پیپلز پارٹی کو پنجاب میں بدترین سیاسی تنہائی کا سامنا
پنجاب میں صوبائی تنظیم نے ضلعی سطح پرجو تنظیم سازی کی ہے، وہ محض خانہ پری ہے۔
پیپلز پارٹی کو پنجاب میں اپنی تاریخ کی بدترین سیاسی تنہائی کا سامنا ہے اور پارٹی ایک سال بعد بھی 2013ء کے الیکشن میں شکست کے نفسیاتی دباؤ سے باہر نہیں نکل سکی۔ سیاسی پستی کا عالم یہ ہے کہ حالیہ تین ماہ کے دوران جھنگ ،نارووال اور حافظ آباد کے صوبائی حلقوں میں ضمنی الیکشن ہوئے مگر پاکستان کی سب سے بڑی جماعت نے کوئی امیدوار نہیں دئیے۔
صوبائی پارٹی قیادت نے اس ضمنی الیکشن میں کوئی دلچسپی ہی نہیں لی، حالت یہ رہی کہ مقامی سطح پر پارٹی کارکنوں اور شخصیات کو ذاتی حیثیث میں فیصلے کرنا پڑے۔ بیچارے کرتے یا نہ کرتے کے مصداق کو ئی خاموش رہا، کسی نے ن لیگ کی حمایت کی اور کوئی تحریک انصاف کے ساتھ چلنے پر مجبور ہوگیا۔
جھنگ کے ضمنی الیکشن میں بھی پارٹی نے اپنا امیدوار نہ دیا جس پر سینئر پارٹی رہنما بیگم عابدہ حسین نے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو سپورٹ کیا اور اس حلقے سے ن لیگ کا امیدوار جیت گیا جبکہ فیصل صالح حیات کا حمایت یافتہ تحریک انصاف کا امیدوار الیکشن ہار گیا۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے صوبائی صدر میاں منظو وٹو بیگم عابدہ حسین سے ملاقات کیلئے اس وقت گئے جب وہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کرچکی تھیں۔
بیگم صاحبہ فی الحال پارٹی سیاست میں غیر فعال ہیں اور اگلے الیکشن تک کسی حد تک عملی سیاست سے کنارہ کش رہیں گی۔ اگلے الیکشن سے کچھ عرصہ پہلے وہ اپنے سیاسی مستقبل کا حتمی فیصلہ کریں گی۔ لگتا یہ ہے کہ اس عرصے کے دوران وہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی سرگرمیوں اور اس کی سیاسی حیثیت کا جائزہ لیں گی۔ اگر پارٹی کی یہی حالت رہی تو مجھے لگتا ہے کہ انہیں کوئی اور فیصلہ کرنا پڑے گا تاہم ان کی صاحبزادی سیدہ صغریٰ امام سینٹ میں پیپلز پارٹی کی بھر پور نمائندگی کررہی ہیں۔
یہ صوبائی پارٹی تنظیم کی ذمہ داری تھی کہ وہ ضمنی الیکشن کیلئے مناسب تیاری کرتی اور ہر حلقے میں امیدوار دیتی۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ وہ پنجاب کے تین ضمنی الیکشن میں اپنا امیدوار کھڑا کرنے کے قابل بھی نہیں رہی۔کیا پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ پنجاب تنظیم کے اعلیٰ عہدیداروں سے باز پرس کرتی۔ پنجاب میں میاں منظور وٹو کو ذمہ داری کس مقصد کیلئے دی گئی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور وٹو اور دیگرعہدیداروں نے اس معاملے میں اپنے عہدوں سے انصاف نہیں کیا۔ اس سے پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔ اس طرح کے واقعات سے یہ تاثر بھی ابھر رہا ہے کہ پیپلزپارٹی نے پنجاب کو سرنڈر کردیا ہے۔
