خدا حافظ …
تحریک انصاف کی حکومت کی ناقص پالیسیوں کی بناء پر ملک میں مالیاتی خسارہ بڑھنا شروع ہوا تھا
سب کو میرے اور میرے بچوں کی طرف سے خدا حافظ۔ احسن رضا نے پہلے اپنی اہلیہ اور تین بچوں کے سونے کا انتظارکیا۔ پھر اپنی اہلیہ ندا رضوی ، دو بیٹوں جرنیل اور میکائل اور بیٹی کو سروں میں گولیاں ماریں اور خود پھندا لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔
احسن رضا نے اپنی خودکشی سے پہلے ایک خط تحریرکیا جس میں احسن رضا نے لکھا '' میں سید احسن رضا رضوی خودکشی کر رہا ہوں۔ میں اپنی بیوی اور بچوں کو قتل کر رہا ہوں۔
میرے لیپ ٹاپ میں ایک فائل پڑی ہے جس کو پڑھ لیا جائے۔'' احسن رضا نے اس خط میں رشتے داروں کو خدا حافظ بھی کیا۔ احسن رضا نے اس خط میں یہ بھی لکھا کہ پستول اس نے ایک دکان سے چوری کیا تھا۔ احسن رضا نے خط میں ان لوگوں کے نام بھی لکھے ہیں جن سے اس نے قرض لیا اور ادا نہ کرسکا۔
کراچی ایئرپورٹ کے قریب فلک ناز اپارٹمنٹ میں احسن رضا ایک فلیٹ کا مکین تھا، وہ ایک گارمنٹس فیکٹری میں کام کرتا تھا مگرکئی ماہ سے بے روزگار تھا، وہ یقیناً قرض خواہوں کے تقاضوں سے پریشان تھا۔ احسن رضا کو ایک طرف اپنی اہلیہ اور بچوں کے گزارے کی فکر تھی تو دوسری طرف وہ قرض خواہوں کا سامنا نہیں کرسکتا تھا۔
کراچی میں 28 سالہ زوہیر حسن نے چند سال قبل شہرکے مشہور لکی ون شاپنگ مال کی تیسری منزل سے چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی تھی۔ زوہیر نے فرسٹ ڈویژن میں انٹر کی ڈگری حاصل کی تھی مگر ملازمت کی تلاش میں مسلسل ناکامی کے بعد اس کے پاس خودکشی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا۔ زوہیر کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ اپنے چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔
اس کے گھر کا خرچ والدہ کی پنشن سے چلتا تھا جو ایک ریٹائرڈ ٹیچر تھیں۔ بے روزگاری اور غربت کی بناء پر کسی فرد کی خودکشی پھر اپنے خاندان کو قتل کر کے خودکشی کی خبریں ملک کے تمام شہریوں اور دیہی علاقوں سے ذرایع ابلاغ میں شایع و نشر ہونا اب معمول بن گیا ہے۔
صحت کے عالمی ادارہ ڈبلیو ایچ او (W.H.O) کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں خودکشی کی شرح 8 فیصد سے تجاوزکرگئی ہے اور 200 میں سے خودکشی کی ایک کوشش کامیاب ہوتی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے انگریزی اخبار کے سروے کے مطابق روزانہ15سے 20افراد خودکشی کرتے ہیں۔ خودکشی کی کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔
رپورٹر نے احسن رضا کے خاندان سے قتل اور خودکشی کے واقعے کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک شہری کی جانب سے بیوی اور تین بچوں کے قتل اور خودکشی کرنے کے دل سوز واقعے پر ہر سوچنے والا شخص پریشان ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی بھی شخص کو اس ملک میں اپنا مستقبل محفوظ نظر نہیں آرہا۔
ملک کے ایک معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر اقبال آفریدی نے اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ملک کے خراب حالات کی وجہ سے عوام پریشان ہیں۔ معاشی حالات کی بناء پرکسی کو بھی اپنا مستقبل محفوظ نظر نہیں آرہا۔ عوام میں فرسٹریشن بڑھتی جا رہی ہے اور عام آدمی کے پاس اپنی دماغی الجھنوں کو بیان کرنے کے مواقعے کم ہوگئے ہیں۔
ڈاکٹر اقبال آفریدی اس فرسٹریشن کی ایک وجہ خاندان سے دوری قرار دیتے ہیں۔ ایک اور ماہر نفسیات ڈاکٹر اکبر درس خودکشی کی وجوہات کو بیان کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ خودکشی کی بیک وقت کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں اداسی، مایوسی کی بیماری ، ڈپریشن اور مینٹل ڈس آرڈر وغیرہ شامل ہیں۔ سابق وفاقی وزیر اور معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر حفیظ پاشا خودکشی کی وجوہات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ لوگوں کو ناامیدی کی کیفیت سے نکالنے کے لیے فوری معاشی اصلاحات لانا ہوں گی ۔
