خواتین کے آنسوؤں میں پوشیدہ طاقت
سائنس دانوں نے انکشاف کیا ہے کہ عورتوں کے آنسو ’’سونگھ‘‘ کر مردوں میں جارحیت و غصّہ کم ہوگیا …
یہ روزمّرہ کا مشاہدہ ہے کہ جب میاں بیوی لڑ بیٹھیں، بچوں کے مابین جھگڑا ہو جائے یا لڑکیوں کی تو تو میں میں ہونے لگے اور اس دوران ایک فریق آنسو بہاتے رونے لگے تو معاملہ عموماً ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ آنسو دیکھ کر دوسرے فریق میں جارحیت کے جذبات سرد پڑ جاتے ہیں اور وہ روتے شخص سے کسی حد تک ہمدردی محسوس کرتا ہے۔
البتہ پتھردل لوگ اس حالت میں بھی آنسو بہاتے فریق پہ رحم نہیں کھاتے اور اسے اپنے واروں کا نشانہ بناتے ہیں۔ گویا کہا جا سکتا ہے کہ جو انسان آنسو بہاتے مرد، عورت یا بچے پہ رحم نہ کھائے، خصوصاً جب وہ بے قصور بھی ہوں، تو اسے سنگدل و ظالم کہا جائے گا۔ معنی یہ کہ قاتل و شقی القلب لوگوں کی خاص پہچان یہ ہے کہ وہ معصوم انسانوں کے آنسوؤں کی بھی پروا نہیں کرتے۔ حالانکہ انہی آبی قطروں کے بارے میں ممتاز بھارتی شاعر ، بشیر بدر کا شعر ہے:
اُس نے چھو کر مجھے پتھر سے پھر انسان کیا
مدتوں بعد میری آنکھوں میں آنسو آئے
اردو شاعری میں آنسوؤں کی بڑی اہمیت ہے۔وجہ یہ کہ آنسو صرف آنکھوں نے بہنے والا پانی نہیں بلکہ اس کے پیچھے کبھی دکھ، تکلیف،غم اور کبھی آرام وخوشی کے جو متضاد جذبے پوشیدہ ہوتے ہیں، وہ اِن بظاہر معمولی آبی قطروں کو نہایت اہم بنا دیتے ہیں۔ آنسوؤں کا تذکرہ استاذ شعرا نے اپنے مشہور اشعار میں کیا ہے۔ مثلاً ایک اور منفرد بھارتی شاعر، وسیم بریلوی کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:
ویسے تو ایک آنسو ہی بہا کر مجھے لے جائے
ایسے کوئی طوفان ہلا بھی نہیں سکتا
یہ تو تھا آنسوؤں کے جذباتی اثر کا جائزہ، اب سائنس نے دریافت کیا ہے کہ خصوصاً خواتین کے جذباتی آنسو مردوں کی حس ِ شامعہ یعنی سونگھنے کی قوت پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یہ دلچسپ انکشاف امریکا کی ڈیوک یونیورسٹی میں ہوئے تجربات سے سامنے آیا۔
ان تجربوں کی روداد پڑھنے سے قبل یہ انوکھی بات جان لیجیے کہ یہ 1872ء کی بات ہے جب ممتاز برطانوی سائنس داں، چارلس ڈارون کی تیسری کتاب ''انسان اور حیوانیات میں جذبات کا اظہار''(The Expression of the Emotions in Man and Animals)شائع ہوئی۔ اس کتاب کا موضوع انسانوں کی وہ عادات اور رویّے ہیں جو بقول چارلس ڈارون کے جانوروں سے لیے گئے، مثلاً حیرت زدہ ہو کر بھونیں اچکانا یا جارحیت کے وقت دانت دکھانا۔ اسی کتاب میں ڈارون لکھتا ہے:''میرے نزدیک انسان میں آنسوؤں کا بہنا عجوبہ ہے۔وہ یقیناً آنکھیں نم رکھتے ہیں، مگر ان کا مجھے صرف یہی فائدہ نظر آتا ہے۔ ویسے وہ بے فائدہ ہیں۔''
