انتخابات اور جمہوریت کا فروغ

کسی بھی ریاست پر کاری ضرب لگانے کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ اس ملک کی فوج کو کمزور کیا جائے

کسی بھی ریاست پر کاری ضرب لگانے کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ اس ملک کی فوج کو کمزور کیا جائے—فوٹو: فائل

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، ان خیالات کا اظہار انھوں نے 262 ویں کور کمانڈر کانفرنس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔

کانفرنس کے شرکاء نے عزم کیا کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے دشمن قوتوں کے اشارے پر کام کرنے والے تمام دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والے عناصر کے خلاف ریاست مکمل طاقت کے ساتھ نمٹے گی۔

سیاسی لیڈروں کی جانب سے اہم مواقعے پر دیے گئے بیانات اور کی جانے والی تقاریر کی سب سے بڑی کمزوری یہی ہوتی ہے کہ یہ جذباتی بیانیہ پر استوار ہوتی ہیں اور دلیل و حجت کے ساتھ نقطہ نظر واضح کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ البتہ پاکستان سمیت کسی بھی ملک و قوم کو آگے بڑھنے کے لیے اپنے وجود کا جواز فراہم کرنے کے علاوہ اس کے استحکام و مضبوطی کے لیے مسلسل کام کرتے رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ عوام کو ایک ایسی جمہوریت چاہیے جس میں قانون سب کے لیے برابر ہو، عوام کو جمہوریت بھی چاہیے۔ بلاشبہ فوج ہر وہ کام کرے گی جو آئین و قانون کے دائرے کے اندر ہے اور آئین اور قانون سے بالاتر کوئی کام نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان میں جمہوریت کو فوج سے کوئی خطرہ نہیں اور اگر کوئی خطرہ ہوا تو وہ جمہوریت کے تقاضے پورے نہ کرنے سے ہوگا۔

جہاں تک افواج پاکستان کی جانب سے انتخابات کے دوران الیکشن کمیشن کے ساتھ تعاون کا تعلق ہے یہ کوئی نئی بات نہیں۔ مسلح افواج ماضی میں بھی متعدد ایسے مواقع پر الیکشن کمیشن کے ساتھ بھر پور تعاون کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کی درخواست پر اپنی آئینی و قانونی ذمے داریاں نبھاتی رہی ہیں۔

اب کی بار بھی اصولی طور پر کور کمانڈرز کانفرنس میں اگر یہ تعاون جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تو یقیناً یہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہے، کیونکہ پاکستان ان چند ملکوں میں سے ایک ہے جہاں عام انتخابات کو کسی نہ کسی طور متنازعہ بنایا جاتا ہے۔

حالانکہ اس کا واحد حل یہی ہوسکتا ہے کہ الیکشن کمیشن کو وہ تمام اختیارات دینے پر اتفاق کیا جائے جو دوسرے ملکوں میں رائج ہیں اور وہاں حکومتوں کے ہوتے ہوئے بھی کسی کو ایک بااختیار الیکشن کمیشن کی موجودگی میں ہونے والے انتخابات پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا اور نہ سیاسی جماعتوں کی قیادت الیکشن کمیشن پر سوال اٹھاتی ہے۔

ملکی دفاع پر گہری نظر رکھنا بھی افواج پاکستان کی ذمے داری ہے اور جیسا کہ آرمی چیف نے کہا ہے کہ ہماری بہادر افواج اپنے اس بنیادی کردار سے کسی بھی طور نہ غافل ہیں نہ ہی وہ ملکی سلامتی پر کسی بھی سمت سے کیے جانے والے حملوں پر آنکھیں بند کر سکتی ہیں۔ قوم کا بھی فرض ہے کہ وہ افواج پاکستان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے کہ یہ ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہے۔