ماضی میں پیپلزپارٹی نے ہمیشہ ہر ضمنی الیکشن میں حصہ لیا اور جہاں کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا جاتا تھا وہاں کسی امیدوار کو سپورٹ کیا جاتا تھا ۔تنظیمی صورتحال اتنی مایوس کن ہوگئی ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں انتخابی سیاست آہستہ آہستہ ترک کرتی جارہی ہے اور پارٹی تنظیمانتظامی اور نہ ہی انتخابی صورتحال پر قابو پانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ان گومگو حالات میں پارٹی قیادت تبدیلی اور تنظیم نو کیلئے سوچنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ آجکل بحث چل رہی ہے کہ جنوبی اور سنٹرل پنجاب کی تنظیموں کی تقسیم سے پارٹی کو کیا نقصانات ہوئے ہیں۔ اس لئے یہ موجودہ عہدیدار اس انتظار میں ہیں کہ انہیں کب ہٹایا جائے۔ پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب تنظیم تو بالکل ڈیڈ ثابت ہوئی ہے۔
مخدوم شہاب الدین بطور صدر غیر فعال رہے ہیں وہ تو بھٹو کی برسی پر گڑھی خدا بخش بھی نہیں گئے تھے۔سنٹرل پنجاب سے بھی بہت کم لوگ برسی پر گئے تھے۔ ڈیڑھ سال کے دوران پارٹی آفس میٹنگز پر زور رہااس لئے ان کی میٹنگز بھی صرف نشتندوگفتندو برخاستند تک ہوتی ہیں لیکن پنجاب میں سڑکوں پر ایک بھی ایونٹ نہیں کیا اور صوبائی تنظیم اخبارات میں سنگل کالم بیانات سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ بے نظیر بھٹو شہید کی سالگرہ کا مہینہ جون شروع ہوگیا ہے۔
اس حوالے سے ابھی تک کوئی لائحہ عمل سامنے نہیں آیا۔ ماضی میں یکم جون سے 21 جون تک ڈویژنل، ڈسٹرکٹ اور تحصیل کی سطح پر تقریبات کا اعلان ہوجاتا تھا اور اب اس اہم ایونٹ کو رسماً منانے کا رواج پڑ رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کا ورکر جذبہ جنون اور جوش کا عادی ہے اس وجہ سے جیالا کہلاتا تھا۔ موجودہ پارٹی تنظیم کو تو شاید جیالے کلچر ختم کرنے کا مینڈیٹ دیا گیا ہے۔ اس وجہ سے ورکر مایوس ہوکر بیٹھ گیا ہے۔ اعلیٰ قیادت پنجاب کے دورے بناتی ہے اور پارٹی تنظیمی صورتحال دیکھ کر خاموش ہوجاتی ہے۔ آج کل بلاول بھٹو زرداری جدید طرز کی تنظیم سازی کیلئے پلاننگ کر رہے ہیں۔ وہ سمجھ رہے ہیں جب تک مرکزیت ختم کرکے نچلی سطح تک تنظیم کو اختیارات نہ دیئے جائیں پارٹی آگے نہیں بڑھ سکے گی۔
پنجاب کے 9 ڈویژن کی سطح پر بھی پارٹی کی ہیوی ویٹ شخصیات پر مشتمل تنظیم بنانے کی تجویززیر غور ہے۔ بلاول بھٹو اس تجویز میں بھی بڑی دلچسپی لے رہے ہیں ۔ اگر اس تجویز پر اتفاق ہوگیا تو پھر صوبائی سطح پر تنظیمی ڈھانچہ نہیں دیا جائے گا۔
یہ وقت ہے کہ اس پر فوری عملدرآمد کیا جائے اور پارٹی کو گو مگو کی صورتحال سے نکالا جائے۔ ایک طرف ملک میں کچھ پارٹیاں تحریک کی صورت میں باہر نکل رہی ہیں اور دوسری طرف پیپلزپارٹی میں ایک تلخ خاموشی نظر آرہی ہے ماسوائے پریس ریلیز کے اور کوئی سرگرمیاں نظر نہیں آرہی ہیں۔ اس تنظیمی عدم فعالیت کو ختم کرنے کے لیے پارٹی کو کچھ بڑے فیصلے کرنا پڑیں گے جبکہ اس وقت حکومت احتسابی وار کرکے پیپلزپارٹی کو اور نقصان پہنچانے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ ماحول اور حالات ایک اہم تنظیمی آپریشن کا تقاضا کرتے ہیں۔