انھوں نے اپنے نقطہ نظرکی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کی صحت، تعلیم، روزگاری اور دیگر انسانی وسائل فراہم کرنے ہوںگے۔سینئر صحافی حسن جاوید خودکشی کے موضوع پر لکھتے ہیں کہ خودکشی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انسان غربت کے ساتھ ذلت سے خوفزدہ ہو جاتا ہے اور وہ حالات کے ہاتھوں اتنا بے حس ہوجاتا ہے کہ اس کو خودکشی کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔
حسن جاوید یہ بھی کہتے ہیں کہ معاشی ڈپریشن جب انتہا کو پہنچتا ہے تو آدمی گھر جانے سے گھبراتا ہے۔ اس کے پاس بیوی اور بچوں کے پیٹ کی بھوک اور اپنے پیاروں کی آنکھوں کی مدھم پڑتی چمک کا کوئی جواز نہیں ہوتا تو وہ شخص اس صورت میں پہلے اپنے بچوں اور اہلیہ وغیرہ کو قتل کرتا ہے اور پھر خودکشی کرلیتا ہے۔ پاکستان اس وقت شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ تین سال قبل شروع ہونے والا معاشی بحران کا خاتمہ ہی نظر نہیں آرہا ہے۔
سندھ میں ضلع تھر اورگلگت کے علاقے میں خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ ان علاقوں میں خودکشی کی بڑھتی ہوئی شرح کی دو وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ ان میں ڈپریشن، ذہنی امراض اور معاشی بدحالی شامل ہیں۔ گزشتہ 3 برسوں سے ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کی ناقص پالیسیوں کی بناء پر ملک میں مالیاتی خسارہ بڑھنا شروع ہوا تھا۔ پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت میں شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہوئی تو ملک ڈیفالٹ کے قریب پہنچ گیا تھا۔ میاں شہباز شریف کی حکومت نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی تمام شرائط کو مان لیا جس کی بناء پر تیل کی مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں چار سو سے پانچ سو گنا اضافہ ہوا۔
اس کے ساتھ بجلی،گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا اور اس کی لاگت کئی گنا بڑ ھ گئی جس سے برآمد کی جانے والی اشیاء پر آنے والی لاگت میں سو گنا اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں پاکستان کی برآمدات کو شدید جھٹکا لگا۔ اس کے ساتھ بجلی اورگیس کی لوڈ شیڈنگ کے اوقات 18سے 20 گھنٹے تک پہنچ گئے۔ گزشتہ سال آنے والے سیلاب نے ملک کے ایک تہائی حصہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
اس صورتحال میں سیکڑوں کارخانے بند ہوگئے اور لاکھوں مزدوروں کو بے روزگارکردیا گیا۔ پاکستانی روپے کی قدر افغانستان کے سکہ سے بھی کم ہوگئی اور ملک میں بے روزگاری کی شرح 8 فیصد سے بڑھ گئی اور ماہرین معاشیات نے یہ پیشگوئی کی کہ 2024میں بے روزگاری کی تعداد 14.93 ملین تک پہنچ جائے گی اور بے روزگار افراد کی شرح 52 فیصد تک رہے گی۔
اسی طرح گزشتہ سال 9 لاکھ افراد روزگاری کے حصول کے لیے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے مگر ایک طرف تو معاشی بحران تو دوسری طرف ریاستی اداروں کی ری اسٹریکچرنگ کے لیے کچھ نا ہوا۔
ملک میں دہشت گردی بڑھتی گئی۔ حکومت اور پڑوسی ممالک سے تعلقات سرد رہے اور ملک کی تمام سرحدیں غیر محفوظ ہوگئیں، یوں ریاستی ادارے بے حسی کی حد تک عام آدمی کے معاشی مسائل کے حل کے لیے کچھ نا کر پائے جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ عام آدمی کے پاس خودکشی کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں بچا۔
سینئر صحافی حسن جاوید نے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ اگلے 9 ماہ میں خودکشی کی مزید وارداتیں ہوںگی مگر تشویش ناک صورتحال یہ ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتیں خودکشی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے اسباب کے خاتمے کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنے کو تیار نہیں ہیں، جب تک ریاستی ڈھانچے کی تنظیمِ نو نہیں ہوگی معاشی بحران ختم نہیں ہوگا اور لوگ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہونگے۔