پچھلے ڈیرھ سو برس کے دوران مگر سائنس دانوں نے آنسوؤں کے کافی فوائد دریافت کر لیے ہیں اور یوں ڈارون کا خیال غلط ثابت ہو گیا۔ اب ڈیوک یونیورسٹی کے سائنس داں ایک اور فائدہ سامنے لے آئے ہیں۔
یاد رہے، انسان سمیت کئی جانوروں کی آنکھوں میں ''اشکی غدود'' ( lacrimal glands) پائے جاتے ہیں۔ یہی غدود آنسو پیدا کرتے ہیں۔ آنسوؤں کی تین اقسام ہیں اور ہر قسم کی ہئیت و ماہیت مختلف ہوتی ہے۔ آنسو بہرحال پانی، چکنائی، پروٹین، نمکیات، تیزابوں اور ضد جسم (antibodies) کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک سال کے دوران ہر انسان 15 سے 30 گیلن آنسو پیدا کرتا ہے۔
اکثر ممالیہ جانور آنسو بہاتے ہیں۔ اکیسویں صدی کے اوائل میں جاپانی ماہرین نے دریافت کیا کہ چوہوں کے آنسوؤں میں ایسے کیمیکل پائے جاتے ہیں جو جارح مزاج چوہوں میں جارحیت کم کرتے ہیں۔ معنی یہ کہ جب جارح مزاج چوہے کسی چوہیا یا چوہے کے آنسو سونگھ لیں تو ان میں جارحانہ رویہّ ماند پڑ جاتا ہے۔ گویا اس اعتبار سے چوہوں کی دنیا میں آنسو لڑائی جھگڑا ختم کر کے امن وامان قائم کرنے میں کام آتے ہیں۔
گویا ممالیہ میں آنسوؤں کا شاید اہم ترین فریضہ یہ ہے کہ وہ فریقین میں جنگ ختم کرا کے امن بحال کر دے۔ یہ تبدیلی اس لیے ظہورپذیر ہوتی ہے کہ آنسو اپنے اندر ایسے کیمیکل رکھتے ہیں جو جانور کے دماغ میں اُن حصّوں کو فعال و متحرک کر دیتے ہیں جو جارحانہ رویہّ قابو کرتے اور اس کو دباتے ہیں۔ مزید تحقیق سے انکشاف ہوا کہ کمزور اندھے موش نما چوہے (Blind mole-rat) جب طاقتور اور جارح چوہوں سے محفوظ رہنا چاہیں تو وہ آنسوؤں ہی کا سہارا لیتے ہیں۔ جب بھی کوئی تگڑا چوہا ان پہ حملہ کرے، وہ آنسو بہا کر اس موذی کا دل پسیج دیتے اور یوں اس کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں۔
ڈیوک یونیورسٹی کے محقق، پروفیسر نوم سوبل اور اُن کے ساتھیوں کو یقین تھا کہ انسانی آنسوؤں میں بھی ایسے کیمیکل موجود ہوں گے جو دوسروں میں جارحیت کم کر کے انھیں اعتدال کی حالت میں لے آئیں۔ انہی کیمیائی مادوں کو تلاش کرنے کے لیے انھوں نے ایک تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ٹیم نے سب سے پہلے رضاکار خواتین کو ایسی جذبات انگیز فلمیں اور ڈرامے دکھائے جنھیں دیکھ کر وہ جذباتی آنسو بہانے لگیں۔ یہ آنسو ٹیم نے محفوظ کر لیے۔
خواتین کے آنسو اس لیے جمع کیے گئے کہ 2011 ء میں مشہور سائنسی رسالے، سائنس میں امریکا میں ہوئی ایک تحقیق کے نتائج شائع ہوئے تھے۔ اس تحقیق نے افشا کیا تھا کہ جب خواتین کے آنسو مردوں کو سونگھائے گئے تو ان میں ٹیسٹوسٹیرون کی پیداوار کم ہو گئی۔ یہی ہارمون مردوں کو برانگیختہ کرتا ہے۔ ہارمون کی مقدار کم ہونے سے ان میں جوش بھی ماند پڑ گیا۔
