گلگت میں مہنگائی کے خلاف احتجاج
گلگت میں گزشتہ 27 دنوں سے لوگ بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے پر احتجاج کر رہے ہیں
گلگت بلتستان کبھی ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا مگر 1947 میں گلگت کے چھاپہ ماروں نے اپنے خطے کو کشمیر کے ڈوگرہ راج سے آزاد کرایا۔ اب گلگت بلتستان کا علاقہ پاکستان کے انتظامی کنٹرول میں ہے۔ اس کی ایک سرحد چین اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے ملتی ہے اور گلگت کا ایک علاقہ افغانستان کے انتہائی قریب ہے۔
گلگت کا علاقہ 72971 کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، یہ دشوار پہاڑی چوٹیوں اورگلیشیئرزکی زمین کہلاتی ہے۔ گلگت کی آبادی 20 لاکھ کے قریب ہے۔ اس علاقے میں مختلف قومیتیں آباد ہیں اور مختلف مذاہب اور فرقوں کے لوگ رہتے ہیں۔
گلگت میں 10کے قریب زبانیں بولی جاتی ہیں۔ آبادی کی اکثریت بلتی اور شینا زبانیں بولتی ہے۔ گلگت 3 ڈویژن اور 14ڈسٹرکٹ پر مشتمل ہے۔ گلگت کی ایک اسمبلی ہے جس کی 23 نشستیں ہیں اور گورنرکا تقرر وفاقی حکومت ہے۔
وزیر اعلیٰ کو گلگت بلتستان اسمبلی منتخب کرتی ہے۔ اگرچہ گلگت سیاحتی مقامات کی سر زمین ہے تاہم فرقہ واریت اور تشدد کے واقعات ہوتے رہتے ہیں' جس کی بناء پر غیرملکی سیاحوں کی آمد میں کمی ہوئی ہے۔
گلگت میں گزشتہ 27 دنوں سے لوگ بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے پر احتجاج کر رہے ہیں۔ گلگت سے آنے والی اطلاعات سے پتا چلتا ہے کہ حکومت نے گندم کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔ گندم کی فی کلو گرام قیمت 20 روپے سے بڑھ کر 52روپے فی کلو گرام کردی گئی ہے۔
اس سے پہلے حکومت نے جون کے مہینے میں گندم کی قیمت 7روپے 50 پیسے سے 20 روپے کلوکر دی تھی۔ پھر گندم کی سپلائی میں بھی کمی پیدا ہوگئی ہے جس کی بناء پر گلگت بھر میں گندم دستیاب نہیں ہے۔
انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ایچ آر سی پی گلگت کے کوآرڈینیٹر مظفر احمد اس صورتحال کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں حکومت نے 1974ء میں پہلی دفعہ گندم، مٹی کا تیل اور نمک پر سبسڈی دی تھی، بعد میں مٹی کے تیل اور نمک پر سبسڈی ختم کردی گئی۔
مظفر صاحب کہتے ہیں کہ حکومت نے 2010 سے سبسڈی ختم کرنا شروع کی تھی۔ پہلے 200 روپے اضافہ ہوا پھر 1500 روپے کا اضافہ کیا گیا۔ اب 100کلوگرام کی بوری کی قیمت 3500 روپے تک پہنچ گئی ہے اور حکومت نے واضح کردیا ہے کہ گندم کی سبسڈی بڑھائی نہیں جاسکے گی' ٹرانسپورٹ پر آنے والے اخراجات کم کیے جاسکتے ہیں۔
مظفر صاحب اپنے تجزیے میں کہتے ہیں کہ بھارت اپنے زیرِ انتظام علاقوں میں 33اشیاء پر سبسڈی دے رہا ہے اس لیے گلگت کے غریب عوام کو کم سے کم قیمت پر گندم ملنی چاہیے۔ دیگر اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
گلگت 'بلتستان کا شمار سخت ترین موسم والے علاقوں میں ہوتا ہے۔ سال کے 8 سے 9مہینے برف پڑتی ہے اور صرف مختصر عرصے کے لیے گرمی آتی ہے، یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کے پاس سیاحت اور تجارت کے علاوہ زندگی گزارنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
