مسلماں ہو تو ایسا ہو ۔۔۔۔۔۔
رسول کریمؐ نے انسانیت کے لیے اپنی اخلاقی ذمے داریوں کو بہ طریقِ احسن و اکمل ادا کرنے کا ایک کامل نمونہ پیش فرمایا ہے
اَخلاق، خُلق کی جمع ہے جس کے معنی عادت، طبعی خصلت، طبیعت، مزاج اور فطرت کے ہیں۔
صاحبِ لسان العرب لکھتے ہیں: ''خَلق اور خُلق کا معنی فطرت اور طبیعت ہے، انسان کی باطنی صورت کو اس کے اوصاف اور مخصوص معانی کے ساتھ خُلق کہتے ہیں جس طرح اس کی ظاہری شکل و صورت کو خَلق کہا جاتا ہے۔''
اخلاق انسان کے وہ اعمال اور عادات ہوتے ہیں جو اس کی فطرت میں پختہ ہوں نہ کہ بناوٹی اور بلاتکلف اس سے صادر ہوتے ہوں۔ انسان کے اخلاق سے اس کے مزاج اور رویے کی عکاسی ہوتی ہے کہ وہ کس طبیعت کا مالک ہے اور اس کا کردار کن حرکات و سکنات کا جامہ ہے۔
اخلاق کی دو اقسام ہیں: اچھے اخلاق اور بُرے اخلاق۔
فردِ واحد کے اخلاق معاشرے میں مثبت اور منفی انقلاب بپا کرنے کی قوت رکھتے ہیں اور بہترین معاشرے کی تشکیل ہمیشہ بااخلاق افراد سے ہوتی ہے۔ دینِ اسلام نے جو اخلاق کا رول ماڈل رسول کریم ﷺ کی ذاتِ اقدس کی صورت میں پیش کیا ہے اس میں ہمارے لیے بہترین اسوہ حسنہ ہے۔ آقا کریم ﷺ کے اعلیٰ اخلاق پر خالقِِ اخلاق کا فرمان ہے، مفہوم: ''اور بے شک! آپ ﷺ اخلاق کے بہت بڑے مرتبے پر ہیں۔''
آقا کریمؐ کے مزاج شریف پر اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے، مفہوم: (اے حبیبؐ!) ''خدا کی رحمت سے آپ لوگوں سے نرمی کے ساتھ پیش آتے ہیں اگر آپ کہیں سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ جاتے۔''
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا۔'' ایک روایت میں ہے: ''مجھے اچھے اخلاق کو مکمل کرنے کے لیے بھیجا گیا۔''
اﷲ تعالیٰ نے حضور رسالتِ مآب ﷺ کو پوری انسانیت کی طرف مبعوث فرمایا ہے۔ آپؐ کی بعثت باعثِ تکمیل اخلاق حسنہ ہے جو ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ زندگی کی ہر جہت میں آقا کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کو عملی جامہ پہنا کر اوڑھ لیں، آپ ﷺ کے اخلاق سے متخلق ہوجائیں، آپ ﷺ کے اوصافِ حمیدہ سے متصف ہوجائیں اور بہ حیثیتِ فرد اور بہ حیثیتِ مجموعی آپ ﷺ کی سیرت کو مشعلِ راہ بناکر اپنی ذمے داریوں اور فرائض کی تکمیل کریں۔
بہ الفاظِ دیگر ہر مسلمان سیرتِ طیبہ کی روشنی میں اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کو احسن انداز میں پورا کرنے کا مواخذہ دار ہے، خواہ انفرادی سطح پر ذاتی معاملات ہوں یا اجتماعی سطح پر کسی عہدہ و منصب پر فرض شناسی کے آداب ہوں زندگی کے ہر شعبے میں آپ ﷺ نے آدمی کے لیے اپنی اخلاقی ذمے داریوں کو بہ طریقِ احسن و اکمل ادا کرنے کا ایک کامل نمونہ پیش فرمایا ہے۔
اخلاقی ذمہ داریاں بہ حیثیتِ فرد:
1: بہ طور والد کے ذمے داری: صاحبِ اولاد ہونا خالقِ کائنات کی بہت بڑی نعمت اور عطا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی بیٹیوں اور نواسوں کی بہترین تربیت فرما کر ہر والد کو اس کی اخلاقی ذمہ داریوں کو بہ خوبی ادا کرنے کا مکمل کلیہ عطا فرمایا ہے۔