اب مردوں میں تجربے کی باری آئی۔ ان کے دو گروہ بنا کر انھیں دو سیال سونگھائے گئے...ایک سیال مادہ تو نمکین پانی پہ مشتمل تھا۔اور دوسرا سیال خواتین کے آنسوؤں والا تھا۔مرد ان سیالوں میں کوئی تمیز نہیں کر سکتے تھے کہ یہ بغیر بو کے ہوتے ہیں۔ ان مردوں کو پھر ایک ایسی کمپیوٹر گیم کھلائی گئی جس میں جیت کے لیے جوشیلے و جارحیت پسند کھیل کی ضرورت تھی۔
اس کھیل کے دوران ماہرین نے مردوں کے دماغوں میں ایسے خصوصی آلات فٹ کر دئیے جو ان کی دماغی سرگرمی نوٹ کر سکتے تھے۔اس انوکھے تجربے کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ جن مردوں نے خواتین کے جذباتی آنسو سونگھے تھے، ان میں جارحیت کا عنصر'' 44 فیصد ''یعنی تقریباً نصف حد تک کم ہو گیا۔جن مردوں نے نمکین پانی سونگھا تھا، ان کے جارحانہ روّیے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ انھی جارحانہ مزاج مردوں نے بیشتر مقابلے جیت لیے، تاہم ان کے مدمقابلوں نے شکست میں زیادہ پژمردگی محسوس نہیں کی۔ یقیناً یہ جذبہ بھی خواتین کے جذباتی آنسو سونگھنے کی وجہ سے پیدا ہوا۔
یہ انوکھا تجربہ اس لحاظ سے کامیاب رہا کہ سائنس داں جان گئے، انسان کے آنسوؤں میں بھی ایسے کیمیکل موجود ہیں جو انھیں سونگھنے والے انسانوں میں جارحانہ رویہّ کم کر دیتے ہیں۔ تجربے کی کامیابی سے سبھی ماہرین بہت خوش ہوئے کیونکہ انھوں نے انسانی آنسوؤں کا ایک اور فائدہ دریافت کر لیا تھا۔ مگر پھر انھیں ایک نئے مسئلے کا سامنا کرنا پڑا۔
سائنس داں جانتے ہیں کہ چوہوں کی ناک میں ایک عضو ہوتا ہے جسے ''ومیروناسل آرگن'' (vomeronasal organ) کہتے ہیں۔ چوہوں کے آنسوؤں میں موجود کیمیکل یہی عضو شناخت کر کے چوہے کے دماغ تک پہنچاتا ہے۔ انسانوں کی ناک میں یہ عضو موجود نہیں، تو پھر مردوں نے خواتین کے جذباتی آنسوکیونکر سونگھ کر اپنی جارحیت کم کر لی؟ماہرین کو یقین ہو گیا کہ انسانی ناک میں ضرورایسے شمعی آخذے (olfactory receptors) موجود ہوں گے جنھوں نے خواتین کے جذباتی آنسوؤں میں بستے کیمیائی مادے کیچ کر لیے۔
واضح رہے، ہماری جلد، آنکھوں، ناک، کانوںِ، زبان وغیرہ کے خلیوں میں یہ آخذے پائے جاتے ہیں جو پروٹینی مادے سے بنتے ہیں۔ انہی آخذوں کی مدد سے ہماری چھونے کی حس کام کرتی ہے۔ جب بھی کوئی مرئی یا غیر مرئی شے ان آخذوں سے ٹکرائے تو وہ برقی سگنلوں کی صورت اس کی معلومات دماغ کی طرف روانہ کر دیتے ہیں۔
ہماری ناک میں ایسے 62 شمعی آخذے پائے جاتے ہیں جو مختلف کام انجام دیتے ہیں۔ جب لیبارٹری میں ان آخذوں سے انسانی آنسو مس کیے گئے تو چار آخذے متحرک ہو گئے۔ گویا اس تجربے نے افشا کر دیا کہ انسانی ناک میں چار ایسے آخذے ملتے ہیں جو انسانی آنسوؤں کے کیمیکل پکڑ کر ان کی معلومات دماغ تک پہنچاتے ہیں۔ اب تحقیق کا اگلا مرحلہ یہ راز جاننا تھا کہ دماغ کے کون سے حصے اس معلومات کو برتتے یعنی پروسیس کرتے ہیں۔
