کیا پہلے سے سیاسی حالات میسر نہیں

اپنے ناراض رہنماؤں کو منانا تو میاں نواز شریف کی عادت نہیں وہ اس جانب توجہ نہیں دیتے

m_saeedarain@hotmail.com

پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصرکہتے تھے کہ نواز شریف اپنے جلسوں سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں' وہ انتخابی مہم شروع نہیں کر رہے اور دو تہائی اکثریت عوام سے نہیں ایک ادارے سے مانگ رہے ہیں۔ بلاول بھٹو بھی نواز شریف کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ چوتھی بار پنجاب کے عوام نواز شریف کو کرسی پر نہیں بٹھانا چاہتے۔ اب پنجاب (ن) لیگ کا نہیں رہا ہے۔

پی ٹی آئی کے اسیر بانی نے بھی مطالبہ کیا تھا کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔اصل بات یہ ہے کہ نواز شریف نے حافظ آباد جلسے میں مختصر خطاب کرکے لیہ کا جلسہ منسوخ کرکے یہ موقع دیا ہے کہ وہ انتخابی جلسوں میں نہیں آ رہے۔ وہ پہلے مری اور لاہور میں اجلاس منعقد کرتے رہے اور انھوں نے حافظ آباد میں پہلا مختصر خطاب کرکے اپنی بیٹی کو خطاب کرنے کو کہا اور مریم نے طویل خطاب کیا۔

اب میاں نواز شریف اور مریم نواز جلسے تو کر رہے ہیں اور اپنی انتخابی مہم کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ ٹکٹ نہ ملنے پر (ن) لیگ کے کچھ عہدیدار الگ بھی ہوئے ہیں۔

(ن) لیگ کے جو رہنما پارٹی پالیسی سے مطمئن نہیں وہ ناراض ہیں الیکشن نہیں لڑ رہے اور سردار مہتاب خان اور دیگر نے پی ٹی آئی کی حمایت شروع کردی ہے۔ لیکن اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ سیاست میں ایسا ہوتا آیا ہے اور یہ کوئی پہلی بار نہیں ہو رہا ، ہر مرتبہ ٹکٹ نہ ملنے پر کچھ لوگ ناراض ہو جاتے اور مخالف سیاسی گروپ کی جانب رجوع کرتے ہیں۔

شاہد خاقان عباسی کے تیور تو پہلے ہی بدلے ہوئے تھے جن کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بل بوتے پر سو نہیں صرف تیس نشستیں ہی لے لیں۔ (ن) لیگی سینیٹر مشاہد حسین سید نے تو نواز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ وہ وزیر اعظم کے بجائے صدر مملکت بننے کی کوشش کریں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا بھی کہنا ہے کہ نواز شریف نے تین بار اقتدار میں رہ کر عوام کے لیے کچھ کیا تھا نہ اب کریں گے۔

مولانا فضل الرحمن یہ مانتے ہیں کہ ماضی میں نواز شریف اور ان کے خاندان کے ساتھ ظلم کیے گئے تھے۔ سابق اتحادی وزیر اعظم شہباز شریف ٹی وی انٹرویو اور اجلاسوں میں یہ دلاسے دے رہے ہیں کہ صرف نواز شریف ہی اقتدار میں آ کر عوام کو مہنگائی سے نجات دلا سکتے ہیں۔ نواز شریف لاڈلہ نہیں کوئی اور رہا ہم اسٹیبلشمنٹ کا کندھا استعمال نہیں کر رہے ۔ کچھ سیاسی لوگ تجزیہ کرتے ہیں کہ نواز شریف نے ملک سے باہر رہ کر اپنی مقبولیت کو نقصان پہنچایا اور وہ نہ خود پر کرپشن کے مبینہ الزامات کی عوام کو صفائی پیش کر سکے ہیں۔


بعض حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماضی میں ان کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئیں ان کی تلافی کی کوشش کی جا رہی ہے اور اسی لیے ان پر خصوصی توجہ ہے۔ (ن) لیگیوں کا کہنا ہے کہ نواز شریف ہی عوام کے لیے کچھ کر سکتے ہیں اور مہنگائی سے نجات دلانے اور اہم مسائل کے حل کا ادراک رکھتے ہیں اور ملک کو نواز شریف کی ضرورت ہے۔

نوازشریف کی سابق کارکردگی اس بات کی گواہ ہے کہ انھوں نے ملکی ترقی کے لیے بڑے بڑے منصوبے شروع کیے اور اب بھی وہ ہی واحد سیاسی شخصیت ہیں جو بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،مخالفین کا کام ہی مخالفت کرنا اور دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرنا ہے۔مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کو عوام آزما چکے ہیں اور اپنے مستقبل کا 8 فروری کو خود فیصلہ کریں گے۔

پیپلز پارٹی نے اپنی انتخابی مہم سب سے پہلے شروع کی تھی اور پی ٹی آئی کے رہنما بھی اپنے طور پر جلسے اور کارنر میٹنگ کر رہے ہیں اور اس کی اصل انتخابی مہم سوشل میڈیا پر اپنے مخالفین کے خلاف بھرپور طور پر جاری ہے مذموم بھی ہے اور بانی پی ٹی آئی نے جیل میں میڈیا سے جو باتیں کی ہیں اس سے لگتا ہے کہ ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی البتہ وہ اور ان کی پارٹی ملک میں خود کو مظلوم ثابت کرنے میں کامیاب رہی ہے جس کی ذمے دار نگراں حکومت ہے۔

نگراں حکومت اور مسلم لیگ (ن) سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے مذموم پروپیگنڈے کا توڑ نہیں کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اب ان کا نشانہ نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی مخالفانہ مہم کو مسلم لیگی قائدین easy لے رہے ہیں، جس کا انھیں سیاسی نقصان پہنچ رہا ہے۔ 2018 میں نواز شریف جیل میں اور (ن) لیگ مظلوم تھی اب ایسا نہیں ہے بلکہ (ن) لیگ کے لیے عوامی سطح پر پہلے جیسے حالات میسر نہیں ہیں۔

پی ٹی آئی کو مظلوم بنوایا گیا ہے۔ (ن) لیگ کو عوام سے رابطوں میں کسی رکاوٹ کا بھی سامنا نہیں اور لگتا ہے کہ (ن) لیگ انتخابی جلسوں کے لیے تیار نہیں ،نہ وہ اپنے رہنماؤں کو ٹکٹوں کی تقسیم پر مطمئن کر سکی ہے۔

اپنے ناراض رہنماؤں کو منانا تو میاں نواز شریف کی عادت نہیں وہ اس جانب توجہ نہیں دیتے۔ اب پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو سیاسی طور پر مشکل حالات کا سامنا ہے اور اب شہریوں کی ایک تعداد میں (ن) لیگ سے پہلے جیسی ہمدردی نہیں اور وہ کہتے ہیں کہ میاں شہباز کی اتحادی حکومت نے مہنگائی کا ریکارڈ قائم کرا کے مسلم لیگ (ن) کو سب سے بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف جلسوں میں جانے سے گریزاں ہیں۔
Load Next Story