بچپن سے لے کر جوانی تک، اولاد کی تعلیم و تربیت سے لے کر شادی بیاہ کے معاملات تک اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے سے لے کر انہیں معاشرہ کا کارآمد فرد بنانے تک، غرض یہ کہ ہر زاویے سے اولاد کی تربیت میں والدین کا کیا کردار ہونا چاہیے، آقا کریم ﷺ نے اسے خود کرکے دکھایا اور سمجھایا ہے۔
حدیث مبارکہ ہے: اُم المؤمنین عائشہؓ فرماتی ہیں: کچھ اعرابی حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کیا: آپ لوگ اپنے بچوں کا بوسہ لیتے ہیں؟ لوگوں نے کہا: ہاں۔ تو ان اعرابیوں (خانہ بہ دوشوں) نے کہا: لیکن ہم تو اﷲ کی قسم! (اپنے بچوں کا) بوسہ نہیں لیتے۔ (یہ سن کر) حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مجھے کیا اختیار ہے جب کہ اﷲ تعالیٰ نے تمہارے دلوں سے رحمت اور شفقت نکال دی ہے۔'' (سنن ابنِ ماجہ)
سیدنا مقدام بن معدی کربؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''تم اپنے آپ کو جو کھلاؤ گے، وہ تمہارے لیے صدقہ ہوگا، تم اپنی اولاد کو جو کچھ کھلاؤ گے، وہ بھی تمہاری طرف سے صدقہ ہوگا، تم اپنی بیوی کو جو کچھ کھلاؤ گے، وہ بھی تمہارا صدقہ ہو گا اور تم اپنے خادم کو جو کچھ کھلاؤ گے، وہ بھی تمہاری طرف سے صدقہ ہو گا۔''
(مسند احمد)
2:۔ بہ طور اولاد کے ذمہ داری: حضور ﷺ کی والدہ ماجدہ آپؐ کے بچپن میں ہی انتقال فرما گئیں اور والد ماجد آپؐ کی ولادت سے قبل ہی اس دنیائے فانی سے رحلت فرما گئے لیکن رحمۃ اللعالمین ﷺ کی حیاتِ طیبہ چوں کہ اسوۂ حسنہ ہے اس لیے جب جب آپؐ نے والدین کا ذکر فرمایا ہمیشہ ان سے حسنِ سلوک کا معاملہ رکھنے کی تلقین فرمائی۔
حضور نبی کریم ﷺ نے اولاد کے لیے بہ طور خاص والدین سے حسن سلوک کی ترغیب و تلقین فرمائی ہے۔ ایک شخص نے پوچھا: اﷲ کے رسول ﷺ! لوگوں میں سے (میری طرف سے) حسن معاشرت کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: تمہاری ماں۔ پھر تمہاری ماں۔ پھر تمہاری ماں۔ پھر تمہارا باپ۔ پھر جو تمہارا زیادہ قریبی (رشتہ دار) ہو، (پھر جو اس کے بعد) تمہارا قریبی ہو۔''
(صحیح مسلم)
ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اﷲ کے رسول ﷺ! والدین کا حق ان کی اولاد پر کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا، مفہوم: وہی دونوں تیری جنّت اور جہنّم ہیں۔''
عبداﷲ بن مسعودؓ نے بیان کیا کہ میں نے حضور نبی کریم ﷺ سے پوچھا: اﷲ تعالیٰ کے نزدیک کون سا عمل سب سے زیادہ پسندیدہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا۔ پوچھا: پھر کون سا ؟ فرمایا: والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ پوچھا: پھر کون سا ؟ فرمایا: اﷲ کے راستے میں جہاد کرنا۔''
(صحیح بخاری)
حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک صحابی نے حضور نبی کریم ﷺ سے پوچھا: کیا میں بھی جہاد میں شریک ہو جاؤں؟ حضور نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا: تمہارے ماں باپ موجود ہیں۔ انہوں نے کہا: جی ہاں موجود ہیں۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: پھر انہی میں جہاد کرو۔''
3: بہ طور شوہر کے ذمے داری: رشتہ ازدواج سماج کی عمارت کی اکائی تسلیم کی جاتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اُنسِیّت و محبت کا جو رشتہ نکاح کے ذریعہ رائج فرمایا ہے اس سے حسنِ معاشرت میں اضافہ ہوتا ہے۔