قبل ازیں بتایا گیا کہ کمپیوٹری گیم کھیلنے کے دوران مردوں کے دماغ میں خصوصی آلات لگا دئیے گئے تھے۔ مدعا یہ تھا کہ ان کی دماغی سرگرمی نوٹ کی جا سکے۔ اب یہی سرگرمی اگلے مرحلے کا راز حل کرنے میں کام آئی۔
ماہرین نے جب اس سرگرمی کا مطالعہ کیا تو ایک عجب انکشاف ہوا۔ وہ یہ کہ جن مردوں نے خواتین کے جذباتی آنسو سونگھے تھے، ان کے دماغ میں دو حصوں''پریفرنٹل کورٹیکس (prefrontal cortex) اور ''انٹیرئر انسولا'' (anterior insula) میں سرگرمیاں سست پڑ گئیں ... اور یہ دونوں حصّے انسان میں جارحیت کو جنم دیتے اور اسے بڑھاتے ہیں۔ یوں انسانی آنسوؤں سے متعلق آخری عقدہ بھی حل ہو گیا۔
دوران تجربہ محققین نے تقریباً 1.5 ملی لیٹر آنسو فی مرد استعمال کیے۔ پورے مطالعے میں 160 ملی لیٹر سے زیادہ جذباتی آنسو درکار تھے۔ انہیں چھ بیس سالہ خواتین رضاکاروں سے تقریباً 125 سیشنوں کے دوران جمع کیا گیا۔یہ خواتین آسانی سے رونے کی صلاحیت کے باعث منتخب ہوئی تھیں۔
پروفیسر نوم سوبل کہتے ہیں: ''ہم نے اپنے تجربات سے دنیا والوں کو دکھایا ہے کہ خواتین اور مردوں و بچوںکے آنسو بھی دوسرے انسانوں میں جارحیت کم کرنے والے کیمیکل رکھتے ہیں۔ حتی کہ یہ دماغی سرکٹ بھی تبدیل کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ یہ نتائج بتاتے ہیں کہ آنسو ایک کیمیائی ڈھال ہے جو جارحیت کے خلاف انسان و حیوان کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یہ اثر چوہوں، انسانوں اور شاید دوسرے ممالیہ میں عام ہے۔ درحقیقت حالیہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ کتے بھی جذباتی آنسو بہاتے ہیں۔ تاہم اس بات کا تعین کرنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ آیا ان آنسوؤں میں بھی کیمیائی اشارے پوشیدہ ہوتے ہیں جنہیں دوسرے کتے یا انسان جان لیں۔''
انسانی آنسو کی تین اقسام
(1) باسل آنسو(Basal tears )...یہ آنسو ہماری آنکھوں کے قرنیے کو مسلسل نم رکھتے ہیں تاکہ وہ اپنے کام بخیروخوبی انجام دیتا رہے۔ یہ آنکھوں کو مٹی، گرد اور دیگر بیرونی اشیا سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ یہ جراثیم مارنے والے کیمیائی مادے بھی رکھتے ہیں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ باسل آنسوئوں کی پیدائش کم ہو جاتی ہے۔
(2) ریفلیکس آنسو(Reflex tears)...جب آنکھوں میں کوئی بیرونی شے یا کیمیائی مادے داخل ہو جائیں تو انھیں نکال باہر کرنے کی خاطر آنکھیں ریفلیکس آنسو خارج کرتی ہیں۔ جب ہم پیاز کاٹتے ہیں تو یہی آنسو نکلتے ہیں تاکہ آنکھوں کو محفوظ رکھ سکیں۔آنسو گیس، کھانسی، چھینک، قے آنے،چمک دار روشنی دیکھنے،مرچیں کھانے وغیرہ کے ردعمل سے بھی یہی آنسو نکلتے ہیں۔
