سندھ میں کچھ بھی ہوتا رہے نوازشریف مداخلت نہیں کریں گے ایاز لطیف پلیجو
صوبے میں گذشتہ بارہ سال سے نوکریاں بِک رہی ہیں، ایم کیوایم اپنی پالیسی بدلے، مفاہمت کے لیے تیار ہیں
ISLAMABAD:
عوامی تحریک کے سربراہ اور صف اول کے سندھی قوم پرست راہ نما ایاز لطیف پلیجو15نومبر1968کو ممتاز سندھی قوم پرست سیاست داں اور ادیب رسول بخش پلیجو کے گھر پیدا ہوئے۔
ان کی والدہ زرینہ بلوچ گلوکارہ اور اداکارہ ہونے کے ساتھ سندھ میں خواتین کے حقوق کی سرگرم راہ نما تھیں۔ ایاز لطیف پلیجو نے مہران انجنیئرنگ یونیورسٹی سے ''سول انجنیئرنگ''، ''سندھ یونیورسٹی سے ''قانون''، یونیورسٹی آف کولمبیا، وینکوور سے ''انوائرمنٹ اینڈ ڈیولپمنٹ'' اور برطانیہ کے Wyeکالج سے ''دیہی ترقی'' میں M.Sc کی ڈگری حاصل کی۔ وہ قوم پرست جماعت عوامی تحریک کے صدر ہونے کے ساتھ ''سندھ پروگریسیو نیشنلسٹ الائنس'' کے بانی اور مرکزی کنوینر ہیں۔
انہیں مختلف ملکی اور غیرملکی فورمز پر بہ حیثیت ''گیسٹ اسپیکر'' بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ نپے تُلے انداز میں گفت گو کرنے والے ایاز پلیجو امن اور انسان دوستی کے لیے اپنے مخالفین سے بھی ہاتھ ملانے سے گُریز نہیں کرتے۔ گذشتہ دنوں''ایکسپریس'' نے ان سے خصوصی گفت گو کی جو قارئین کی نذر ہے۔
ایکسپریس: آپ کے والد رسول بخش پلیجو کا شمار سندھ کے نمایاں سیاست دانوں میں ہوتا ہے، آپ کی سیاسی تربیت میں اُن کا کتنا کردار ہے؟
ایاز لطیف پلیجو: والدین سیاست داں تھے، آمریت کے خلاف تحریک میں جیلوں میں گئے۔ ضیا دور میں آمریت کے خلاف منہاج برنا صاحب نے صحافیوں کی تحریک چلائی، جس میں میرے والدین بھی پیش پیش تھے۔ گھر میں ادبی ماحول تھا۔
نام ور ادیبوں کو پڑھتے پڑھتے سیاست کی طرف رجحان پیدا ہوا۔ ہمارا گھرانا لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتا تھا۔ بسوں میں لٹک کر اسکول جاتے تھے۔ میری والدہ زرینہ بلوچ کا شمار سندھ کی بڑی فوک اور انقلابی گلوکارائوں میں ہوتا تھا۔ وہ ایک پرائمری ٹیچر ہونے کے ساتھ ساتھ ڈراما آرٹسٹ بھی تھیں۔ سیاست میں سرگرم عمل اور تدریس سے وابستہ ہونے کی وجہ سے اُن کے پاس بہت کم وقت ہوتا تھا۔ انہوں نے مجھے ہمیشہ ہر جان دار سے محبت کرنے کا درس دیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہر وہ زندہ شے جو ارتقا سے گزر رہی ہے، اُس سے ہمارا محبت کا تعلق ہے۔ ہماری تربیت یہ تھی کہ اگر ایک چیونٹی بھی پانی میں ڈوب رہی ہے تو ایک تنکا رکھ دینا ہے جس کے سہارے وہ پانی سے باہر آسکے۔ اگر چڑیا کا بچہ گر گیا ہے تو اُسے تنکے میں آٹا لپیٹ کر کھلانا ہے۔ والد صاحب نے کبھی یہ نہیں کہا کہ سیاست دان بننا ہے، انجنیئر یا ڈاکٹر بننا ہے ۔ اس معاملے میں بالکل فری ہینڈ دیا گیا تھا۔
ایکسپریس: آپ نے گیارہ سال کی عمر میں عوامی تحریک چلڈرن ونگ کے سینٹرل جنرل سیکریٹری کی ذمے داریاں سنبھالیں، سیاست میں آمد شوق کا نتیجہ تھی یا وراثت سمجھ کر اسے اپنایا؟
ایاز لطیف پلیجو: یہ ایک فطری عمل ہے کہ بیٹا اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن اُس شعبے کو منتخب کرنا یا نہ کرنا اُس کی اپنی مرضی ہوتی ہے۔ میرے والد کے ددھیال اور ننھیال کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں تھا، لیکن وہ سیاست میں آئے۔
میری والدہ میدانِ سیاست میں رہیں۔ بڑی بہن اختر بلوچ پہلی سندھی خاتون تھیں جنہوں نے ووٹر لسٹ، ''لینگویج بل'' اور دیگر مسائل پر احتجاجاً گرفتاری پیش کی۔ سیاست کی پُر خار وادی میں قدم رکھنے کا فیصلہ میرا اپنا تھا۔ مجھے سیاست کرنے، لوگوں کے مسائل حل کرنے میں مزہ آتا ہے، ذہنی سکون ملتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میں خود کو ایک سیاسی کارکن کے طور پر زیادہ اچھی طرح پیش کر سکتا ہوں۔
ایکسپریس: سیاست، وکالت، سماجی سرگرمیاں، تصنیف اور تدریس۔ ایک ساتھ اتنے شعبوں سے کس طرح انصاف کرتے ہیں؟
ایاز لطیف پلیجو: مجھے ان حالات میں سیاست کرنے میں بہت مزہ آتا ہے جب درجۂ حرارت 47 ڈگری سینٹی گریڈ ہو اور آپ ''محبت سندھ ریلی'' لے کر ہزاروں لوگوں کے ساتھ کندھ کوٹ کے راستوں پر چل رہے ہوں۔ کچھ دن قبل بھی ہم نے میرپورخاص میں ریلی نکالی تھی۔ لوگ گرمی سے پسینہ پسینہ تھے، لیکن وہ اتنے شدید گرم موسم میں پاکستان کے لیے، امن کے لیے، ترقی کے لیے سڑکوں پر موجود تھے۔
سیاست کے بعد مجھے تدریس میں بہت مزہ آتا ہے۔ میں ''قانون'' کے مضامین پڑھاتا ہوں۔ ''لا'' پڑھانا میرے لیے کوئی ذمے داری یا پروفیشنل ایکٹیویٹی نہیں ہے۔ مجھے وکالت پڑھانا اور اُس پر گفت گو کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔ میں نے وکالت پر کتابیں بھی لکھی ہیں۔ جہاں تک تعلق ہے وکالت کی پریکٹس کا تو یہ میرا روزگار ہے۔ سندھ میں یہ روایت ہے کہ وڈیرہ یا نام نہاد قوم پرست کوئی ذریعۂ معاش نہ ہونے کے باوجود کروڑ پتی، ارب پتی ہوتا ہے۔ ان وڈیروں اور قوم پرستوں نے ہی سندھ میں لینڈ کروزر اور بڑے بڑے عالی شان بنگلوں کی سیاست متعارف کروائی۔ میرا تعلق ایک لوئر مڈل کلاس گھرانے سے ہے۔ روز کماتے ہیں۔
اُس سے گھر چلاتے ہیں۔ کسی جلسے میں جانا ہو تو گاڑی میں بیٹھے تمام افراد پیسے ملا کر پیٹرول ڈلواتے ہیں۔ اس ماحول میں ہر چیز میں مزہ آتا ہے۔ میں نے سول انجنیئرنگ میں بی ای، دیہی ترقی اور ماحولیات میں ماسٹرز کیا ہوا ہے۔L.L.Mمیں میں نے پورے سندھ میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ میں نے تین مختلف شعبوں میں گریجویشن کیا اور اس کا بنیادی سبب میرے اندر موجود بے چینی اور جستجو ہے۔ پاکستان میں آپ کے پاس کوئی چوائس نہیں یہ امریکا یا یورپ نہیںکہ آپ نے میوزک میں ڈگری لی اور بڑے میوزیشن بن گئے۔ یہاں تو ہم جیسے مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس لوگوں کو پچاس کام کرنے ہوتے ہیں۔
آپ کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ انجینئرنگ میں نوکری ملے گی، صحافی بنیں گے یا وکیل۔ انجینئرنگ پڑھنے والا بچہ اکائونٹنٹ کی نوکری کر رہا ہوتا ہے، کیوں کہ اُسے پتا ہے کہ نوکری کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ پاکستان میں آپ اور ہم جیسے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع ہی نہیں ہیں۔ ہر جگہ حکم رانوں، سیاست دانوں، وڈیروں، جاگیرداروں کے رشتے داروں اور دوستوں کو نوکریاں دی جا رہی ہیں۔ سندھ میں تو گذشتہ دس، بارہ سال سے نوکریاں ''ِبِک'' رہی ہیں۔ لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس لوگوں کے لیے آگے بڑھنے کا واحد حل ''ملٹی ڈائی مینشل''(مختلف شعبوں میں مہارت) اسکلز میں ہے ۔ ہم جیسے افراد کو جتنا زیادہ سیکھنے اور اپنی تشنگی مٹانے کا موقع ملے اُس کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔
ایکسپریس: لیاری میں بدامنی اور خوں ریزی کے اصل محرکات کیا ہیں؟
ایاز لطیف پلیجو: لیاری میں بدامنی کے تین چار پہلو ہیں، اول پورے سندھ میں وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم، کچھ علاقوں میں تمام بنیادی سہولتیں ہیں تو کچھ علاقوں کو یکسر نظرانداز کیا گیا ہے۔ کراچی کے بہت سے علاقے چاہے وہ اردو بولنے والوں کے ہوں یا سندھی، پشتو، بلوچی یا کوئی بھی زبان بولنے والوں کے وہ زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ آپ لیاری ندی کے اطراف بسے ہوئے اردو بولنے والوں کو دیکھیں، جو ایک کمرے پر مشتمل ڈربے جیسے چھوٹے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ دروازے کی جگہ ٹاٹ کا پردہ اور کھانے کے لیے کچھ نہیں۔ یہی حال لیاری اور دیگر علاقوں کا ہے۔
یہ لوگ کیا کریں، یہ یا تو مذہبی انتہاپسندی کی طرف جائیں گے، یا منشیات اور جرائم کی راہ پر گام زن ہوجائیں گے۔ پاکستان پیپلزپارٹی ہمیشہ لیاری سے ووٹ لیتی رہی مگر اس نے لیاری کے عوام کو ہمیشہ اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔ اسے جب بھی کوئی جلسہ کرنا ہوتاہے یا دوسری جماعتوں کو اپنی طاقت دکھانی ہوتی ہے تو وہ لیاری کے عوام کو ''بجاں تیر بجاں'' کے گانے پر نچواتی ہے۔ لیاری میں جرائم کا خاتمہ، بنیادی سہولتوں کی فراہمی پیپلزپارٹی کی ذمے داری تھی۔ گینگ وار کی سر پرستی اور اُسے فروغ بھی پیپلزپارٹی نے دیا ۔ گزشتہ دنوں لیاری میں ہم نے متحارب گروپوں کو آمنے سامنے بٹھایا اور امن کے لیے مذاکرات کیے۔
آپ دیکھیں کہ مذاکرات کے دوران بھی ہم نے آپریشن جاری رکھنے کا کہا۔ ہمیں کسی کرمنل کو تحفظ نہیں دینا۔ مجرم چاہے میرا سگا بھائی ہو اُسے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کریں۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے علاقے میں آپریشن نہیں کرو، میں تو کہتا ہو ںکہ آپریشن کا آغاز میرے گھر سے کرو۔ مجھ سے پوچھو کہ ایاز پلیجو اس بندوق کا لائسنس دکھائو۔ یہ تو بہت ہی عجیب بات ہے کہ میں اپنے محلے میں ڈکیتیاں ہونے دوں، گاڑیاں چِھننے دوں، لیکن آپریشن نہ کرنے دوں۔ تو جب تک آپ لوگوں کی بنیادی ضروریات زندگی پوری نہیں کریں گے، تب تک لیاری کیا کسی بھی علاقے میں امن قایم نہیں ہوسکتا۔ آپ کو مرض کی تشخیص کرکے بیماری کی جڑ ختم کرنی ہوگی۔
ایکسپریس: آپ کی سربراہی میں بننے والی ''لیاری اتحاد کمیٹی'' لیاری میں قیام امن کے لیے کردار ادا کر رہی ہے۔ لیکن آپ کی نظر میں قیامِ امن اور گروہی نفرت کا خاتمہ مستقل بنیادوں پر کس طرح ممکن ہے؟
