لطیف جوہر کی جان بچائی جائے
لوگ سیاسی کارکنوں کے اغواء اور پھر ان کی لاشیں ملنے کی خبروں پر ماتم کرتے رہ جاتے ہیں۔۔۔۔
نوجوان لطیف جوہر کی بھوک ہڑتال کو 45 دن ہوگئے ہیں۔ لطیف جوہر کا معائنہ کرنے والے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اس نوجوان کے جسم میں شوگر کا تناسب انتہائی کم ہوگیا ہے اور جسم میں پانی کی شدید کمی ہے۔ کراچی پریس کلب کی دیوار سے متصل بھوک ہڑتالی کیمپ کے مکین کا عزم ہے کہ اس کی تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چیئرپرسن زاہد بلوچ 18 مارچ کو کوئٹہ سے لا پتہ ہوئے۔ زاہد بلوچ کی رہائی تک بھوک ہڑتال جاری رہے گی ۔ بی ایس او آزاد کی رہنما کریمہ بلوچ کہتی ہیں اگر لطیف جوہر کی جان چلی گئی تو کریمہ بلوچ یا کوئی اور ساتھی بھوک ہڑتال شروع کرے گا۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ گزشتہ ہفتے اس کیمپ میں آئے، انھوں نے دو سینئر صحافیوں کے ہمراہ درخواست کی کہ لطیف جوہر بھوک ہڑتال ختم کردیں۔ لطیف کا کہنا ہے کہ زاہد بلوچ کی رہائی تک بھوک ہڑتال جاری رہے گی ۔ ڈاکٹر مالک بلوچ کا کہنا تھا کہ وہ بی ایس او آزاد کے چیئرپرسن زاہد بلوچ کو ذاتی طور پر جانتے ہیں، ڈاکٹر مالک اور زاہد بلوچ بی ایس او میں ساتھ کام کرتے تھے مگر سیاسی اختلافات کی بناء پر دونوں کے راستے جدا ہوگئے۔ ڈاکٹر مالک نے کہا کہ ان کے انتخابات میں بی ایس او کے کارکنوں نے متحرک کردار ادا کیا تھا۔ ڈاکٹر مالک نے اس موقعے پر انکشاف کیا کہ زاہد بلوچ کے اغواء کے واقعے کی انھیں کوئی اطلاع نہیں ہے مگر وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے زاہد کی بازیابی ان کی ذمے داری ہے۔
ڈاکٹر مالک نے اس موقعے پر اقوامِ متحدہ کے نام تیارکردہ عرض داشت پر دستخط کیے۔ اس عرضداشت میں اغواء ہونے والے سیاسی کارکنوں کی بازیابی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ لطیف جوہر کا کہنا ہے کہ زاہد بلوچ کے اغواء کے بعد بہت سے لوگوں نے اس کے بارے میں اطلاعات فراہم کرنے اور زاہد کی بازیابی کا وعدہ کیا مگر یہ وعدہ وفا نہیں ہوا۔ بی ایس او کی سنٹرل کمیٹی کی رکن کریمہ بلوچ کاکہنا ہے کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے زاہد بلوچ کے اغواء کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا مگر کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر مالک کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت ایف آئی آر درج کرنے کے لیے تیار ہے مگر کوئی ایف آئی آر درج کرانے کو تیار نہیں ہے۔
لطیف جوہر کی طبیعت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ اس کو رات کو نیند نہیں آتی، آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہے، وہ پیر میں درد کی بناء پر کھڑے نہیں ہوسکتے ۔ بلوچستان میں صورتحال بدستور خراب ہے۔ سیاسی کارکنوں کو ڈبل کیبن جیپوں میں آنے والے مسلح افراد اغواء کر کے لے جاتے ہیں، پھر ان کی لاشیں ملتی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اغواء ہونے والے افراد کی تعداد ہزاروں میں بتاتے ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان HRCP کی سالانہ رپورٹ میں تحریری طور پر بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال 116 افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں، ان میں سے 87 کی شناخت ہوگئی۔ ان لاشوں کی شناخت ان کے قریبی عزیزوں نے کی، باقی 29 لاشوں کے ورثاء کا پتہ نہیں چل سکا۔ پھر مختلف قید خانوں میں کتنے افراد قید ہیں یہ بات صرف بااختیار افراد کے علم میں ہے۔
