سب کچھ شفاف ہی شفاف
کبھی کبھی جب تھوکنے کی ضرورت ہوتی ہے تو اخبارات میں ’’بیان‘‘کی صورت یہ کام کرتے ہیں
ہر طرف عام انتخابات کے چرچے ہیں، خرچے ہیں، پرچے ہیں اور بیچ بیچ میں کچھ نہیں بلکہ بہت سارے''شرچے''بھی ہیں، ہم خود اب اس حالت میں ہیں کہ
پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
اتنے اور ایسے ایسے انتخابات اب تک بھوگے ہیں کہ انتخابات کا نام پر لبوں پر آتے ہی ابکایاں آنے لگتی ہیں۔بار بار حمزہ شنواری کا شعر یاد آتا ہے کہ
تاچہ نن حمزہ تہ پہ وعدے پسے وعدہ ورکڑہ
نو سہ نوے خبرہ دے پیدا کڑہ پہ زڑہ کے
یعنی ''آج تم نے حمزہ کو وعدے کے اوپر پھر وعدہ دیا ہے تو کونسی نئی بات پیدا کی، تم نے پرانی بات میں''۔چنانچہ نہ کسی الیکشن سے ہمارے کان پر جوں رینگی ہے نہ پسو نہ کٹھمل۔ کہ اتنے سارے الیکشن کے دیکھ کر اب پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ کیا کیا ہوگا،کیسے کیسے ہوگا اور طوطے کی بلا کس بندر کے سر پر جائے گی۔
کالانعام بدستور انعام لے کر چلے
اور اہل انعام کیا کیا انعام لے کر چلے
جائیں گے دوبارہ سہ بارہ دس بارہ آنے کے لیے
بلکہ اب تو ہم نے تہیہ کرلیا ہے کہ اپنا یہ ''بے قیمت''ووٹ کسی کو بھی نہ دیں گے تو اچھا رہے گا۔لیکن لوگ تو چرچے کرتے ہیں کہ ان کی یادداشت الزائمر کی طرح ماری ہوئی اور گجنی کے عامر خان سے بھی گئی گزری ہے۔صرف ووٹ ڈالنے سے ووٹ ڈالنے تک ہی ہوتی ہے۔
خان قیوم کے دور کا الیکشن تھا۔جلسے میں ممتاز مسلم لیگی،ممتاز تر مسلم لیگی اور ممتاز ترین مسلم لیگی''رہنما''تقرریں کررہے تھے اور بیچ بیچ میں نعرے بھی لگ رہے تھے، ایک کونے سے نعرہ لگا۔ دیواستبداد۔ ہجوم نے جوش وخروش سے جواب دیا ''زندہ باد''۔خیر ہم نے قہرخداوندی چشم گل عرف کوئڈنائنٹین سے پوچھا، تمہارا کیا خیال ہے، آنے والے انتخابات کے بارے میں ۔بولا، شفاف ہوں گے بلکہ ابوالشفاف ہونے کا بھی امکان ہے۔
پوچھا وجہ؟ دلیل؟بولا ، وجہ اور دلیل دونوں یہ ہیں کہ تم دیکھتے نہیں، ملک کا سب کچھ شفاف ہوچکا ہے۔ سیاست شفاف،جمہوریت شفاف،عوام شفاف، لیڈرشفاف،سرکار شفاف،سرکار کا ہر محکمہ اور ادارہ شفاف، تمام سرکاری اہل کار شفاف۔ دیکھتے نہیں روپیہ اتنا شفاف کیا ہے کہ دکھائی نہیں دیتا۔ قہرخداوندی میں ایک صفت یہ بھی ہے کہ ''کمپنی''نے اس کے اندر''بریک''ڈالا ہی نہیں جب کسی موضوع پر اسٹارٹ لیتا ہے تو جب تک فیول ختم نہیں ہوتا، چلتا رہتا ہے۔