ایاز لطیف پلیجو: جب متحدہ قومی موومنٹ کے کنور نوید ، وسیم اختر اور رابطہ کمیٹی کے اراکین میرے پاس ہڑتال کی کال موخر کرانے آئے، تب بھی میں نے اُن دوستوں سے کہا تھا اور آج آپ کے اخبار کے توسط سے ایک بار پھر کہہ رہا ہوں کہ کراچی، حیدرآباد میں امن پورے سندھ کے لیے، پورے پاکستان میں امن کے لیے ضروری ہے، کیوں کہ ہمارے پاس بہت زیادہ خوراک ہے، بہت زیادہ وسائل ہیں، جب خوراک و وسائل کم ہوں تو لڑائی سمجھ میں بھی آتی ہے۔ سندھ کی گود میں اپنے اُردو، سندھی، پنجابی، پشتو اور بلوچی بولنے والے ہر بچے کے لیے اتنے وسائل ہیں کہ ہمیں آپس میں لڑنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
آپ سندھ کے بیٹے ہیں، پاکستان کے بیٹے ہیں، آپ کا سندھ پورے پاکستان کی گیس کی ضرورت کا 71.5فی صد فراہم کرتا ہے۔ اس کے باوجود آپ کے ہاں لوڈ شیڈنگ ہے، کراچی ، حیدرآباد میں لوگ احتجاج کر رہے ہیں، آپ کا سندھ، میرا سندھ، اس پیارے پاکستان کو 58.5 فی صد پیٹرول دیتا ہے۔ آپ کا یہ سندھ دنیا بھر میں کوئلے کے ذخائر رکھنے والے خطوں میں چھٹے نمبر پر ہے۔ یہی سندھ پاکستان کو دو بڑی ڈیپ سی پورٹ دیتا ہے، کراچی اور کیٹی بندر۔ پھر بھی آپ اور ہم لوگ بھوکے مر رہے ہیں، پھر بھی حیدر آباد اورسندھ میں عام لوگ قتل ہو رہے ہیں۔ ایازپلیجو کو صرف سندھی بولنے والے کا درد کیوں ہو؟ ، وہ پٹھان بچہ جو کچرے کے ڈھیر سے تھیلیاں چن رہا ہے، وہ مہاجر بچہ جو کڑی دھوپ میں سائیکل کا پنکچر لگا رہا ہے، جو قلفی بیچ رہا ہے۔
یہ سب اتنے وسائل ہونے کے بعد کیوں بھوکے مر رہے ہیں؟ آخر کیوں مہاجر ماں دروازے کو دیکھ دیکھ کر یہ سوچتی ہے کہ میرا بیٹا زندہ گھر لوٹے گا یا اُس کی لاش گھر آئے گی، شیعہ ماں ڈری ہوئی ہے کہ آج اُس کے بیٹے کو قتل کردیا جائے گا، کیوں کہ اُس کے نام کے ساتھ تراب لگا ہوا ہے، حسین لگا ہوا ہے، علی لگا ہوا ہے۔ سنی ماں پریشان ہے کہ اپنے جوان بیٹے کو جس کے نام کے ساتھ صدیقی لگا ہوا ہے، فاروقی لگا ہوا ہے کیا شام میں زندہ دیکھ بھی سکے گی یا نہیں۔ ہر شخص دوسرے مسلک یا فرقے سے کیوں ڈرا ہوا ہے۔ صرف لیاری ہی نہیں پورے ملک میں امن کا حال یہی ہے۔ضروری ہے کہ ہماری ریاست، عدلیہ، سول سوسائٹی، فرقوں کے پیچھے نہ چلے، زبان کے پیچھے نہ چلے، وہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25کے تحت ہر فرد کو برابری کا حق دے۔
ریاست کو لسانی اور فرقہ وارانہ بنیاد پر تفریق نہیں کرنی چاہیے۔ ریاست بلاامتیازرنگ و نسل ہر شخص کو اُس کا حق دے تو ہر طرف خوش حالی ہوگی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہتھیاروں کی زبان نہ بولیں، امن کی زبان بولیں، دلائل کی زبان بولیں۔
ایکسپریس: آپ لیاری میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کو یک طرفہ قرار دیتے ہیں، یک طرفہ آپریشن سے کیا مراد ہے؟
ایاز لطیف پلیجو: کسی زمانے میں ہم نے لیاری آپریشن کو یک طرفہ قرار دیا تھا لیکن اب تو ہم لیاری میں آپریشن کی حمایت کر رہے ہیں۔ ہاں ہم یہ ضرور کہتے ہیں کہ کسی بھی سندھی، بلوچی، پنجابی سرائیکی، اُردو بولنے والی ماں کے بچے کو ماورائے عدالت قتل نہ کریں۔ اُنہیں گرفتار کرکے عدالت میں پیش کریں۔ سزا سنائیں، اپیل کا حق دیں، لیکن اُنہیں قتل کرکے لاشیں نہ پھینکیں۔
ایکسپریس: لیاری میں امن کے لیے آپ نے کافی کوششیں کیں۔ گینگ وار کے لیڈر آپ کی بات کو کس حد تک اہمیت دیتے ہیں؟
ایاز لطیف پلیجو: سندھ میں جاکھرانی، مہر، جتوئی، اوگائی، تیغانی قبائل میں ہونے والی لڑائیاں بھی گینگ وار جتنی خطرناک ہوتی ہیں۔ ان لڑائیوں میں سالوں سے سیکڑوں لوگ مررہے ہیں، اگر مجھے موقع مل جائے سردار، جاگیردار، وڈیرے میری بات مانیں تو میں ان کے پاس بھی ہاتھ باندھ کر جانے کے لیے تیار ہوں کہ ''سردار صاحبان! جاگیر دار صاحبان! برائے مہربانی لوگوں کو مارنا بند کریں۔'' جب لیاری کی جھٹ پٹ مارکیٹ میں بم چلے اور بے گناہ خواتین، بچے نوجوان مرے تو میرا کیا ہر پاکستانی کا دل دُکھا۔
مجرموں کی لڑائی میں مجرم مریں تو لوگوں میں اتنی بے چینی نہیں ہوتی، لیکن جب مجرموں کی لڑائی میں عام آدمی نشانہ بنے تو پھر ہمیں لازمی مداخلت کرنی چاہیے چاہے وہ لیاری ہو، بلوچستان ہو، کندھ کوٹ ہو، اسلام آباد ہو یا وزیرستان، ہمیں انہیں روکنا چاہیے۔ لیاری میں گینگ وار کے لیڈروں عذیرجان بلوچ اور بابالاڈلا نے مجھ پر اعتماد کیا۔ میں نے انہیں یہی کہا کہ میری اولین ترجیح ہتھیاروں کا خاتمہ ہوگی، ہم کسی بھی جرائم پیشہ شخص کی حمایت نہیں کریں گے، چاہے وہ ایاز لطیف پلیجو ہی کیوں نہ ہو۔ انہوں نے میری باتوں پر اتفاق کرتے ہوئے اعتماد کیا اور میں نے لیاری میں امن کی کوششیں کیں۔
ایکسپریس: وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس میں کراچی میں جاری آپریشن کا فیصلہ کُن مرحلہ طے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کیا اس کے بعد کراچی میں پائے دار امن قائم ہوسکے گا؟
ایازلطیف پلیجو: کسی بھی چیز کے مختلف پہلو ہوتے ہیں۔ کراچی میں امن صرف جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن ہی سے نہیں ہوگا۔ کراچی میں پانی بجلی اور گیس کی بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ لوگوں کو روزگار فراہم کیا جائے۔ ادبی تقریبات منعقد کی جائیں۔ آپ اور ہم تو ہر وقت دہشت زدہ رہنے والے لوگ ہیں۔ کراچی میں آپریشن مسئلے کا بڑا حل ہے، غیرجانب دارانہ آپریشن ضرور ہونا چاہیے، لیکن اس آپریشن کے دیگر لوازمات بھی پورے کرنے ضروری ہیں۔ کراچی میں امن و امان کے لیے ادبی، سماجی اور سیاسی سرگرمیاں ہونا ضروری ہیں۔ اسپورٹس فیسٹیول ہونے چاہییں۔
یہ سب نہیں کریں گے تو پھر کراچی کس طرح ترقی کرے گا۔ کراچی، سندھ اور پاکستان میں امن کے لیے مذہبی انتہاپسندی کو ختم کرنا ضروری ہے۔ مذہبی انتہا پسند اگر اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ آخرت میں ہر فرد کو اُس کے کیے کی سزا وجزاملے گی تو پھر زبردستی کا اسلام کیوں نافذ کر رہے ہیں۔ سزا کا فیصلہ اﷲ تعالیٰ، ریاست اور اُس کے قانون پر چھوڑ دیں۔ فرقہ وارانہ قتل بھی لازمی بند کرنے ہوں گے۔ سیاسی دہشت گردوں کے علاوہ مذہبی دہشت گردوں کے خلاف بھی آپریشن ہونا چاہیے۔
ایکسپریس: آپ کے متحدہ قومی موومنٹ سے نظریاتی اختلافات ہیں، لیکن رواں سال آپ نے اُن کے کہنے پر ہڑتال کی کال موخر کی۔ کیا آپ ایم کیو ایم کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی اپنا رہے ہیں؟
ایاز لطیف پلیجو: ہم نے ہڑتال کا اعلان سند ھ کی تقسیم کے مطالبے پر کیا تھا، لیکن متحدہ قومی موومنٹ ہمارے پاس آکر کہتی ہے کہ جناب ہم نے سندھ کی تقسیم کا نہیں کہا، ہمارے بیان کو توڑمروڑ کر پیش کیا گیا، اگر آپ غلط سمجھ رہے ہیں تو ہم اپنا بیان واپس لینے کو تیار ہیں۔ اس بات کے بعد ہڑتال کا کوئی جواز نہیں تھا۔ میں ایک بات اور بتا دوں کہ ہم سندھ کی تقسیم کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔
اس کے خلاف ہم آخری حد تک جائیں گے۔ ہم اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم سندھ کے ٹکڑے کرکے اِسے عالمی طاقتوں کی کالونی بنانے کے لیے تیار نہیں ۔ ہم دوسرے قوم پرستوں کی طرح پیپلزپارٹی یا کسی وفاقی پارٹی کا مہرہ بن کر اُن کے مفادات کے لیے استعمال نہیں ہوں گے۔ پیپلزپارٹی کی خواہش ہوتی ہے کہ سندھ کی تمام جماعتیں آپس میں لڑیں اور وہ ''پک اینڈ چُوز'' کرکے کبھی اِس کے ساتھ اتحاد کرے تو کبھی اُس کے ساتھ اتحاد کرے۔ ہم پیپلزپارٹی اور وڈیروں کی اس سیاست پر چلنے کے لیے تیار نہیں۔ ایم کیو ایم اگر اپنی سیاست کو سندھ میں مثبت بنانا چاہتی ہے تو اسے دو، تین نکات پر متفق ہونا پڑے گا۔
اول سندھ ہزاروں سالوں سے سندھ کے باشندوں کا ہے، اور اس پر کوئی مفاہمت نہیں کی جائے گی۔ اُردو بولنے والے ہمارے بھائی ہیں، وہ بھی سندھ دھرتی کے بیٹے ہیں، اُن کا بھی سندھ پر حق ہے، آبادی کے لحاظ سے اُن کا جو حصہ بنتا ہے وہ ضرور لیں۔ دوسرا یہ کہ ایم کیو ایم کو ہتھیاروں، اور عسکریت پسندی کی سیاست سے دست بردار ہونا پڑے گا اور اگر اُس کی صَفوں میں جرائم پیشہ افراد ہیں تو اسے اُن سے لاتعلقی اختیار کرنی پڑے گی۔ تیسری بات یہ کہ کراچی میں جو وسائل ہیں ، نوکریاں ہیں، کالج یونیورسٹیوں کے داخلے ہیں، اِن سب وسائل کی آبادی کے لحاظ سے تقسیم اور سندھ دھرتی کے بچو ں کی راہ میں رکاوٹ بننے کی پالیسی ترک کرنی پڑے گی۔ اسی طرح سندھی بولنے والے بھائیوں کو اپنے اُردو بولنے والے بھائیوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اُن کے دُکھوں کو سمجھنا ہوگا۔
اُن کے ساتھ محبت سے رہنا ہوگا۔ اُردو ہماری بہت پیاری زبان ہے اسی طرح ہمیں سندھی زبان سے بھی پیار کرنا چاہیے۔ شاہ لطیف کو پڑھنا چاہیے، شیخ ایاز کو پڑھنا چاہیے، امر جلیل کو پڑھنا چاہیے۔ ہمارے اُردو بولنے والے بھائیوں کو سندھ کی لیڈر شپ کو ''اون'' کرنا چاہیے۔ سندھ کے تمام وسائل کے لیے ہمارے اُردو بولنے والے بھائیوں کو سندھی بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ جب کندھ کوٹ، کوٹری، کینجھر جھیل میں ہی پانی نہیں آئے گا تو کراچی کو کیسے ملے گا؟ تو سندھ کے پانی کے لیے ہمارے اُردو بولنے والے بھائیوں کو اُٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ہمیں پاکستان کو ایک گل دستہ بنانے کی ضرورت ہے، نہ کہ ایسا ملک جہاں ہر شخص خوف کے سائے میں زندگی بسر کرے۔ ہر شخص ڈرا سہما ہے کہ کوئی شیعہ مار دے گا، سنی مار دے گا، لیاری والا مار دے گا، اُردو بولنے والا مار دے گا۔