(3)جذباتی آنسو (Emotional tears ) ... یہ وہ آنسو ہیں جو انسان رونے کے دوران بہاتا ہے۔ تاہم ہنسی یا قہقہے کی حالت میں بھی یہ آنسو نکل سکتے ہیں۔ یہ آنسو غم، خوشی، صدمہ، لطف، غصّے، جسمانی یا ذہنی تکلیف جیسے متناقص انسانی جذبوں اور رویّوں سے وابستہ ہیں۔ بعض جانور بھی یہ آنسو بہا سکتے ہیں۔
البتہ پتھردل لوگ اس حالت میں بھی آنسو بہاتے فریق پہ رحم نہیں کھاتے اور اسے اپنے واروں کا نشانہ بناتے ہیں۔ گویا کہا جا سکتا ہے کہ جو انسان آنسو بہاتے مرد، عورت یا بچے پہ رحم نہ کھائے، خصوصاً جب وہ بے قصور بھی ہوں، تو اسے سنگدل و ظالم کہا جائے گا۔ معنی یہ کہ قاتل و شقی القلب لوگوں کی خاص پہچان یہ ہے کہ وہ معصوم انسانوں کے آنسوؤں کی بھی پروا نہیں کرتے۔ حالانکہ انہی آبی قطروں کے بارے میں ممتاز بھارتی شاعر ، بشیر بدر کا شعر ہے:
اُس نے چھو کر مجھے پتھر سے پھر انسان کیا
مدتوں بعد میری آنکھوں میں آنسو آئے
اردو شاعری میں آنسوؤں کی بڑی اہمیت ہے۔وجہ یہ کہ آنسو صرف آنکھوں نے بہنے والا پانی نہیں بلکہ اس کے پیچھے کبھی دکھ، تکلیف،غم اور کبھی آرام وخوشی کے جو متضاد جذبے پوشیدہ ہوتے ہیں، وہ اِن بظاہر معمولی آبی قطروں کو نہایت اہم بنا دیتے ہیں۔ آنسوؤں کا تذکرہ استاذ شعرا نے اپنے مشہور اشعار میں کیا ہے۔ مثلاً ایک اور منفرد بھارتی شاعر، وسیم بریلوی کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:
ویسے تو ایک آنسو ہی بہا کر مجھے لے جائے
ایسے کوئی طوفان ہلا بھی نہیں سکتا
یہ تو تھا آنسوؤں کے جذباتی اثر کا جائزہ، اب سائنس نے دریافت کیا ہے کہ خصوصاً خواتین کے جذباتی آنسو مردوں کی حس ِ شامعہ یعنی سونگھنے کی قوت پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یہ دلچسپ انکشاف امریکا کی ڈیوک یونیورسٹی میں ہوئے تجربات سے سامنے آیا۔
ان تجربوں کی روداد پڑھنے سے قبل یہ انوکھی بات جان لیجیے کہ یہ 1872ء کی بات ہے جب ممتاز برطانوی سائنس داں، چارلس ڈارون کی تیسری کتاب ''انسان اور حیوانیات میں جذبات کا اظہار''(The Expression of the Emotions in Man and Animals)شائع ہوئی۔ اس کتاب کا موضوع انسانوں کی وہ عادات اور رویّے ہیں جو بقول چارلس ڈارون کے جانوروں سے لیے گئے، مثلاً حیرت زدہ ہو کر بھونیں اچکانا یا جارحیت کے وقت دانت دکھانا۔ اسی کتاب میں ڈارون لکھتا ہے:''میرے نزدیک انسان میں آنسوؤں کا بہنا عجوبہ ہے۔وہ یقیناً آنکھیں نم رکھتے ہیں، مگر ان کا مجھے صرف یہی فائدہ نظر آتا ہے۔ ویسے وہ بے فائدہ ہیں۔''
پچھلے ڈیرھ سو برس کے دوران مگر سائنس دانوں نے آنسوؤں کے کافی فوائد دریافت کر لیے ہیں اور یوں ڈارون کا خیال غلط ثابت ہو گیا۔ اب ڈیوک یونیورسٹی کے سائنس داں ایک اور فائدہ سامنے لے آئے ہیں۔