اگرچہ سیاحت کے حوالے سے گلگت اور بلتستان کا شمار دنیا کے خوبصورت علاقوں میں ہوتا ہے مگر افغان جنگ کے اثرات اس خطے میں بھی پھیلے جس سے سیاحت کے شعبے کو خاصا نقصان ہوا۔ مذہبی شدت پسندوں نے پہاڑوں پر جانے والے سیاحوں کو نشانہ بنایا تھا، یوں سیاحوں کے قتل اور اغواء کی وارداتیں ہوئیں۔
اگرچہ برسر اقتدار حکومتوں نے سیاحوں کے تحفظ اور سیاحت کے مختلف مقامات کی ترقی پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی تھی جس کی بناء پر گلگت بلتستان کی اس آمدنی میں خاصی کمی ہوئی ہے۔
گلگت سے چین کے لیے تجارت ہوتی ہے۔ پاکستان بھر کے تاجروں کا سامان ٹرکوں پر لاد کر چین کے صوبہ سنگیانگ بھیجا جاتا ہے۔
چین سے ہونے والے معاہدے سی پیک کے تحت موٹر وے کی تعمیر سے چین جانے والے قافلوں کا حجم بہت بڑھا ہے مگر تجارتی سرگرمیاں اتنی زیادہ بہتر نہیں ہوسکی ہیں کہ علاقے میں ترقی کا عمل تیز ہوجاتا۔ یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان میں غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے ہیلتھ کارڈ اسکیم کا اجراء کیا۔
عام آدمی کو ہیلتھ کارڈ کے ذریعے مفت علاج کی سہولت حاصل ہوگئی تھی مگر گلگت بلتستان میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ پہلے انشورنس کمپنیوں کو ہیلتھ کارڈ کے بلوں کی ادائیگی روکی گئی۔ اب یہ بتایا گیا ہے کہ ہیلتھ کارڈ اسکیم ہی ختم کردی گئی ہے۔ گلگت میں سرکاری صحت کی سہولتیں نا ہونے کے برابر ہیں۔
پورے گلگت اور بلتستان میں 61ڈسپنسریاں ہیں۔ صحت کے مراکز اور سی کلاس ڈسپنسریوں کی تعداد 242 اور 37 مختلف نوعیت کے سول اسپتال قائم ہیں۔ اس علاقے میں غیر سرکاری تنظیموں خاص طور پر آغا خان فاؤنڈیشن نے تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے خاطرخواہ کام کیا ہے، مگر سرکاری شعبے میں کوئی جدید ترین سہولتوں سے لیس سرکاری اسپتال نہیں ہے۔ گلگت سے لوگ علاج کرانے کے لیے اسلام آباد 'پشاور، لاہور اور کراچی تک جاتے ہیں۔
سابقہ حکومت کے فراہم کردہ ہیلتھ کارڈ سے پشاور اور اسلام آباد کے اسپتالوں میں مہنگے آپریشن بھی ہوجاتے تھے مگر اب یہ اسکیم بند ہونے سے عوام کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔
گلگت میں گندم کی مہنگائی کے خلاف عوامی ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام 22 دن قبل احتجاج شروع ہوا' جو خراب موسمی حالات کے باوجود ختم نہیں ہوا ہے مگر حکومت گندم کی قیمتوں میں رعایت دینے پر تیار نہیں۔ اب گلگت بلتستان کی منتخب کونسل کے اراکین نے احتجاجی تحریک کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ کونسل کے اراکین نے نگراں وزیر اعظم سے اپیل کی ہے کہ احتجاج کرنے والوں کے مطالبات تسلیم کیے جائیں۔
بلوچستان سے آئے ہوئے مرد و خواتین لاپتہ افرادکی بازیابی کے مطالبے کو منوانے کے لیے گزشتہ ایک ماہ سے اسلام آباد میں دھرنا دیے ہوئے تھے اب انھوں نے یہ دھرنا ختم کر دیا ہے۔ آزاد کشمیر میں بھی بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف عوامی مہم جاری ہے۔ خیبر پختون خوا میں دہشت گردی کی صورتحال ہے۔