نہ صرف ایم کیو ایم بل کہ ہم تو پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی بہترین مفاہمتی پالیسی رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر پیپلزپارٹی کل کہہ دے کہ ہم سندھ میں کرپشن کا خاتمہ کرتے ہیںاور زرداری ، وزیراعلیٰ اور بلاول بھٹو صرف ''ٹوئٹ'' کرنے کے بجائے ہمارے ساتھ میدان میں نکلیں، ہم اُن کے ساتھ ہیں۔ ہم انتہاپسندی کے خاتمے اور امن کے لیے میاں نوازشریف کے بھی ساتھ ہیں۔ جماعت اسلامی کے ساتھ ہم اے پی ڈی ایم کے زمانے سے ہیں، محبت سندھ ریلی میں وہ ہمارے شانہ بہ شانہ چلی ہے۔
سنی تحریک، پاکستان تحریک انصاف نے بھی ہمیں بہت سپورٹ کیا۔ سندھ میں قوم پرست ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرائو کے راستے پر ہوتے تھے، رسول بخش پلیجو، جی ایم سید صاحب کی سیاست ٹکرائو پر ہوتی تھی۔ 2009 میں صدر بننے کے بعد ہم نے ایس ٹی پی، ایس یو پی، جسقم، کو ساتھ لیا۔ پیرپگارا صاحب کے ساتھ ہم نے ایک بڑا جلسہ کیا۔ اُن کے ساتھ ''سندھ بچایو کمیٹی '' بنائی۔ سندھ میں مردم شماری اور دہرے نظام کی مخالف تمام جماعتوں کو ساتھ لیا۔ ایم کیو ایم اگر اپنی پالیسی تبدیل کرے، کراچی میں بسنے والے ہمارے بھائی سندھ میں بسنے والوں کو اپنا بھائی تسلیم کریں، تو ہم مفاہمت کے لیے تیار ہیں۔
ایکسپریس: آپ پاکستان پیپلزپارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی سندھ کی وحدت اور صوبائی خودمختاری کی بات کرتی ہے اور عوامی تحریک بھی، پھر دونوں جماعتوں میں کن باتوں پر اختلافات ہیں؟
ایاز لطیف پلیجو: پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ ہم پہلے دن سے کئی طرح کی جدوجہد میں شامل رہے ہیں۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کا اعلان کیا گیا تو پیپلزپارٹی میں شامل تمام وڈیرے منظر سے غائب ہوگئے تھے۔ اُس وقت میری والدہ نے حیدرآباد سے اُن کے حق میں جلوس نکالا اور اس کی پاداش میں سکھر جیل میں بھی قید رہیں۔ بھٹو صاحب نے آخری دنوں میں میرے والدکو جیل میں ڈال دیا تھا۔ اس کے باوجود انہوں نے بھٹو صاحب کی گرفتاری کے خلاف سب سے پہلے احتجاج کیا اور کہا،''اگر بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تو سندھ کے لیے پاکستان اجنبی بن سکتا ہے، اور سندھ میں ایک بڑی تحریک چل سکتی ہے۔''
ایم آرڈی کی تحریک میں ہم اور پیپلزپارٹی شانہ بہ شانہ تھے، کالا باغ ڈیم کے معاملے پر ہم نے پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر پورے سندھ میں جلسے کیے۔ ہم افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں پیپلزپارٹی کے ساتھ تھے، تو جہاں تک سندھ کے قومی مسائل، پاکستان کے جمہوری مسائل کی بات ہے تو ہم اُن کے ساتھ ہیں۔ ایم کیو ایم کہتی ہے کہ انتہا پسندی، مُلائیت، پاپائیت اور فرقہ واریت نہیں ہونی چاہیے تو ہم اُن کے ساتھ ہوں گے، لیکن اگر وہ سندھ کی تقسیم کی بات کریں گے تو ہم اُن کے خلاف ہوں گے۔ اسی طرح جماعت اسلامی امن کی بات کرے گی تو ہم اُس کا ساتھ دیں گے، لیکن اگر جماعت اسلامی یا جمعیت علمائے اسلام ملک میں طالبان کی شریعت کے نفاذ کی بات کرے گی تو ہم اُس سے اختلاف کریں گے۔ پیپلزپارٹی اگر جمہوری معاملات پر ساتھ چلتی ہے تو ہم اُس کا ساتھ دیں گے، لیکن اگر وہ سندھ میں ہر نوکری، ہر تبادلہ بیچیں گے۔
سندھ کے ہر دیہات کو پتھر کے زمانے میں لے جانے یا سندھ کے راستوں کو ویران کردیں گے، یونیورسٹی، ہسپتال، ادویات تک بیچ دیں گے یا سندھ کے علاقوں کو تقسیم کردیں گے کہ جی یہ ''اَدّی'' (بہن) کا علاقہ ہے، یہ ''اَدّا'' کا علاقہ ہے، یہ شاہ صاحب کا علاقہ ہے یہ ''ٹپی'' کا علاقہ ہے، اگر وہ اس طرح سندھ کو اپنی جاگیر بنا کر بیچیں گے تو سب سے پہلے ہم مخالفت کریں گے۔ انسانی جانوں کے ضیاع پر مذاق کرنا، طنز کرنا، یا ایئرکنڈیشنر میں بیٹھ کر ٹوئٹ کرنا سیاست نہیں ہے۔ بلاول بھٹو کی والدہ اور ہماری بہن بے نظیر بھٹو ایم آر ڈی کی تحریک سے لے کر ہر جلسیہر مظاہرے میں ہمارے ساتھ ہوتی تھیں۔ وہ دبئی یا لندن میں بیٹھ کر ٹوئٹر پر سیاست نہیں کرتی تھیں۔ پیپلزپارٹی کو کرپشن کا خاتمہ کرنا ہوگا، ورنہ جس طرح اُن کی جماعت کا دوسرے صوبوں سے صفایا ہوا ہے اسی طرح سندھ سے بھی صفایا ہوجائے گا۔ پیپلزپارٹی جمہوریتاور سندھ کے پانی کے تحفظ کے لیے میدان میں اُترے، ہم ان کے ساتھ ہوں گے۔
ایکسپریس: آپ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو ایک ہی تصویر کے دو رخ قرار دیتے ہیں۔ آپ کے خیال میں دونوں جماعتوں میں خاموش مفاہمت ہے۔ خاموش مفاہمت سے آپ کی کیا مراد ہے؟
ایاز لطیف پلیجو: بہ ظاہر نظر نہیں آرہا کہ میاں نوازشریف صاحب سندھ کے معاملات میں کوئی دل چسپی لے رہے ہیں۔ سمجھ میں یہی آرہا ہے کہ پیپلزپارٹی اور نوازشریف نے یہ طے کیا ہوا ہے کہ جس طرح گذشتہ دور حکومت میں مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی اور زرداری صاحب کو پانچ سال تک نہیں چھیڑا، اسی طرح پیپلزپارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لیے مسائل پیدا نہیں کرے گی، اور سندھ میں کچھ بھی ہوتا رہے نواز شریف صاحب مداخلت نہیں کریں گے۔ کراچی میں لوگ مر رہے ہیں۔
سندھ کی بجلی اور گیس پر پورا ملک چل رہا ہے، لیکن یہیں سب سے زیادہ لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ جتنی لوڈ شیڈنگ کراچی، لاہور اور اسلام کے پوش علاقوں میں ہوتی ہے اُتنی ہی لوڈشیڈنگ ، ننگر پارکر، کندھ کوٹ، جوہی، قمبر شہدادکوٹ میں ہونی چاہیے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ پوش علاقوں میں آپ بہ مشکل دو گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کر رہے ہیں اور جہاں سے بجلی پیدا ہورہی ہے، وہیں کے معصوم لوگوں کو اٹھارہ، بیس گھنٹے بجلی سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
پاکستان میں وسائل سب میں یکساں تقسیم ہونے چاہییں۔ ہمارے ایک وزیر عابد شیرعلی صاحب نے کہا کہ سندھ کے لوگ بجلی چور ہیں، کیا اُن کو نظر نہیں آتا کہ چور کون ہے، سندھ کی 72 فی صد گیس چُرا کر اپنے شہر آباد کر رہے ہو اور ہمیں ہی چور کہہ رہے ہو۔ سندھ کے پیٹرول پر پورا ملک چلا رہے ہو چور تو آپ ہیں، ڈاکو تو آپ ہیں کہ پرائی جیب سے مال لے اسلام آباد کو آباد کیے ہوئے ہیں۔ اُن چوروں کو سندھ کو جواب دینا چاہیے کہہ کیوں سندھ کے وسائل چُرا کر سندھ ہی کو چور کہ رہے ہیں۔
ایکسپریس: کالا باغ ڈیم پر آپ کے کیا تحفظات ہیں؟
ایاز لطیف پلیجو: کالاباغ ڈیم سندھ کے پانی پر ڈاکا ہے۔ دریائے سندھ میں پانی ہے نہیں، تو ہم ایسی باتیں کیوں کریں جن سے لوگوں میں مزید تفریق ہو۔ میں سمجھتا ہو کہ کالاباغ ڈیم کی بات وہ لوگ کرتے ہیں جو پاکستان میں ٹکرائو چاہتے ہیں، یہ پاکستان کے عوام کو مزید لڑانے کے لیے ایک عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ پاکستان کے 1991 اکارڈ کے مطابق پاکستان کے سسٹم میں 143ایم اے ایف (ملین ایکڑ فٹ) پانی ہے، جو اب نہیں ہے۔ جب سسٹم میں پانی ہی نہیں ہے تو پھر آپ 10ایم اے ایف کا ڈیم بنانے کی بات کیوںکر رہے ہیں۔
آپ سسٹم کو مزید موثر بنائیں، ونڈ انرجی کی جانب آئیں، ساحلی علاقوں میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائیں۔ نہری نظام بہتر کریں، کوئلے کی توانائی استعمال کریں۔ آپ پاکستان کو خودانحصاری کا حامل ملک بنائیں۔ ڈیم بنانے کی بات کرنا ایسا ہے جیسے سقو طِ ڈھاکا کے وقت کہہ رہے تھے کہ محبت کا آب زم زم بہ رہا ہے اور بنگال میں لوگ مر رہے تھے۔ ڈیم بنانے کی بات وہ شخص کرتا ہے جو پاکستان کو توڑنا چاہتا ہے۔
میں سندھ کے تمام قوم پرست کارکنوں، غیرت مند مائوں، بہنوں کی جانب سے کہہ رہا ہوں کہ سندھ کی تقسیم اور کالاباغ ڈیم کبھی نہیں بننے دیں گے۔ اس معاملے پر مفاہمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ سندھ کو توڑنے کے لیے، کالا باغ ڈیم بنانے کے لیے سر سے کفن باندھ کر اُتریں ہم بھی میدان میں اُترتے ہیں پھر دیکھتے ہیں کہ۔۔۔۔زور کتنا بازوئیِ قاتل میں ہے۔ یا تو ہم فنا ہوجائیں گے یا آپ کو فنا کردیں گے۔ میں آپ کو بتادوں کہ تین چیزیں ہم کبھی نہیں ہونے دیں گے۔ اول سندھ کی تقسیم، دوم کالا باغ ڈیم کی تعمیر اور سوم سندھ میں طالبان کی شریعت کا نفاذ۔ ہم نبی اکرمؐؐ کی شریعت کو مانتے ہیں جس میں کوئی جبر نہیں ہے۔ ہم مرجائیں گے مگر قتل، خواتین کی تعلیم پر پابندی، پولیو کے قطرے پلانے سے روکنے کی کوشش اور اقلیتوں کو دیوار سے لگانے کی طالبانی شریعت کو نافذ نہیں ہونے دیں گے۔
ایکسپریس: عمران خان سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر 2013 میں ہونے والے عام انتخابات میں دھاندلی کا الزام عاید کر رہے ہیں۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
ایاز لطیف پلیجو: پہلی بات تو یہ کہ برسراقتدار رہنے والی کوئی بھی بڑی جماعت یہ بات کیوں نہیں کرتی کہ ہم نے ملک میں ہر فرد کو تعلیم اور روزگار دے دیا۔ کراچی میں امن قایم کردیا۔ بلوچستان امن کا گہوارہ بن گیا۔ پورے ملک میں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پی رہے ہیں۔ ملک ترقی کی راہ پر گام زن ہے۔ یہاںلوگ مر رہے ہیں ، بے روزگاری ہے، عالمی طاقتیں آپ کو اپنے ایجنڈے پر چلا رہی ہیں، ہم اُن سے بھیک مانگنے کے لیے کشکول لے کر کھڑے ہیں، لیکن اِن حالات میں بھی ہمیں ایک دوسرے پر الزامات لگانے سے فرصت نہیں، ہم ہر دوسرے شخص پر غداری اور بے ایمانی کا الزام عاید کر دیتے ہیں۔
کیا چند مُلا، چند وڈیرے، چند سیاست داں اس بات کا تعین کریں گے کہ کون مخلص ہے اور کون غدار؟ افتخار محمد چوہدری کی ذات میں کچھ خامیاں ہوسکتی ہیں۔ مگر بہر حال انہوں نے عدلیہ کو پاکستان کا مضبوط ادارہ بنادیا۔ اب لوگ انصاف کے لیے عدلیہ کی طرف دیکھتے ہیں۔ اُن کی ان باتوں کی تعریف کرنی چاہیے۔
