اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت کا فیصلہ
یہ جنوبی افریقہ کی حکومت کا بہت بڑا کارنامہ ہے حالانکہ جنوبی افریقہ میں مسلمان حکومت نہیں ہے
ہالینڈ کے شہر دی ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف نے کثرت رائے سے اسرائیل کے خلاف فیصلہ دیا ہے، اقوام متحدہ کی سب سے اعلیٰ عدالت نے اسرائیل کی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی روکے، غزہ میں انسانی امداد پہنچانے کی اجازت دی جائے۔
عالمی عدالت انصاف نے نسل کشی مقدمے کی سماعت معطل کرنے کی اسرائیلی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، عدالت نے مزید کہا کہ مقدمہ خارج نہیں کریں گے۔ عالمی عدالت انصاف نے دو کے مقابلے میں پندرہ کی اکثریت سے عبوری فیصلہ سنادیا، اسرائیل کے خلاف غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی بند کرانے کے لیے عالمی عدالت انصاف میں درخواست جنوبی افریقہ نے جمع کرائی تھی۔
سترہ رکنی عالمی عدالت کے پندرہ ججز نے اسرائیل کے خلاف فیصلہ دیا۔ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے عالمی عدالت انصاف کے اس فیصلے پر اپنے ردعمل میںکہا ہے کہ اسرائیل پر نسل کشی کے الزامات جھوٹے اور اشتعال انگیز ہیں۔ امریکا نے حسب توقع اس مقدمے کو ہی بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔
جنوبی افریقہ کے وزیرخارجہ نالیدی پالندور نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی عدالت کے اقدامات جنگ بندی کے برابر ہیں۔ پاکستان ، فلسطین اور دنیا کے دیگر ممالک کی حکومتوں نے عالمی عدالت انصاف کیے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔
حماس کے سینئر رہنما سمیع ابو زہری نے فیصلے پر ردعمل میں کہا ہے کہ عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ ایک اہم پیش رفت ہے جو اسرائیل کو تنہا کرنے اور غزہ میں اس کے جرائم کو بے نقاب کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، فلسطینی اتھارٹی کے وزیر خارجہ ریاض المالکی نے کہا ہے کہ عالمی عدالت انصاف نے انسانیت اور بین الاقوامی قانون کے حق میں فیصلہ دیا۔
ایرانی وزیرخارجہ حسین امیر عبداللہیان نے عالمی عدالت انصاف میں کامیابی پر جنوبی افریقہ اور فلسطین کے عوام کو مبارکباد پیش کی ہے۔ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غزہ میں غیر انسانی حملوں کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف کے عارضی حکم نامے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
اسپین کے وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے کہا کہ ہم امن اور جنگ کے خاتمے، قیدیوں کی رہائی، انسانی امداد تک رسائی اور اسرائیل کے شانہ بشانہ ایک فلسطینی ریاست کے قیام کی وکالت کرتے رہیں گے تاکہ دونوں ممالک امن اور سلامتی کے ساتھ ساتھ رہیں۔
جنوبی افریقہ کے وزیرخارجہ نالیدی پالندور کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کا خواہاں ہے تو اسے جنگ بندی کرنا ہوگی کیوں کہ سیز فائر کے بغیر غزہ کو پانی اور امداد کی فراہمی یقینی نہیں ہوسکتی، جنوبی افریقی صدر صدر سیرل رامافوسا کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی روکنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنا چاہیے،انھوں نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ اس سے جنگ بندی ہو گی، اسرائیل عالمی برادری کے سامنے کھڑا ہے، فلسطینیوں کے خلاف اس کے جرائم کھل کر سامنے آئے ہیں۔
جنوبی افریقہ کے وزیر انصاف رونالڈ لامولا کا کہنا ہے کہ آج نیلسن منڈیلا بہت خوش ہوں گے۔اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ عدالتی فیصلہ اسرائیل کو حق دفاع کے بنیادی حق سے محروم کرنے کی مذموم کوشش اور صیہونی ریاست کے خلاف امتیازی سلوک ہے اور اس غیر منصفانہ فیصلے کو ہم مسترد کرتے ہیں۔