لوگ سیاسی کارکنوں کے اغواء اور پھر ان کی لاشیں ملنے کی خبروں پر ماتم کرتے رہ جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس صدی کے آغاز سے بلوچستان میں سیاسی کارکنوں کے اغواء کا سلسلہ شروع ہوا۔ پہلے مری قبیلے سے تعلق رکھنے والے پھر سیاسی کارکن اغواء ہونے لگے۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد کئی اغواء شدہ کارکن اپنے گھروں کو پہنچ گئے۔ نیشنل پارٹی کے رہنما حاصل بلوچ کا کہنا تھا کہ رہا ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق بگٹی قبیلے سے تھا جنھیں خفیہ ایجنسیوں نے اکبر بگٹی قتل کے بعد اغواء کیا تھا، اچانک دوسرے صوبوں سے آ کر بلوچستان میں آباد ہونے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوئی مگر کچھ عرصے سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں ملنا شروع ہوئیں۔
یہ لاشیں کوئٹہ کے مضافاتی علاقے کے علاوہ حب اور کراچی کے اطراف سے بھی برآمد ہوئیں۔ اس سال کے اوائل میں خضدار کے مضافاتی علاقے سے اجتماعی قبریں ملنے کی خبریں ذرایع ابلاغ کی زینت بنیں۔ ان مسخ شدہ لاشوں میں چند کی شناخت ہوسکی۔ سپریم کورٹ اور چاروں ہائی کورٹوں نے اغواء ہونے والے افراد کے بارے میں مہینوں سماعت کی۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اغواء شدہ افراد کے بارے میں اپنے متعدد فیصلوں میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کے اہلکاروں کو ملوث قرار دیا۔ افتخار چوہدری کی مسلسل کوششوں کے باوجود یہ مسئلہ گھمبیر ہی رہا۔
اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے سالانہ اجلاسوں میں یہ مسئلہ بحث کا موضوع رہا۔ اسی بناء پر کونسل کا ایک وفد فیکٹ فائنڈنگ مشن پر پاکستان آیا۔ وزارتِ خارجہ و داخلہ نے اس مشن سے تعاون نہیں کیا۔ مشن کے اراکین نے چاروں صوبوں کے دورے کیے اور سیاسی کارکنوں ، انسانی حقوق کی تنظیموں کے اراکین، وکلاء اور صحافیوں کے انٹرویو کیے۔ اس کونسل کی رپورٹوں میں اغواء ہونے والے افراد کی تعداد خاص طور پر مسخ شدہ لاشوں کے اعداد و شمار نے دنیا بھر کو اس مسئلے کی طرف متوجہ کیا۔
گزشتہ سال ستمبر میں ایک سیاسی کارکن کے والد ماما قدیر بلوچ نے اغواء شدہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ سے کراچی تک پیدل لانگ مارچ کیا،عورتوں اور بچوں کے ساتھ کراچی سے اسلام آباد تک گئے، اس لانگ مارچ کی شہرت ہوئی۔ جب نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک نے اقتدار سنبھالا تو انھوں نے اعلان کیا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی ان کی اولین ترجیح ہوگی۔ ڈاکٹر مالک اور نیشنل پارٹی کے ایک رہنما میر حاصل بزنجو نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ اب مزید کوئی سیاسی کارکن لاپتہ نہیں ہوگا مگر صوبائی حکومت کی یہ یقین دہانی ذرایع ابلاغ کی خبروں تک محدود رہی۔ سیاسی کارکنوں نے لاپتہ ہونے اور ان کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ بند نہ ہوا۔
