الیکشن کے بعد کا منظر نامہ
ملک کو مالی گرداب سے باہر نکالنا ہوگا تو دوسری طرف دیگرسیاسی لوگوں کی بلیک میلنگ سے بھی نبردآزما ہونا ہوگا
خدا خدا کرکے بالآخر ان انتخابات میں پولنگ کا دن تقریباً آہی گیا جس کے بارے میں ہمارے لوگوں کو بہت سے شک تھے ، ایسے لوگوں میں سے بہت سے تو ابھی تک اِن انتخابات کے بارے میں عوام کو گمراہ کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔
جیسے جیسے پولنگ کی تاریخ قریب آتی جارہی ہے وہ اب نتائج کے بارے میں بدگمانیاں پھیلاتے دکھائی دے رہے ہیں۔وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اِن نتائج کو کوئی بھی تسلیم نہیں کریگا اورملک ایک بار پھر افراتفری کا شکار ہوجائے گا۔
9فروری سے عوام سڑکوں پر ہونگے اورساری سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے سے باہم متصادم ہوں گی۔وہ یہ کہتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ اس ملک کی معاشی واقتصادی حالت اس قابل نہیں ہے کہ وہ مزید کسی غیر یقینی صورتحال کی متحمل ہوسکے۔
اگر ایساہوا تو یہ اس ملک اورقوم کے لیے انتہائی خطرناک ہوگا۔دوسری طرف ہمیں یہ سوچنا بھی ہوگا کہ الیکشن کے نتیجے میں جس پارٹی کو بھی وفاق میں حکومت ملے گی کیا وہ اس کے لیے کسی نعمت سے بڑھ کرہوگی یا وہ اس کے لیے ایک سخت مصیبت یا امتحان بن جائے گی۔
ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ معاشی حالات اس قدر دگرگوں ہیں کہ کوئی بھی با آسانی حکومت نہیں کرپائے گا۔وہ ملک کو قرضوں سے باہر نکالے یا عوام کو راحت فراہم کرنے کا سامان کرے۔دوتین سال تک وہ اسی مشکل میں اپنی توانائیاں خرچ کررہا ہوگا۔
اس کے پاس اگر بہت ہی اچھی کوئی معاشی ماہرین کی ٹیم ہوگی تو وہ شاید کچھ کرپائے ورنہ جوحال میاں شہباز شریف یا پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت کا ہوا اس کا بھی انجام کچھ ایسا ہی ہوگا۔
موجودہ نگراں حکومت چونکہ کسی ایک سیاسی پارٹی کی نہیں تھی اور اُسے IMF کے ساتھ وہ گفت وشنید بھی نہیں کرنا پڑیں جو سابقہ شہباز شریف کے دو وزراء خزانہ کو کرنا پڑیں تھیں اور جنھیں IMF کے انتہائی سخت رویوں کا سامنا بھی رہا ۔ اورسب سے بڑھ کر یہ کہ اُسے ہمارے اداروں کی بھی مکمل سپورٹ حاصل رہی ۔
یہی وجہ ہے کہ اس نگراں حکومت نے بڑے اطمینان اورسکون سے اپنا وقت گذار لیا۔میاں شہباز شریف کے پہلے وزیر خزانہ مفتاح اسمعیل نے بے شک ایک مشکل دور میں اپنی ذہانت اورقابلیت کے مطابق کوششیں کیں لیکن وہ بڑھتی مہنگائی کو قابو نہیں کرسکے،وہ چونکہ ایک منتخب رکن پارلیمنٹ بھی نہ تھے لہٰذا وہ چھ ماہ سے زائد اس عہدے پر براجمان بھی نہیں رہ سکتے تھے ۔
اُن کی جگہ کسی اورنے سنبھالنی ہی تھی ۔میاں شہبازشریف کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا آپشن بھی نہیں تھا کہ وہ سابقہ وزیر خزانہ اسحق ڈار کو یہ سب سے مشکل وزارت کا قلمدان سپرد کر دیں۔