عدالتی فیصلے میں بتایا گیا کہ اسرائیل نے بڑے پیمانے پر غزہ میں کارروائیاں کی، اس میں بڑے پیمانے ہر شہریوں کی شہادتیں بھی ہوئی، اسرائیلی حملوں میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔مزید کہا کہ غزہ میں مسلسل جانی نقصان پر تشویش ہے، اقوام متحدہ کے کئی اداروں نے اسرائیل کے خلاف قراردادیں پیش کیں۔
عدالتی فیصلے کے مطابق غزہ میں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، اسرائیل کے حملوں سے غزہ کے انفرا اسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے، مزید یہ کہ عالمی عدالت انصاف کو نسل کشی کنونشن کے تحت کیس سننے کا اختیار ہے۔
فیصلے میں بتایا گیا کہ اسرائیل کے خلاف غزہ میں نسل کشی کا کیس خارج نہیں کریں گے، اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی روکے۔عالمی عدالت انصاف میں کیس کا فیصلہ سنانے کے دوران 17 رکنی پینل میں سے 16ججز موجود تھے جن میں سے 15 ججوں نے اس فیصلے کی تائید کی۔
پوری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل نے بڑے پیمانے پر غزہ میں فوجی کارروائیاں کی ہیں، روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی بمباری کی وجہ سے غزہ میں بڑے پیمانے پر بے گناہ شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں جب کہ انفرااسٹرکچر کی وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں مسلسل کہہ رہی ہیں کہ غزہ میں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، غزہ تباہی کی داستان بن چکا ہے، اقوام متحدہ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ غزہ رہنے کے قابل نہیں رہا، لیکن کسی نے بھی اسرائیل کا ہاتھ روکنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ جس کی وجہ سے عام فلسطینی شہریوں کا جانی اور مالی نقصان مسلسل بڑھ رہا ہے۔
7اکتوبر کو اسرائیل اور حماس کے درمیان اس جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ اس کے بعد غزہ میں بڑے پیمانے پرتباہی ہوئی ہے، ہزاروں افراد جاں بحق ہوچکے ہیںاور ستر ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں، لاکھوں لوگ بے گھر ہیں۔ آج بھی یہی صورت حال ہے اور اسرائیل کے حملے اب بھی جاری ہیں۔ ان ہی حقائق کو دیکھ کر عالمی عدالت انصاف بھی اپنے فیصلے میں یہ کہنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی روکے اور نسل کشی پر اکسانے والوں کو سزا دے اور اس حوالے سے ایک ماہ میں رپورٹ دے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل اس ڈیڈ لائن کا خیال کرتا ہے یا وہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو بھی ردی کی ٹوکری میں پھینکے گا۔ سیدھی سی بات ہے کہ اسرائیل کو یہ فیصلہ کسی صورت قبول نہیں ہوگا، امریکا اور برطانیہ بھی اس کے ساتھ ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے صاف کہہ دیا ہے کہ یہ مقدمہ ہی جھوٹا اور بے بنیاد ہے۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ اسرائیل اس وقت بڑی جنگ میں مصروف ہے، عالمی قوانین کے تحت ملک کا دفاع جاری رکھیں گے۔ البتہ نیتن یاہو نے تسلیم کیا کہ اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ نہ مٹنے والا سیاہ دھبہ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل عالمی عدالت انصاف کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔
اسرائیل نے جنوبی افریقہ کے لیے اپنی پروازیں معطل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو جنوبی افریقہ کی حکومت نے اقوام متحدہ کی عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ دائر کر کے اپنے معاشی مفادات کو قربان کیا ہے۔