پاکستان میں چند گروہی مفادات کی حامل قوتیں فوج اور قوم کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی دانستہ کوشش کررہی ہیں۔ دنیا کا اصول ہے کہ طاقت کو صرف طاقت ہی روکتی ہے، جن ملکوں کے پاس مضبوط فوج اور جدید دفاعی نظام نہیں ہوتے، ان کا حال عراق، شام، مصر، لیبیا، کویت، یمن، لبنان، صومالیہ، فلسطین اور افغانستان جیسا ہی ہوتا ہے۔

ان حالات میں فوجی قیادت نے ملک کے داخلی اور خارجی امور، امن وامان کی بحالی اور معاشی حالات کی بہتری کے لیے دہشت گردی، انتہا پسندی سمیت تمام دشمن قوتوں کے ایجنٹوں کو ختم کرنے کے لیے بھرپور کام کیا۔

ضرورت ہے کہ سیاسی اور انتظامی قوتیں اداروں کو مضبوط بنائیں، مضبوط ادارے، ترقی اور وطن کی خوشحالی، امن کے لیے مضبوط دفاع ناگزیر ہے۔ اس وقت دنیا کے کئی ممالک کے درمیان تناؤ کی کیفیت بڑھ رہی ہے، روایتی ہتھیاروں کے ساتھ نیوکلیائی ہتھیاروں کا آپشن بھی موجود ہے۔

پاکستان آرمی دنیا کی چھٹی بڑی اور مضبوط ترین فوج ہے، تاریخی حقائق سے ثابت ہے کہ اگر دنیا میں عزت، وقار اور آزادی سے جینا ہے تو آپ کے پاس ایک مضبوط عسکری قوت کا ہونا لازم ہے جو آپ کو اندرونی و بیرونی خطرات سے محفوظ رکھے۔


وطن عزیز کو قائد اعظمؒ کے بعد کوئی مخلص اور بے لوث، محب وطن قیادت نصیب نہ ہوسکی، سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ اپنے مفادات اور موروثی سیاست کو ترجیح دی ہے اور پھر اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے عوام کے اندر اپنی فوج کے بارے میں منفی پراپیگنڈا مہم چلائی ہے۔

کسی بھی ریاست پر کاری ضرب لگانے کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ اس ملک کی فوج کو کمزور کیا جائے، عوام کو رنگ، نسل، زبان اور فرقے کی بنیاد پر تقسیم کرکے خانہ جنگی کی راہ ہموار کی جائے۔

وطن عزیز میں قدرتی آفات سے لے کر دشمنوں کی گولیوں کے سامنے افواج پاک سینہ سپر رہتی ہے، دہشت گرد ی کے خاتمے اور امن بحالی سمیت کورونا وباء میں افواج پاکستان نے ہمیشہ اہم اور کلیدی کردار ادا کیا ہے، جو نہ صرف پاکستان کی جغرافیائی بلکہ نظریاتی سرحدوں کی بھی محافظ ہے۔

خطے میں قیام امن کے لیے افواج پاکستان اور عوام نے دہشت گردی کے خلاف جو جنگ لڑی ہے بلاشبہ وہ خطے کی سب سے بڑی جنگ تھی جس میں دھرتی کے سپوتوں نے اپنی جانوں کے نذرانے دیے ہیں۔

اس جنگ میں ہم نے مجموعی طور پر نوے ہزار پاکستانی خون کی قربانیاں دی ہیں۔ کومبنگ آپریشن کر کے ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر کی ہے۔ تاحال سیکڑوں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے جاچکے ہیں۔ کراچی میں دہشت گردی، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں % 90 تک کمی واقع ہوئی ہے۔ پاک فوج نے قومی مردم شماری، خانہ شماری کے عمل میں 2 لاکھ جوانوں کے ذریعے اس کام میں حصہ لیا۔

ملکی دفاع کے ساتھ ساتھ پاک فوج بدامنی سے دوچار خطوں میں بھی امن و امان کی بحالی کے لیے پیش پیش رہتی ہے۔ اقوام متحدہ کے امن مشن کے لیے دستے فراہم کرنے والی افواج میں پاکستانی فوج کا دنیا بھر میں تیسرا نمبر ہے، جب کہ بہترین کارکردگی کی بنا پر پاکستانی فوج نے اقوام متحدہ کے سب سے زیادہ میڈلز حاصل کیے ہیں۔ پاک فوج افرادی قوت کے لحاظ سے بھی دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے جس کی وجہ سے پاک فوج کی ضروریات بھی زیادہ ہیں۔

