پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی انتخابات میں اپنے اراکین کو لاعلم رکھا سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ
الیکشن کمیشن انٹرپارٹی انتخابات نہ کرانے پر سیاسی جماعت سے انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹراپارٹی کے حوالے سے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ پارٹی نے اپنے ہی اراکین کو لاعلم رکھا اور انٹراپارٹی انتخابات نہ ہونے کی صورت میں پی ٹی آئی کے اہم عہدوں پر براجمان افراد پر سوالات اٹھتے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ کا 38 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ تحریر کیا اور قرار دیا کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات میں اپنے ہی اراکین کو لاعلم رکھا۔
عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں کہا کہ قانون کے مطابق پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان نہیں دیا جاسکتا، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو متعدد شوکاز نوٹس جاری کیے، شوکاز نوٹسز کے باوجود انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے گئے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق الیکشن کمیشن سیاسی جماعت سے انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے، انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے پر انتحابی نشان واپس لیا جاسکتا ہے،لہٰذا 10 جنوری 2024 کو پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے دیا گیا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے اور الیکشن کمیشن کا 22 دسمبر 2023 کا فیصلہ بحال کیا جاتا ہے۔
'پشاور ہائی کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ نظرانداز کردیا'
سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے درخواست گزار کو الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہونے کا کہا اور 20 دن بعد فیصلہ دیا کہ الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق کچھ نہیں کر سکتا۔
چیف جسٹس قاضی فائز نے تفصیلی فیصلے میں نشان دہی کی ہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو بھی نظر انداز کیا اور لاہور ہائیکورٹ کے حتمی فیصلے کا انتظار بھی نہیں کیا حالانکہ یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں لارجر بینچ کے سامنے زیر سماعت تھا۔
فیصلے میں بتایا گیا کہ پشاور ہائی کورٹ کے سامنے محض سرٹیفکیٹ کا معاملہ نہیں تھا بلکہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کا معاملہ تھا، جب انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے ہی نہیں تو سرٹیفکیٹ کے معاملے کو کیسے برقرار رکھا جا سکتا ہے، ایسے حالات میں الیکشن کمیشن کے پاس مکمل اختیار ہے۔
سپریم کورٹ نے بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ کا الیکشن کمیشن کے اختیارات میں دخل اندازی اختیارات سے تجاوز ہے، ہائی کورٹ کیسے الیکشن کمیشن کے 22 دسمبر کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دے سکتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ انٹرا پارٹی الیکشن جیت کر آنے والوں کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ پارٹی امور چلائیں اور الیکشن کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ ہونے پر انتخابی نشان نہ دیں۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے سے متعلق بتایا گیا کہ جب الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے ایک سال کا وقت دیا تو اس وقت پی ٹی آئی برسراقتدار تھی اور عمران خان وزیراعظم تھے، اس وقت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی پی ٹی آئی کی حکومتیں تھیں۔
تفصیلی فیصلے میں بتایا گیا کہ متعدد نوٹسز جاری کرنے اور اضافی وقت دینے کے باوجود پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروائے، پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد میں قانونی تقاضوں کو نظر انداز کیا۔
مزید بتایا گیا کہ پشاور ہائی کورٹ نے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو صرف سرٹیفکیٹ کے اجرا تک محدود کیا اور الیکشن ایکٹ کے سیکشن 209(1) کو نظر انداز کیا، الیکشن ایکٹ کے مطابق انٹرا پارٹی کے بعد ہی سرٹیفکیٹ کا معاملہ آتا ہے۔
عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ برطانیہ میں انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق کوئی مخصوص قانون موجود نہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیاسی جماعتیں وہاں پارٹی الیکشن نہیں کراتی، 2022 میں بورس جانسن وزارت عظمیٰ سے دستبردار ہوئے لیکن اپنا جانشین مقرر نہیں کیا، الزبیتھ ٹرس نے رشی سوناک کو شکست دی اور وزیراعظم منتخب ہوئیں اور بعد میں استعفیٰ دیا تو رشی سوناک بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔
'انٹراپارٹی انتخابات میں ووٹ کا حق عام انتخابات میں ووٹ دینے جیسا ہے'
سپریم کورٹ نے بتایا کہ انٹرا پارٹی انتخابات میں ووٹ کا حق بھی عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے حق جیسا ہی ہے، امریکی سپریم کورٹ نے اپنے متعدد فیصلوں میں انٹرا پارٹی انتخابات کی اہمیت اجاگر کیا۔
عدالت نے کہا کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا، تحریک انصاف کی درخواست پر ہی لاہور ہائی کورٹ کا 5 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا، سپریم کورٹ میں یہ عیاں ہوا کہ لاہور ہائی کورٹ میں ابھی تک یہ معاملہ زیرِ التوا ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ بیرسٹر گوہر نے خود کو چئیرمن پی ٹی آئی نامزد کیا لیکن ان کی نامزدگی کا اصل طریقہ کار واضح نہیں کیا، کوئی بھی فریق ایک کیس دو مختلف عدالتوں میں دائر نہیں کرسکتی، ضابطہ دیوانی کا سیکشن 10 ایک معاملہ دو مختلف عدالتوں میں لے جانے کی ممانعت کرتا ہے۔
'اگر کیس ایک عدالت میں زیرسماعت ہوتو دوسری عدالت کارروائی نہیں کرسکتی'
سپریم کورٹ نے بتایا کہ اگر ایک کیس ایک عدالت میں ہو تو دوسری عدالت اس کیس پر کارروائی جاری نہیں رکھ سکتی، اگر ایک فریق ایک ہی معاملہ دو مختلف ہائی کورٹس میں لے کر جائے تو یہ قانون کی حکمرانی اور عدالتی نظام کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے۔
تفصیلی فیصلے میں واضح کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عدالت واضح کرنا چاہتی ہےکہ اگر کوئی شخص بلا مقابلہ آئے تو وہ منتخب تصور ہوتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ انٹراپارٹی انتخابات نہ ہونے کی صورت میں پی ٹی آئی کے اہم عہدوں پر براجمان افراد پر سوالات اٹھتے ہیں لیکن اگر ہر کوئی بلامقاملہ منتخب ہو اور انتخابات کا کوئی ثبوت بھی نہ ہو تو یہ ایک الگ معاملہ ہے۔
عدالت عظمیٰ نے بتایا کہ عمر ایوب خود کو بغیر دستاویزی ثبوت پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل جیسا اہم عہدہ رکھتے ہیں، گوہر علی خان اپنے آپ کو پی ٹی آئی کا چئیرمین کہتے ہیں جبکہ ان کے پاس کوئی ٹھوس دستاویزی ریکارڈ نہیں لیکن انہوں نے خود کو عمران خان نیازی کی جگہ خود کو پی ٹی آئی کا چئیرمین ظاہر کیا۔
تفصیلی فیصلے میں بتایا گیا کہ سپریم کورٹ صلاح الدین ترمذی کیس میں یہ اصول طے کر چکی ہے کہ جب کیس ایک ہائی کورٹ میں ہو تو دوسری ہائی کورٹ مداخلت نہیں کر سکتی۔
سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 17 اور جمہوریت کا حوالہ دیا گیا:
'انٹرا پارٹی انتخابات کے بغیر کسی سیاسی جماعت کا وجود نہیں'
پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی انتخابات سے متعلق کیس کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ آئین پاکستان 12 اپریل 1973 کو بنا جو 14 اگست 1973 کو لاگو ہوا، آئین کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ریاستی امور اس کے منتخب کردہ نمائندے ہی چلائیں گے، آئین کے اس دیباچے کو اہمیت حاصل ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے بغیر کسی سیاسی جماعت کا کوئی وجود ہے، انٹرا پارٹی انتخابات کے بغیر جماعت کا اپنے ممبران سے تعلق ختم ہوجاتا ہے۔