گلگت میں نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں کا ایک گروپ خود مختار گلگت کے مطالبے پر زور دے رہا ہے۔ ایران، افغانستان اور بھارت سے تعلقات معمول کے مطابق نہیں ہیں۔ اس صورتحال میں وفاقی حکومت کو گلگت میں سستی گندم فراہم کرنے کے لیے فوراً اقدامات کرنے چاہئیں ۔
گلگت کا علاقہ 72971 کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، یہ دشوار پہاڑی چوٹیوں اورگلیشیئرزکی زمین کہلاتی ہے۔ گلگت کی آبادی 20 لاکھ کے قریب ہے۔ اس علاقے میں مختلف قومیتیں آباد ہیں اور مختلف مذاہب اور فرقوں کے لوگ رہتے ہیں۔
گلگت میں 10کے قریب زبانیں بولی جاتی ہیں۔ آبادی کی اکثریت بلتی اور شینا زبانیں بولتی ہے۔ گلگت 3 ڈویژن اور 14ڈسٹرکٹ پر مشتمل ہے۔ گلگت کی ایک اسمبلی ہے جس کی 23 نشستیں ہیں اور گورنرکا تقرر وفاقی حکومت ہے۔
وزیر اعلیٰ کو گلگت بلتستان اسمبلی منتخب کرتی ہے۔ اگرچہ گلگت سیاحتی مقامات کی سر زمین ہے تاہم فرقہ واریت اور تشدد کے واقعات ہوتے رہتے ہیں' جس کی بناء پر غیرملکی سیاحوں کی آمد میں کمی ہوئی ہے۔
گلگت میں گزشتہ 27 دنوں سے لوگ بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے پر احتجاج کر رہے ہیں۔ گلگت سے آنے والی اطلاعات سے پتا چلتا ہے کہ حکومت نے گندم کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔ گندم کی فی کلو گرام قیمت 20 روپے سے بڑھ کر 52روپے فی کلو گرام کردی گئی ہے۔
اس سے پہلے حکومت نے جون کے مہینے میں گندم کی قیمت 7روپے 50 پیسے سے 20 روپے کلوکر دی تھی۔ پھر گندم کی سپلائی میں بھی کمی پیدا ہوگئی ہے جس کی بناء پر گلگت بھر میں گندم دستیاب نہیں ہے۔
انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ایچ آر سی پی گلگت کے کوآرڈینیٹر مظفر احمد اس صورتحال کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں حکومت نے 1974ء میں پہلی دفعہ گندم، مٹی کا تیل اور نمک پر سبسڈی دی تھی، بعد میں مٹی کے تیل اور نمک پر سبسڈی ختم کردی گئی۔
مظفر صاحب کہتے ہیں کہ حکومت نے 2010 سے سبسڈی ختم کرنا شروع کی تھی۔ پہلے 200 روپے اضافہ ہوا پھر 1500 روپے کا اضافہ کیا گیا۔ اب 100کلوگرام کی بوری کی قیمت 3500 روپے تک پہنچ گئی ہے اور حکومت نے واضح کردیا ہے کہ گندم کی سبسڈی بڑھائی نہیں جاسکے گی' ٹرانسپورٹ پر آنے والے اخراجات کم کیے جاسکتے ہیں۔
مظفر صاحب اپنے تجزیے میں کہتے ہیں کہ بھارت اپنے زیرِ انتظام علاقوں میں 33اشیاء پر سبسڈی دے رہا ہے اس لیے گلگت کے غریب عوام کو کم سے کم قیمت پر گندم ملنی چاہیے۔ دیگر اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
گلگت 'بلتستان کا شمار سخت ترین موسم والے علاقوں میں ہوتا ہے۔ سال کے 8 سے 9مہینے برف پڑتی ہے اور صرف مختصر عرصے کے لیے گرمی آتی ہے، یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کے پاس سیاحت اور تجارت کے علاوہ زندگی گزارنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
اگرچہ سیاحت کے حوالے سے گلگت اور بلتستان کا شمار دنیا کے خوبصورت علاقوں میں ہوتا ہے مگر افغان جنگ کے اثرات اس خطے میں بھی پھیلے جس سے سیاحت کے شعبے کو خاصا نقصان ہوا۔ مذہبی شدت پسندوں نے پہاڑوں پر جانے والے سیاحوں کو نشانہ بنایا تھا، یوں سیاحوں کے قتل اور اغواء کی وارداتیں ہوئیں۔