یاد رہے، انسان سمیت کئی جانوروں کی آنکھوں میں ''اشکی غدود'' ( lacrimal glands) پائے جاتے ہیں۔ یہی غدود آنسو پیدا کرتے ہیں۔ آنسوؤں کی تین اقسام ہیں اور ہر قسم کی ہئیت و ماہیت مختلف ہوتی ہے۔ آنسو بہرحال پانی، چکنائی، پروٹین، نمکیات، تیزابوں اور ضد جسم (antibodies) کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک سال کے دوران ہر انسان 15 سے 30 گیلن آنسو پیدا کرتا ہے۔
اکثر ممالیہ جانور آنسو بہاتے ہیں۔ اکیسویں صدی کے اوائل میں جاپانی ماہرین نے دریافت کیا کہ چوہوں کے آنسوؤں میں ایسے کیمیکل پائے جاتے ہیں جو جارح مزاج چوہوں میں جارحیت کم کرتے ہیں۔ معنی یہ کہ جب جارح مزاج چوہے کسی چوہیا یا چوہے کے آنسو سونگھ لیں تو ان میں جارحانہ رویہّ ماند پڑ جاتا ہے۔ گویا اس اعتبار سے چوہوں کی دنیا میں آنسو لڑائی جھگڑا ختم کر کے امن وامان قائم کرنے میں کام آتے ہیں۔
گویا ممالیہ میں آنسوؤں کا شاید اہم ترین فریضہ یہ ہے کہ وہ فریقین میں جنگ ختم کرا کے امن بحال کر دے۔ یہ تبدیلی اس لیے ظہورپذیر ہوتی ہے کہ آنسو اپنے اندر ایسے کیمیکل رکھتے ہیں جو جانور کے دماغ میں اُن حصّوں کو فعال و متحرک کر دیتے ہیں جو جارحانہ رویہّ قابو کرتے اور اس کو دباتے ہیں۔ مزید تحقیق سے انکشاف ہوا کہ کمزور اندھے موش نما چوہے (Blind mole-rat) جب طاقتور اور جارح چوہوں سے محفوظ رہنا چاہیں تو وہ آنسوؤں ہی کا سہارا لیتے ہیں۔ جب بھی کوئی تگڑا چوہا ان پہ حملہ کرے، وہ آنسو بہا کر اس موذی کا دل پسیج دیتے اور یوں اس کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں۔
ڈیوک یونیورسٹی کے محقق، پروفیسر نوم سوبل اور اُن کے ساتھیوں کو یقین تھا کہ انسانی آنسوؤں میں بھی ایسے کیمیکل موجود ہوں گے جو دوسروں میں جارحیت کم کر کے انھیں اعتدال کی حالت میں لے آئیں۔ انہی کیمیائی مادوں کو تلاش کرنے کے لیے انھوں نے ایک تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ٹیم نے سب سے پہلے رضاکار خواتین کو ایسی جذبات انگیز فلمیں اور ڈرامے دکھائے جنھیں دیکھ کر وہ جذباتی آنسو بہانے لگیں۔ یہ آنسو ٹیم نے محفوظ کر لیے۔
خواتین کے آنسو اس لیے جمع کیے گئے کہ 2011 ء میں مشہور سائنسی رسالے، سائنس میں امریکا میں ہوئی ایک تحقیق کے نتائج شائع ہوئے تھے۔ اس تحقیق نے افشا کیا تھا کہ جب خواتین کے آنسو مردوں کو سونگھائے گئے تو ان میں ٹیسٹوسٹیرون کی پیداوار کم ہو گئی۔ یہی ہارمون مردوں کو برانگیختہ کرتا ہے۔ ہارمون کی مقدار کم ہونے سے ان میں جوش بھی ماند پڑ گیا۔
اب مردوں میں تجربے کی باری آئی۔ ان کے دو گروہ بنا کر انھیں دو سیال سونگھائے گئے...ایک سیال مادہ تو نمکین پانی پہ مشتمل تھا۔اور دوسرا سیال خواتین کے آنسوؤں والا تھا۔مرد ان سیالوں میں کوئی تمیز نہیں کر سکتے تھے کہ یہ بغیر بو کے ہوتے ہیں۔ ان مردوں کو پھر ایک ایسی کمپیوٹر گیم کھلائی گئی جس میں جیت کے لیے جوشیلے و جارحیت پسند کھیل کی ضرورت تھی۔