یہ جنوبی افریقہ کی حکومت کا بہت بڑا کارنامہ ہے حالانکہ جنوبی افریقہ میں مسلمان حکومت نہیں ہے لیکن جنوبی افریقہ نے انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کو مدنظر رکھا اور اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ کیا۔ عالمی عدالت انصاف کے ججز نے بھی کسی قسم کا دباؤ قبول کرنے سے انکار کیااور اسرائیل کے خلاف فیصلہ صادر کر دیا۔ کچھ ہو یا نہ ہو لیکن یہ بات طے ہے کہ اسرائیل کے لیے خاصی مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔
دوسری جانب سعودی عرب کے نائب وزیر خارجہ ولید الخریجی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مشرق وسطی کی صورت حال پر منعقدہ اجلاس سے خطاب میں کہا کہ غزہ میں جاری جنگ کے نتائج کے ذمے دار سب ہیں، سعودی عرب غزہ کی جنگ کا دائرہ پھیلنے اور علاقائی امن واستحکام پر اس کے اثرات سے خبردار کر چکا ہے، ہماری ترجیح انسانی مصائب اور فلسطین میں عسکری اقدامات کا خاتمہ ہے۔
ناروے کے وزیر خارجہ ایسپن بارتھ ایدے کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے غزہ پر حملوں کے بعد سے سلامتی کونسل فالج کا شکار ہے، اسرائیلی بمباری سے غزہ کی صورت حال زمین پر جہنم سے کم نہیں۔ فلسطینی اداروں کی اپنے علاقوں پر مکمل اجارہ داری ہونی چاہیے اور اسرائیل کو ناجائز قبضے سے بازآجاناچاہیے۔
چین نے واضح کیا ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان حالیہ تنازع شروع ہونے کے بعد سے اس نے کبھی بھی تنازعات کے شکار علاقوں کو ہتھیار یا ساز و سامان فراہم نہیں کیا۔ پاکستان کے ترجمان دفتر خارجہ نے کہا یے کہ پاکستان آئی سی جے کی جانب سے حکم امتناعی اقدامات کا خیرمقدم کرتا ہے۔
عدالت کے پاس اسرائیل کے خلاف کیس سننے کا دائرہ اختیار ہے، پاکستان عالمی عدالت کے فیصلے پر مکمل اور موثر عمل درآمد کا مطالبہ کرتاہے۔ اسرائیل اس وقت مشکل میں ہے، اس موقع پر اگر او آئی سی کے ارکان بھی اپنا دباؤ بڑھائیں تو غزہ میں مستقل جنگ بندی ہو سکتی ہے۔
عالمی عدالت انصاف نے نسل کشی مقدمے کی سماعت معطل کرنے کی اسرائیلی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، عدالت نے مزید کہا کہ مقدمہ خارج نہیں کریں گے۔ عالمی عدالت انصاف نے دو کے مقابلے میں پندرہ کی اکثریت سے عبوری فیصلہ سنادیا، اسرائیل کے خلاف غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی بند کرانے کے لیے عالمی عدالت انصاف میں درخواست جنوبی افریقہ نے جمع کرائی تھی۔
سترہ رکنی عالمی عدالت کے پندرہ ججز نے اسرائیل کے خلاف فیصلہ دیا۔ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے عالمی عدالت انصاف کے اس فیصلے پر اپنے ردعمل میںکہا ہے کہ اسرائیل پر نسل کشی کے الزامات جھوٹے اور اشتعال انگیز ہیں۔ امریکا نے حسب توقع اس مقدمے کو ہی بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔
جنوبی افریقہ کے وزیرخارجہ نالیدی پالندور نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی عدالت کے اقدامات جنگ بندی کے برابر ہیں۔ پاکستان ، فلسطین اور دنیا کے دیگر ممالک کی حکومتوں نے عالمی عدالت انصاف کیے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔
حماس کے سینئر رہنما سمیع ابو زہری نے فیصلے پر ردعمل میں کہا ہے کہ عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ ایک اہم پیش رفت ہے جو اسرائیل کو تنہا کرنے اور غزہ میں اس کے جرائم کو بے نقاب کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، فلسطینی اتھارٹی کے وزیر خارجہ ریاض المالکی نے کہا ہے کہ عالمی عدالت انصاف نے انسانیت اور بین الاقوامی قانون کے حق میں فیصلہ دیا۔