پنجاب میں صوبائی تنظیم نے ضلعی سطح پرجو تنظیم سازی کی ہے، وہ محض خانہ پری ہے۔ پیپلزپارٹی کی تاریخ کیا ہے، حالات کیا ہیں، کسمپرسی کی یہ صورتحال پارٹی قیادت کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔میاں منظور وٹومنجھے ہوئے زیرک سیاستدان ہیں، وہ جوڑ توڑ کے ماہر ہیں اور ان کے وسیع سیاسی رابطے ہیں، انہیں پنجاب میں پارٹی معاملات چلانے کیلئے فری ہینڈ دیا گیا۔
سابق صدر امتیاز صفدر وڑائچ اور رانا آفتاب احمد خاں کو بھی شاید اس قدر فری ہینڈ نہیں تھا، انہیں یوسی اور تحصیل عہدیداروں کیلئے بھی فریال تالپور اور رخسانہ بنگش سے منظوری لینا پڑتی تھی جبکہ میاں منظور وٹو نے ہر سطح پر خود عہدیدار نامزد کئے ہیں۔ پارٹی قیادت نے انہیں ماڈل ٹاؤن میں اچھا پارٹی آفس خرید کر دیا ہے مگر وہ کوشش کے باوجود پنجاب میں پیپلز پارٹی کو فعال کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
بہتر یہ ہے کہ انہیں مرکزی تنظیم میں ایڈجسٹ کرکے ان سے فائدہ اٹھایا جائے جبکہ پنجاب میں کسی متحرک اور نوجوان جیالے کو آگے لایا جائے۔ میری رائے میں ندیم افضل چن کو پیپلز پارٹی پنجاب کا صدر اور جنوبی پنجاب سے حیدر زمان قریشی، حبیب اللہ شاکر اور شوکت بسرا میں سے کسی ایک کو جنرل سیکرٹری بنادیا جائے تو پارٹی کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کو اس وقت پنجاب میں ایسی ہی فعال لیڈر شپ کی ضرورت ہے۔
ندیم افضل چن کے خاندان کی پیپلزپارٹی سے گہری وابستگی ہے اور وہ گوجرانوالہ اور سرگودھا ڈویژن کی سیاست میں کافی اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔ وہ دلائل کے ساتھ گفتگو کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں ہیں۔ حرف آخر یہ ہے کہ ابھی تو پارٹی نے ضمنی الیکشن میں امیدوار کھڑے نہیں کئے لیکن اگر موجودہ حالات کو بدلنے کے لیے مرکزی قیادت نے پنجاب میں کوئی انقلابی فیصلہ نہ کیا تو پھر وہ وقت دور نہیں جب آئندہ الیکشن میں پارٹی ٹکٹ لینے والے نہیں ملیں گے۔
صوبائی پارٹی قیادت نے اس ضمنی الیکشن میں کوئی دلچسپی ہی نہیں لی، حالت یہ رہی کہ مقامی سطح پر پارٹی کارکنوں اور شخصیات کو ذاتی حیثیث میں فیصلے کرنا پڑے۔ بیچارے کرتے یا نہ کرتے کے مصداق کو ئی خاموش رہا، کسی نے ن لیگ کی حمایت کی اور کوئی تحریک انصاف کے ساتھ چلنے پر مجبور ہوگیا۔
جھنگ کے ضمنی الیکشن میں بھی پارٹی نے اپنا امیدوار نہ دیا جس پر سینئر پارٹی رہنما بیگم عابدہ حسین نے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو سپورٹ کیا اور اس حلقے سے ن لیگ کا امیدوار جیت گیا جبکہ فیصل صالح حیات کا حمایت یافتہ تحریک انصاف کا امیدوار الیکشن ہار گیا۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے صوبائی صدر میاں منظو وٹو بیگم عابدہ حسین سے ملاقات کیلئے اس وقت گئے جب وہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کرچکی تھیں۔
بیگم صاحبہ فی الحال پارٹی سیاست میں غیر فعال ہیں اور اگلے الیکشن تک کسی حد تک عملی سیاست سے کنارہ کش رہیں گی۔ اگلے الیکشن سے کچھ عرصہ پہلے وہ اپنے سیاسی مستقبل کا حتمی فیصلہ کریں گی۔ لگتا یہ ہے کہ اس عرصے کے دوران وہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی سرگرمیوں اور اس کی سیاسی حیثیت کا جائزہ لیں گی۔ اگر پارٹی کی یہی حالت رہی تو مجھے لگتا ہے کہ انہیں کوئی اور فیصلہ کرنا پڑے گا تاہم ان کی صاحبزادی سیدہ صغریٰ امام سینٹ میں پیپلز پارٹی کی بھر پور نمائندگی کررہی ہیں۔