ایک مسلمان جب نکاح کرتا ہے تو حدیث کی رُو سے اس کا ایمان تکمیل پاجاتا ہے، لہٰذا اس رشتۂ اِلتفات میں اخلاق کا دائرہ کار بھی بہت وسیع کیا گیا ہے جس میں لطافت، مزاح، ادب، احسان وغیرہا شامل ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''دنیا مکمل طور پر متاع ہے اور بہترین متاعِِ دنیا نیک بیوی ہے۔'' حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ''تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے اہل و عیال کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں۔'' (سنن ابن ماجہ)
حضرت حکیم بن معاویہ قشیریؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: اﷲ کے رسول ﷺ! بیوی کا خاوند پر کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جب تم کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ، جب تم پہنو تو اسے بھی پہناؤ، اس کے چہرے پر نہ مارو، نہ اسے بُرا بھلا کہو اور (ناراضی پر) صرف گھر میں اس سے علاحدگی اختیار کرو۔''
4: بہ طور سردار (مالک) کے ذمے داری: حضرت زید بن حارثہؓ غلاموں میں سب سے پہلے اسلام قبول فرمانے والے تھے۔ آپ ﷺ کا حضرت زیدؓ سے محبت کا رویہ اس قدر عیاں تھا کہ آپؐ نے انہیں اپنا منہ بولا بیٹا بنایا اور انہیں آزاد فرد کی حیثیت عطا فرمائی۔
5: بہ طور بھائی کے ذمے داری: آقا پاک ﷺ کے سگے بھائی بہن نہیں تھے بل کہ آپؐ کی پرورش آپؐ کے چچا نے فرمائی اور آپؐ کے چچا زاد بھائی حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ الکریم سے حضور نبی کریم ﷺ بے حد محبت فرماتے۔
سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے جب مدینہ طیبہ میں اُخوت یعنی بھائی چارہ قائم فرمایا تو حضرت علی المرتضیٰؓ روتے ہوئے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اﷲ! ﷺ آپ نے سارے صحابہ کرامؓ کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا مگر مجھے کسی کا بھائی نہ بنایا۔ حضورِ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: (اے علی!) تم دُنیا میں بھی میرے بھائی ہو اور آخرت میں بھی میرے بھائی ہو۔'' (سنن ترمذی)
6: بہ طور اعزاء و اقرباء کے ذمے داری: حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: ''دینے والے کا ہاتھ اوپر (برتر) ہوتا ہے، پہلے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں پر خرچ کرو پھر درجہ بہ درجہ اپنے قریبی رشتہ داروں پر۔''
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کی اہلیہ نے حضور نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اﷲ ﷺ! میرا شوہر ضرورت مند ہے کیا میرے لیے اس کو صدقہ دینا جائز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''ہاں! تمہیں اس صدقے کا دہرا اَجر ملے گا۔''
7: بہ طور پڑوسی کے ذمے داری: دین اسلام معاشرت کا جو تصور پیش کرتا ہے وہ ناصرف فرد کی ذاتی تسکین و تسلی کا ضامن بنتا ہے بل کہ معاشرے کے دوسرے افراد کے لیے بھی خیر و عافیت اور دردِ دل کی فضا ہم وار کرتا ہے۔