بی ایس او آزاد کے چیئرپرسن زاہد بلوچ کا اغواء میں اس سال مارچ کا واقعہ ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان حکومت پر بالادستی کسی اور کی ہے جو سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کر کے صوبائی حکومت کو مفلوج کرنا چاہتی ہے اور دوسری طرف مذہبی انتہاپسندوں کی حوصلہ افزائی کر کے قوم پرستوں کی تقسیم کرنا چاہتی ہے۔ پنجگور اور تربت میں مخلوط تعلیم والے اسکولوں کو دھمکیوں کے بعد بند ہونا اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اپنے ہی ملک میں شہریوں کو اغواء اور انھیں تقسیم کر کے استحکام حاصل کیا جاسکتا ہے۔ تاریخ اس مفروضے کو غلط ثابت کرتی ہے۔
مشرقی پاکستان کے مقابلے میں بلوچستان کی صورتحال میں فرق یہ ہے کہ درمیانی طبقے سے تعلق رکھنے والی جماعتیں اب تک وفاق پر یقین رکھتی ہیں۔ عجیب ستم ظریفی ہے کہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود زاہد بلوچ کا پتہ نہیں چلا سکے۔ ڈاکٹر مالک کی بے بسی کا اندازہ اقوامِ متحدہ کے نام لاپتہ افراد کی بازیابی کی یادداشت پر دستخط سے ہوتا ہے۔ ڈاکٹر مالک کی اس ناکامی کا مطلب صرف نیشنل پارٹی کی ناکامی ہی نہیں بلکہ 1973 کے آئین کی بالادستی اور سیاسی جدوجہد کے ذریعے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد کرنے والے ہر فرد کی بھی ناکامی ہے، پھر یہ ناکامی وزیر اعظم نواز شریف کی بھی ہے جنہوں نے بلوچستان اسمبلی میں اقلیتی جماعت نیشنل پارٹی کو حکومت بنانے کی دعوت دی تھی تاکہ بلوچستان کے عوام کا اعتماد بحال ہوسکے۔
اب اگر لطیف جوہر اپنی بھوک ہڑتال کے باعث ہلاک ہوجاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ بلوچستان میں جمہوری حکومت کا تجربہ ناکام بنادیا گیا ہے۔ یہ ناکامی ایک نئی تباہی کا آغاز ہوگا۔ انسانیت سے محبت کرنے والے ہر شخص کو لطیف جوہر کی جان بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ زاہد بلوچ سمیت ہر لاپتہ شخص کو رہا ہونا چاہیے اور جس نے قانون توڑا ہے اس کے خلاف قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔ کیا لطیف جوہر کی جان بچ جائے گی؟
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ گزشتہ ہفتے اس کیمپ میں آئے، انھوں نے دو سینئر صحافیوں کے ہمراہ درخواست کی کہ لطیف جوہر بھوک ہڑتال ختم کردیں۔ لطیف کا کہنا ہے کہ زاہد بلوچ کی رہائی تک بھوک ہڑتال جاری رہے گی ۔ ڈاکٹر مالک بلوچ کا کہنا تھا کہ وہ بی ایس او آزاد کے چیئرپرسن زاہد بلوچ کو ذاتی طور پر جانتے ہیں، ڈاکٹر مالک اور زاہد بلوچ بی ایس او میں ساتھ کام کرتے تھے مگر سیاسی اختلافات کی بناء پر دونوں کے راستے جدا ہوگئے۔ ڈاکٹر مالک نے کہا کہ ان کے انتخابات میں بی ایس او کے کارکنوں نے متحرک کردار ادا کیا تھا۔ ڈاکٹر مالک نے اس موقعے پر انکشاف کیا کہ زاہد بلوچ کے اغواء کے واقعے کی انھیں کوئی اطلاع نہیں ہے مگر وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے زاہد کی بازیابی ان کی ذمے داری ہے۔