یہ صوبائی پارٹی تنظیم کی ذمہ داری تھی کہ وہ ضمنی الیکشن کیلئے مناسب تیاری کرتی اور ہر حلقے میں امیدوار دیتی۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ وہ پنجاب کے تین ضمنی الیکشن میں اپنا امیدوار کھڑا کرنے کے قابل بھی نہیں رہی۔کیا پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ پنجاب تنظیم کے اعلیٰ عہدیداروں سے باز پرس کرتی۔ پنجاب میں میاں منظور وٹو کو ذمہ داری کس مقصد کیلئے دی گئی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور وٹو اور دیگرعہدیداروں نے اس معاملے میں اپنے عہدوں سے انصاف نہیں کیا۔ اس سے پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔ اس طرح کے واقعات سے یہ تاثر بھی ابھر رہا ہے کہ پیپلزپارٹی نے پنجاب کو سرنڈر کردیا ہے۔
ماضی میں پیپلزپارٹی نے ہمیشہ ہر ضمنی الیکشن میں حصہ لیا اور جہاں کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا جاتا تھا وہاں کسی امیدوار کو سپورٹ کیا جاتا تھا ۔تنظیمی صورتحال اتنی مایوس کن ہوگئی ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں انتخابی سیاست آہستہ آہستہ ترک کرتی جارہی ہے اور پارٹی تنظیمانتظامی اور نہ ہی انتخابی صورتحال پر قابو پانے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ان گومگو حالات میں پارٹی قیادت تبدیلی اور تنظیم نو کیلئے سوچنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ آجکل بحث چل رہی ہے کہ جنوبی اور سنٹرل پنجاب کی تنظیموں کی تقسیم سے پارٹی کو کیا نقصانات ہوئے ہیں۔ اس لئے یہ موجودہ عہدیدار اس انتظار میں ہیں کہ انہیں کب ہٹایا جائے۔ پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب تنظیم تو بالکل ڈیڈ ثابت ہوئی ہے۔
مخدوم شہاب الدین بطور صدر غیر فعال رہے ہیں وہ تو بھٹو کی برسی پر گڑھی خدا بخش بھی نہیں گئے تھے۔سنٹرل پنجاب سے بھی بہت کم لوگ برسی پر گئے تھے۔ ڈیڑھ سال کے دوران پارٹی آفس میٹنگز پر زور رہااس لئے ان کی میٹنگز بھی صرف نشتندوگفتندو برخاستند تک ہوتی ہیں لیکن پنجاب میں سڑکوں پر ایک بھی ایونٹ نہیں کیا اور صوبائی تنظیم اخبارات میں سنگل کالم بیانات سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ بے نظیر بھٹو شہید کی سالگرہ کا مہینہ جون شروع ہوگیا ہے۔
اس حوالے سے ابھی تک کوئی لائحہ عمل سامنے نہیں آیا۔ ماضی میں یکم جون سے 21 جون تک ڈویژنل، ڈسٹرکٹ اور تحصیل کی سطح پر تقریبات کا اعلان ہوجاتا تھا اور اب اس اہم ایونٹ کو رسماً منانے کا رواج پڑ رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کا ورکر جذبہ جنون اور جوش کا عادی ہے اس وجہ سے جیالا کہلاتا تھا۔ موجودہ پارٹی تنظیم کو تو شاید جیالے کلچر ختم کرنے کا مینڈیٹ دیا گیا ہے۔ اس وجہ سے ورکر مایوس ہوکر بیٹھ گیا ہے۔ اعلیٰ قیادت پنجاب کے دورے بناتی ہے اور پارٹی تنظیمی صورتحال دیکھ کر خاموش ہوجاتی ہے۔ آج کل بلاول بھٹو زرداری جدید طرز کی تنظیم سازی کیلئے پلاننگ کر رہے ہیں۔ وہ سمجھ رہے ہیں جب تک مرکزیت ختم کرکے نچلی سطح تک تنظیم کو اختیارات نہ دیئے جائیں پارٹی آگے نہیں بڑھ سکے گی۔