معاشرتی نظام میں سب سے پہلا حق پڑوسیوں کا ہوتا ہے اور آقا پاک ﷺ نے پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے والوں کو افضل و برتر فرمایا ہے، ''اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بہترین ساتھی وہ ہے جو اپنے ساتھیوں کے لیے بہتر ہو اور اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے بہتر ہو۔'' (سنن تّرمذی)
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کا ہمسایہ اس کے فساد سے محفوظ نہیں۔'' (صحیح مسلم)
سیدنا عبداﷲ ابن عباسؓ نے سیدنا عبداﷲ ابن زبیرؓ کو خبر دیتے ہوئے کہا: میں نے حضور نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ''وہ شخص مومن نہیں ہے جو خود سیر ہو کر کھاتا ہے جب کہ اس کا پڑوسی فاقوں میں زندگی بسر کر رہا ہے۔'' (البخاری)
اخلاقی ذمہ داریاں بہ حیثیتِ مجموعی: حضرت ابوبکرؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے یوم نحر کو ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ''بے شک! تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں، تم (میں سے ہر ایک) پر اسی طرح حرام ہیں جیسا کہ آج کے دن کی، آج کے اس مہینے میں تمہارے اس شہر کی حرمت ہے۔''
ایک موقع پر ارشاد فرمایا: ''آگاہ رہو! ان چار باتوں سے بچنا: اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، خدا کی حرام کردہ کسی جان کو ناحق قتل نہ کرنا، زنا نہ کرنا اور چوری نہ کرنا۔'' (مسند احمد)
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ''سنو! ظلم نہ کرنا، سنو! ظلم نہ کرنا، سنو! ظلم نہ کرنا۔ کسی شخص کا مال اس کے دل کی خوشی کے بغیر لینا حلال نہیں ہے۔''
اﷲ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
صاحبِ لسان العرب لکھتے ہیں: ''خَلق اور خُلق کا معنی فطرت اور طبیعت ہے، انسان کی باطنی صورت کو اس کے اوصاف اور مخصوص معانی کے ساتھ خُلق کہتے ہیں جس طرح اس کی ظاہری شکل و صورت کو خَلق کہا جاتا ہے۔''
اخلاق انسان کے وہ اعمال اور عادات ہوتے ہیں جو اس کی فطرت میں پختہ ہوں نہ کہ بناوٹی اور بلاتکلف اس سے صادر ہوتے ہوں۔ انسان کے اخلاق سے اس کے مزاج اور رویے کی عکاسی ہوتی ہے کہ وہ کس طبیعت کا مالک ہے اور اس کا کردار کن حرکات و سکنات کا جامہ ہے۔
اخلاق کی دو اقسام ہیں: اچھے اخلاق اور بُرے اخلاق۔
فردِ واحد کے اخلاق معاشرے میں مثبت اور منفی انقلاب بپا کرنے کی قوت رکھتے ہیں اور بہترین معاشرے کی تشکیل ہمیشہ بااخلاق افراد سے ہوتی ہے۔ دینِ اسلام نے جو اخلاق کا رول ماڈل رسول کریم ﷺ کی ذاتِ اقدس کی صورت میں پیش کیا ہے اس میں ہمارے لیے بہترین اسوہ حسنہ ہے۔ آقا کریم ﷺ کے اعلیٰ اخلاق پر خالقِِ اخلاق کا فرمان ہے، مفہوم: ''اور بے شک! آپ ﷺ اخلاق کے بہت بڑے مرتبے پر ہیں۔''
آقا کریمؐ کے مزاج شریف پر اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے، مفہوم: (اے حبیبؐ!) ''خدا کی رحمت سے آپ لوگوں سے نرمی کے ساتھ پیش آتے ہیں اگر آپ کہیں سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ جاتے۔''
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا۔'' ایک روایت میں ہے: ''مجھے اچھے اخلاق کو مکمل کرنے کے لیے بھیجا گیا۔''