احسن رضا نے اپنی خودکشی سے پہلے ایک خط تحریرکیا جس میں احسن رضا نے لکھا '' میں سید احسن رضا رضوی خودکشی کر رہا ہوں۔ میں اپنی بیوی اور بچوں کو قتل کر رہا ہوں۔
میرے لیپ ٹاپ میں ایک فائل پڑی ہے جس کو پڑھ لیا جائے۔'' احسن رضا نے اس خط میں رشتے داروں کو خدا حافظ بھی کیا۔ احسن رضا نے اس خط میں یہ بھی لکھا کہ پستول اس نے ایک دکان سے چوری کیا تھا۔ احسن رضا نے خط میں ان لوگوں کے نام بھی لکھے ہیں جن سے اس نے قرض لیا اور ادا نہ کرسکا۔
کراچی ایئرپورٹ کے قریب فلک ناز اپارٹمنٹ میں احسن رضا ایک فلیٹ کا مکین تھا، وہ ایک گارمنٹس فیکٹری میں کام کرتا تھا مگرکئی ماہ سے بے روزگار تھا، وہ یقیناً قرض خواہوں کے تقاضوں سے پریشان تھا۔ احسن رضا کو ایک طرف اپنی اہلیہ اور بچوں کے گزارے کی فکر تھی تو دوسری طرف وہ قرض خواہوں کا سامنا نہیں کرسکتا تھا۔
کراچی میں 28 سالہ زوہیر حسن نے چند سال قبل شہرکے مشہور لکی ون شاپنگ مال کی تیسری منزل سے چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی تھی۔ زوہیر نے فرسٹ ڈویژن میں انٹر کی ڈگری حاصل کی تھی مگر ملازمت کی تلاش میں مسلسل ناکامی کے بعد اس کے پاس خودکشی کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا۔ زوہیر کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ اپنے چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔
اس کے گھر کا خرچ والدہ کی پنشن سے چلتا تھا جو ایک ریٹائرڈ ٹیچر تھیں۔ بے روزگاری اور غربت کی بناء پر کسی فرد کی خودکشی پھر اپنے خاندان کو قتل کر کے خودکشی کی خبریں ملک کے تمام شہریوں اور دیہی علاقوں سے ذرایع ابلاغ میں شایع و نشر ہونا اب معمول بن گیا ہے۔
صحت کے عالمی ادارہ ڈبلیو ایچ او (W.H.O) کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں خودکشی کی شرح 8 فیصد سے تجاوزکرگئی ہے اور 200 میں سے خودکشی کی ایک کوشش کامیاب ہوتی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے انگریزی اخبار کے سروے کے مطابق روزانہ15سے 20افراد خودکشی کرتے ہیں۔ خودکشی کی کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔
رپورٹر نے احسن رضا کے خاندان سے قتل اور خودکشی کے واقعے کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک شہری کی جانب سے بیوی اور تین بچوں کے قتل اور خودکشی کرنے کے دل سوز واقعے پر ہر سوچنے والا شخص پریشان ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی بھی شخص کو اس ملک میں اپنا مستقبل محفوظ نظر نہیں آرہا۔
ملک کے ایک معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر اقبال آفریدی نے اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ملک کے خراب حالات کی وجہ سے عوام پریشان ہیں۔ معاشی حالات کی بناء پرکسی کو بھی اپنا مستقبل محفوظ نظر نہیں آرہا۔ عوام میں فرسٹریشن بڑھتی جا رہی ہے اور عام آدمی کے پاس اپنی دماغی الجھنوں کو بیان کرنے کے مواقعے کم ہوگئے ہیں۔
ڈاکٹر اقبال آفریدی اس فرسٹریشن کی ایک وجہ خاندان سے دوری قرار دیتے ہیں۔ ایک اور ماہر نفسیات ڈاکٹر اکبر درس خودکشی کی وجوہات کو بیان کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ خودکشی کی بیک وقت کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں اداسی، مایوسی کی بیماری ، ڈپریشن اور مینٹل ڈس آرڈر وغیرہ شامل ہیں۔ سابق وفاقی وزیر اور معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر حفیظ پاشا خودکشی کی وجوہات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ لوگوں کو ناامیدی کی کیفیت سے نکالنے کے لیے فوری معاشی اصلاحات لانا ہوں گی ۔