اسی طرح انتہاپسندی کے خلاف لڑنے والی ہماری فوج پر بھی تنقید کے بجائے اُس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ ہمیں پارلیمنٹ کو سپورٹ کرنا چاہیے، عمران خان کو ہر وہ کوشش کرنی چاہیے، جس سے جمہوریت مضبوط ہو۔ انہیں ہر اُس کوشش سے باز رہنا چاہیے جس سے جمہوریت ڈی ریل ہو۔ ہم عمران خان کے شفاف انتخابات کے لیے مضبوط الیکشن کمیشن کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں، مگر ہر تیسرے شخص پر غداری کا الزام لگانے کی ہم ہر گز حمایت نہیں کریں گے۔ ہمیں کسی کی ذات پر الزام تراشی کرنے کے بجائے جمہوریت کو مضبوط کرنا چاہیے۔
ایکسپریس: وکلا کی جانب سے عوام، پولیس، اور میڈیا کے نمائندوں پر تشدد کی خبریں آئے دن سامنے آتی رہتی ہیں۔ بہ حیثیت وکیل آپ وکلا کے اس رویے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ایاز لطیف پلیجو: میں تشدد کی کبھی حمایت نہیں کروں گا، چاہے وہ میرا وکیل بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ وکیل کا کام اپنے موکل کا کیس لڑنا ہے ڈنڈے ہاتھ میں لے کر لوگوں کے ساتھ مارپیٹ یا تشدد کرنا نہیں۔ ہتھیار اٹھانا، تشدد کرنا پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس رجحان کی بلاامتیاز حوصلہ شکنی کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔
ایکسپریس: تھر میں قحط سالی سے ہونے والے انسانی جانوں کے ضیاع کا ذمہ دار آپ نے سندھ حکومت کو قرار دیا۔ قوم پرست جماعتوں نے متاثرین تھر کی بحالی کے لیے کیا اقدامات کیے؟
ایاز لطیف پلیجو: سندھ کا قوم پرست کیا کر سکتا ہے؟ کیا ہمارے پاس اختیارات ہیں؟ گندم کی بوریاں ہیں؟ مختارکار ہیں؟ ای ڈی او ہے؟ ادویات ہیں جو ہم وہاں جا کر تقسیم کرتے۔ مثال کے طور پر اگر توڑی بند ٹوٹ جاتا ہے تو اُس میں سندھ کا قوم پرست کیا کرسکتا ہے، پانی کا بہائو روکنے کے لیے کھربوں روپے مالیت کی مشینری چاہیے ، وسائل چاہییں، وہ بے چارہ ریت کی بوریاں بھر کر ہی پانی کا بہائو روکنے کی کوشش کر سکتا ہے۔
تھر میں ستر ہزار گندم کی بوریاں گوداموں میں پڑی تھیں، ہر فرد کو دس کلو گندم دینی تھی۔ دوائیں دینی تھیں، پولیو ویکسین دینی تھی۔ تھر کے مسئلے کو سب سے پہلے ایکسپریس کے نمائندے جنیدخانزادہ نے اجاگر کیا، اُس نے مجھے فون کرکے کہا ایاز بھائی! تھر میں لوگ بھوکے مر رہے ہیں اور دو دن بعد میں تھر میں پہنچنے والا پہلا شخص تھا۔ ہم نے مٹھی میں امدادی کیمپ لگائے، لوگوں میں ادویات و راشن تقسیم کیا ، اس کے بعد دوسرے لوگ وہاں آئے۔ اُس سے پہلے تو کسی کو پتا ہی نہیں تھا کہ تھر میں کیا ہورہا ہے۔
ایکسپریس: سندھ کے عوام بظاہر قوم پرستی کو بہت اہمیت دیتے ہیں لیکن اس کے برعکس قوم پرست جماعتوں کو زیادہ نشستیں نہیں ملتیں، اس کے اسباب کیا ہیں؟
ایاز لطیف پلیجو: میں اس کے لیے قوم پرستوں کے ساتھ ساتھ سندھ کے لوگوں کو بھی قصوروار سمجھتا ہوں، سندھ کے عوام ہوٹلوں پر، دوستوں کی محفلوں میں وڈیروں ، جاگیر داروںکے خلاف چہ مگوئیاں اور تبصرے تو ضرور کرتے ہیں، لیکن جب ووٹ دینے کا وقت آتا ہے تو وڈیرے کے سامنے دیوار نہیں بنتے۔ دوسری سب سے اہم وجہ تعلیم کا فقدان ہے۔ تاہم گذشتہ سال ہونے والے انتخابات میں ووٹ کا حق استعمال کرنے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
اس بار ایک سو بیس پولنگ اسٹیشن میں سے 72پر عوامی تحریک جیتی ہے۔ شکار پور، مورو، دادو، نواب شاہ میں بھی لوگوں نے وڈیروں، جاگیرداروں کے خلاف ووٹ دیے۔ سندھ میں پریزائیڈنگ افسر، سندھی میڈیا بھی ان وڈیروں اور جاگیرداروں کی غیراعلانیہ حمایت کرتاہے ۔ سندھی میڈیا پورے پانچ سال پیپلزپارٹی کی حکومت پر تنقید کرتا رہا لیکن الیکشن سے پندرہ دن پہلے اس نے کروڑوں روپے کے اشتہارات لیے اور بی بی شہید کی تصویریں دکھا کر، گڑھی خدابخش دکھا کر شہیدوں کے نام پر سندھی عوام کو جذباتی کیا۔ سندھ کے قوم پرستوں کو بھی اپنی نااہلی دور کرنا ہوگی۔
ایکسپریس: آپ کے خیال میں قوم پرستوں کی سندھ کے عوام اور صوبے کے مفاد کے لیے کی جانے والی جدوجہد کا اب تک کیا نتیجہ برآمد ہوا ہے؟
ایاز لطیف پلیجو: سندھ کا قوم پرست بھتہ خوری کے الزام سے باہر نکلے، سندھ کا قوم پرست سندھ کی تعلیم کو تباہ نہ کرے۔ ان کی ذیلی طلبا تنظیمیں سندھ کے تعلیمی اداروں میں رشوت، طالبات سے بدتمیزی، اساتذہ اور مخالف طلبا تنظیموں پر تشدد کرنا بند کریں۔ سندھ کی تعلیم کا نقصان متحدہ قومی موومنٹ یا مسلم لیگ نے نہیں کیا خود قوم پرستوں نے کیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں پرائمری اور قوم پرستوں نے یونیورسٹی اور کالجوں کی سطح پر تعلیم کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
یہ لوگ اسلحے کے زور پر امتحانات میں نقل کرتے ہیں، اپنے نمبر بڑھواتے ہیں۔ جو قوم پرست زمینوں پر قبضے کرتے ہیں، گاڑیاں چھینتے ہیں، مختلف جرائم کرتے ہیں، ہم ایسے جرائم پیشہ قوم پرستوں کو ملک کا، اپنی قوم کا مجرم سمجھتے ہیں۔ قوم پرستوں کی صفوں میں سے جب تک جرائم پیشہ افراد ختم نہیں ہوں گے اُس وقت تک قوم پرست کام یاب نہیں ہوں گے۔ سندھ کا ہر قوم پرست عوام اور میڈیا کے سامنے آکر اپنا ذریعہ آمدنی بتائے، سندھ کا قوم پرست کوئی ذریعہ معاش نہ ہونے کے باوجود ارب پتی ہے، وہ جوئے خانوں، شراب خانوں، بسوں کے اڈوں سے بھتے لے رہا ہے۔ جمہوری عمل میں عوام کا محبوب بننے کے لیے انہیں اُنہیں یہ سب غلط دھندے بند کرنے ہوں گے۔
اس سلسلے میں پہلا قدم بھی میں ہی اٹھاتا ہوں۔ میں آپ کے اخبار کے توسط سے بتا دیتا ہوں کہ وکالت میرا ذریعہ معاش ہے۔ میں ہر ماہ ہائی کورٹ کے اوسطاً آٹھ سے دس کیس لڑتا ہوں، یہ گھر، گاڑی میرے اپنے نام پر ہے، میں نے محکمۂ زراعت میں دس سال نوکری کرنے کے بعد استعفیٰ دیا ہے۔ میں 2003سے باقاعدگی سے انکم ٹیکس ریٹرن جمع کروا رہا ہوں۔ ہائی کورٹ کی کاز لسٹ چیک کرلیں اور اُس کا موازنہ میرے انکم ٹیکس ریٹرن سے کرلیں کہ میں کتنے کیس لڑتا ہوں۔ میں اپنے موکل سے ملنے والی فیس کی بھی رسید دیتا ہوں ۔ تمام بین الاقوامی سفری اخراجات کے بھی انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرواتا ہوں۔ آج تک عوامی تحریک کے کسی بھی راہ نما کے خلاف بھتا خوری کی ایک بھی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ دوسرے قوم پرست لیڈروں کے خلاف پچاس، پچاس ایف آئی آر کٹی ہوئی ہیں۔
ایکسپریس: آپ کی جماعت دیگر قوم پرست جماعتوں کے مقابلے میں کس طرح مختلف انداز میں سندھ کے عوام کی ترجمانی کر رہی ہے؟
ایازلطیف پلیجو: پہلی بات تو یہ کہ میں خود کو قوم پرست کہلوانا پسند نہیں کرتا۔ ''پرستش'' کیوں؟ انسان کو قوم دوست ہونا چاہیے ۔ مجھ سے پوچھا جائے تو میں یہی کہوں گا کہ میں قوم دوست ہوں۔ اپنی قوم کا بھی اور دوسری قوموں کا بھی۔ ایاز پلیجو صرف حیدرآباد کی خوشی پر خوش نہیں ہوگا۔ ایاز پلیجو کو خوشی اُسی وقت ملے گی جب پورا پاکستان خوش ہوگا۔
ایکسپریس: زیادہ تر کن موضوعات پر کتابیں پڑھنا پسند ہیں؟ پسندیدہ شاعر، پسندیدہ ادیب کون ہے؟
ایازلطیف پلیجو: مجھے ایک نہیں درجنوں ادیب پسند ہیں، فیض احمد فیض جنون کی حد تک پسند ہے، شیخ ایاز میرا پسندیدہ شاعر ہے، شاہ لطیف کو تو ہر ہفتے بار بار پڑھتا ہوں۔ ان کے کسی ایک سُر کو مسلسل پڑھتا ہوں۔ اُردو افسانہ نگاروں میں قرۃ العین حیدر میری پسندیدہ ہیں، مشتاق احمد یوسفی جیسا مزاح نگار پورے برصغیر میں نہیں ہے۔ اُن کی ''زرگزشت'' پاکستان میں سب کو پڑھنی چاہیے۔ ابن انشاء کے سفر نامے پڑھے ہیں۔ شوکت صدیقی کے ناول پڑھ کر بڑے ہوئے ہیں۔
کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، احمد فراز کو بھی بہت پڑھا۔ بین الاقوامی ادب میں ''میلان کُنڈیلا''،''ہیمنگ وے''، ''دوستوفسکی'' کو بہت زیادہ پڑھا ہے۔ میکسم گورکی کو بچپن میں والدین پڑھ کر سناتے تھے۔ راجندر سنگھ بیدی کا ایک ناول تھا ''ایک چادر میلی سی'' اس قسم کی کتابیں بہت زیادہ پسند ہیں۔ سندھی ادب میں ایک بہت بڑا نام ہے ''نسیم کھرل'' لوگوں نے انہیں کم پڑھا لیکن مجھے یہ بہت پسند ہیں، یہ بین الاقوامی معیار کے ادیب ہیں، امر جلیل ہمارے لیجنڈ ہیں۔ بلوچی ادب میں گل خان نصیر بہت زبردست شاعر ہیں۔
ایکسپریس: گلوکار کون سا اچھا لگا؟ اداکار، اداکارہ، فلم جو پسند آئی؟
ایاز لطیف پلیجو: میں فلمیں بہت زیادہ دیکھتا ہوں۔ فراغت کے میسر چند لمحوں میں بھی فلم دیکھنے کوشش کرتا ہوں۔ نصیر الدین شاہ ، ریکھا اور رشی کپور کی فلم ''اجازت'' آل ٹائم فیوریٹ ہے۔ پاکستانی فلم ''مُٹھی بھر چاول'' کا جواب نہیں۔ امیتابھ بچن کی فلم ''سلسلہ'' بھی میری پسندیدہ فلموں میں سے ایک ہے۔ جدوجہد، کامیڈی اور ایڈونچر پر مشتمل انگریزی فلمیں بہت دیکھتا ہوں۔ ''بینڈ باجا بارات''، ''رنگ دے بسنتی''، ''تھری ایڈیٹ''، ''ارتھ'' جیسی فلموں میں ناظرین کو بہت اچھا پیغام دیا گیا۔
حالیہ پاکستانی فلموں میں ''بول'' زبردست ہے۔ اداکاروں میں مدھو بالا، دلیپ کمار، امیتابھ بچن، نصیرالدین شاہ ، میل گبسن، رچرڈ گیئر، صوفیا لارین، جولیا رابرٹ کا بڑا مداح ہوں۔ دیپیکاپاڈوکون، انوشکا شرما، عامرخان، رنویر سنگھ بھی بہت اچھے اداکار ہیں۔
گلوکاروں میں میری والدہ میری پسندیدہ رہیں، لتا، پٹھانے خان، محمد رفیع، مکیش کمار اور مہدی حسن تو ہمارے گھر کا کریز ہیں۔ اِن کے ساتھ جنون کی حد تک رشتہ ہے۔ مہدی حسن کو سننے کے بعد آپ کو کوئی اور غزل گایک اچھا نہیں لگے گا۔
ایکسپریس: سوشل میڈیا کا استعمال کس حد تک کرتے ہیں؟
ایاز لطیف پلیجو: میں ہفتے میں دو تین مرتبہ ہی سوشل میڈیا کا استعمال کرتا ہوں۔ ٹوئٹر پر میری چار ہزار ٹوئٹ میں سے تین ہزار ٹوئٹ شاعری پر مشتمل ہوں گی ۔ میں سوشل میڈیا کو سیاست سے زیادہ ذاتی طور پر استعمال کرتا ہوں۔