اﷲ تعالیٰ نے حضور رسالتِ مآب ﷺ کو پوری انسانیت کی طرف مبعوث فرمایا ہے۔ آپؐ کی بعثت باعثِ تکمیل اخلاق حسنہ ہے جو ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ زندگی کی ہر جہت میں آقا کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کو عملی جامہ پہنا کر اوڑھ لیں، آپ ﷺ کے اخلاق سے متخلق ہوجائیں، آپ ﷺ کے اوصافِ حمیدہ سے متصف ہوجائیں اور بہ حیثیتِ فرد اور بہ حیثیتِ مجموعی آپ ﷺ کی سیرت کو مشعلِ راہ بناکر اپنی ذمے داریوں اور فرائض کی تکمیل کریں۔
بہ الفاظِ دیگر ہر مسلمان سیرتِ طیبہ کی روشنی میں اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کو احسن انداز میں پورا کرنے کا مواخذہ دار ہے، خواہ انفرادی سطح پر ذاتی معاملات ہوں یا اجتماعی سطح پر کسی عہدہ و منصب پر فرض شناسی کے آداب ہوں زندگی کے ہر شعبے میں آپ ﷺ نے آدمی کے لیے اپنی اخلاقی ذمے داریوں کو بہ طریقِ احسن و اکمل ادا کرنے کا ایک کامل نمونہ پیش فرمایا ہے۔
اخلاقی ذمہ داریاں بہ حیثیتِ فرد:
1: بہ طور والد کے ذمے داری: صاحبِ اولاد ہونا خالقِ کائنات کی بہت بڑی نعمت اور عطا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اپنی بیٹیوں اور نواسوں کی بہترین تربیت فرما کر ہر والد کو اس کی اخلاقی ذمہ داریوں کو بہ خوبی ادا کرنے کا مکمل کلیہ عطا فرمایا ہے۔
بچپن سے لے کر جوانی تک، اولاد کی تعلیم و تربیت سے لے کر شادی بیاہ کے معاملات تک اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے سے لے کر انہیں معاشرہ کا کارآمد فرد بنانے تک، غرض یہ کہ ہر زاویے سے اولاد کی تربیت میں والدین کا کیا کردار ہونا چاہیے، آقا کریم ﷺ نے اسے خود کرکے دکھایا اور سمجھایا ہے۔
حدیث مبارکہ ہے: اُم المؤمنین عائشہؓ فرماتی ہیں: کچھ اعرابی حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کیا: آپ لوگ اپنے بچوں کا بوسہ لیتے ہیں؟ لوگوں نے کہا: ہاں۔ تو ان اعرابیوں (خانہ بہ دوشوں) نے کہا: لیکن ہم تو اﷲ کی قسم! (اپنے بچوں کا) بوسہ نہیں لیتے۔ (یہ سن کر) حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مجھے کیا اختیار ہے جب کہ اﷲ تعالیٰ نے تمہارے دلوں سے رحمت اور شفقت نکال دی ہے۔'' (سنن ابنِ ماجہ)
سیدنا مقدام بن معدی کربؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''تم اپنے آپ کو جو کھلاؤ گے، وہ تمہارے لیے صدقہ ہوگا، تم اپنی اولاد کو جو کچھ کھلاؤ گے، وہ بھی تمہاری طرف سے صدقہ ہوگا، تم اپنی بیوی کو جو کچھ کھلاؤ گے، وہ بھی تمہارا صدقہ ہو گا اور تم اپنے خادم کو جو کچھ کھلاؤ گے، وہ بھی تمہاری طرف سے صدقہ ہو گا۔''
(مسند احمد)
2:۔ بہ طور اولاد کے ذمہ داری: حضور ﷺ کی والدہ ماجدہ آپؐ کے بچپن میں ہی انتقال فرما گئیں اور والد ماجد آپؐ کی ولادت سے قبل ہی اس دنیائے فانی سے رحلت فرما گئے لیکن رحمۃ اللعالمین ﷺ کی حیاتِ طیبہ چوں کہ اسوۂ حسنہ ہے اس لیے جب جب آپؐ نے والدین کا ذکر فرمایا ہمیشہ ان سے حسنِ سلوک کا معاملہ رکھنے کی تلقین فرمائی۔