انھوں نے اپنے نقطہ نظرکی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کی صحت، تعلیم، روزگاری اور دیگر انسانی وسائل فراہم کرنے ہوںگے۔سینئر صحافی حسن جاوید خودکشی کے موضوع پر لکھتے ہیں کہ خودکشی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انسان غربت کے ساتھ ذلت سے خوفزدہ ہو جاتا ہے اور وہ حالات کے ہاتھوں اتنا بے حس ہوجاتا ہے کہ اس کو خودکشی کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔
حسن جاوید یہ بھی کہتے ہیں کہ معاشی ڈپریشن جب انتہا کو پہنچتا ہے تو آدمی گھر جانے سے گھبراتا ہے۔ اس کے پاس بیوی اور بچوں کے پیٹ کی بھوک اور اپنے پیاروں کی آنکھوں کی مدھم پڑتی چمک کا کوئی جواز نہیں ہوتا تو وہ شخص اس صورت میں پہلے اپنے بچوں اور اہلیہ وغیرہ کو قتل کرتا ہے اور پھر خودکشی کرلیتا ہے۔ پاکستان اس وقت شدید معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ تین سال قبل شروع ہونے والا معاشی بحران کا خاتمہ ہی نظر نہیں آرہا ہے۔
سندھ میں ضلع تھر اورگلگت کے علاقے میں خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ ان علاقوں میں خودکشی کی بڑھتی ہوئی شرح کی دو وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ ان میں ڈپریشن، ذہنی امراض اور معاشی بدحالی شامل ہیں۔ گزشتہ 3 برسوں سے ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کی ناقص پالیسیوں کی بناء پر ملک میں مالیاتی خسارہ بڑھنا شروع ہوا تھا۔ پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت میں شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہوئی تو ملک ڈیفالٹ کے قریب پہنچ گیا تھا۔ میاں شہباز شریف کی حکومت نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی تمام شرائط کو مان لیا جس کی بناء پر تیل کی مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں چار سو سے پانچ سو گنا اضافہ ہوا۔
اس کے ساتھ بجلی،گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا اور اس کی لاگت کئی گنا بڑ ھ گئی جس سے برآمد کی جانے والی اشیاء پر آنے والی لاگت میں سو گنا اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں پاکستان کی برآمدات کو شدید جھٹکا لگا۔ اس کے ساتھ بجلی اورگیس کی لوڈ شیڈنگ کے اوقات 18سے 20 گھنٹے تک پہنچ گئے۔ گزشتہ سال آنے والے سیلاب نے ملک کے ایک تہائی حصہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
اس صورتحال میں سیکڑوں کارخانے بند ہوگئے اور لاکھوں مزدوروں کو بے روزگارکردیا گیا۔ پاکستانی روپے کی قدر افغانستان کے سکہ سے بھی کم ہوگئی اور ملک میں بے روزگاری کی شرح 8 فیصد سے بڑھ گئی اور ماہرین معاشیات نے یہ پیشگوئی کی کہ 2024میں بے روزگاری کی تعداد 14.93 ملین تک پہنچ جائے گی اور بے روزگار افراد کی شرح 52 فیصد تک رہے گی۔
اسی طرح گزشتہ سال 9 لاکھ افراد روزگاری کے حصول کے لیے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے مگر ایک طرف تو معاشی بحران تو دوسری طرف ریاستی اداروں کی ری اسٹریکچرنگ کے لیے کچھ نا ہوا۔
ملک میں دہشت گردی بڑھتی گئی۔ حکومت اور پڑوسی ممالک سے تعلقات سرد رہے اور ملک کی تمام سرحدیں غیر محفوظ ہوگئیں، یوں ریاستی ادارے بے حسی کی حد تک عام آدمی کے معاشی مسائل کے حل کے لیے کچھ نا کر پائے جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ عام آدمی کے پاس خودکشی کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں بچا۔
سینئر صحافی حسن جاوید نے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ اگلے 9 ماہ میں خودکشی کی مزید وارداتیں ہوںگی مگر تشویش ناک صورتحال یہ ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتیں خودکشی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے اسباب کے خاتمے کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنے کو تیار نہیں ہیں، جب تک ریاستی ڈھانچے کی تنظیمِ نو نہیں ہوگی معاشی بحران ختم نہیں ہوگا اور لوگ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہونگے۔