ایرانی وزیرخارجہ حسین امیر عبداللہیان نے عالمی عدالت انصاف میں کامیابی پر جنوبی افریقہ اور فلسطین کے عوام کو مبارکباد پیش کی ہے۔ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ غزہ میں غیر انسانی حملوں کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف کے عارضی حکم نامے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
اسپین کے وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے کہا کہ ہم امن اور جنگ کے خاتمے، قیدیوں کی رہائی، انسانی امداد تک رسائی اور اسرائیل کے شانہ بشانہ ایک فلسطینی ریاست کے قیام کی وکالت کرتے رہیں گے تاکہ دونوں ممالک امن اور سلامتی کے ساتھ ساتھ رہیں۔
جنوبی افریقہ کے وزیرخارجہ نالیدی پالندور کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کا خواہاں ہے تو اسے جنگ بندی کرنا ہوگی کیوں کہ سیز فائر کے بغیر غزہ کو پانی اور امداد کی فراہمی یقینی نہیں ہوسکتی، جنوبی افریقی صدر صدر سیرل رامافوسا کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی روکنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنا چاہیے،انھوں نے کہا کہ انھیں امید ہے کہ اس سے جنگ بندی ہو گی، اسرائیل عالمی برادری کے سامنے کھڑا ہے، فلسطینیوں کے خلاف اس کے جرائم کھل کر سامنے آئے ہیں۔
جنوبی افریقہ کے وزیر انصاف رونالڈ لامولا کا کہنا ہے کہ آج نیلسن منڈیلا بہت خوش ہوں گے۔اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ عدالتی فیصلہ اسرائیل کو حق دفاع کے بنیادی حق سے محروم کرنے کی مذموم کوشش اور صیہونی ریاست کے خلاف امتیازی سلوک ہے اور اس غیر منصفانہ فیصلے کو ہم مسترد کرتے ہیں۔
عدالتی فیصلے میں بتایا گیا کہ اسرائیل نے بڑے پیمانے پر غزہ میں کارروائیاں کی، اس میں بڑے پیمانے ہر شہریوں کی شہادتیں بھی ہوئی، اسرائیلی حملوں میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔مزید کہا کہ غزہ میں مسلسل جانی نقصان پر تشویش ہے، اقوام متحدہ کے کئی اداروں نے اسرائیل کے خلاف قراردادیں پیش کیں۔
عدالتی فیصلے کے مطابق غزہ میں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، اسرائیل کے حملوں سے غزہ کے انفرا اسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے، مزید یہ کہ عالمی عدالت انصاف کو نسل کشی کنونشن کے تحت کیس سننے کا اختیار ہے۔
فیصلے میں بتایا گیا کہ اسرائیل کے خلاف غزہ میں نسل کشی کا کیس خارج نہیں کریں گے، اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی روکے۔عالمی عدالت انصاف میں کیس کا فیصلہ سنانے کے دوران 17 رکنی پینل میں سے 16ججز موجود تھے جن میں سے 15 ججوں نے اس فیصلے کی تائید کی۔
پوری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل نے بڑے پیمانے پر غزہ میں فوجی کارروائیاں کی ہیں، روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی بمباری کی وجہ سے غزہ میں بڑے پیمانے پر بے گناہ شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں جب کہ انفرااسٹرکچر کی وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں مسلسل کہہ رہی ہیں کہ غزہ میں انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، غزہ تباہی کی داستان بن چکا ہے، اقوام متحدہ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ غزہ رہنے کے قابل نہیں رہا، لیکن کسی نے بھی اسرائیل کا ہاتھ روکنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ جس کی وجہ سے عام فلسطینی شہریوں کا جانی اور مالی نقصان مسلسل بڑھ رہا ہے۔