شروع شروع میں سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کو یہ غلط فہمی رہی کہ وہ IMF کے حکام کو پہلے کی طرح آسانی سے رام کر لیں گے ۔مگر جیسے جیسے حالات آگے بڑھتے رہے انھیں اپنی مشکلوں کا احساس ہونے لگا۔ملک ڈیفالٹ کے خطرے کی جانب تیزی سے بڑھتا رہا اور اسحق ڈار IMF کے سخت رویوں سے مایوس ہوتے رہے۔بالآخر انتہائی سخت شرائط پرایک معاہدہ سائن ہوہی گیا اوریہ ملک اعلانیہ ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا۔
9فروری کی صبح کیسی ہوگی یہ ابھی کسی کو بھی پتا نہیںہے ۔ جولوگ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک یہ کہتے پھر رہے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ نے مسلم لیگ نون کو حکومت دینے کا فیصلہ کرلیا ہے وہ اب یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ مجوزہ الیکشنوں کے نتیجے میں ایک ہنگ پارلیمنٹ معرض وجود میں آتی دکھائی دے رہی ہے۔کسی کو بھی سو فیصد یقین نہیں ہے کہ حکمرانی کا تاج کس کے سرسجے گا۔سب اپنی اپنی قیاس آرائیاں کررہے ہیں۔
مسلم لیگ نون توقع لگارہی ہے کہ وہ سادہ اکثریت باآسانی حاصل کرلے گی جب کہ PTI والے بھی یہ اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ عوام کی اکثریت انھیںووٹ دے گی۔ دوسری جانب جناب بلاول بھٹو بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ PTI کے منتخب ارکان اس کی جھولی میں آگریں گے۔ 9فروری کی صبح سے آزاد ارکان اسمبلی کی ایک بڑی منڈی سجے گی ۔
پیسہ اس منڈی میں خرچ ہوگااورارکان اسمبلی کی بڑی بڑی بولیاں لگیں گی۔ بلاول صاحب بھی اس بات کا برملا اظہار اپنی تقریروں میں کرچکے ہیں کہ الیکشن کے بعد آزاد ارکان پاکستان پیپلزپارٹی کا حصہ بن جائیں گے۔
اسی اندیشے اورخوف کو مدنظر رکھتے ہوئے PTI نے اپنی ٹکٹ ہولڈروں سے قرآن پرحلف بھی لے لیا ہے کہ وہ جیتنے کے بعد کسی اورسیاسی پارٹی میں نہیں جائیں گے۔ مگر اس کی کیا ضمانت ہے کہ کوئی اس حلف کی پاسداری بھی کرپائے گا۔قرآن پرحلف اورقسمیں کھانے والوں کو تو ہم نے پہلے بھی اس سے مکرتے اورمنحرف ہوتے دیکھا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے گرچہ الیکشن مہم دیگر تمام سیاسی پارٹیوں کے مقابلے میں بہت پہلے شروع کی اوراچھی طرح چلائی بھی ہے۔ مگر دیکھتے ہیں کہ کیا وہ پنجاب میں سوئپ کرپائے گی۔
پنجاب میں اصل مقابلہ کارکردگی دکھانے والی مسلم لیگ نون اورمظلومیت اورہمدردی کافیکٹر حاصل کرنے والی پارٹی PTI کے درمیان ہی ہے۔پیپلزپارٹی کے پلڑے میں کارکردگی سے متعلق عوام کو راغب کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے،وہ الیکشن کے بعد آزاد ارکان پراپنی ساری توجہ مرکوز کرے گی اوراُسے معلوم ہے کہ PTI کے ارکان مسلم لیگ نون سے کسی طور سمجھوتہ نہیں کرپائیںگے۔