عدالت نے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ ہم اس کیس میں صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے یا نہیں، ہم اس گہرائی میں نہیں جارہے ہیں کہ انٹرا پارٹی انتخابات کیسے ہوئے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ طویل وابستگی رکھنے والے 14 اراکین نے شکایت کی کہ انہیں ووٹ کا حق نہیں دیا گیا، 14 اراکین نے تحریک انصاف کے مؤقف کو رد کرکے ثابت کیا کہ وہ اب بھی تحریک انصاف میں ہیں، رکنیت یا پارٹی رکن نہ ہونے کا الزام ثابت کرنے کی ذمہ داری اس پر ہے جو اس کی نفی کر رہا ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن میں یہ ثابت کرنا چاہیے تھا کہ جو 14 لوگ شکایت کنندہ ہیں وہ پارٹی کے اراکین نہیں، الیکشن کمیشن میں یہ بھی ثابت نہیں کیا جاسکا کہ یہ 14 لوگ کسی اور جماعت میں گئے ہیں یا انھیں پارٹی سے نکال دیا گیا ہے۔
کسی رکن کو سیاسی جماعت سے بے دخل کرنے کے آئینی طریقہ کار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر کسی رکن کو سیاسی جماعت سے نکالا یا معطل کیا جاتا ہے تو اس میں الیکشن ایکٹ کا سیکشن 205 مدنظر رکھنا لازم ہے، الیکشن ایکٹ کا سیکشن 205 کہتا ہے کہ کسی رکن کو نکالنے یا معطل کرنے سے پہلے پارٹی آئین میں طے کردہ طریقہ کار مدنظر رکھا جائے۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق سیکشن 205 کی ذیلی شق 2 کے مطابق کسی رکن کو سیاسی جماعت سے نکالنے سے قبل شوکاز نوٹس جاری کرکے اس کو دفاع کے لیے معقول وقت فراہم کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے بتایا کہ اس کیس میں پاکستان تحریک انصاف ریکارڈ سے ثابت کرنے میں ناکام رہی کہ ان 14 اراکین کو پارٹی سے نکالا گیا، اکبر ایس بابر کے بانی رکن ثابت کرنے کے لیے کئی دستاویزات پیش کی گئیں اور ایک عدالتی فیصلہ بھی پیش کیا گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ کا 38 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ تحریر کیا اور قرار دیا کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات میں اپنے ہی اراکین کو لاعلم رکھا۔
عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں کہا کہ قانون کے مطابق پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان نہیں دیا جاسکتا، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو متعدد شوکاز نوٹس جاری کیے، شوکاز نوٹسز کے باوجود انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے گئے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق الیکشن کمیشن سیاسی جماعت سے انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے، انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے پر انتحابی نشان واپس لیا جاسکتا ہے،لہٰذا 10 جنوری 2024 کو پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے دیا گیا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے اور الیکشن کمیشن کا 22 دسمبر 2023 کا فیصلہ بحال کیا جاتا ہے۔
'پشاور ہائی کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ نظرانداز کردیا'
سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے درخواست گزار کو الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہونے کا کہا اور 20 دن بعد فیصلہ دیا کہ الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق کچھ نہیں کر سکتا۔
چیف جسٹس قاضی فائز نے تفصیلی فیصلے میں نشان دہی کی ہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو بھی نظر انداز کیا اور لاہور ہائیکورٹ کے حتمی فیصلے کا انتظار بھی نہیں کیا حالانکہ یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں لارجر بینچ کے سامنے زیر سماعت تھا۔