پنجاب کے 9 ڈویژن کی سطح پر بھی پارٹی کی ہیوی ویٹ شخصیات پر مشتمل تنظیم بنانے کی تجویززیر غور ہے۔ بلاول بھٹو اس تجویز میں بھی بڑی دلچسپی لے رہے ہیں ۔ اگر اس تجویز پر اتفاق ہوگیا تو پھر صوبائی سطح پر تنظیمی ڈھانچہ نہیں دیا جائے گا۔
یہ وقت ہے کہ اس پر فوری عملدرآمد کیا جائے اور پارٹی کو گو مگو کی صورتحال سے نکالا جائے۔ ایک طرف ملک میں کچھ پارٹیاں تحریک کی صورت میں باہر نکل رہی ہیں اور دوسری طرف پیپلزپارٹی میں ایک تلخ خاموشی نظر آرہی ہے ماسوائے پریس ریلیز کے اور کوئی سرگرمیاں نظر نہیں آرہی ہیں۔ اس تنظیمی عدم فعالیت کو ختم کرنے کے لیے پارٹی کو کچھ بڑے فیصلے کرنا پڑیں گے جبکہ اس وقت حکومت احتسابی وار کرکے پیپلزپارٹی کو اور نقصان پہنچانے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ ماحول اور حالات ایک اہم تنظیمی آپریشن کا تقاضا کرتے ہیں۔
پنجاب میں صوبائی تنظیم نے ضلعی سطح پرجو تنظیم سازی کی ہے، وہ محض خانہ پری ہے۔ پیپلزپارٹی کی تاریخ کیا ہے، حالات کیا ہیں، کسمپرسی کی یہ صورتحال پارٹی قیادت کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔میاں منظور وٹومنجھے ہوئے زیرک سیاستدان ہیں، وہ جوڑ توڑ کے ماہر ہیں اور ان کے وسیع سیاسی رابطے ہیں، انہیں پنجاب میں پارٹی معاملات چلانے کیلئے فری ہینڈ دیا گیا۔
سابق صدر امتیاز صفدر وڑائچ اور رانا آفتاب احمد خاں کو بھی شاید اس قدر فری ہینڈ نہیں تھا، انہیں یوسی اور تحصیل عہدیداروں کیلئے بھی فریال تالپور اور رخسانہ بنگش سے منظوری لینا پڑتی تھی جبکہ میاں منظور وٹو نے ہر سطح پر خود عہدیدار نامزد کئے ہیں۔ پارٹی قیادت نے انہیں ماڈل ٹاؤن میں اچھا پارٹی آفس خرید کر دیا ہے مگر وہ کوشش کے باوجود پنجاب میں پیپلز پارٹی کو فعال کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
بہتر یہ ہے کہ انہیں مرکزی تنظیم میں ایڈجسٹ کرکے ان سے فائدہ اٹھایا جائے جبکہ پنجاب میں کسی متحرک اور نوجوان جیالے کو آگے لایا جائے۔ میری رائے میں ندیم افضل چن کو پیپلز پارٹی پنجاب کا صدر اور جنوبی پنجاب سے حیدر زمان قریشی، حبیب اللہ شاکر اور شوکت بسرا میں سے کسی ایک کو جنرل سیکرٹری بنادیا جائے تو پارٹی کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کو اس وقت پنجاب میں ایسی ہی فعال لیڈر شپ کی ضرورت ہے۔
ندیم افضل چن کے خاندان کی پیپلزپارٹی سے گہری وابستگی ہے اور وہ گوجرانوالہ اور سرگودھا ڈویژن کی سیاست میں کافی اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔ وہ دلائل کے ساتھ گفتگو کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں ہیں۔ حرف آخر یہ ہے کہ ابھی تو پارٹی نے ضمنی الیکشن میں امیدوار کھڑے نہیں کئے لیکن اگر موجودہ حالات کو بدلنے کے لیے مرکزی قیادت نے پنجاب میں کوئی انقلابی فیصلہ نہ کیا تو پھر وہ وقت دور نہیں جب آئندہ الیکشن میں پارٹی ٹکٹ لینے والے نہیں ملیں گے۔