عوامی تحریک کے سربراہ اور صف اول کے سندھی قوم پرست راہ نما ایاز لطیف پلیجو15نومبر1968کو ممتاز سندھی قوم پرست سیاست داں اور ادیب رسول بخش پلیجو کے گھر پیدا ہوئے۔
ان کی والدہ زرینہ بلوچ گلوکارہ اور اداکارہ ہونے کے ساتھ سندھ میں خواتین کے حقوق کی سرگرم راہ نما تھیں۔ ایاز لطیف پلیجو نے مہران انجنیئرنگ یونیورسٹی سے ''سول انجنیئرنگ''، ''سندھ یونیورسٹی سے ''قانون''، یونیورسٹی آف کولمبیا، وینکوور سے ''انوائرمنٹ اینڈ ڈیولپمنٹ'' اور برطانیہ کے Wyeکالج سے ''دیہی ترقی'' میں M.Sc کی ڈگری حاصل کی۔ وہ قوم پرست جماعت عوامی تحریک کے صدر ہونے کے ساتھ ''سندھ پروگریسیو نیشنلسٹ الائنس'' کے بانی اور مرکزی کنوینر ہیں۔
انہیں مختلف ملکی اور غیرملکی فورمز پر بہ حیثیت ''گیسٹ اسپیکر'' بھی مدعو کیا جاتا ہے۔ نپے تُلے انداز میں گفت گو کرنے والے ایاز پلیجو امن اور انسان دوستی کے لیے اپنے مخالفین سے بھی ہاتھ ملانے سے گُریز نہیں کرتے۔ گذشتہ دنوں''ایکسپریس'' نے ان سے خصوصی گفت گو کی جو قارئین کی نذر ہے۔
ایکسپریس: آپ کے والد رسول بخش پلیجو کا شمار سندھ کے نمایاں سیاست دانوں میں ہوتا ہے، آپ کی سیاسی تربیت میں اُن کا کتنا کردار ہے؟
ایاز لطیف پلیجو: والدین سیاست داں تھے، آمریت کے خلاف تحریک میں جیلوں میں گئے۔ ضیا دور میں آمریت کے خلاف منہاج برنا صاحب نے صحافیوں کی تحریک چلائی، جس میں میرے والدین بھی پیش پیش تھے۔ گھر میں ادبی ماحول تھا۔
نام ور ادیبوں کو پڑھتے پڑھتے سیاست کی طرف رجحان پیدا ہوا۔ ہمارا گھرانا لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتا تھا۔ بسوں میں لٹک کر اسکول جاتے تھے۔ میری والدہ زرینہ بلوچ کا شمار سندھ کی بڑی فوک اور انقلابی گلوکارائوں میں ہوتا تھا۔ وہ ایک پرائمری ٹیچر ہونے کے ساتھ ساتھ ڈراما آرٹسٹ بھی تھیں۔ سیاست میں سرگرم عمل اور تدریس سے وابستہ ہونے کی وجہ سے اُن کے پاس بہت کم وقت ہوتا تھا۔ انہوں نے مجھے ہمیشہ ہر جان دار سے محبت کرنے کا درس دیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہر وہ زندہ شے جو ارتقا سے گزر رہی ہے، اُس سے ہمارا محبت کا تعلق ہے۔ ہماری تربیت یہ تھی کہ اگر ایک چیونٹی بھی پانی میں ڈوب رہی ہے تو ایک تنکا رکھ دینا ہے جس کے سہارے وہ پانی سے باہر آسکے۔ اگر چڑیا کا بچہ گر گیا ہے تو اُسے تنکے میں آٹا لپیٹ کر کھلانا ہے۔ والد صاحب نے کبھی یہ نہیں کہا کہ سیاست دان بننا ہے، انجنیئر یا ڈاکٹر بننا ہے ۔ اس معاملے میں بالکل فری ہینڈ دیا گیا تھا۔
ایکسپریس: آپ نے گیارہ سال کی عمر میں عوامی تحریک چلڈرن ونگ کے سینٹرل جنرل سیکریٹری کی ذمے داریاں سنبھالیں، سیاست میں آمد شوق کا نتیجہ تھی یا وراثت سمجھ کر اسے اپنایا؟
ایاز لطیف پلیجو: یہ ایک فطری عمل ہے کہ بیٹا اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن اُس شعبے کو منتخب کرنا یا نہ کرنا اُس کی اپنی مرضی ہوتی ہے۔ میرے والد کے ددھیال اور ننھیال کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں تھا، لیکن وہ سیاست میں آئے۔
میری والدہ میدانِ سیاست میں رہیں۔ بڑی بہن اختر بلوچ پہلی سندھی خاتون تھیں جنہوں نے ووٹر لسٹ، ''لینگویج بل'' اور دیگر مسائل پر احتجاجاً گرفتاری پیش کی۔ سیاست کی پُر خار وادی میں قدم رکھنے کا فیصلہ میرا اپنا تھا۔ مجھے سیاست کرنے، لوگوں کے مسائل حل کرنے میں مزہ آتا ہے، ذہنی سکون ملتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میں خود کو ایک سیاسی کارکن کے طور پر زیادہ اچھی طرح پیش کر سکتا ہوں۔
ایکسپریس: سیاست، وکالت، سماجی سرگرمیاں، تصنیف اور تدریس۔ ایک ساتھ اتنے شعبوں سے کس طرح انصاف کرتے ہیں؟
ایاز لطیف پلیجو: مجھے ان حالات میں سیاست کرنے میں بہت مزہ آتا ہے جب درجۂ حرارت 47 ڈگری سینٹی گریڈ ہو اور آپ ''محبت سندھ ریلی'' لے کر ہزاروں لوگوں کے ساتھ کندھ کوٹ کے راستوں پر چل رہے ہوں۔ کچھ دن قبل بھی ہم نے میرپورخاص میں ریلی نکالی تھی۔ لوگ گرمی سے پسینہ پسینہ تھے، لیکن وہ اتنے شدید گرم موسم میں پاکستان کے لیے، امن کے لیے، ترقی کے لیے سڑکوں پر موجود تھے۔
سیاست کے بعد مجھے تدریس میں بہت مزہ آتا ہے۔ میں ''قانون'' کے مضامین پڑھاتا ہوں۔ ''لا'' پڑھانا میرے لیے کوئی ذمے داری یا پروفیشنل ایکٹیویٹی نہیں ہے۔ مجھے وکالت پڑھانا اور اُس پر گفت گو کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔ میں نے وکالت پر کتابیں بھی لکھی ہیں۔ جہاں تک تعلق ہے وکالت کی پریکٹس کا تو یہ میرا روزگار ہے۔ سندھ میں یہ روایت ہے کہ وڈیرہ یا نام نہاد قوم پرست کوئی ذریعۂ معاش نہ ہونے کے باوجود کروڑ پتی، ارب پتی ہوتا ہے۔ ان وڈیروں اور قوم پرستوں نے ہی سندھ میں لینڈ کروزر اور بڑے بڑے عالی شان بنگلوں کی سیاست متعارف کروائی۔ میرا تعلق ایک لوئر مڈل کلاس گھرانے سے ہے۔ روز کماتے ہیں۔
اُس سے گھر چلاتے ہیں۔ کسی جلسے میں جانا ہو تو گاڑی میں بیٹھے تمام افراد پیسے ملا کر پیٹرول ڈلواتے ہیں۔ اس ماحول میں ہر چیز میں مزہ آتا ہے۔ میں نے سول انجنیئرنگ میں بی ای، دیہی ترقی اور ماحولیات میں ماسٹرز کیا ہوا ہے۔L.L.Mمیں میں نے پورے سندھ میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ میں نے تین مختلف شعبوں میں گریجویشن کیا اور اس کا بنیادی سبب میرے اندر موجود بے چینی اور جستجو ہے۔ پاکستان میں آپ کے پاس کوئی چوائس نہیں یہ امریکا یا یورپ نہیںکہ آپ نے میوزک میں ڈگری لی اور بڑے میوزیشن بن گئے۔ یہاں تو ہم جیسے مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس لوگوں کو پچاس کام کرنے ہوتے ہیں۔
آپ کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ انجینئرنگ میں نوکری ملے گی، صحافی بنیں گے یا وکیل۔ انجینئرنگ پڑھنے والا بچہ اکائونٹنٹ کی نوکری کر رہا ہوتا ہے، کیوں کہ اُسے پتا ہے کہ نوکری کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ پاکستان میں آپ اور ہم جیسے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع ہی نہیں ہیں۔ ہر جگہ حکم رانوں، سیاست دانوں، وڈیروں، جاگیرداروں کے رشتے داروں اور دوستوں کو نوکریاں دی جا رہی ہیں۔ سندھ میں تو گذشتہ دس، بارہ سال سے نوکریاں ''ِبِک'' رہی ہیں۔ لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس لوگوں کے لیے آگے بڑھنے کا واحد حل ''ملٹی ڈائی مینشل''(مختلف شعبوں میں مہارت) اسکلز میں ہے ۔ ہم جیسے افراد کو جتنا زیادہ سیکھنے اور اپنی تشنگی مٹانے کا موقع ملے اُس کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔
ایکسپریس: لیاری میں بدامنی اور خوں ریزی کے اصل محرکات کیا ہیں؟
ایاز لطیف پلیجو: لیاری میں بدامنی کے تین چار پہلو ہیں، اول پورے سندھ میں وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم، کچھ علاقوں میں تمام بنیادی سہولتیں ہیں تو کچھ علاقوں کو یکسر نظرانداز کیا گیا ہے۔ کراچی کے بہت سے علاقے چاہے وہ اردو بولنے والوں کے ہوں یا سندھی، پشتو، بلوچی یا کوئی بھی زبان بولنے والوں کے وہ زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ آپ لیاری ندی کے اطراف بسے ہوئے اردو بولنے والوں کو دیکھیں، جو ایک کمرے پر مشتمل ڈربے جیسے چھوٹے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ دروازے کی جگہ ٹاٹ کا پردہ اور کھانے کے لیے کچھ نہیں۔ یہی حال لیاری اور دیگر علاقوں کا ہے۔
یہ لوگ کیا کریں، یہ یا تو مذہبی انتہاپسندی کی طرف جائیں گے، یا منشیات اور جرائم کی راہ پر گام زن ہوجائیں گے۔ پاکستان پیپلزپارٹی ہمیشہ لیاری سے ووٹ لیتی رہی مگر اس نے لیاری کے عوام کو ہمیشہ اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔ اسے جب بھی کوئی جلسہ کرنا ہوتاہے یا دوسری جماعتوں کو اپنی طاقت دکھانی ہوتی ہے تو وہ لیاری کے عوام کو ''بجاں تیر بجاں'' کے گانے پر نچواتی ہے۔ لیاری میں جرائم کا خاتمہ، بنیادی سہولتوں کی فراہمی پیپلزپارٹی کی ذمے داری تھی۔ گینگ وار کی سر پرستی اور اُسے فروغ بھی پیپلزپارٹی نے دیا ۔ گزشتہ دنوں لیاری میں ہم نے متحارب گروپوں کو آمنے سامنے بٹھایا اور امن کے لیے مذاکرات کیے۔
آپ دیکھیں کہ مذاکرات کے دوران بھی ہم نے آپریشن جاری رکھنے کا کہا۔ ہمیں کسی کرمنل کو تحفظ نہیں دینا۔ مجرم چاہے میرا سگا بھائی ہو اُسے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کریں۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے علاقے میں آپریشن نہیں کرو، میں تو کہتا ہو ںکہ آپریشن کا آغاز میرے گھر سے کرو۔ مجھ سے پوچھو کہ ایاز پلیجو اس بندوق کا لائسنس دکھائو۔ یہ تو بہت ہی عجیب بات ہے کہ میں اپنے محلے میں ڈکیتیاں ہونے دوں، گاڑیاں چِھننے دوں، لیکن آپریشن نہ کرنے دوں۔ تو جب تک آپ لوگوں کی بنیادی ضروریات زندگی پوری نہیں کریں گے، تب تک لیاری کیا کسی بھی علاقے میں امن قایم نہیں ہوسکتا۔ آپ کو مرض کی تشخیص کرکے بیماری کی جڑ ختم کرنی ہوگی۔
ایکسپریس: آپ کی سربراہی میں بننے والی ''لیاری اتحاد کمیٹی'' لیاری میں قیام امن کے لیے کردار ادا کر رہی ہے۔ لیکن آپ کی نظر میں قیامِ امن اور گروہی نفرت کا خاتمہ مستقل بنیادوں پر کس طرح ممکن ہے؟