لہٰذا اس کے لیے ایک اچھا موقعہ ہوگا کہ انھیں ساتھ ملا کے کسی طرح وفاق میں حکومت بنالے۔باقی تمام چھوٹی چھوٹی سیاسی پارٹیوں کو بھی راضی اوررضامند کرلینا اس کے لیے کوئی اتنا مشکل کام نہیںہوگا۔ ویسے بھی اسے معلوم ہے کہ اگر وفاق میں حکومت نہ ملی تو کیا ہوا ، صوبہ سندھ میں تو وہ موجود ہی رہے گی۔ اس پارٹی کی اٹھارویں ترمیم سے مستفید ایک صوبے کی حکومت ہی کافی ہے۔
مسلم لیگ نون کی قیادت الیکشن جیت جانے تک تو کوششیں کرتی رہے گی لیکن اگر اُسے سادہ اکثریت نہ ملی تو وہ بخوشی خاموش ہوکر بیٹھ جائے گی۔ اُسے پتا ہے کہ موجودہ حالات میں حکومت چلانا اپنے آپ کو مشکلوں میں جھونکناہے۔
ایک طرف ملک کواس مالی گرداب سے باہرنکالنا ہوگا تو دوسری طرف حکومت میں شامل دیگر سیاسی لوگوں کی بلیک میلنگ سے بھی نبردآزما ہونا ہوگا۔جس طرح سولہ ماہ کی عارضی حکومت میں ہوتارہااورجس کا نتیجہ گناہ بے لذت کے انجام سے دوچار ہونے کی صورت میں نکلا۔
ریاست بچانے کے شوق میں اپنی 30سالہ سیاسی مقبولیت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔وہ اب چاہے کتنی ہی صفائیاں پیش کرتی رہے لیکن مہنگائی کی وجہ سے وہ اپنے اس دور کی تنقید سے خود کو مبرا قرار نہیں دے سکتی ہے۔اُسے آج عوام کے پاس جانے میں جن مشکلوں کاسامنا ہے وہ اسی دور کا شاخسانہ ہے۔
مسلم لیگی قیادت کو اندازہ ہے کہ ملک کے اقتصادی حالات انھیں قوم کو مہنگائی سے نجات دلانے کی اجازت ہرگز نہیںدیں گے،وہ اگلے پانچ سال بھی کوششیں کرتے رہیں لیکن 2017 کا دور واپس نہیں لاپائیں گے۔
جیسے جیسے پولنگ کی تاریخ قریب آتی جارہی ہے وہ اب نتائج کے بارے میں بدگمانیاں پھیلاتے دکھائی دے رہے ہیں۔وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اِن نتائج کو کوئی بھی تسلیم نہیں کریگا اورملک ایک بار پھر افراتفری کا شکار ہوجائے گا۔
9فروری سے عوام سڑکوں پر ہونگے اورساری سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے سے باہم متصادم ہوں گی۔وہ یہ کہتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ اس ملک کی معاشی واقتصادی حالت اس قابل نہیں ہے کہ وہ مزید کسی غیر یقینی صورتحال کی متحمل ہوسکے۔
اگر ایساہوا تو یہ اس ملک اورقوم کے لیے انتہائی خطرناک ہوگا۔دوسری طرف ہمیں یہ سوچنا بھی ہوگا کہ الیکشن کے نتیجے میں جس پارٹی کو بھی وفاق میں حکومت ملے گی کیا وہ اس کے لیے کسی نعمت سے بڑھ کرہوگی یا وہ اس کے لیے ایک سخت مصیبت یا امتحان بن جائے گی۔
ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ معاشی حالات اس قدر دگرگوں ہیں کہ کوئی بھی با آسانی حکومت نہیں کرپائے گا۔وہ ملک کو قرضوں سے باہر نکالے یا عوام کو راحت فراہم کرنے کا سامان کرے۔دوتین سال تک وہ اسی مشکل میں اپنی توانائیاں خرچ کررہا ہوگا۔