چنانچہ گئیربدلتے ہوئے بولا۔گزشتہ) (76 برس میں حکومت، لیڈروں اور افسروں نے صرف ایک کام کیا ہے، ہر جگہ، ہر مقام، ہر ادارے ، ہر محکمے اور ہر کام کو ''شفاف'' بنانا چنانچہ جائیے اور دیکھیے تو ہر مقام شفافیت سے جگمگا رہا ہے۔ ملازمین، تجارتیں، معیشت، انتظامیہ عدلیہ یہاں تک کہ میڈیا بھی، منرل واٹر کی طرح شفاف، یوں سمجھ لیجیے کہ پورا ملک سکندر کے باپ فلپ کے بنائے ہوئے محل''پیلا'' سے بھی زیادہ شفاف ہے۔ پوچھا، یہ سکندر کون ہے؟ فلپ کون اور ''پیلا'' کون ہے؟ بولا۔ ہے نہیں، تھے۔فلپ مقدونی سکندر یونانی کا باپ تھا۔
خیر چھوڑو ،کون کس کا بیٹا ہے اور کس کو باپ کہتا ہے۔ یہ ہمارا موضوع نہیں۔یعنی ہمارا موضوع اولادوں کی شفافیت نہیں بلکہ ملک کی شفافیت ہے۔فلپ نے جب اپنا محل ''پیلا'' بنایا تو ایک دن اپنے دیوانے دوست دیوجانس کلبی کو آنے کی دعوت دی۔دیوجانس جب محل پہنچا تو فلپ نے ا س کے استقبال کے لیے اپنے وزیر خاص کو کھڑا کیا ہوا تھا، وزیر نے دیوجانس کو ''وصول''کیا اور محل کے مختلف راستوں راہداریوں سے گزرتا ہوا دربار لے چلا ،ایک جگہ دیوجانس کو کھانسی اُٹھی تو اس نے بہت سارا بلغم اس وزیر کے منہ پر تھوک دیا۔
وزیر نے اس وی وی آئی پی مہمان سے تو کچھ نہیں کہا لیکن دربار پہنچ کر بادشاہ سے شکایت کی۔بادشاہ نے دیوجانس سے پوچھا، یہ وزیر کیا کہتا ہے، آپ نے اس کے منہ پر تھوک کیوں دیا؟ دیوجانس نے حیران ہوکر کہا، نہیں تو۔وہ تو جب مجھے تھوکنے کی حاجت ہوئی تو ادھر ادھر دیکھا اس شفاف محل میں جو ''جگہ'' خالی نظر آئی وہاں تھوک دیا۔یہاں ایک چھوٹا سا بریک لیتے ہوئے وضاحتاً عرض ہے کہ آپ اس بات کو دور جدید میں نہ لائیں اور دیوجانس کلبی کو آئی ایم ایف نہ سمجھ لیں۔یہ یونان کا پرانا واقعہ ہے۔
ہاں اس بات سے ہم انکار نہیں کریں گے کہ ہمارا ملک بھی آئی ایم ایف اور لیڈروں کی بدولت اتنا شفاف ہوچکا ہے کہ لوگ سڑکوں یا کسی بھی جگہ تھوکتے نہیں ہیں ،کبھی کبھی جب تھوکنے کی ضرورت ہوتی ہے تو اخبارات میں ''بیان''کی صورت یہ کام کرتے ہیں۔حرف آخر یہ کہ اتنے شفاف ملک اور اس کے شفاف محکموں اداروں، دفتروں،نظاموں اور لیڈروں کے شفاف وجودوں کے ہوتے ہوئے آنے والے الیکشن بہت شفاف ہوں گے کیونکہ سب کچھ شفاف ہے۔
تصویر کے رنگوں کا مزاج اور ہی کچھ ہے
یہ ''حسن''جو کل اور تھا آج اور ہی کچھ ہے
بت خانے پرستش کو بناکرتے تھے پہلے
اس دور میں پوجا کا رواج اور ہی کچھ ہے
ماضی میں بھی اک ظلم تھا انسان کا جینا