اس کھیل کے دوران ماہرین نے مردوں کے دماغوں میں ایسے خصوصی آلات فٹ کر دئیے جو ان کی دماغی سرگرمی نوٹ کر سکتے تھے۔اس انوکھے تجربے کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ جن مردوں نے خواتین کے جذباتی آنسو سونگھے تھے، ان میں جارحیت کا عنصر'' 44 فیصد ''یعنی تقریباً نصف حد تک کم ہو گیا۔جن مردوں نے نمکین پانی سونگھا تھا، ان کے جارحانہ روّیے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ انھی جارحانہ مزاج مردوں نے بیشتر مقابلے جیت لیے، تاہم ان کے مدمقابلوں نے شکست میں زیادہ پژمردگی محسوس نہیں کی۔ یقیناً یہ جذبہ بھی خواتین کے جذباتی آنسو سونگھنے کی وجہ سے پیدا ہوا۔
یہ انوکھا تجربہ اس لحاظ سے کامیاب رہا کہ سائنس داں جان گئے، انسان کے آنسوؤں میں بھی ایسے کیمیکل موجود ہیں جو انھیں سونگھنے والے انسانوں میں جارحانہ رویہّ کم کر دیتے ہیں۔ تجربے کی کامیابی سے سبھی ماہرین بہت خوش ہوئے کیونکہ انھوں نے انسانی آنسوؤں کا ایک اور فائدہ دریافت کر لیا تھا۔ مگر پھر انھیں ایک نئے مسئلے کا سامنا کرنا پڑا۔
سائنس داں جانتے ہیں کہ چوہوں کی ناک میں ایک عضو ہوتا ہے جسے ''ومیروناسل آرگن'' (vomeronasal organ) کہتے ہیں۔ چوہوں کے آنسوؤں میں موجود کیمیکل یہی عضو شناخت کر کے چوہے کے دماغ تک پہنچاتا ہے۔ انسانوں کی ناک میں یہ عضو موجود نہیں، تو پھر مردوں نے خواتین کے جذباتی آنسوکیونکر سونگھ کر اپنی جارحیت کم کر لی؟ماہرین کو یقین ہو گیا کہ انسانی ناک میں ضرورایسے شمعی آخذے (olfactory receptors) موجود ہوں گے جنھوں نے خواتین کے جذباتی آنسوؤں میں بستے کیمیائی مادے کیچ کر لیے۔
واضح رہے، ہماری جلد، آنکھوں، ناک، کانوںِ، زبان وغیرہ کے خلیوں میں یہ آخذے پائے جاتے ہیں جو پروٹینی مادے سے بنتے ہیں۔ انہی آخذوں کی مدد سے ہماری چھونے کی حس کام کرتی ہے۔ جب بھی کوئی مرئی یا غیر مرئی شے ان آخذوں سے ٹکرائے تو وہ برقی سگنلوں کی صورت اس کی معلومات دماغ کی طرف روانہ کر دیتے ہیں۔
ہماری ناک میں ایسے 62 شمعی آخذے پائے جاتے ہیں جو مختلف کام انجام دیتے ہیں۔ جب لیبارٹری میں ان آخذوں سے انسانی آنسو مس کیے گئے تو چار آخذے متحرک ہو گئے۔ گویا اس تجربے نے افشا کر دیا کہ انسانی ناک میں چار ایسے آخذے ملتے ہیں جو انسانی آنسوؤں کے کیمیکل پکڑ کر ان کی معلومات دماغ تک پہنچاتے ہیں۔ اب تحقیق کا اگلا مرحلہ یہ راز جاننا تھا کہ دماغ کے کون سے حصے اس معلومات کو برتتے یعنی پروسیس کرتے ہیں۔
قبل ازیں بتایا گیا کہ کمپیوٹری گیم کھیلنے کے دوران مردوں کے دماغ میں خصوصی آلات لگا دئیے گئے تھے۔ مدعا یہ تھا کہ ان کی دماغی سرگرمی نوٹ کی جا سکے۔ اب یہی سرگرمی اگلے مرحلے کا راز حل کرنے میں کام آئی۔