اس کے پاس اگر بہت ہی اچھی کوئی معاشی ماہرین کی ٹیم ہوگی تو وہ شاید کچھ کرپائے ورنہ جوحال میاں شہباز شریف یا پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت کا ہوا اس کا بھی انجام کچھ ایسا ہی ہوگا۔
موجودہ نگراں حکومت چونکہ کسی ایک سیاسی پارٹی کی نہیں تھی اور اُسے IMF کے ساتھ وہ گفت وشنید بھی نہیں کرنا پڑیں جو سابقہ شہباز شریف کے دو وزراء خزانہ کو کرنا پڑیں تھیں اور جنھیں IMF کے انتہائی سخت رویوں کا سامنا بھی رہا ۔ اورسب سے بڑھ کر یہ کہ اُسے ہمارے اداروں کی بھی مکمل سپورٹ حاصل رہی ۔
یہی وجہ ہے کہ اس نگراں حکومت نے بڑے اطمینان اورسکون سے اپنا وقت گذار لیا۔میاں شہباز شریف کے پہلے وزیر خزانہ مفتاح اسمعیل نے بے شک ایک مشکل دور میں اپنی ذہانت اورقابلیت کے مطابق کوششیں کیں لیکن وہ بڑھتی مہنگائی کو قابو نہیں کرسکے،وہ چونکہ ایک منتخب رکن پارلیمنٹ بھی نہ تھے لہٰذا وہ چھ ماہ سے زائد اس عہدے پر براجمان بھی نہیں رہ سکتے تھے ۔
اُن کی جگہ کسی اورنے سنبھالنی ہی تھی ۔میاں شہبازشریف کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا آپشن بھی نہیں تھا کہ وہ سابقہ وزیر خزانہ اسحق ڈار کو یہ سب سے مشکل وزارت کا قلمدان سپرد کر دیں۔
شروع شروع میں سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کو یہ غلط فہمی رہی کہ وہ IMF کے حکام کو پہلے کی طرح آسانی سے رام کر لیں گے ۔مگر جیسے جیسے حالات آگے بڑھتے رہے انھیں اپنی مشکلوں کا احساس ہونے لگا۔ملک ڈیفالٹ کے خطرے کی جانب تیزی سے بڑھتا رہا اور اسحق ڈار IMF کے سخت رویوں سے مایوس ہوتے رہے۔بالآخر انتہائی سخت شرائط پرایک معاہدہ سائن ہوہی گیا اوریہ ملک اعلانیہ ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا۔
9فروری کی صبح کیسی ہوگی یہ ابھی کسی کو بھی پتا نہیںہے ۔ جولوگ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک یہ کہتے پھر رہے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ نے مسلم لیگ نون کو حکومت دینے کا فیصلہ کرلیا ہے وہ اب یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ مجوزہ الیکشنوں کے نتیجے میں ایک ہنگ پارلیمنٹ معرض وجود میں آتی دکھائی دے رہی ہے۔کسی کو بھی سو فیصد یقین نہیں ہے کہ حکمرانی کا تاج کس کے سرسجے گا۔سب اپنی اپنی قیاس آرائیاں کررہے ہیں۔
مسلم لیگ نون توقع لگارہی ہے کہ وہ سادہ اکثریت باآسانی حاصل کرلے گی جب کہ PTI والے بھی یہ اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ عوام کی اکثریت انھیںووٹ دے گی۔ دوسری جانب جناب بلاول بھٹو بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ PTI کے منتخب ارکان اس کی جھولی میں آگریں گے۔ 9فروری کی صبح سے آزاد ارکان اسمبلی کی ایک بڑی منڈی سجے گی ۔
