وزیر خزانہ مہنگائی اور بیروز گاری کے مارے عوام کو بھی مطمئن کریں

عوام کو ہڑتالوں سے اجتناب کرتے ہوئے لندن کی عدالتی کارروائی کے حتمی نتائج کا انتظار کرتے ہوئے ایک باشعور اور قانون...

عوام کو ہڑتالوں سے اجتناب کرتے ہوئے لندن کی عدالتی کارروائی کے حتمی نتائج کاانتظار کرتے ہوئے ایک باشعور اور قانون پسند شہری ہونے کا ثبوت دینا چاہیے۔ فوٹو: فائل

ہفتہ رواں پاکستان کی حالیہ تاریخ کا ہنگامہ خیز ترین ہفتہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ صدر مملکت ممنون حسین کے پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن سے خطاب اور اس میں اٹھائے گئے نکات سے دور کی کوڑیاں لانے والے ابھی منصوبہ سازی کے مراحل میں ہی تھے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کو لندن میں منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار کیے جانے کے واقعہ نے ملکی سیاست میں ایسا ارتعاش پیدا کر دیا جس کے اثرات اب آنے والے چند دنوں، ہفتوں اور مہینوں تک نظر آتے رہیں گے۔

منی لانڈرنگ کیس کے حوالے سے لندن کی مستعد اور فعال سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کی جانب سے الطاف حسین اور ان کے لندن سیکرٹریٹ میں مقیم رفقاء کے گرد گھیرا تو ایک عرصے سے تنگ کیا جا رہا تھا جس کے اثرات بھی اس وقت سے نظر آنا شروع ہوئے تھے جب پہلی بار ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے ایک تفصیلی اور غیر متوقع بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''برطانیہ اور امریکہ میں پاکستان کو توڑنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔

مجھے شاید دوبارہ اپنے کارکنوں اور پاکستانی عوام سے بات کرنے کا موقع نہ ملے'' اس کے بعد سے اب تک برطانیہ کے وزیر خارجہ ولیم ہیگ اور پاکستان میں تعینات برطانیہ کے سابق ہائی کمشنر ایڈم تھامسن اور موجودہ ہائی کمشنر فلپ بارٹن لاتعداد بار وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔

ان غیر معمولی ملاقاتوں کے سلسلے کے پیچھے غیر معمولی کہانیاں تلاش کرنے والے اپنی جگہ بجا ہیں، واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ متحدہ کے قائد الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس کے علاوہ کچھ عرصہ قبل تین تلوار کراچی میں جلسہ یا اجتماع کرنے والے پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کے خلاف دھمکی آمیز تقریر کرنے کا الزام اور اس کی تحقیقات جاری ہیں۔ کیونکہ لندن پولیس کو الطاف حسین کے خلاف اس حوالے سے 5 ہزار شکایات موصول ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تفتیش میں سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کو مطلوب سید محسن علی اور کامران خان کاشف کے بارے میں یقین کی حد تک یہ شک ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں ہیں۔

ادھر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے منگل کی سہ پہر ہی وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کرکے انہیں الطاف حسین کی گرفتاری اور اس کے بعد کراچی میں امن و امان کی صورتحال کے بارے میں بریف کر دیا تھا۔ ذرائع کے مطابق انہوں نے ہدایت کی کہ پاکستان میں موجود ایم کیو ایم کی قیادت سے رابطہ کیا جائے اور انہیں ہر قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرائی جائے۔ ادھر کراچی سٹاک ایکسچینج بھی شدید مندی کا شکار ہو چکی ہے اور محض چند گھنٹوں میں انڈکس 780 پوائنٹ نیچے گر گیا۔

کراچی اور حیدر آباد میں کاروبار بند ہو گیا ۔ البتہ قابل اطمینان بات یہ ہے کہ رینجرز سمیت قانون نافذ کرنے والے ادارے فوری طور پر کراچی اور حیدر آباد میں حرکت میں آ گئے۔ عوام کو بھی چاہیے کہ لندن میں ہونے والی عدالتی کارروائی کو محض کارروائی کے طور پر ہی لیں اور حتمی فیصلہ سامنے آنے سے قبل کسی بھی سیاسی قائد یا ان کی جماعت کے کارکنوں اور ان کی سیاسی کار گزاریوں کے بارے میں رائے قائم کرنے سے اجتناب کریں کہ حکومت پاکستان کا اس سارے معاملے میں کیا لینا دینا۔ اس لیے عوام کو ہڑتالوں سے اجتناب کرتے ہوئے لندن کی عدالتی کارروائی کے حتمی نتائج کاانتظار کرتے ہوئے ایک باشعور اور قانون پسند شہری ہونے کا ثبوت دینا چاہیے۔