ماہرین نے جب اس سرگرمی کا مطالعہ کیا تو ایک عجب انکشاف ہوا۔ وہ یہ کہ جن مردوں نے خواتین کے جذباتی آنسو سونگھے تھے، ان کے دماغ میں دو حصوں''پریفرنٹل کورٹیکس (prefrontal cortex) اور ''انٹیرئر انسولا'' (anterior insula) میں سرگرمیاں سست پڑ گئیں ... اور یہ دونوں حصّے انسان میں جارحیت کو جنم دیتے اور اسے بڑھاتے ہیں۔ یوں انسانی آنسوؤں سے متعلق آخری عقدہ بھی حل ہو گیا۔
دوران تجربہ محققین نے تقریباً 1.5 ملی لیٹر آنسو فی مرد استعمال کیے۔ پورے مطالعے میں 160 ملی لیٹر سے زیادہ جذباتی آنسو درکار تھے۔ انہیں چھ بیس سالہ خواتین رضاکاروں سے تقریباً 125 سیشنوں کے دوران جمع کیا گیا۔یہ خواتین آسانی سے رونے کی صلاحیت کے باعث منتخب ہوئی تھیں۔
پروفیسر نوم سوبل کہتے ہیں: ''ہم نے اپنے تجربات سے دنیا والوں کو دکھایا ہے کہ خواتین اور مردوں و بچوںکے آنسو بھی دوسرے انسانوں میں جارحیت کم کرنے والے کیمیکل رکھتے ہیں۔ حتی کہ یہ دماغی سرکٹ بھی تبدیل کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔ یہ نتائج بتاتے ہیں کہ آنسو ایک کیمیائی ڈھال ہے جو جارحیت کے خلاف انسان و حیوان کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یہ اثر چوہوں، انسانوں اور شاید دوسرے ممالیہ میں عام ہے۔ درحقیقت حالیہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ کتے بھی جذباتی آنسو بہاتے ہیں۔ تاہم اس بات کا تعین کرنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ آیا ان آنسوؤں میں بھی کیمیائی اشارے پوشیدہ ہوتے ہیں جنہیں دوسرے کتے یا انسان جان لیں۔''
انسانی آنسو کی تین اقسام
(1) باسل آنسو(Basal tears )...یہ آنسو ہماری آنکھوں کے قرنیے کو مسلسل نم رکھتے ہیں تاکہ وہ اپنے کام بخیروخوبی انجام دیتا رہے۔ یہ آنکھوں کو مٹی، گرد اور دیگر بیرونی اشیا سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ یہ جراثیم مارنے والے کیمیائی مادے بھی رکھتے ہیں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ باسل آنسوئوں کی پیدائش کم ہو جاتی ہے۔
(2) ریفلیکس آنسو(Reflex tears)...جب آنکھوں میں کوئی بیرونی شے یا کیمیائی مادے داخل ہو جائیں تو انھیں نکال باہر کرنے کی خاطر آنکھیں ریفلیکس آنسو خارج کرتی ہیں۔ جب ہم پیاز کاٹتے ہیں تو یہی آنسو نکلتے ہیں تاکہ آنکھوں کو محفوظ رکھ سکیں۔آنسو گیس، کھانسی، چھینک، قے آنے،چمک دار روشنی دیکھنے،مرچیں کھانے وغیرہ کے ردعمل سے بھی یہی آنسو نکلتے ہیں۔
(3)جذباتی آنسو (Emotional tears ) ... یہ وہ آنسو ہیں جو انسان رونے کے دوران بہاتا ہے۔ تاہم ہنسی یا قہقہے کی حالت میں بھی یہ آنسو نکل سکتے ہیں۔ یہ آنسو غم، خوشی، صدمہ، لطف، غصّے، جسمانی یا ذہنی تکلیف جیسے متناقص انسانی جذبوں اور رویّوں سے وابستہ ہیں۔ بعض جانور بھی یہ آنسو بہا سکتے ہیں۔