فیصلے میں بتایا گیا کہ پشاور ہائی کورٹ کے سامنے محض سرٹیفکیٹ کا معاملہ نہیں تھا بلکہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کا معاملہ تھا، جب انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے ہی نہیں تو سرٹیفکیٹ کے معاملے کو کیسے برقرار رکھا جا سکتا ہے، ایسے حالات میں الیکشن کمیشن کے پاس مکمل اختیار ہے۔
سپریم کورٹ نے بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ کا الیکشن کمیشن کے اختیارات میں دخل اندازی اختیارات سے تجاوز ہے، ہائی کورٹ کیسے الیکشن کمیشن کے 22 دسمبر کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دے سکتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ انٹرا پارٹی الیکشن جیت کر آنے والوں کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ پارٹی امور چلائیں اور الیکشن کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ ہونے پر انتخابی نشان نہ دیں۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے سے متعلق بتایا گیا کہ جب الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے ایک سال کا وقت دیا تو اس وقت پی ٹی آئی برسراقتدار تھی اور عمران خان وزیراعظم تھے، اس وقت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی پی ٹی آئی کی حکومتیں تھیں۔
تفصیلی فیصلے میں بتایا گیا کہ متعدد نوٹسز جاری کرنے اور اضافی وقت دینے کے باوجود پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کروائے، پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد میں قانونی تقاضوں کو نظر انداز کیا۔
مزید بتایا گیا کہ پشاور ہائی کورٹ نے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو صرف سرٹیفکیٹ کے اجرا تک محدود کیا اور الیکشن ایکٹ کے سیکشن 209(1) کو نظر انداز کیا، الیکشن ایکٹ کے مطابق انٹرا پارٹی کے بعد ہی سرٹیفکیٹ کا معاملہ آتا ہے۔
عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ برطانیہ میں انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق کوئی مخصوص قانون موجود نہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیاسی جماعتیں وہاں پارٹی الیکشن نہیں کراتی، 2022 میں بورس جانسن وزارت عظمیٰ سے دستبردار ہوئے لیکن اپنا جانشین مقرر نہیں کیا، الزبیتھ ٹرس نے رشی سوناک کو شکست دی اور وزیراعظم منتخب ہوئیں اور بعد میں استعفیٰ دیا تو رشی سوناک بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔
'انٹراپارٹی انتخابات میں ووٹ کا حق عام انتخابات میں ووٹ دینے جیسا ہے'
سپریم کورٹ نے بتایا کہ انٹرا پارٹی انتخابات میں ووٹ کا حق بھی عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے حق جیسا ہی ہے، امریکی سپریم کورٹ نے اپنے متعدد فیصلوں میں انٹرا پارٹی انتخابات کی اہمیت اجاگر کیا۔
عدالت نے کہا کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا، تحریک انصاف کی درخواست پر ہی لاہور ہائی کورٹ کا 5 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا، سپریم کورٹ میں یہ عیاں ہوا کہ لاہور ہائی کورٹ میں ابھی تک یہ معاملہ زیرِ التوا ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ بیرسٹر گوہر نے خود کو چئیرمن پی ٹی آئی نامزد کیا لیکن ان کی نامزدگی کا اصل طریقہ کار واضح نہیں کیا، کوئی بھی فریق ایک کیس دو مختلف عدالتوں میں دائر نہیں کرسکتی، ضابطہ دیوانی کا سیکشن 10 ایک معاملہ دو مختلف عدالتوں میں لے جانے کی ممانعت کرتا ہے۔
'اگر کیس ایک عدالت میں زیرسماعت ہوتو دوسری عدالت کارروائی نہیں کرسکتی'
سپریم کورٹ نے بتایا کہ اگر ایک کیس ایک عدالت میں ہو تو دوسری عدالت اس کیس پر کارروائی جاری نہیں رکھ سکتی، اگر ایک فریق ایک ہی معاملہ دو مختلف ہائی کورٹس میں لے کر جائے تو یہ قانون کی حکمرانی اور عدالتی نظام کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے۔