جو ہم کو ملا ہے، یہ سماج اور ہی کچھ ہے
جھک جائے قتیل آپ کا سر جس کو پہن کر
اس تاج کی بات وہ تاج اور ہی کچھ ہے
پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
اتنے اور ایسے ایسے انتخابات اب تک بھوگے ہیں کہ انتخابات کا نام پر لبوں پر آتے ہی ابکایاں آنے لگتی ہیں۔بار بار حمزہ شنواری کا شعر یاد آتا ہے کہ
تاچہ نن حمزہ تہ پہ وعدے پسے وعدہ ورکڑہ
نو سہ نوے خبرہ دے پیدا کڑہ پہ زڑہ کے
یعنی ''آج تم نے حمزہ کو وعدے کے اوپر پھر وعدہ دیا ہے تو کونسی نئی بات پیدا کی، تم نے پرانی بات میں''۔چنانچہ نہ کسی الیکشن سے ہمارے کان پر جوں رینگی ہے نہ پسو نہ کٹھمل۔ کہ اتنے سارے الیکشن کے دیکھ کر اب پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ کیا کیا ہوگا،کیسے کیسے ہوگا اور طوطے کی بلا کس بندر کے سر پر جائے گی۔
کالانعام بدستور انعام لے کر چلے
اور اہل انعام کیا کیا انعام لے کر چلے
جائیں گے دوبارہ سہ بارہ دس بارہ آنے کے لیے
بلکہ اب تو ہم نے تہیہ کرلیا ہے کہ اپنا یہ ''بے قیمت''ووٹ کسی کو بھی نہ دیں گے تو اچھا رہے گا۔لیکن لوگ تو چرچے کرتے ہیں کہ ان کی یادداشت الزائمر کی طرح ماری ہوئی اور گجنی کے عامر خان سے بھی گئی گزری ہے۔صرف ووٹ ڈالنے سے ووٹ ڈالنے تک ہی ہوتی ہے۔
خان قیوم کے دور کا الیکشن تھا۔جلسے میں ممتاز مسلم لیگی،ممتاز تر مسلم لیگی اور ممتاز ترین مسلم لیگی''رہنما''تقرریں کررہے تھے اور بیچ بیچ میں نعرے بھی لگ رہے تھے، ایک کونے سے نعرہ لگا۔ دیواستبداد۔ ہجوم نے جوش وخروش سے جواب دیا ''زندہ باد''۔خیر ہم نے قہرخداوندی چشم گل عرف کوئڈنائنٹین سے پوچھا، تمہارا کیا خیال ہے، آنے والے انتخابات کے بارے میں ۔بولا، شفاف ہوں گے بلکہ ابوالشفاف ہونے کا بھی امکان ہے۔
پوچھا وجہ؟ دلیل؟بولا ، وجہ اور دلیل دونوں یہ ہیں کہ تم دیکھتے نہیں، ملک کا سب کچھ شفاف ہوچکا ہے۔ سیاست شفاف،جمہوریت شفاف،عوام شفاف، لیڈرشفاف،سرکار شفاف،سرکار کا ہر محکمہ اور ادارہ شفاف، تمام سرکاری اہل کار شفاف۔ دیکھتے نہیں روپیہ اتنا شفاف کیا ہے کہ دکھائی نہیں دیتا۔ قہرخداوندی میں ایک صفت یہ بھی ہے کہ ''کمپنی''نے اس کے اندر''بریک''ڈالا ہی نہیں جب کسی موضوع پر اسٹارٹ لیتا ہے تو جب تک فیول ختم نہیں ہوتا، چلتا رہتا ہے۔