7اکتوبر کو اسرائیل اور حماس کے درمیان اس جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ اس کے بعد غزہ میں بڑے پیمانے پرتباہی ہوئی ہے، ہزاروں افراد جاں بحق ہوچکے ہیںاور ستر ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں، لاکھوں لوگ بے گھر ہیں۔ آج بھی یہی صورت حال ہے اور اسرائیل کے حملے اب بھی جاری ہیں۔ ان ہی حقائق کو دیکھ کر عالمی عدالت انصاف بھی اپنے فیصلے میں یہ کہنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی روکے اور نسل کشی پر اکسانے والوں کو سزا دے اور اس حوالے سے ایک ماہ میں رپورٹ دے ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل اس ڈیڈ لائن کا خیال کرتا ہے یا وہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو بھی ردی کی ٹوکری میں پھینکے گا۔ سیدھی سی بات ہے کہ اسرائیل کو یہ فیصلہ کسی صورت قبول نہیں ہوگا، امریکا اور برطانیہ بھی اس کے ساتھ ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے صاف کہہ دیا ہے کہ یہ مقدمہ ہی جھوٹا اور بے بنیاد ہے۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ اسرائیل اس وقت بڑی جنگ میں مصروف ہے، عالمی قوانین کے تحت ملک کا دفاع جاری رکھیں گے۔ البتہ نیتن یاہو نے تسلیم کیا کہ اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ نہ مٹنے والا سیاہ دھبہ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل عالمی عدالت انصاف کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔
اسرائیل نے جنوبی افریقہ کے لیے اپنی پروازیں معطل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو جنوبی افریقہ کی حکومت نے اقوام متحدہ کی عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ دائر کر کے اپنے معاشی مفادات کو قربان کیا ہے۔
یہ جنوبی افریقہ کی حکومت کا بہت بڑا کارنامہ ہے حالانکہ جنوبی افریقہ میں مسلمان حکومت نہیں ہے لیکن جنوبی افریقہ نے انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کو مدنظر رکھا اور اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ کیا۔ عالمی عدالت انصاف کے ججز نے بھی کسی قسم کا دباؤ قبول کرنے سے انکار کیااور اسرائیل کے خلاف فیصلہ صادر کر دیا۔ کچھ ہو یا نہ ہو لیکن یہ بات طے ہے کہ اسرائیل کے لیے خاصی مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔
دوسری جانب سعودی عرب کے نائب وزیر خارجہ ولید الخریجی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مشرق وسطی کی صورت حال پر منعقدہ اجلاس سے خطاب میں کہا کہ غزہ میں جاری جنگ کے نتائج کے ذمے دار سب ہیں، سعودی عرب غزہ کی جنگ کا دائرہ پھیلنے اور علاقائی امن واستحکام پر اس کے اثرات سے خبردار کر چکا ہے، ہماری ترجیح انسانی مصائب اور فلسطین میں عسکری اقدامات کا خاتمہ ہے۔
ناروے کے وزیر خارجہ ایسپن بارتھ ایدے کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے غزہ پر حملوں کے بعد سے سلامتی کونسل فالج کا شکار ہے، اسرائیلی بمباری سے غزہ کی صورت حال زمین پر جہنم سے کم نہیں۔ فلسطینی اداروں کی اپنے علاقوں پر مکمل اجارہ داری ہونی چاہیے اور اسرائیل کو ناجائز قبضے سے بازآجاناچاہیے۔
چین نے واضح کیا ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان حالیہ تنازع شروع ہونے کے بعد سے اس نے کبھی بھی تنازعات کے شکار علاقوں کو ہتھیار یا ساز و سامان فراہم نہیں کیا۔ پاکستان کے ترجمان دفتر خارجہ نے کہا یے کہ پاکستان آئی سی جے کی جانب سے حکم امتناعی اقدامات کا خیرمقدم کرتا ہے۔
عدالت کے پاس اسرائیل کے خلاف کیس سننے کا دائرہ اختیار ہے، پاکستان عالمی عدالت کے فیصلے پر مکمل اور موثر عمل درآمد کا مطالبہ کرتاہے۔ اسرائیل اس وقت مشکل میں ہے، اس موقع پر اگر او آئی سی کے ارکان بھی اپنا دباؤ بڑھائیں تو غزہ میں مستقل جنگ بندی ہو سکتی ہے۔