تفصیلی فیصلے میں واضح کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عدالت واضح کرنا چاہتی ہےکہ اگر کوئی شخص بلا مقابلہ آئے تو وہ منتخب تصور ہوتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ انٹراپارٹی انتخابات نہ ہونے کی صورت میں پی ٹی آئی کے اہم عہدوں پر براجمان افراد پر سوالات اٹھتے ہیں لیکن اگر ہر کوئی بلامقاملہ منتخب ہو اور انتخابات کا کوئی ثبوت بھی نہ ہو تو یہ ایک الگ معاملہ ہے۔
عدالت عظمیٰ نے بتایا کہ عمر ایوب خود کو بغیر دستاویزی ثبوت پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل جیسا اہم عہدہ رکھتے ہیں، گوہر علی خان اپنے آپ کو پی ٹی آئی کا چئیرمین کہتے ہیں جبکہ ان کے پاس کوئی ٹھوس دستاویزی ریکارڈ نہیں لیکن انہوں نے خود کو عمران خان نیازی کی جگہ خود کو پی ٹی آئی کا چئیرمین ظاہر کیا۔
تفصیلی فیصلے میں بتایا گیا کہ سپریم کورٹ صلاح الدین ترمذی کیس میں یہ اصول طے کر چکی ہے کہ جب کیس ایک ہائی کورٹ میں ہو تو دوسری ہائی کورٹ مداخلت نہیں کر سکتی۔
سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 17 اور جمہوریت کا حوالہ دیا گیا:
- جمہوریت اس مقدمے کی بنیاد ہے
- جمہوریت کی بنیاد پر ہی پاکستان وجود میں آیا
- ہر آئینی دستاویز سے جمہوری سوچ کو برتری ملتی ہے
- قرار داد مقاصد ہر آئین میں دیباچے کا حصہ ہوتی ہے
'انٹرا پارٹی انتخابات کے بغیر کسی سیاسی جماعت کا وجود نہیں'
پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی انتخابات سے متعلق کیس کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ آئین پاکستان 12 اپریل 1973 کو بنا جو 14 اگست 1973 کو لاگو ہوا، آئین کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ریاستی امور اس کے منتخب کردہ نمائندے ہی چلائیں گے، آئین کے اس دیباچے کو اہمیت حاصل ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے بغیر کسی سیاسی جماعت کا کوئی وجود ہے، انٹرا پارٹی انتخابات کے بغیر جماعت کا اپنے ممبران سے تعلق ختم ہوجاتا ہے۔
عدالت نے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ ہم اس کیس میں صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے یا نہیں، ہم اس گہرائی میں نہیں جارہے ہیں کہ انٹرا پارٹی انتخابات کیسے ہوئے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ طویل وابستگی رکھنے والے 14 اراکین نے شکایت کی کہ انہیں ووٹ کا حق نہیں دیا گیا، 14 اراکین نے تحریک انصاف کے مؤقف کو رد کرکے ثابت کیا کہ وہ اب بھی تحریک انصاف میں ہیں، رکنیت یا پارٹی رکن نہ ہونے کا الزام ثابت کرنے کی ذمہ داری اس پر ہے جو اس کی نفی کر رہا ہے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن میں یہ ثابت کرنا چاہیے تھا کہ جو 14 لوگ شکایت کنندہ ہیں وہ پارٹی کے اراکین نہیں، الیکشن کمیشن میں یہ بھی ثابت نہیں کیا جاسکا کہ یہ 14 لوگ کسی اور جماعت میں گئے ہیں یا انھیں پارٹی سے نکال دیا گیا ہے۔
کسی رکن کو سیاسی جماعت سے بے دخل کرنے کے آئینی طریقہ کار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر کسی رکن کو سیاسی جماعت سے نکالا یا معطل کیا جاتا ہے تو اس میں الیکشن ایکٹ کا سیکشن 205 مدنظر رکھنا لازم ہے، الیکشن ایکٹ کا سیکشن 205 کہتا ہے کہ کسی رکن کو نکالنے یا معطل کرنے سے پہلے پارٹی آئین میں طے کردہ طریقہ کار مدنظر رکھا جائے۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق سیکشن 205 کی ذیلی شق 2 کے مطابق کسی رکن کو سیاسی جماعت سے نکالنے سے قبل شوکاز نوٹس جاری کرکے اس کو دفاع کے لیے معقول وقت فراہم کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے بتایا کہ اس کیس میں پاکستان تحریک انصاف ریکارڈ سے ثابت کرنے میں ناکام رہی کہ ان 14 اراکین کو پارٹی سے نکالا گیا، اکبر ایس بابر کے بانی رکن ثابت کرنے کے لیے کئی دستاویزات پیش کی گئیں اور ایک عدالتی فیصلہ بھی پیش کیا گیا۔