حضور نبی کریم ﷺ نے اولاد کے لیے بہ طور خاص والدین سے حسن سلوک کی ترغیب و تلقین فرمائی ہے۔ ایک شخص نے پوچھا: اﷲ کے رسول ﷺ! لوگوں میں سے (میری طرف سے) حسن معاشرت کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: تمہاری ماں۔ پھر تمہاری ماں۔ پھر تمہاری ماں۔ پھر تمہارا باپ۔ پھر جو تمہارا زیادہ قریبی (رشتہ دار) ہو، (پھر جو اس کے بعد) تمہارا قریبی ہو۔''
(صحیح مسلم)
ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اﷲ کے رسول ﷺ! والدین کا حق ان کی اولاد پر کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا، مفہوم: وہی دونوں تیری جنّت اور جہنّم ہیں۔''
عبداﷲ بن مسعودؓ نے بیان کیا کہ میں نے حضور نبی کریم ﷺ سے پوچھا: اﷲ تعالیٰ کے نزدیک کون سا عمل سب سے زیادہ پسندیدہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا۔ پوچھا: پھر کون سا ؟ فرمایا: والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ پوچھا: پھر کون سا ؟ فرمایا: اﷲ کے راستے میں جہاد کرنا۔''
(صحیح بخاری)
حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک صحابی نے حضور نبی کریم ﷺ سے پوچھا: کیا میں بھی جہاد میں شریک ہو جاؤں؟ حضور نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا: تمہارے ماں باپ موجود ہیں۔ انہوں نے کہا: جی ہاں موجود ہیں۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: پھر انہی میں جہاد کرو۔''
3: بہ طور شوہر کے ذمے داری: رشتہ ازدواج سماج کی عمارت کی اکائی تسلیم کی جاتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اُنسِیّت و محبت کا جو رشتہ نکاح کے ذریعہ رائج فرمایا ہے اس سے حسنِ معاشرت میں اضافہ ہوتا ہے۔
ایک مسلمان جب نکاح کرتا ہے تو حدیث کی رُو سے اس کا ایمان تکمیل پاجاتا ہے، لہٰذا اس رشتۂ اِلتفات میں اخلاق کا دائرہ کار بھی بہت وسیع کیا گیا ہے جس میں لطافت، مزاح، ادب، احسان وغیرہا شامل ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''دنیا مکمل طور پر متاع ہے اور بہترین متاعِِ دنیا نیک بیوی ہے۔'' حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ''تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے اہل و عیال کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں۔'' (سنن ابن ماجہ)
حضرت حکیم بن معاویہ قشیریؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: اﷲ کے رسول ﷺ! بیوی کا خاوند پر کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''جب تم کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ، جب تم پہنو تو اسے بھی پہناؤ، اس کے چہرے پر نہ مارو، نہ اسے بُرا بھلا کہو اور (ناراضی پر) صرف گھر میں اس سے علاحدگی اختیار کرو۔''
4: بہ طور سردار (مالک) کے ذمے داری: حضرت زید بن حارثہؓ غلاموں میں سب سے پہلے اسلام قبول فرمانے والے تھے۔ آپ ﷺ کا حضرت زیدؓ سے محبت کا رویہ اس قدر عیاں تھا کہ آپؐ نے انہیں اپنا منہ بولا بیٹا بنایا اور انہیں آزاد فرد کی حیثیت عطا فرمائی۔
5: بہ طور بھائی کے ذمے داری: آقا پاک ﷺ کے سگے بھائی بہن نہیں تھے بل کہ آپؐ کی پرورش آپؐ کے چچا نے فرمائی اور آپؐ کے چچا زاد بھائی حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ الکریم سے حضور نبی کریم ﷺ بے حد محبت فرماتے۔