چنانچہ گئیربدلتے ہوئے بولا۔گزشتہ) (76 برس میں حکومت، لیڈروں اور افسروں نے صرف ایک کام کیا ہے، ہر جگہ، ہر مقام، ہر ادارے ، ہر محکمے اور ہر کام کو ''شفاف'' بنانا چنانچہ جائیے اور دیکھیے تو ہر مقام شفافیت سے جگمگا رہا ہے۔ ملازمین، تجارتیں، معیشت، انتظامیہ عدلیہ یہاں تک کہ میڈیا بھی، منرل واٹر کی طرح شفاف، یوں سمجھ لیجیے کہ پورا ملک سکندر کے باپ فلپ کے بنائے ہوئے محل''پیلا'' سے بھی زیادہ شفاف ہے۔ پوچھا، یہ سکندر کون ہے؟ فلپ کون اور ''پیلا'' کون ہے؟ بولا۔ ہے نہیں، تھے۔فلپ مقدونی سکندر یونانی کا باپ تھا۔
خیر چھوڑو ،کون کس کا بیٹا ہے اور کس کو باپ کہتا ہے۔ یہ ہمارا موضوع نہیں۔یعنی ہمارا موضوع اولادوں کی شفافیت نہیں بلکہ ملک کی شفافیت ہے۔فلپ نے جب اپنا محل ''پیلا'' بنایا تو ایک دن اپنے دیوانے دوست دیوجانس کلبی کو آنے کی دعوت دی۔دیوجانس جب محل پہنچا تو فلپ نے ا س کے استقبال کے لیے اپنے وزیر خاص کو کھڑا کیا ہوا تھا، وزیر نے دیوجانس کو ''وصول''کیا اور محل کے مختلف راستوں راہداریوں سے گزرتا ہوا دربار لے چلا ،ایک جگہ دیوجانس کو کھانسی اُٹھی تو اس نے بہت سارا بلغم اس وزیر کے منہ پر تھوک دیا۔
وزیر نے اس وی وی آئی پی مہمان سے تو کچھ نہیں کہا لیکن دربار پہنچ کر بادشاہ سے شکایت کی۔بادشاہ نے دیوجانس سے پوچھا، یہ وزیر کیا کہتا ہے، آپ نے اس کے منہ پر تھوک کیوں دیا؟ دیوجانس نے حیران ہوکر کہا، نہیں تو۔وہ تو جب مجھے تھوکنے کی حاجت ہوئی تو ادھر ادھر دیکھا اس شفاف محل میں جو ''جگہ'' خالی نظر آئی وہاں تھوک دیا۔یہاں ایک چھوٹا سا بریک لیتے ہوئے وضاحتاً عرض ہے کہ آپ اس بات کو دور جدید میں نہ لائیں اور دیوجانس کلبی کو آئی ایم ایف نہ سمجھ لیں۔یہ یونان کا پرانا واقعہ ہے۔
ہاں اس بات سے ہم انکار نہیں کریں گے کہ ہمارا ملک بھی آئی ایم ایف اور لیڈروں کی بدولت اتنا شفاف ہوچکا ہے کہ لوگ سڑکوں یا کسی بھی جگہ تھوکتے نہیں ہیں ،کبھی کبھی جب تھوکنے کی ضرورت ہوتی ہے تو اخبارات میں ''بیان''کی صورت یہ کام کرتے ہیں۔حرف آخر یہ کہ اتنے شفاف ملک اور اس کے شفاف محکموں اداروں، دفتروں،نظاموں اور لیڈروں کے شفاف وجودوں کے ہوتے ہوئے آنے والے الیکشن بہت شفاف ہوں گے کیونکہ سب کچھ شفاف ہے۔
تصویر کے رنگوں کا مزاج اور ہی کچھ ہے
یہ ''حسن''جو کل اور تھا آج اور ہی کچھ ہے
بت خانے پرستش کو بناکرتے تھے پہلے
اس دور میں پوجا کا رواج اور ہی کچھ ہے
ماضی میں بھی اک ظلم تھا انسان کا جینا
جو ہم کو ملا ہے، یہ سماج اور ہی کچھ ہے
جھک جائے قتیل آپ کا سر جس کو پہن کر
اس تاج کی بات وہ تاج اور ہی کچھ ہے