اگرچہ برسر اقتدار حکومتوں نے سیاحوں کے تحفظ اور سیاحت کے مختلف مقامات کی ترقی پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی تھی جس کی بناء پر گلگت بلتستان کی اس آمدنی میں خاصی کمی ہوئی ہے۔
گلگت سے چین کے لیے تجارت ہوتی ہے۔ پاکستان بھر کے تاجروں کا سامان ٹرکوں پر لاد کر چین کے صوبہ سنگیانگ بھیجا جاتا ہے۔
چین سے ہونے والے معاہدے سی پیک کے تحت موٹر وے کی تعمیر سے چین جانے والے قافلوں کا حجم بہت بڑھا ہے مگر تجارتی سرگرمیاں اتنی زیادہ بہتر نہیں ہوسکی ہیں کہ علاقے میں ترقی کا عمل تیز ہوجاتا۔ یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان میں غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے ہیلتھ کارڈ اسکیم کا اجراء کیا۔
عام آدمی کو ہیلتھ کارڈ کے ذریعے مفت علاج کی سہولت حاصل ہوگئی تھی مگر گلگت بلتستان میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ پہلے انشورنس کمپنیوں کو ہیلتھ کارڈ کے بلوں کی ادائیگی روکی گئی۔ اب یہ بتایا گیا ہے کہ ہیلتھ کارڈ اسکیم ہی ختم کردی گئی ہے۔ گلگت میں سرکاری صحت کی سہولتیں نا ہونے کے برابر ہیں۔
پورے گلگت اور بلتستان میں 61ڈسپنسریاں ہیں۔ صحت کے مراکز اور سی کلاس ڈسپنسریوں کی تعداد 242 اور 37 مختلف نوعیت کے سول اسپتال قائم ہیں۔ اس علاقے میں غیر سرکاری تنظیموں خاص طور پر آغا خان فاؤنڈیشن نے تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے خاطرخواہ کام کیا ہے، مگر سرکاری شعبے میں کوئی جدید ترین سہولتوں سے لیس سرکاری اسپتال نہیں ہے۔ گلگت سے لوگ علاج کرانے کے لیے اسلام آباد 'پشاور، لاہور اور کراچی تک جاتے ہیں۔
سابقہ حکومت کے فراہم کردہ ہیلتھ کارڈ سے پشاور اور اسلام آباد کے اسپتالوں میں مہنگے آپریشن بھی ہوجاتے تھے مگر اب یہ اسکیم بند ہونے سے عوام کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔
گلگت میں گندم کی مہنگائی کے خلاف عوامی ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام 22 دن قبل احتجاج شروع ہوا' جو خراب موسمی حالات کے باوجود ختم نہیں ہوا ہے مگر حکومت گندم کی قیمتوں میں رعایت دینے پر تیار نہیں۔ اب گلگت بلتستان کی منتخب کونسل کے اراکین نے احتجاجی تحریک کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ کونسل کے اراکین نے نگراں وزیر اعظم سے اپیل کی ہے کہ احتجاج کرنے والوں کے مطالبات تسلیم کیے جائیں۔
بلوچستان سے آئے ہوئے مرد و خواتین لاپتہ افرادکی بازیابی کے مطالبے کو منوانے کے لیے گزشتہ ایک ماہ سے اسلام آباد میں دھرنا دیے ہوئے تھے اب انھوں نے یہ دھرنا ختم کر دیا ہے۔ آزاد کشمیر میں بھی بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف عوامی مہم جاری ہے۔ خیبر پختون خوا میں دہشت گردی کی صورتحال ہے۔
گلگت میں نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں کا ایک گروپ خود مختار گلگت کے مطالبے پر زور دے رہا ہے۔ ایران، افغانستان اور بھارت سے تعلقات معمول کے مطابق نہیں ہیں۔ اس صورتحال میں وفاقی حکومت کو گلگت میں سستی گندم فراہم کرنے کے لیے فوراً اقدامات کرنے چاہئیں ۔