صدر مملکت ممنون حسین نے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد پہلی بار گزشتہ روز پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن سے خطاب کیا ہے جس میں انہوں نے انتہائی شستہ اردو میں ملکی حالات اور اس سے متعلق معاملات کا انتہائی خوب صورتی سے احاطہ کیا ہے۔

یہ تو پہلے سے ہی ظاہر تھا کہ حکومت نے اسے بہترین اور اپوزیشن نے نامناسب قرار دینا ہے، البتہ دلچسپ ترین تبصرہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا رہا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے انہیں لکھی لکھائی تقریر دی گئی ہے اور یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ وہ اچھے سپیچ ریڈر ہیں۔ اگر صدر مملکت کی تقریر کا بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو ان کی جانب سے ریاستی اداروں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہنا کہ وہ ملکی قوانین کے تحت فرائض ادا کریں اور سیاسی پسند و ناپسند کو کسوٹی نہ بنائیں اور یہ بھی کہ شخصیات پر قومی اداروں کو ترجیح دی جائے، انتہائی قابل غور ہے۔

اب صدر مملکت کو آئندہ دنوں میں ان سے ملاقات کے لیے آنے والوں کے ان سوالوں کا جواب دینا ہوگا کہ ان کی نظر میں کون سا ریاستی ادارہ ملکی قوانین کے عین مطابق فرائض سرانجام نہیں دے رہا اور کس ادارے یا اس کے سربراہ نے اپنے کس عمل سے سیاسی پسند و ناپسند کو کسوٹی بنایا ہے۔

جواب مانگنے والے اس بات کا جواب چاہتے ہیں کہ صدر مملکت ممنون حسین کو سابق آرمی چیف جنرل (ر) پرویز مشرف کے معاملے میں یا جنگ و جیو میڈیا گروپ کے معاملے میں اداروں پہ شخصیات کو ترجیح دیے جانے کی شکایت ہے یا وہ بین السطور یہ شکوہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے کر رہے ہیں کہ عوام نے انہیں 11 مئی 2013 کے انتخابات میں وطن عزیز کو تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے مینڈیٹ سے نوازا اور یہ چند شخصیات اور ان کے معاملات کو لے کر بیٹھ گئے ہیں اور اس حد تک انہیں اہمیت دے رہے ہیں کہ ملکی ترقی اور کاروبار زندگی کا پہیہ رکا ہوا محسوس ہونے لگا ہے۔

منگل کی شام وزیر خزانہ اسحاق ڈار تقریباً 39 کھرب روپے کا بجٹ پیش کر چکے ہیں۔ حسب توقع سگریٹ، سی این جی، کوکنگ آئل، بیرون ملک سفر اور کاسمیٹکس کی اشیاء مہنگی ہونا لازم تھا جبکہ بڑی گاڑیوں سٹیشنری، ڈیری کی مصنوعات، انرجی سیور، قابل تجدید انرجی آلات، مقامی طور پر تیار کی گئی کھادیں اور ادویات میں استعمال ہونے والے خام مال کی قیمتیں کم ہونے کا امکان تھا۔ 2013-14ء کا بجٹ پیش کرتے وقت اسحاق ڈار کا یہ عذر ہر طبقہ فکر نے یوں درست تصور کر لیا کہ ان کی حکومت 5 جون میں معرضِ وجود میں آئی تو انہیں بنا بنایا بجٹ پیش کرنے کے لیے دے دیا گیا۔ اب جبکہ ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر بھی 13 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بھی قابل قدر حد تک بڑھ چکی ہے۔

بظاہر معیشت کا پہیہ درست سمت میں رواں ہے۔ وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم کو کام کرنے کا پورا ایک سال بھی میسر رہا، ایسے میں انہیں وزیراعظم نواز شریف کی اس ہدایت کو بھی مدنظر رکھنا ہے کہ قومی اقتصادی صورتحال میں بہتری کے مثبت اثرات اور فوائد عام آدمی تک بھی پہنچنے چاہئیں۔

اب کی بار پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں ذرائع ابلاغ کے نمائندے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ان سوالوں کے صاف صاف جوابات چاہیں گے جو عام آدمی کے ذہن میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کے باعث موجود ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ اسحاق ڈار اب یہ جواب نہ دیں گے کہ ہمیں کام کرنے کے لیے وقت نہیں ملا۔
Load Next Story