ایاز لطیف پلیجو: جب متحدہ قومی موومنٹ کے کنور نوید ، وسیم اختر اور رابطہ کمیٹی کے اراکین میرے پاس ہڑتال کی کال موخر کرانے آئے، تب بھی میں نے اُن دوستوں سے کہا تھا اور آج آپ کے اخبار کے توسط سے ایک بار پھر کہہ رہا ہوں کہ کراچی، حیدرآباد میں امن پورے سندھ کے لیے، پورے پاکستان میں امن کے لیے ضروری ہے، کیوں کہ ہمارے پاس بہت زیادہ خوراک ہے، بہت زیادہ وسائل ہیں، جب خوراک و وسائل کم ہوں تو لڑائی سمجھ میں بھی آتی ہے۔ سندھ کی گود میں اپنے اُردو، سندھی، پنجابی، پشتو اور بلوچی بولنے والے ہر بچے کے لیے اتنے وسائل ہیں کہ ہمیں آپس میں لڑنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
آپ سندھ کے بیٹے ہیں، پاکستان کے بیٹے ہیں، آپ کا سندھ پورے پاکستان کی گیس کی ضرورت کا 71.5فی صد فراہم کرتا ہے۔ اس کے باوجود آپ کے ہاں لوڈ شیڈنگ ہے، کراچی ، حیدرآباد میں لوگ احتجاج کر رہے ہیں، آپ کا سندھ، میرا سندھ، اس پیارے پاکستان کو 58.5 فی صد پیٹرول دیتا ہے۔ آپ کا یہ سندھ دنیا بھر میں کوئلے کے ذخائر رکھنے والے خطوں میں چھٹے نمبر پر ہے۔ یہی سندھ پاکستان کو دو بڑی ڈیپ سی پورٹ دیتا ہے، کراچی اور کیٹی بندر۔ پھر بھی آپ اور ہم لوگ بھوکے مر رہے ہیں، پھر بھی حیدر آباد اورسندھ میں عام لوگ قتل ہو رہے ہیں۔ ایازپلیجو کو صرف سندھی بولنے والے کا درد کیوں ہو؟ ، وہ پٹھان بچہ جو کچرے کے ڈھیر سے تھیلیاں چن رہا ہے، وہ مہاجر بچہ جو کڑی دھوپ میں سائیکل کا پنکچر لگا رہا ہے، جو قلفی بیچ رہا ہے۔
یہ سب اتنے وسائل ہونے کے بعد کیوں بھوکے مر رہے ہیں؟ آخر کیوں مہاجر ماں دروازے کو دیکھ دیکھ کر یہ سوچتی ہے کہ میرا بیٹا زندہ گھر لوٹے گا یا اُس کی لاش گھر آئے گی، شیعہ ماں ڈری ہوئی ہے کہ آج اُس کے بیٹے کو قتل کردیا جائے گا، کیوں کہ اُس کے نام کے ساتھ تراب لگا ہوا ہے، حسین لگا ہوا ہے، علی لگا ہوا ہے۔ سنی ماں پریشان ہے کہ اپنے جوان بیٹے کو جس کے نام کے ساتھ صدیقی لگا ہوا ہے، فاروقی لگا ہوا ہے کیا شام میں زندہ دیکھ بھی سکے گی یا نہیں۔ ہر شخص دوسرے مسلک یا فرقے سے کیوں ڈرا ہوا ہے۔ صرف لیاری ہی نہیں پورے ملک میں امن کا حال یہی ہے۔ضروری ہے کہ ہماری ریاست، عدلیہ، سول سوسائٹی، فرقوں کے پیچھے نہ چلے، زبان کے پیچھے نہ چلے، وہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25کے تحت ہر فرد کو برابری کا حق دے۔
ریاست کو لسانی اور فرقہ وارانہ بنیاد پر تفریق نہیں کرنی چاہیے۔ ریاست بلاامتیازرنگ و نسل ہر شخص کو اُس کا حق دے تو ہر طرف خوش حالی ہوگی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہتھیاروں کی زبان نہ بولیں، امن کی زبان بولیں، دلائل کی زبان بولیں۔
ایکسپریس: آپ لیاری میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن کو یک طرفہ قرار دیتے ہیں، یک طرفہ آپریشن سے کیا مراد ہے؟
ایاز لطیف پلیجو: کسی زمانے میں ہم نے لیاری آپریشن کو یک طرفہ قرار دیا تھا لیکن اب تو ہم لیاری میں آپریشن کی حمایت کر رہے ہیں۔ ہاں ہم یہ ضرور کہتے ہیں کہ کسی بھی سندھی، بلوچی، پنجابی سرائیکی، اُردو بولنے والی ماں کے بچے کو ماورائے عدالت قتل نہ کریں۔ اُنہیں گرفتار کرکے عدالت میں پیش کریں۔ سزا سنائیں، اپیل کا حق دیں، لیکن اُنہیں قتل کرکے لاشیں نہ پھینکیں۔
ایکسپریس: لیاری میں امن کے لیے آپ نے کافی کوششیں کیں۔ گینگ وار کے لیڈر آپ کی بات کو کس حد تک اہمیت دیتے ہیں؟
ایاز لطیف پلیجو: سندھ میں جاکھرانی، مہر، جتوئی، اوگائی، تیغانی قبائل میں ہونے والی لڑائیاں بھی گینگ وار جتنی خطرناک ہوتی ہیں۔ ان لڑائیوں میں سالوں سے سیکڑوں لوگ مررہے ہیں، اگر مجھے موقع مل جائے سردار، جاگیردار، وڈیرے میری بات مانیں تو میں ان کے پاس بھی ہاتھ باندھ کر جانے کے لیے تیار ہوں کہ ''سردار صاحبان! جاگیر دار صاحبان! برائے مہربانی لوگوں کو مارنا بند کریں۔'' جب لیاری کی جھٹ پٹ مارکیٹ میں بم چلے اور بے گناہ خواتین، بچے نوجوان مرے تو میرا کیا ہر پاکستانی کا دل دُکھا۔
مجرموں کی لڑائی میں مجرم مریں تو لوگوں میں اتنی بے چینی نہیں ہوتی، لیکن جب مجرموں کی لڑائی میں عام آدمی نشانہ بنے تو پھر ہمیں لازمی مداخلت کرنی چاہیے چاہے وہ لیاری ہو، بلوچستان ہو، کندھ کوٹ ہو، اسلام آباد ہو یا وزیرستان، ہمیں انہیں روکنا چاہیے۔ لیاری میں گینگ وار کے لیڈروں عذیرجان بلوچ اور بابالاڈلا نے مجھ پر اعتماد کیا۔ میں نے انہیں یہی کہا کہ میری اولین ترجیح ہتھیاروں کا خاتمہ ہوگی، ہم کسی بھی جرائم پیشہ شخص کی حمایت نہیں کریں گے، چاہے وہ ایاز لطیف پلیجو ہی کیوں نہ ہو۔ انہوں نے میری باتوں پر اتفاق کرتے ہوئے اعتماد کیا اور میں نے لیاری میں امن کی کوششیں کیں۔
ایکسپریس: وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس میں کراچی میں جاری آپریشن کا فیصلہ کُن مرحلہ طے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کیا اس کے بعد کراچی میں پائے دار امن قائم ہوسکے گا؟
ایازلطیف پلیجو: کسی بھی چیز کے مختلف پہلو ہوتے ہیں۔ کراچی میں امن صرف جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن ہی سے نہیں ہوگا۔ کراچی میں پانی بجلی اور گیس کی بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ لوگوں کو روزگار فراہم کیا جائے۔ ادبی تقریبات منعقد کی جائیں۔ آپ اور ہم تو ہر وقت دہشت زدہ رہنے والے لوگ ہیں۔ کراچی میں آپریشن مسئلے کا بڑا حل ہے، غیرجانب دارانہ آپریشن ضرور ہونا چاہیے، لیکن اس آپریشن کے دیگر لوازمات بھی پورے کرنے ضروری ہیں۔ کراچی میں امن و امان کے لیے ادبی، سماجی اور سیاسی سرگرمیاں ہونا ضروری ہیں۔ اسپورٹس فیسٹیول ہونے چاہییں۔
یہ سب نہیں کریں گے تو پھر کراچی کس طرح ترقی کرے گا۔ کراچی، سندھ اور پاکستان میں امن کے لیے مذہبی انتہاپسندی کو ختم کرنا ضروری ہے۔ مذہبی انتہا پسند اگر اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ آخرت میں ہر فرد کو اُس کے کیے کی سزا وجزاملے گی تو پھر زبردستی کا اسلام کیوں نافذ کر رہے ہیں۔ سزا کا فیصلہ اﷲ تعالیٰ، ریاست اور اُس کے قانون پر چھوڑ دیں۔ فرقہ وارانہ قتل بھی لازمی بند کرنے ہوں گے۔ سیاسی دہشت گردوں کے علاوہ مذہبی دہشت گردوں کے خلاف بھی آپریشن ہونا چاہیے۔
ایکسپریس: آپ کے متحدہ قومی موومنٹ سے نظریاتی اختلافات ہیں، لیکن رواں سال آپ نے اُن کے کہنے پر ہڑتال کی کال موخر کی۔ کیا آپ ایم کیو ایم کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی اپنا رہے ہیں؟
ایاز لطیف پلیجو: ہم نے ہڑتال کا اعلان سند ھ کی تقسیم کے مطالبے پر کیا تھا، لیکن متحدہ قومی موومنٹ ہمارے پاس آکر کہتی ہے کہ جناب ہم نے سندھ کی تقسیم کا نہیں کہا، ہمارے بیان کو توڑمروڑ کر پیش کیا گیا، اگر آپ غلط سمجھ رہے ہیں تو ہم اپنا بیان واپس لینے کو تیار ہیں۔ اس بات کے بعد ہڑتال کا کوئی جواز نہیں تھا۔ میں ایک بات اور بتا دوں کہ ہم سندھ کی تقسیم کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔
اس کے خلاف ہم آخری حد تک جائیں گے۔ ہم اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہم سندھ کے ٹکڑے کرکے اِسے عالمی طاقتوں کی کالونی بنانے کے لیے تیار نہیں ۔ ہم دوسرے قوم پرستوں کی طرح پیپلزپارٹی یا کسی وفاقی پارٹی کا مہرہ بن کر اُن کے مفادات کے لیے استعمال نہیں ہوں گے۔ پیپلزپارٹی کی خواہش ہوتی ہے کہ سندھ کی تمام جماعتیں آپس میں لڑیں اور وہ ''پک اینڈ چُوز'' کرکے کبھی اِس کے ساتھ اتحاد کرے تو کبھی اُس کے ساتھ اتحاد کرے۔ ہم پیپلزپارٹی اور وڈیروں کی اس سیاست پر چلنے کے لیے تیار نہیں۔ ایم کیو ایم اگر اپنی سیاست کو سندھ میں مثبت بنانا چاہتی ہے تو اسے دو، تین نکات پر متفق ہونا پڑے گا۔
اول سندھ ہزاروں سالوں سے سندھ کے باشندوں کا ہے، اور اس پر کوئی مفاہمت نہیں کی جائے گی۔ اُردو بولنے والے ہمارے بھائی ہیں، وہ بھی سندھ دھرتی کے بیٹے ہیں، اُن کا بھی سندھ پر حق ہے، آبادی کے لحاظ سے اُن کا جو حصہ بنتا ہے وہ ضرور لیں۔ دوسرا یہ کہ ایم کیو ایم کو ہتھیاروں، اور عسکریت پسندی کی سیاست سے دست بردار ہونا پڑے گا اور اگر اُس کی صَفوں میں جرائم پیشہ افراد ہیں تو اسے اُن سے لاتعلقی اختیار کرنی پڑے گی۔ تیسری بات یہ کہ کراچی میں جو وسائل ہیں ، نوکریاں ہیں، کالج یونیورسٹیوں کے داخلے ہیں، اِن سب وسائل کی آبادی کے لحاظ سے تقسیم اور سندھ دھرتی کے بچو ں کی راہ میں رکاوٹ بننے کی پالیسی ترک کرنی پڑے گی۔ اسی طرح سندھی بولنے والے بھائیوں کو اپنے اُردو بولنے والے بھائیوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اُن کے دُکھوں کو سمجھنا ہوگا۔
اُن کے ساتھ محبت سے رہنا ہوگا۔ اُردو ہماری بہت پیاری زبان ہے اسی طرح ہمیں سندھی زبان سے بھی پیار کرنا چاہیے۔ شاہ لطیف کو پڑھنا چاہیے، شیخ ایاز کو پڑھنا چاہیے، امر جلیل کو پڑھنا چاہیے۔ ہمارے اُردو بولنے والے بھائیوں کو سندھ کی لیڈر شپ کو ''اون'' کرنا چاہیے۔ سندھ کے تمام وسائل کے لیے ہمارے اُردو بولنے والے بھائیوں کو سندھی بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ جب کندھ کوٹ، کوٹری، کینجھر جھیل میں ہی پانی نہیں آئے گا تو کراچی کو کیسے ملے گا؟ تو سندھ کے پانی کے لیے ہمارے اُردو بولنے والے بھائیوں کو اُٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ہمیں پاکستان کو ایک گل دستہ بنانے کی ضرورت ہے، نہ کہ ایسا ملک جہاں ہر شخص خوف کے سائے میں زندگی بسر کرے۔ ہر شخص ڈرا سہما ہے کہ کوئی شیعہ مار دے گا، سنی مار دے گا، لیاری والا مار دے گا، اُردو بولنے والا مار دے گا۔
نہ صرف ایم کیو ایم بل کہ ہم تو پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی بہترین مفاہمتی پالیسی رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر پیپلزپارٹی کل کہہ دے کہ ہم سندھ میں کرپشن کا خاتمہ کرتے ہیںاور زرداری ، وزیراعلیٰ اور بلاول بھٹو صرف ''ٹوئٹ'' کرنے کے بجائے ہمارے ساتھ میدان میں نکلیں، ہم اُن کے ساتھ ہیں۔ ہم انتہاپسندی کے خاتمے اور امن کے لیے میاں نوازشریف کے بھی ساتھ ہیں۔ جماعت اسلامی کے ساتھ ہم اے پی ڈی ایم کے زمانے سے ہیں، محبت سندھ ریلی میں وہ ہمارے شانہ بہ شانہ چلی ہے۔