سیدنا عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے جب مدینہ طیبہ میں اُخوت یعنی بھائی چارہ قائم فرمایا تو حضرت علی المرتضیٰؓ روتے ہوئے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اﷲ! ﷺ آپ نے سارے صحابہ کرامؓ کے درمیان بھائی چارہ قائم فرمایا مگر مجھے کسی کا بھائی نہ بنایا۔ حضورِ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: (اے علی!) تم دُنیا میں بھی میرے بھائی ہو اور آخرت میں بھی میرے بھائی ہو۔'' (سنن ترمذی)
6: بہ طور اعزاء و اقرباء کے ذمے داری: حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: ''دینے والے کا ہاتھ اوپر (برتر) ہوتا ہے، پہلے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں پر خرچ کرو پھر درجہ بہ درجہ اپنے قریبی رشتہ داروں پر۔''
حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کی اہلیہ نے حضور نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اﷲ ﷺ! میرا شوہر ضرورت مند ہے کیا میرے لیے اس کو صدقہ دینا جائز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ''ہاں! تمہیں اس صدقے کا دہرا اَجر ملے گا۔''
7: بہ طور پڑوسی کے ذمے داری: دین اسلام معاشرت کا جو تصور پیش کرتا ہے وہ ناصرف فرد کی ذاتی تسکین و تسلی کا ضامن بنتا ہے بل کہ معاشرے کے دوسرے افراد کے لیے بھی خیر و عافیت اور دردِ دل کی فضا ہم وار کرتا ہے۔
معاشرتی نظام میں سب سے پہلا حق پڑوسیوں کا ہوتا ہے اور آقا پاک ﷺ نے پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے والوں کو افضل و برتر فرمایا ہے، ''اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بہترین ساتھی وہ ہے جو اپنے ساتھیوں کے لیے بہتر ہو اور اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے بہتر ہو۔'' (سنن تّرمذی)
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ''وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کا ہمسایہ اس کے فساد سے محفوظ نہیں۔'' (صحیح مسلم)
سیدنا عبداﷲ ابن عباسؓ نے سیدنا عبداﷲ ابن زبیرؓ کو خبر دیتے ہوئے کہا: میں نے حضور نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ''وہ شخص مومن نہیں ہے جو خود سیر ہو کر کھاتا ہے جب کہ اس کا پڑوسی فاقوں میں زندگی بسر کر رہا ہے۔'' (البخاری)
اخلاقی ذمہ داریاں بہ حیثیتِ مجموعی: حضرت ابوبکرؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے یوم نحر کو ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ''بے شک! تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں، تم (میں سے ہر ایک) پر اسی طرح حرام ہیں جیسا کہ آج کے دن کی، آج کے اس مہینے میں تمہارے اس شہر کی حرمت ہے۔''
ایک موقع پر ارشاد فرمایا: ''آگاہ رہو! ان چار باتوں سے بچنا: اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، خدا کی حرام کردہ کسی جان کو ناحق قتل نہ کرنا، زنا نہ کرنا اور چوری نہ کرنا۔'' (مسند احمد)
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ''سنو! ظلم نہ کرنا، سنو! ظلم نہ کرنا، سنو! ظلم نہ کرنا۔ کسی شخص کا مال اس کے دل کی خوشی کے بغیر لینا حلال نہیں ہے۔''
اﷲ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین