نئے جال پرانے شکاری

دانشور نے طوطوں کی بھلائی کی خاطر طوطے خریدنا شروع کیے

barq@email.com

اب تو پکے وٹے ہوگیا ہے کہ یہ جو عوام ہوتے ہیں یہ واقعی اور سچ مچ کالانعام ہوتے ہیں اور کالانعام کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہوتے ہیں اور اگر ہوتے ہیں تو ''کالانعام''(حیوانوں جیسے) نہیں بلکہ ''انعام''ہی ہوتے ہیں کیونکہ کتنی صدیاں بیت گئیں ہزارے گزر گئے اور یہ اب تک اس فریب میں مبتلا ہیں کہ ''اشراف''لوگ ان کے دوست ہیں۔

حالانکہ ان ہی لوگوں نے ''بجروا'' میں چھینا''دوپٹہ''میرا ان کے زیادہ ''کھانے'' ہی کی وجہ سے ہم بھوکے ہیں، پیاسے ہیں ننگے ہیں اور ہر قسم کے درد میں مبتلا ہیں۔اب ذرا سامنے منظر پر نظر ڈالیے کون ہیں جو ایک مرتبہ پھر فردوس گم گشتہ دلانے آئے ہیں۔

بالک بلاول نے کہا ہے کہ تین بار کے ناکام وزیراعظم کو چوتھی بار مسلط نہیں ہونے دیں گے اور بیچارا یہ بھول گیا کہ اس معاملے میں اس کا خاندانی اسکور زیادہ ہے اگر نوازشریف تین بار عوام پر ''شیر''چھوڑ چکا ہے تو اس کا خاندان چار بار''تیر''مار چکاہے۔ملانصیرالدین نے ایک بار بادشاہ کے سامنے ڈینگ ماری کہ وہ چیمپئین تیرانداز ہے۔

بادشاہ نے اسی وقت تیر کمان دے کر کہا ذرا ناوک اندازی ہمیں بھی دکھا دیجیے۔ملا نے تیر کمان لی اور سامنے ٹارگٹ پر تیر چلایا جو ظاہر ہے کہ خطا ہوگیا۔ملا ذرا شرمائے بغیر بولا یہ فلاں وزیر اس طرح تیر چلاتا تھا پھر دوسری بار بھی نشانہ چوک گیا تو اس نے ایک اور وزیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ وزیر ایسا تیر چلاتا ہے۔اس طرح چار بار نشانہ خطا ہونے پر مختلف وزیروں یا درباریوں کے نام لیے، پانچویں مرتبہ اتفاقاً تیر ہدف پر جا پڑا تو چھاتی پھلاتے ہوئے بولا، میں ایسا نشانہ لگاتا ہوں۔

نواز شریف اور اس کے حالی موالی بھی اپنے ممدوح کو واحد نجات دہندہ قرار دے رہے ہیں جو پاکستان نامی دائم المرض کو جس کے حلق میں گھنگھرو بولنے لگا ہے تریاق اعظم کھڑا کر کے پہلوان بنادے گا۔جمعیت والے مولانا کو حکیم لقمان قرار دے رہے ہیں۔مطلب یہ کہ ہمارے پرانے کھلاڑی نیا جال لے کر شکار گاہ میں اترے ہیں اور''شکار'' ہونے والے کالانعام بدستور حسب عادت،حسب معمول اور حسب تاریخ زندہ باد مردہ باد کا آموختہ پھر دہرا رہے ہیں ؎

فصل گل آئی پھر اک بار اسیران وفا

اپنے ہی خون کے دریا میں نہانے نکلے

ویسے ''اسیران وفا'' کے بجائے ''اسیران حماقت'' کہنا زیادہ بہتر ہے کیونکہ صدیوں اور ہزاریوں کے مسلسل برین واش اور ہپناٹزم نے ان کے دماغوں کو کھایا ہوا ہے۔یہاں میں ایک مرتبہ پھر ڈارون اور لیمارک کا نظریہ ''استعمال'' اور عدم استعمال۔بلکہ کثرت استعمال اور عدم استعمال یاد دلاؤں گا کہ جو بھی چیز یا عضو زیادہ استعمال ہوتا ہے وہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جاتا ہے اور جو استعمال نہیں ہوتا وہ کمزور سے کمزور تر ہوکر ''صفر'' ہوجاتا ہے۔اور یہ سلسلہ صدیوں بلکہ ہزاروں سال سے چلا آرہاہے کہ مٹھی بھر حکمرانیہ(85) فیصد عوامیہ کو دماغ کے ''عدم استعمال'' پر رکھے ہوئے ہے۔