سنی تحریک، پاکستان تحریک انصاف نے بھی ہمیں بہت سپورٹ کیا۔ سندھ میں قوم پرست ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرائو کے راستے پر ہوتے تھے، رسول بخش پلیجو، جی ایم سید صاحب کی سیاست ٹکرائو پر ہوتی تھی۔ 2009 میں صدر بننے کے بعد ہم نے ایس ٹی پی، ایس یو پی، جسقم، کو ساتھ لیا۔ پیرپگارا صاحب کے ساتھ ہم نے ایک بڑا جلسہ کیا۔ اُن کے ساتھ ''سندھ بچایو کمیٹی '' بنائی۔ سندھ میں مردم شماری اور دہرے نظام کی مخالف تمام جماعتوں کو ساتھ لیا۔ ایم کیو ایم اگر اپنی پالیسی تبدیل کرے، کراچی میں بسنے والے ہمارے بھائی سندھ میں بسنے والوں کو اپنا بھائی تسلیم کریں، تو ہم مفاہمت کے لیے تیار ہیں۔
ایکسپریس: آپ پاکستان پیپلزپارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی سندھ کی وحدت اور صوبائی خودمختاری کی بات کرتی ہے اور عوامی تحریک بھی، پھر دونوں جماعتوں میں کن باتوں پر اختلافات ہیں؟
ایاز لطیف پلیجو: پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ ہم پہلے دن سے کئی طرح کی جدوجہد میں شامل رہے ہیں۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کا اعلان کیا گیا تو پیپلزپارٹی میں شامل تمام وڈیرے منظر سے غائب ہوگئے تھے۔ اُس وقت میری والدہ نے حیدرآباد سے اُن کے حق میں جلوس نکالا اور اس کی پاداش میں سکھر جیل میں بھی قید رہیں۔ بھٹو صاحب نے آخری دنوں میں میرے والدکو جیل میں ڈال دیا تھا۔ اس کے باوجود انہوں نے بھٹو صاحب کی گرفتاری کے خلاف سب سے پہلے احتجاج کیا اور کہا،''اگر بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تو سندھ کے لیے پاکستان اجنبی بن سکتا ہے، اور سندھ میں ایک بڑی تحریک چل سکتی ہے۔''
ایم آرڈی کی تحریک میں ہم اور پیپلزپارٹی شانہ بہ شانہ تھے، کالا باغ ڈیم کے معاملے پر ہم نے پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر پورے سندھ میں جلسے کیے۔ ہم افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں پیپلزپارٹی کے ساتھ تھے، تو جہاں تک سندھ کے قومی مسائل، پاکستان کے جمہوری مسائل کی بات ہے تو ہم اُن کے ساتھ ہیں۔ ایم کیو ایم کہتی ہے کہ انتہا پسندی، مُلائیت، پاپائیت اور فرقہ واریت نہیں ہونی چاہیے تو ہم اُن کے ساتھ ہوں گے، لیکن اگر وہ سندھ کی تقسیم کی بات کریں گے تو ہم اُن کے خلاف ہوں گے۔ اسی طرح جماعت اسلامی امن کی بات کرے گی تو ہم اُس کا ساتھ دیں گے، لیکن اگر جماعت اسلامی یا جمعیت علمائے اسلام ملک میں طالبان کی شریعت کے نفاذ کی بات کرے گی تو ہم اُس سے اختلاف کریں گے۔ پیپلزپارٹی اگر جمہوری معاملات پر ساتھ چلتی ہے تو ہم اُس کا ساتھ دیں گے، لیکن اگر وہ سندھ میں ہر نوکری، ہر تبادلہ بیچیں گے۔
سندھ کے ہر دیہات کو پتھر کے زمانے میں لے جانے یا سندھ کے راستوں کو ویران کردیں گے، یونیورسٹی، ہسپتال، ادویات تک بیچ دیں گے یا سندھ کے علاقوں کو تقسیم کردیں گے کہ جی یہ ''اَدّی'' (بہن) کا علاقہ ہے، یہ ''اَدّا'' کا علاقہ ہے، یہ شاہ صاحب کا علاقہ ہے یہ ''ٹپی'' کا علاقہ ہے، اگر وہ اس طرح سندھ کو اپنی جاگیر بنا کر بیچیں گے تو سب سے پہلے ہم مخالفت کریں گے۔ انسانی جانوں کے ضیاع پر مذاق کرنا، طنز کرنا، یا ایئرکنڈیشنر میں بیٹھ کر ٹوئٹ کرنا سیاست نہیں ہے۔ بلاول بھٹو کی والدہ اور ہماری بہن بے نظیر بھٹو ایم آر ڈی کی تحریک سے لے کر ہر جلسیہر مظاہرے میں ہمارے ساتھ ہوتی تھیں۔ وہ دبئی یا لندن میں بیٹھ کر ٹوئٹر پر سیاست نہیں کرتی تھیں۔ پیپلزپارٹی کو کرپشن کا خاتمہ کرنا ہوگا، ورنہ جس طرح اُن کی جماعت کا دوسرے صوبوں سے صفایا ہوا ہے اسی طرح سندھ سے بھی صفایا ہوجائے گا۔ پیپلزپارٹی جمہوریتاور سندھ کے پانی کے تحفظ کے لیے میدان میں اُترے، ہم ان کے ساتھ ہوں گے۔
ایکسپریس: آپ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو ایک ہی تصویر کے دو رخ قرار دیتے ہیں۔ آپ کے خیال میں دونوں جماعتوں میں خاموش مفاہمت ہے۔ خاموش مفاہمت سے آپ کی کیا مراد ہے؟
ایاز لطیف پلیجو: بہ ظاہر نظر نہیں آرہا کہ میاں نوازشریف صاحب سندھ کے معاملات میں کوئی دل چسپی لے رہے ہیں۔ سمجھ میں یہی آرہا ہے کہ پیپلزپارٹی اور نوازشریف نے یہ طے کیا ہوا ہے کہ جس طرح گذشتہ دور حکومت میں مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی اور زرداری صاحب کو پانچ سال تک نہیں چھیڑا، اسی طرح پیپلزپارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لیے مسائل پیدا نہیں کرے گی، اور سندھ میں کچھ بھی ہوتا رہے نواز شریف صاحب مداخلت نہیں کریں گے۔ کراچی میں لوگ مر رہے ہیں۔
سندھ کی بجلی اور گیس پر پورا ملک چل رہا ہے، لیکن یہیں سب سے زیادہ لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ جتنی لوڈ شیڈنگ کراچی، لاہور اور اسلام کے پوش علاقوں میں ہوتی ہے اُتنی ہی لوڈشیڈنگ ، ننگر پارکر، کندھ کوٹ، جوہی، قمبر شہدادکوٹ میں ہونی چاہیے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ پوش علاقوں میں آپ بہ مشکل دو گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کر رہے ہیں اور جہاں سے بجلی پیدا ہورہی ہے، وہیں کے معصوم لوگوں کو اٹھارہ، بیس گھنٹے بجلی سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
پاکستان میں وسائل سب میں یکساں تقسیم ہونے چاہییں۔ ہمارے ایک وزیر عابد شیرعلی صاحب نے کہا کہ سندھ کے لوگ بجلی چور ہیں، کیا اُن کو نظر نہیں آتا کہ چور کون ہے، سندھ کی 72 فی صد گیس چُرا کر اپنے شہر آباد کر رہے ہو اور ہمیں ہی چور کہہ رہے ہو۔ سندھ کے پیٹرول پر پورا ملک چلا رہے ہو چور تو آپ ہیں، ڈاکو تو آپ ہیں کہ پرائی جیب سے مال لے اسلام آباد کو آباد کیے ہوئے ہیں۔ اُن چوروں کو سندھ کو جواب دینا چاہیے کہہ کیوں سندھ کے وسائل چُرا کر سندھ ہی کو چور کہ رہے ہیں۔
ایکسپریس: کالا باغ ڈیم پر آپ کے کیا تحفظات ہیں؟
ایاز لطیف پلیجو: کالاباغ ڈیم سندھ کے پانی پر ڈاکا ہے۔ دریائے سندھ میں پانی ہے نہیں، تو ہم ایسی باتیں کیوں کریں جن سے لوگوں میں مزید تفریق ہو۔ میں سمجھتا ہو کہ کالاباغ ڈیم کی بات وہ لوگ کرتے ہیں جو پاکستان میں ٹکرائو چاہتے ہیں، یہ پاکستان کے عوام کو مزید لڑانے کے لیے ایک عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ پاکستان کے 1991 اکارڈ کے مطابق پاکستان کے سسٹم میں 143ایم اے ایف (ملین ایکڑ فٹ) پانی ہے، جو اب نہیں ہے۔ جب سسٹم میں پانی ہی نہیں ہے تو پھر آپ 10ایم اے ایف کا ڈیم بنانے کی بات کیوںکر رہے ہیں۔
آپ سسٹم کو مزید موثر بنائیں، ونڈ انرجی کی جانب آئیں، ساحلی علاقوں میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائیں۔ نہری نظام بہتر کریں، کوئلے کی توانائی استعمال کریں۔ آپ پاکستان کو خودانحصاری کا حامل ملک بنائیں۔ ڈیم بنانے کی بات کرنا ایسا ہے جیسے سقو طِ ڈھاکا کے وقت کہہ رہے تھے کہ محبت کا آب زم زم بہ رہا ہے اور بنگال میں لوگ مر رہے تھے۔ ڈیم بنانے کی بات وہ شخص کرتا ہے جو پاکستان کو توڑنا چاہتا ہے۔
میں سندھ کے تمام قوم پرست کارکنوں، غیرت مند مائوں، بہنوں کی جانب سے کہہ رہا ہوں کہ سندھ کی تقسیم اور کالاباغ ڈیم کبھی نہیں بننے دیں گے۔ اس معاملے پر مفاہمت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ سندھ کو توڑنے کے لیے، کالا باغ ڈیم بنانے کے لیے سر سے کفن باندھ کر اُتریں ہم بھی میدان میں اُترتے ہیں پھر دیکھتے ہیں کہ۔۔۔۔زور کتنا بازوئیِ قاتل میں ہے۔ یا تو ہم فنا ہوجائیں گے یا آپ کو فنا کردیں گے۔ میں آپ کو بتادوں کہ تین چیزیں ہم کبھی نہیں ہونے دیں گے۔ اول سندھ کی تقسیم، دوم کالا باغ ڈیم کی تعمیر اور سوم سندھ میں طالبان کی شریعت کا نفاذ۔ ہم نبی اکرمؐؐ کی شریعت کو مانتے ہیں جس میں کوئی جبر نہیں ہے۔ ہم مرجائیں گے مگر قتل، خواتین کی تعلیم پر پابندی، پولیو کے قطرے پلانے سے روکنے کی کوشش اور اقلیتوں کو دیوار سے لگانے کی طالبانی شریعت کو نافذ نہیں ہونے دیں گے۔
ایکسپریس: عمران خان سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پر 2013 میں ہونے والے عام انتخابات میں دھاندلی کا الزام عاید کر رہے ہیں۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
ایاز لطیف پلیجو: پہلی بات تو یہ کہ برسراقتدار رہنے والی کوئی بھی بڑی جماعت یہ بات کیوں نہیں کرتی کہ ہم نے ملک میں ہر فرد کو تعلیم اور روزگار دے دیا۔ کراچی میں امن قایم کردیا۔ بلوچستان امن کا گہوارہ بن گیا۔ پورے ملک میں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پی رہے ہیں۔ ملک ترقی کی راہ پر گام زن ہے۔ یہاںلوگ مر رہے ہیں ، بے روزگاری ہے، عالمی طاقتیں آپ کو اپنے ایجنڈے پر چلا رہی ہیں، ہم اُن سے بھیک مانگنے کے لیے کشکول لے کر کھڑے ہیں، لیکن اِن حالات میں بھی ہمیں ایک دوسرے پر الزامات لگانے سے فرصت نہیں، ہم ہر دوسرے شخص پر غداری اور بے ایمانی کا الزام عاید کر دیتے ہیں۔
کیا چند مُلا، چند وڈیرے، چند سیاست داں اس بات کا تعین کریں گے کہ کون مخلص ہے اور کون غدار؟ افتخار محمد چوہدری کی ذات میں کچھ خامیاں ہوسکتی ہیں۔ مگر بہر حال انہوں نے عدلیہ کو پاکستان کا مضبوط ادارہ بنادیا۔ اب لوگ انصاف کے لیے عدلیہ کی طرف دیکھتے ہیں۔ اُن کی ان باتوں کی تعریف کرنی چاہیے۔