ڈاکٹر مالک نے اس موقعے پر اقوامِ متحدہ کے نام تیارکردہ عرض داشت پر دستخط کیے۔ اس عرضداشت میں اغواء ہونے والے سیاسی کارکنوں کی بازیابی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ لطیف جوہر کا کہنا ہے کہ زاہد بلوچ کے اغواء کے بعد بہت سے لوگوں نے اس کے بارے میں اطلاعات فراہم کرنے اور زاہد کی بازیابی کا وعدہ کیا مگر یہ وعدہ وفا نہیں ہوا۔ بی ایس او کی سنٹرل کمیٹی کی رکن کریمہ بلوچ کاکہنا ہے کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے زاہد بلوچ کے اغواء کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا مگر کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر مالک کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت ایف آئی آر درج کرنے کے لیے تیار ہے مگر کوئی ایف آئی آر درج کرانے کو تیار نہیں ہے۔
لطیف جوہر کی طبیعت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔ اس کو رات کو نیند نہیں آتی، آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا ہے، وہ پیر میں درد کی بناء پر کھڑے نہیں ہوسکتے ۔ بلوچستان میں صورتحال بدستور خراب ہے۔ سیاسی کارکنوں کو ڈبل کیبن جیپوں میں آنے والے مسلح افراد اغواء کر کے لے جاتے ہیں، پھر ان کی لاشیں ملتی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اغواء ہونے والے افراد کی تعداد ہزاروں میں بتاتے ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان HRCP کی سالانہ رپورٹ میں تحریری طور پر بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال 116 افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں، ان میں سے 87 کی شناخت ہوگئی۔ ان لاشوں کی شناخت ان کے قریبی عزیزوں نے کی، باقی 29 لاشوں کے ورثاء کا پتہ نہیں چل سکا۔ پھر مختلف قید خانوں میں کتنے افراد قید ہیں یہ بات صرف بااختیار افراد کے علم میں ہے۔
لوگ سیاسی کارکنوں کے اغواء اور پھر ان کی لاشیں ملنے کی خبروں پر ماتم کرتے رہ جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس صدی کے آغاز سے بلوچستان میں سیاسی کارکنوں کے اغواء کا سلسلہ شروع ہوا۔ پہلے مری قبیلے سے تعلق رکھنے والے پھر سیاسی کارکن اغواء ہونے لگے۔ نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد کئی اغواء شدہ کارکن اپنے گھروں کو پہنچ گئے۔ نیشنل پارٹی کے رہنما حاصل بلوچ کا کہنا تھا کہ رہا ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق بگٹی قبیلے سے تھا جنھیں خفیہ ایجنسیوں نے اکبر بگٹی قتل کے بعد اغواء کیا تھا، اچانک دوسرے صوبوں سے آ کر بلوچستان میں آباد ہونے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوئی مگر کچھ عرصے سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں ملنا شروع ہوئیں۔
یہ لاشیں کوئٹہ کے مضافاتی علاقے کے علاوہ حب اور کراچی کے اطراف سے بھی برآمد ہوئیں۔ اس سال کے اوائل میں خضدار کے مضافاتی علاقے سے اجتماعی قبریں ملنے کی خبریں ذرایع ابلاغ کی زینت بنیں۔ ان مسخ شدہ لاشوں میں چند کی شناخت ہوسکی۔ سپریم کورٹ اور چاروں ہائی کورٹوں نے اغواء ہونے والے افراد کے بارے میں مہینوں سماعت کی۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اغواء شدہ افراد کے بارے میں اپنے متعدد فیصلوں میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کے اہلکاروں کو ملوث قرار دیا۔ افتخار چوہدری کی مسلسل کوششوں کے باوجود یہ مسئلہ گھمبیر ہی رہا۔
اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے سالانہ اجلاسوں میں یہ مسئلہ بحث کا موضوع رہا۔ اسی بناء پر کونسل کا ایک وفد فیکٹ فائنڈنگ مشن پر پاکستان آیا۔ وزارتِ خارجہ و داخلہ نے اس مشن سے تعاون نہیں کیا۔ مشن کے اراکین نے چاروں صوبوں کے دورے کیے اور سیاسی کارکنوں ، انسانی حقوق کی تنظیموں کے اراکین، وکلاء اور صحافیوں کے انٹرویو کیے۔ اس کونسل کی رپورٹوں میں اغواء ہونے والے افراد کی تعداد خاص طور پر مسخ شدہ لاشوں کے اعداد و شمار نے دنیا بھر کو اس مسئلے کی طرف متوجہ کیا۔
گزشتہ سال ستمبر میں ایک سیاسی کارکن کے والد ماما قدیر بلوچ نے اغواء شدہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ سے کراچی تک پیدل لانگ مارچ کیا،عورتوں اور بچوں کے ساتھ کراچی سے اسلام آباد تک گئے، اس لانگ مارچ کی شہرت ہوئی۔ جب نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر مالک نے اقتدار سنبھالا تو انھوں نے اعلان کیا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی ان کی اولین ترجیح ہوگی۔ ڈاکٹر مالک اور نیشنل پارٹی کے ایک رہنما میر حاصل بزنجو نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ اب مزید کوئی سیاسی کارکن لاپتہ نہیں ہوگا مگر صوبائی حکومت کی یہ یقین دہانی ذرایع ابلاغ کی خبروں تک محدود رہی۔ سیاسی کارکنوں نے لاپتہ ہونے اور ان کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ بند نہ ہوا۔
بی ایس او آزاد کے چیئرپرسن زاہد بلوچ کا اغواء میں اس سال مارچ کا واقعہ ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان حکومت پر بالادستی کسی اور کی ہے جو سیاسی کارکنوں کو لاپتہ کر کے صوبائی حکومت کو مفلوج کرنا چاہتی ہے اور دوسری طرف مذہبی انتہاپسندوں کی حوصلہ افزائی کر کے قوم پرستوں کی تقسیم کرنا چاہتی ہے۔ پنجگور اور تربت میں مخلوط تعلیم والے اسکولوں کو دھمکیوں کے بعد بند ہونا اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اپنے ہی ملک میں شہریوں کو اغواء اور انھیں تقسیم کر کے استحکام حاصل کیا جاسکتا ہے۔ تاریخ اس مفروضے کو غلط ثابت کرتی ہے۔
مشرقی پاکستان کے مقابلے میں بلوچستان کی صورتحال میں فرق یہ ہے کہ درمیانی طبقے سے تعلق رکھنے والی جماعتیں اب تک وفاق پر یقین رکھتی ہیں۔ عجیب ستم ظریفی ہے کہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود زاہد بلوچ کا پتہ نہیں چلا سکے۔ ڈاکٹر مالک کی بے بسی کا اندازہ اقوامِ متحدہ کے نام لاپتہ افراد کی بازیابی کی یادداشت پر دستخط سے ہوتا ہے۔ ڈاکٹر مالک کی اس ناکامی کا مطلب صرف نیشنل پارٹی کی ناکامی ہی نہیں بلکہ 1973 کے آئین کی بالادستی اور سیاسی جدوجہد کے ذریعے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد کرنے والے ہر فرد کی بھی ناکامی ہے، پھر یہ ناکامی وزیر اعظم نواز شریف کی بھی ہے جنہوں نے بلوچستان اسمبلی میں اقلیتی جماعت نیشنل پارٹی کو حکومت بنانے کی دعوت دی تھی تاکہ بلوچستان کے عوام کا اعتماد بحال ہوسکے۔
اب اگر لطیف جوہر اپنی بھوک ہڑتال کے باعث ہلاک ہوجاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ بلوچستان میں جمہوری حکومت کا تجربہ ناکام بنادیا گیا ہے۔ یہ ناکامی ایک نئی تباہی کا آغاز ہوگا۔ انسانیت سے محبت کرنے والے ہر شخص کو لطیف جوہر کی جان بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ زاہد بلوچ سمیت ہر لاپتہ شخص کو رہا ہونا چاہیے اور جس نے قانون توڑا ہے اس کے خلاف قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔ کیا لطیف جوہر کی جان بچ جائے گی؟