جب سے لٹیرے اور ڈاکو نے ''محافظ'' کا چولا پہنا ہے تب سے وہ محکوم رعیت کو مسلسل ہپناٹائز اور برین واش کررہا ہے کہ ''سوچنا'' تمہارا کام نہیں تمہارا کام صرف ''عمل کرنا''ہے تمہارا کام صرف جسم سے کام لینا ہے، دماغ سے کام لینا، سوچنا،دوست دشمن کا فیصلہ کرنا، اچھے اور برے کا فیصلہ کرنا صرف اشرافیہ یا حکمرانیہ کا ہے۔

وہ آزمودہ کار بھی ہے ''بے مثال'' بھی


جو کچھ بتائے ''داغ'' اسے مان جایئے

چنانچہ اب وہ ایک مرتبہ پھر جادو کی ان ''بنسریوں''پر ناچنے لگے ہیں انھیں کئی کئی بار سبز باغ کے بجائے دریا برد کرچکی ہیں وہ ایک بہت پرانی حکایت ہے کہ ایک''خوا مخوا'' اور ہم جیسے ایک''دانشور'' نے دیکھا کہ ایک شکاری ایک سبز باغ کے گرد ایک تار میں بہت سارے نلکے پھیلائے ہوئے ہے، طوطے آتے ہیں اور ان نلکوں پر بیٹھتے ہیں نلکہ گھومتا ہے تو طوطے نلکے کو پکڑے گھوم کر لٹک جاتے ہیں،گرنے کے خوف سے وہ نلکے کو مضبوطی سے پکڑے ہوتے ہیں ایسے میں شکاری آکر ایک ایک طوطے کو پکڑ کر بوری میں ڈالتا ہے اور بازار لے جاکر فروخت کردیتا ہے۔ دانشور نے طوطوں کی بھلائی کی خاطر طوطے خریدنا شروع کیے وہ انھیں لا کر سکھاتا کہ

ہم شکاری کے نرکل پر کبھی نہیں بیٹھیں گے

اور اگر بیٹھیں گے تو پھڑ پھڑا کر اڑجائیں گے

جب طوطے یہ سبق اچھی طرح ازبر کرلیتے تو دانشور انھیں چھوڑ دیتا کہ اب شکاری کے دام میں نہیں پھنسیں گے اپنے خیال میں اس نے سارے طوطوں کو ایجوکیٹ کیا۔اور اپنے اس نیک کام پر پھولے نہ سماتے ہوئے ایک دن نکلا کہ اپنی''تعلیم'' کا نتیجہ دیکھے۔لیکن جب وہ باغ کے پاس پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کے سارے شاگرد اور ایجوکیٹڈ طوطے بدستور نلکوں سے لٹکتے ہوئے ہیں اور آموختہ دہرا رہے ہیں کہ ہم شکاری کے نرکل پر کبھی نہیں بیٹھیں گے اور اگر بیٹھیں گے تو پھڑپھڑا کر اڑجائیں گے۔

اور اسی حالت میں شکاری ان کو پکڑ کر بوری میں ڈال رہا ہے اور بوری کے اندر بھی اپنا سبق دہرا رہے ہیں۔ یہی سلسلہ ہمارے ان انعاموں اور کالانعاموں کا بھی ہے ایک مرتبہ پھر وہ انہی''نرکلوں'' پر بیٹھے جارہے ہیں جن پر بیٹھ بیٹھ کر وہ کئی بار پکڑے اور بیچے جاچکے ہیں ہاں البتہ اتنا ''سبق'' بھی دہرائے جارہے ہیں۔باغ بھی وہی شکاری بھی وہی، نرکل بھی وہی پکڑے جانا بھی وہی۔لیکن وہ یہ سب بھول چکے ہیں سوائے اپنے آموختہ کے۔

ہم شکاری کے نلکے پر کبھی نہیں بیٹھیں گے

اور اگر بیٹھیں گے تو پھڑپھڑا کر اڑ جائیں گے

لیکن اس میں ان کا زیادہ قصور بھی نہیں کہ عدم استعمال کی وجہ سے ان کھوپڑیوں میں وہ چیز باقی ہی نہیں رہی۔جو کچھ یاد رکھ سکے صرف زبان باقی ہے اور وہ چل رہی ہے۔اور ادھر شکاری اتنا ہوشیار چالاک اور مکار ہوچکا ہے دماغ کے کثرت استعمال سے کہ لباس اور چال بدل دیتا ہے

کبھی پھول سے نکل کے کبھی چاندنی میں ڈھل کے

تیرا حسن گھیرتا ہے مجھے رخ بدل بدل کے
Load Next Story