اسی طرح انتہاپسندی کے خلاف لڑنے والی ہماری فوج پر بھی تنقید کے بجائے اُس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ ہمیں پارلیمنٹ کو سپورٹ کرنا چاہیے، عمران خان کو ہر وہ کوشش کرنی چاہیے، جس سے جمہوریت مضبوط ہو۔ انہیں ہر اُس کوشش سے باز رہنا چاہیے جس سے جمہوریت ڈی ریل ہو۔ ہم عمران خان کے شفاف انتخابات کے لیے مضبوط الیکشن کمیشن کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں، مگر ہر تیسرے شخص پر غداری کا الزام لگانے کی ہم ہر گز حمایت نہیں کریں گے۔ ہمیں کسی کی ذات پر الزام تراشی کرنے کے بجائے جمہوریت کو مضبوط کرنا چاہیے۔
ایکسپریس: وکلا کی جانب سے عوام، پولیس، اور میڈیا کے نمائندوں پر تشدد کی خبریں آئے دن سامنے آتی رہتی ہیں۔ بہ حیثیت وکیل آپ وکلا کے اس رویے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ایاز لطیف پلیجو: میں تشدد کی کبھی حمایت نہیں کروں گا، چاہے وہ میرا وکیل بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ وکیل کا کام اپنے موکل کا کیس لڑنا ہے ڈنڈے ہاتھ میں لے کر لوگوں کے ساتھ مارپیٹ یا تشدد کرنا نہیں۔ ہتھیار اٹھانا، تشدد کرنا پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس رجحان کی بلاامتیاز حوصلہ شکنی کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے۔
ایکسپریس: تھر میں قحط سالی سے ہونے والے انسانی جانوں کے ضیاع کا ذمہ دار آپ نے سندھ حکومت کو قرار دیا۔ قوم پرست جماعتوں نے متاثرین تھر کی بحالی کے لیے کیا اقدامات کیے؟
ایاز لطیف پلیجو: سندھ کا قوم پرست کیا کر سکتا ہے؟ کیا ہمارے پاس اختیارات ہیں؟ گندم کی بوریاں ہیں؟ مختارکار ہیں؟ ای ڈی او ہے؟ ادویات ہیں جو ہم وہاں جا کر تقسیم کرتے۔ مثال کے طور پر اگر توڑی بند ٹوٹ جاتا ہے تو اُس میں سندھ کا قوم پرست کیا کرسکتا ہے، پانی کا بہائو روکنے کے لیے کھربوں روپے مالیت کی مشینری چاہیے ، وسائل چاہییں، وہ بے چارہ ریت کی بوریاں بھر کر ہی پانی کا بہائو روکنے کی کوشش کر سکتا ہے۔
تھر میں ستر ہزار گندم کی بوریاں گوداموں میں پڑی تھیں، ہر فرد کو دس کلو گندم دینی تھی۔ دوائیں دینی تھیں، پولیو ویکسین دینی تھی۔ تھر کے مسئلے کو سب سے پہلے ایکسپریس کے نمائندے جنیدخانزادہ نے اجاگر کیا، اُس نے مجھے فون کرکے کہا ایاز بھائی! تھر میں لوگ بھوکے مر رہے ہیں اور دو دن بعد میں تھر میں پہنچنے والا پہلا شخص تھا۔ ہم نے مٹھی میں امدادی کیمپ لگائے، لوگوں میں ادویات و راشن تقسیم کیا ، اس کے بعد دوسرے لوگ وہاں آئے۔ اُس سے پہلے تو کسی کو پتا ہی نہیں تھا کہ تھر میں کیا ہورہا ہے۔
ایکسپریس: سندھ کے عوام بظاہر قوم پرستی کو بہت اہمیت دیتے ہیں لیکن اس کے برعکس قوم پرست جماعتوں کو زیادہ نشستیں نہیں ملتیں، اس کے اسباب کیا ہیں؟
ایاز لطیف پلیجو: میں اس کے لیے قوم پرستوں کے ساتھ ساتھ سندھ کے لوگوں کو بھی قصوروار سمجھتا ہوں، سندھ کے عوام ہوٹلوں پر، دوستوں کی محفلوں میں وڈیروں ، جاگیر داروںکے خلاف چہ مگوئیاں اور تبصرے تو ضرور کرتے ہیں، لیکن جب ووٹ دینے کا وقت آتا ہے تو وڈیرے کے سامنے دیوار نہیں بنتے۔ دوسری سب سے اہم وجہ تعلیم کا فقدان ہے۔ تاہم گذشتہ سال ہونے والے انتخابات میں ووٹ کا حق استعمال کرنے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
اس بار ایک سو بیس پولنگ اسٹیشن میں سے 72پر عوامی تحریک جیتی ہے۔ شکار پور، مورو، دادو، نواب شاہ میں بھی لوگوں نے وڈیروں، جاگیرداروں کے خلاف ووٹ دیے۔ سندھ میں پریزائیڈنگ افسر، سندھی میڈیا بھی ان وڈیروں اور جاگیرداروں کی غیراعلانیہ حمایت کرتاہے ۔ سندھی میڈیا پورے پانچ سال پیپلزپارٹی کی حکومت پر تنقید کرتا رہا لیکن الیکشن سے پندرہ دن پہلے اس نے کروڑوں روپے کے اشتہارات لیے اور بی بی شہید کی تصویریں دکھا کر، گڑھی خدابخش دکھا کر شہیدوں کے نام پر سندھی عوام کو جذباتی کیا۔ سندھ کے قوم پرستوں کو بھی اپنی نااہلی دور کرنا ہوگی۔
ایکسپریس: آپ کے خیال میں قوم پرستوں کی سندھ کے عوام اور صوبے کے مفاد کے لیے کی جانے والی جدوجہد کا اب تک کیا نتیجہ برآمد ہوا ہے؟
ایاز لطیف پلیجو: سندھ کا قوم پرست بھتہ خوری کے الزام سے باہر نکلے، سندھ کا قوم پرست سندھ کی تعلیم کو تباہ نہ کرے۔ ان کی ذیلی طلبا تنظیمیں سندھ کے تعلیمی اداروں میں رشوت، طالبات سے بدتمیزی، اساتذہ اور مخالف طلبا تنظیموں پر تشدد کرنا بند کریں۔ سندھ کی تعلیم کا نقصان متحدہ قومی موومنٹ یا مسلم لیگ نے نہیں کیا خود قوم پرستوں نے کیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں پرائمری اور قوم پرستوں نے یونیورسٹی اور کالجوں کی سطح پر تعلیم کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
یہ لوگ اسلحے کے زور پر امتحانات میں نقل کرتے ہیں، اپنے نمبر بڑھواتے ہیں۔ جو قوم پرست زمینوں پر قبضے کرتے ہیں، گاڑیاں چھینتے ہیں، مختلف جرائم کرتے ہیں، ہم ایسے جرائم پیشہ قوم پرستوں کو ملک کا، اپنی قوم کا مجرم سمجھتے ہیں۔ قوم پرستوں کی صفوں میں سے جب تک جرائم پیشہ افراد ختم نہیں ہوں گے اُس وقت تک قوم پرست کام یاب نہیں ہوں گے۔ سندھ کا ہر قوم پرست عوام اور میڈیا کے سامنے آکر اپنا ذریعہ آمدنی بتائے، سندھ کا قوم پرست کوئی ذریعہ معاش نہ ہونے کے باوجود ارب پتی ہے، وہ جوئے خانوں، شراب خانوں، بسوں کے اڈوں سے بھتے لے رہا ہے۔ جمہوری عمل میں عوام کا محبوب بننے کے لیے انہیں اُنہیں یہ سب غلط دھندے بند کرنے ہوں گے۔
اس سلسلے میں پہلا قدم بھی میں ہی اٹھاتا ہوں۔ میں آپ کے اخبار کے توسط سے بتا دیتا ہوں کہ وکالت میرا ذریعہ معاش ہے۔ میں ہر ماہ ہائی کورٹ کے اوسطاً آٹھ سے دس کیس لڑتا ہوں، یہ گھر، گاڑی میرے اپنے نام پر ہے، میں نے محکمۂ زراعت میں دس سال نوکری کرنے کے بعد استعفیٰ دیا ہے۔ میں 2003سے باقاعدگی سے انکم ٹیکس ریٹرن جمع کروا رہا ہوں۔ ہائی کورٹ کی کاز لسٹ چیک کرلیں اور اُس کا موازنہ میرے انکم ٹیکس ریٹرن سے کرلیں کہ میں کتنے کیس لڑتا ہوں۔ میں اپنے موکل سے ملنے والی فیس کی بھی رسید دیتا ہوں ۔ تمام بین الاقوامی سفری اخراجات کے بھی انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرواتا ہوں۔ آج تک عوامی تحریک کے کسی بھی راہ نما کے خلاف بھتا خوری کی ایک بھی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ دوسرے قوم پرست لیڈروں کے خلاف پچاس، پچاس ایف آئی آر کٹی ہوئی ہیں۔
ایکسپریس: آپ کی جماعت دیگر قوم پرست جماعتوں کے مقابلے میں کس طرح مختلف انداز میں سندھ کے عوام کی ترجمانی کر رہی ہے؟
ایازلطیف پلیجو: پہلی بات تو یہ کہ میں خود کو قوم پرست کہلوانا پسند نہیں کرتا۔ ''پرستش'' کیوں؟ انسان کو قوم دوست ہونا چاہیے ۔ مجھ سے پوچھا جائے تو میں یہی کہوں گا کہ میں قوم دوست ہوں۔ اپنی قوم کا بھی اور دوسری قوموں کا بھی۔ ایاز پلیجو صرف حیدرآباد کی خوشی پر خوش نہیں ہوگا۔ ایاز پلیجو کو خوشی اُسی وقت ملے گی جب پورا پاکستان خوش ہوگا۔
ایکسپریس: زیادہ تر کن موضوعات پر کتابیں پڑھنا پسند ہیں؟ پسندیدہ شاعر، پسندیدہ ادیب کون ہے؟
ایازلطیف پلیجو: مجھے ایک نہیں درجنوں ادیب پسند ہیں، فیض احمد فیض جنون کی حد تک پسند ہے، شیخ ایاز میرا پسندیدہ شاعر ہے، شاہ لطیف کو تو ہر ہفتے بار بار پڑھتا ہوں۔ ان کے کسی ایک سُر کو مسلسل پڑھتا ہوں۔ اُردو افسانہ نگاروں میں قرۃ العین حیدر میری پسندیدہ ہیں، مشتاق احمد یوسفی جیسا مزاح نگار پورے برصغیر میں نہیں ہے۔ اُن کی ''زرگزشت'' پاکستان میں سب کو پڑھنی چاہیے۔ ابن انشاء کے سفر نامے پڑھے ہیں۔ شوکت صدیقی کے ناول پڑھ کر بڑے ہوئے ہیں۔
کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، احمد فراز کو بھی بہت پڑھا۔ بین الاقوامی ادب میں ''میلان کُنڈیلا''،''ہیمنگ وے''، ''دوستوفسکی'' کو بہت زیادہ پڑھا ہے۔ میکسم گورکی کو بچپن میں والدین پڑھ کر سناتے تھے۔ راجندر سنگھ بیدی کا ایک ناول تھا ''ایک چادر میلی سی'' اس قسم کی کتابیں بہت زیادہ پسند ہیں۔ سندھی ادب میں ایک بہت بڑا نام ہے ''نسیم کھرل'' لوگوں نے انہیں کم پڑھا لیکن مجھے یہ بہت پسند ہیں، یہ بین الاقوامی معیار کے ادیب ہیں، امر جلیل ہمارے لیجنڈ ہیں۔ بلوچی ادب میں گل خان نصیر بہت زبردست شاعر ہیں۔
ایکسپریس: گلوکار کون سا اچھا لگا؟ اداکار، اداکارہ، فلم جو پسند آئی؟
ایاز لطیف پلیجو: میں فلمیں بہت زیادہ دیکھتا ہوں۔ فراغت کے میسر چند لمحوں میں بھی فلم دیکھنے کوشش کرتا ہوں۔ نصیر الدین شاہ ، ریکھا اور رشی کپور کی فلم ''اجازت'' آل ٹائم فیوریٹ ہے۔ پاکستانی فلم ''مُٹھی بھر چاول'' کا جواب نہیں۔ امیتابھ بچن کی فلم ''سلسلہ'' بھی میری پسندیدہ فلموں میں سے ایک ہے۔ جدوجہد، کامیڈی اور ایڈونچر پر مشتمل انگریزی فلمیں بہت دیکھتا ہوں۔ ''بینڈ باجا بارات''، ''رنگ دے بسنتی''، ''تھری ایڈیٹ''، ''ارتھ'' جیسی فلموں میں ناظرین کو بہت اچھا پیغام دیا گیا۔
حالیہ پاکستانی فلموں میں ''بول'' زبردست ہے۔ اداکاروں میں مدھو بالا، دلیپ کمار، امیتابھ بچن، نصیرالدین شاہ ، میل گبسن، رچرڈ گیئر، صوفیا لارین، جولیا رابرٹ کا بڑا مداح ہوں۔ دیپیکاپاڈوکون، انوشکا شرما، عامرخان، رنویر سنگھ بھی بہت اچھے اداکار ہیں۔
گلوکاروں میں میری والدہ میری پسندیدہ رہیں، لتا، پٹھانے خان، محمد رفیع، مکیش کمار اور مہدی حسن تو ہمارے گھر کا کریز ہیں۔ اِن کے ساتھ جنون کی حد تک رشتہ ہے۔ مہدی حسن کو سننے کے بعد آپ کو کوئی اور غزل گایک اچھا نہیں لگے گا۔
ایکسپریس: سوشل میڈیا کا استعمال کس حد تک کرتے ہیں؟
ایاز لطیف پلیجو: میں ہفتے میں دو تین مرتبہ ہی سوشل میڈیا کا استعمال کرتا ہوں۔ ٹوئٹر پر میری چار ہزار ٹوئٹ میں سے تین ہزار ٹوئٹ شاعری پر مشتمل ہوں گی ۔ میں سوشل میڈیا کو سیاست سے زیادہ ذاتی طور پر استعمال کرتا ہوں۔