی ہوگی۔

٭ استاد کے پاس اکیلے پڑھنے بھیجنا

یوں تو ہمارے معاشرے میں پردے کا رواج روز بہ روز کم ہورہا ہے، مگر اگر آپ پردہ کرتی ہیں اور گھر میں کوئی 'ٹیوٹر' یا قاری صاحب بیٹا بیٹی کو پڑھانے آتے ہیں، تو اس بات کا دھیان رکھیے کہ کبھی بند کمرے میں بچے کو اکیلے پڑھنے نہ بھیجیے جس کمرے میں بچہ پڑھ رہا ہو اس کہ آس پاس موجود رہیے اور اگر آپ کے لیے چل پھر کر دھیان رکھنا ممکن نہیں تو بہتر ہے برقع پہن کر اس کمرے میں ہی بیٹھ جائے جہاں بچے کو پڑھایا جا رہا ہے ۔

٭ باہر رہنا

آج کل زیادہ دیر باہر رہنا اور رات گئے گھر لوٹنا عام ہوتا جا رہا ہے، مگر ہمیں ہمیشہ اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے بچوں کو ایسے موقع پر باہر بھیجتے ہوئے احتیاط کریں، کہ ان کے ساتھ کوئی بڑا ہو، اور وہ لوگ کس عمر کے لڑکے لڑکیاں ہیں وغیرہ وغیرہ۔

یہ تو وہ عوامل ہوگئے جو بے دھیانی میں ہو رہے ہیں اور ان سے اجتناب ضروری ہے، اس کے ساتھ ساتھ کچھ احتیاطی تدابیر اپنا کر بھی بچوں کو سمجھایا جاسکتا ہے۔


٭ حرکات و سکنات

جیسے جیسے بچے بڑے ہونے لگتے ہیں ویسے ویسے ان کا مشاہدہ بڑھنے لگتا ہے اس لیے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اردگرد کے ماحول میں موجود حرکات و سکنات پر غور کیا جائے اور ان عناصر سے دور رکھا جائے جس سے صنفی جذباتی تحریک ملنے کا اندیشہ ہو ۔

٭ چینل کنٹرول

افسوس یہ ہے کہ ہمارا کچھ چینلزیادہ ہی آزاد ہوگئے ہیں۔ اس لیے اس امر کی ضرورت ہے کہ ٹی وی پر چلنے والے مواد پر نظر رکھی جائے، موبائل پر احتیاطی تدابیر رکھی جائیں، تاکہ بچوں کی عمر کے موافق مواد ہی ان کے سامنے ہو۔ ان کے سامنے فلموں اور ڈراموں کو دیکھنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لیجیے۔

٭ علیحدہ کمرے

سات سال کی عمر کے بعد اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ بچوں کے کمرے الگ کر دیے جائیں، بالخصوص بہنوں اور بھائیوں کے کمرے الگ ہونا ضروری ہیں۔

٭ اخلاقیات

بچوں کو یہ بات سیکھائیے کہ وہ والدین کے بھی کمرے میں آنے سے پہلے دروازے پر دستک دیا کریں، تاکہ انھیں اس بات کا اندازہ ہو کہ ہر کسی کی کچھ حدود ہوتی ہیں اور ان کا احترام کرنا ان پر فرض ہے، پھر وہ ہمیشہ دروازہ کھٹکھٹا کر ہی کمرے میں آئیں گے۔

٭ جانچ پڑتال

آپ کو اگر کبھی اپنا بچہ بلاوجہ اداس دیکھائے دے، تو اس سے ضرور جانچ پڑتال کریں، تاکہ ان ہونی ہونے سے پہلے روکی جاسکے۔ عمومی طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ کچھ قریبی رشتے دار بچوں کی پشت پر ہنسی مذاق میں ہاتھ مار دیتے ہیں، میرے خیال میں اس عمل سے گریز کرنا ضروری ہے، تاکہ بچے کے اندر اس حوالے سے آگاہی آئے کہ ان مقامات کا تعلق شرم وحیا سے ہے، اور اس جگہ کسی کو چھونا نہیں چاہیے۔

ان احتیاطی تدابیر کے ساتھ سب سے اہم ہے والدین کا دوستانہ رویہ اور اس بات کا احساس کہ ہر ذمہ داری کو کسی دوسرے کے ساتھ بانتا جا سکتا ہے، مگر بری الذمہ نہیں ہوا جا سکتا، چاہے وہ اسکول، مدرسہ لینے یا چھوڑنا ہو یا پھر پڑھانا، والدین کو ہی چوکنّا رہنا پڑتا ہے۔ کچھ بہت ہی اپنے ہوتے ہیں جن پر اعتبار کیا جا سکتا ہے اور وہ پھر آپ کے ہی والدین ہوتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ کچھ عوامل سے خود کو روکا جائے۔
Load Next Story