پیسہ اس منڈی میں خرچ ہوگااورارکان اسمبلی کی بڑی بڑی بولیاں لگیں گی۔ بلاول صاحب بھی اس بات کا برملا اظہار اپنی تقریروں میں کرچکے ہیں کہ الیکشن کے بعد آزاد ارکان پاکستان پیپلزپارٹی کا حصہ بن جائیں گے۔
اسی اندیشے اورخوف کو مدنظر رکھتے ہوئے PTI نے اپنی ٹکٹ ہولڈروں سے قرآن پرحلف بھی لے لیا ہے کہ وہ جیتنے کے بعد کسی اورسیاسی پارٹی میں نہیں جائیں گے۔ مگر اس کی کیا ضمانت ہے کہ کوئی اس حلف کی پاسداری بھی کرپائے گا۔قرآن پرحلف اورقسمیں کھانے والوں کو تو ہم نے پہلے بھی اس سے مکرتے اورمنحرف ہوتے دیکھا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی نے گرچہ الیکشن مہم دیگر تمام سیاسی پارٹیوں کے مقابلے میں بہت پہلے شروع کی اوراچھی طرح چلائی بھی ہے۔ مگر دیکھتے ہیں کہ کیا وہ پنجاب میں سوئپ کرپائے گی۔
پنجاب میں اصل مقابلہ کارکردگی دکھانے والی مسلم لیگ نون اورمظلومیت اورہمدردی کافیکٹر حاصل کرنے والی پارٹی PTI کے درمیان ہی ہے۔پیپلزپارٹی کے پلڑے میں کارکردگی سے متعلق عوام کو راغب کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے،وہ الیکشن کے بعد آزاد ارکان پراپنی ساری توجہ مرکوز کرے گی اوراُسے معلوم ہے کہ PTI کے ارکان مسلم لیگ نون سے کسی طور سمجھوتہ نہیں کرپائیںگے۔
لہٰذا اس کے لیے ایک اچھا موقعہ ہوگا کہ انھیں ساتھ ملا کے کسی طرح وفاق میں حکومت بنالے۔باقی تمام چھوٹی چھوٹی سیاسی پارٹیوں کو بھی راضی اوررضامند کرلینا اس کے لیے کوئی اتنا مشکل کام نہیںہوگا۔ ویسے بھی اسے معلوم ہے کہ اگر وفاق میں حکومت نہ ملی تو کیا ہوا ، صوبہ سندھ میں تو وہ موجود ہی رہے گی۔ اس پارٹی کی اٹھارویں ترمیم سے مستفید ایک صوبے کی حکومت ہی کافی ہے۔
مسلم لیگ نون کی قیادت الیکشن جیت جانے تک تو کوششیں کرتی رہے گی لیکن اگر اُسے سادہ اکثریت نہ ملی تو وہ بخوشی خاموش ہوکر بیٹھ جائے گی۔ اُسے پتا ہے کہ موجودہ حالات میں حکومت چلانا اپنے آپ کو مشکلوں میں جھونکناہے۔
ایک طرف ملک کواس مالی گرداب سے باہرنکالنا ہوگا تو دوسری طرف حکومت میں شامل دیگر سیاسی لوگوں کی بلیک میلنگ سے بھی نبردآزما ہونا ہوگا۔جس طرح سولہ ماہ کی عارضی حکومت میں ہوتارہااورجس کا نتیجہ گناہ بے لذت کے انجام سے دوچار ہونے کی صورت میں نکلا۔
ریاست بچانے کے شوق میں اپنی 30سالہ سیاسی مقبولیت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔وہ اب چاہے کتنی ہی صفائیاں پیش کرتی رہے لیکن مہنگائی کی وجہ سے وہ اپنے اس دور کی تنقید سے خود کو مبرا قرار نہیں دے سکتی ہے۔اُسے آج عوام کے پاس جانے میں جن مشکلوں کاسامنا ہے وہ اسی دور کا شاخسانہ ہے۔
مسلم لیگی قیادت کو اندازہ ہے کہ ملک کے اقتصادی حالات انھیں قوم کو مہنگائی سے نجات دلانے کی اجازت ہرگز نہیںدیں گے،وہ اگلے پانچ سال بھی کوششیں کرتے رہیں لیکن 2017 کا دور واپس نہیں لاپائیں گے۔