پاک فوج کے دفاعی بجٹ کو پورا کرنا اس کے وقار اور مقام کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ پاک فوج محدود وسائل کے باوجود اپنی کارکردگی میں اتنی آگے ہے کہ نہ صرف اہل پاکستان بلکہ پوری دنیا اس پر فخر کرتی ہے۔جس دلیری سے ہماری افواج نے دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی جنگ لڑی اس کی مثال دنیا میں ملنا ناممکن ہے۔

پاک فوج کی کاوشوں اور قربانیوں کی بدولت دہشت گردی، انتہا پرستی اور شدت پسندی کا قلع قمع ہو رہا ہے اور حالات تیزی سے بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔ ہمارے آرام و سکون کے لیے اپنی نیندیں قربان کر نے والے بہادر سپاہی بلاشبہ قابل فخر ہیں۔ ہماری طویل ترین اور دشوار گزار نظریاتی سرحدوں کی بلا خوف و خطر حفاظت کرنے والے بری، بحری اور فضائی افواج کے جوان ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں۔

قدرتی آفات سے نمٹنے اور متاثرین کی مدد کرنے میں پاک فوج ہمیشہ سے پیش پیش رہی ہے۔ صحت، تعلیم، شاہرات بنانے اور دیگر شعبہ جات میں بھی پاک فوج کی گراں قدر خدمات کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ قومی اثاثوں کی حفاظت، امن و امان، مردم شماری اور انتخابات وغیرہ پاک فوج کی شمولیت اور بے لوث مدد کے بغیر ناممکن ہے۔ بلاشبہ کرپشن اور دہشت گردی کے شکنجے میں جکڑے وطن عزیز میں امید کی واحد کرن پاک فوج ہی ہے۔

ملک میں امن کے قیام اور اسے دہشت گردی سے پاک ملک بنانے کے لیے ہمیشہ پاک فوج نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ حکمرانوں کی غلط خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کی بدولت فوج کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت سی مشکلات اور رکاوٹوں کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن پاک فوج کے ہزاروں جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے ان تمام تر مشکلات کے باوجود ثابت قدمی اور قومی جذبے سے وطن عزیز کی حفاظت میں جو لازوال قربانیاں دیں ان کی بدولت آج پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں ممکنہ حد تک کمی واقع ہوئی ہے ان دہشت گردی کی کارروائیوں میں پاکستان کے ہزاروں معصوم شہری جان سے گئے اور لاکھوں افراد اس سے متاثر ہوئے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردوں نے پاکستان کے داخلی اور خارجی امن کو تہہ و بالا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا، مگر ہر بار افواج ِ پاکستان کے آہنی عزم، ثابت قدمی اور جرات کے سامنے وہ چاروں شانے چت ہوتے گئے۔

پاکستانی نوجوان جو ہماری آبادی کا 65 فیصد ہیں، نوجوان قومی سلامتی کے اس ابھرتے ہوئے چیلنج سے نبرد آزما ہونے میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں اور اس چیلنج پر اسی وقت قابو پایا جا سکتا ہے جب نوجوان دشمنوں کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈے کو مسترد کر کے ریاست کی طرف سے فراہم کردہ مستند معلومات پر انحصار کریں۔

ملکی سلامتی کا انحصار مسلح افواج کی بہادری، جذبہ حب الوطنی اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ساتھ قومی یکجہتی اور آئینی و جمہوری نظام کی مضبوطی میں ہے۔ ضرورت ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کو یکسر فراموش کرکے ملکی و قومی سالمیت کے لیے اکٹھے ہو جائیں۔
Load Next Story