احوال و آثار
کہیں یہ شعورکی رو کے زمرے میں آتے ہیں اور کہیں بیانیہ انداز قاری کی دلچسپی کو بڑھاتا ہے
آج کل کتب بینی کا رجحان بہت کم ہوگیا ہے اور مہنگائی کے طوفان نے کتاب چھاپنا بھی مشکل بنا دیا ہے لیکن پھر بھی کتاب سے محبت کرنے والے اب بھی اپنے جنون کی اور شوق کی تسکین کے لیے کتابیں شایع کر رہے ہیں۔
ان میں مبین مرزا کا نام بھی سرفہرست ہے، وہ ایک کامیاب ادیب اور مدیر ہیں۔ ان کا ادارہ '' بازیافت'' ایک بڑا ادارہ ہے جو اچھی کتابیں شایع کرنے میں اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ مبین مرزا ایک بہت اچھے کہانی کار ہیں، حال ہی میں ان کا افسانوی مجموعہ '' احوال و آثار'' سامنے آیا ہے جو اس وقت میرے زیر مطالعہ ہے۔
احوال و آثار میں کل بارہ افسانے شامل ہیں۔ بے دیارم، آدمی اور شہر، زنجیری، ایک اور پھانس، منجمد لمحہ، وقت اور لوگ، جنگ دغل، سکات، چوہا اور آدمی، یار دل دار، نشان دار، شام کی دہلیز پر۔ یہ تمام افسانے قاری کو کچھ نہ کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ افسانے عام ڈگر سے مختلف ہیں، کہیں یہ شعورکی رو کے زمرے میں آتے ہیں اور کہیں بیانیہ انداز قاری کی دلچسپی کو بڑھاتا ہے۔
یوں تو تمام افسانے ہی سوچ کی کوئی نہ کوئی گرہ کھولتے ہیں۔ کوئی مسئلہ سامنے لاتے ہیں، لیکن پہلا افسانہ ''بے دیارم'' نوسٹلجیا کا شاہکار ہے، اس کے مرکزی کردار افتخار کو جو گزشتہ چالیس سال سے کراچی میں رہ رہا ہے، اس کا نام ہے، پیسہ ہے، جوان بچے اچھی نوکریاں کر رہے ہیں، بیٹی کی شادی ہو چکی ہے۔
ہر طرح سے ایک آسودہ اور مطمئن زندگی گزارنے کے باوجود اچانک اس کے اندر اپنی جنم بھومی ملتان انگڑائیاں لینے لگتی ہے، اس کا رُواں رُواں ملتان کے لیے مچلتا ہے، جہاں اس نے جنم لیا، بچپن، لڑکپن گزارا، کالج کا زمانہ گزارا۔ چالیس سال پہلے اپنی آنکھوں میں زندگی سے کچھ کشید کرنے کے خواب سجائے وہ کراچی آتا ہے، لیکن سب کچھ حاصل ہونے کے باوجود، اچانک ملتان اس کے اندر جاگ اٹھتا ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے خاموش پڑا تھا۔
وہ اپنے اصل کی تلاش میں بیوی بچوں کو چھوڑ ملتان کے لیے نکل پڑتا ہے، لیکن اسے اپنی جنم بھومی کہیں نہیں ملتی، سب کچھ بدل چکا ہوتا ہے، نہ وہ نہاری کا ہوٹل ہے، نہ گھنٹہ گھرکا علاقہ، وہ ہر جگہ اپنے بچپن کی یادوں میں بسے شہر کو کھوجتا ہے، لیکن وہ کہیں نہیں ملتا۔
تب وہ مایوس ہو کر شاہ رکن عالم کے مزار پہ پہنچتا ہے تو وہاں کچھ بھی بدلا ہوا نہیں ہوتا۔ بس پورے شہر میں یہی ایک جگہ ہوتی ہے جہاں ٹھہراؤ ہوتا ہے، لوگ دبے پاؤں آہستہ آہستہ مزار تک آتے ہیں، اپنی ضرورتوں کے دھاگے باندھتے ہیں، دعائیں مانگتے ہیں، عقیدت کے پھول چڑھاتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں۔
ایک جگہ خود کلامی کی کیفیت میں کہتا ہے '' یہ شہر تو مجھ سے بیگانہ ہوگیا ہے، شہر بے سبب نہیں بدلتے۔ ان کے ساتھ نوچ کھسوٹ کی جاتی ہے، تہہ و بالا کیا جاتا ہے انھیں، تب ان کے اندر تبدیلی آتی ہے۔ اس شہر کے چالیس برس۔۔۔۔ ان برسوں کے شب و روز تمہارے سامنے ہیں، کیا نہیں کیا گیا اس شہر کے ساتھ۔'' یہ منظر بدلتا ہے، کردار اب ملتان میں ہے اور وہ شاہ رکن عالم کے مزار پہ ہے۔
'' قلعہ کہنہ قاسم باغ شاہ رکن عالم کے مزار پر چلا آیا۔ یہ واحد جگہ تھی جو مجھے اس وقت بھی ویسی ہی لگ رہی تھی، جیسی میں نے پہلے دیکھی تھی، وہی دلوں کی کیفیت کا اثر چہرے پر لیے آتے جاتے لوگ۔ شاید اس لیے بھی کہ اس جگہ دنیا کی افراتفری اور ٹریولنگ کا اثر آدمی پر سے زائل ہو جاتا ہے۔ یہاں کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا، میں نے خود سے کہا۔''
یہ افسانہ اس مجموعے کا سب سے پرتاثر افسانہ ہے جس میں مصنف نے جگہ جگہ خود کلامی سے بھی کام لیا ہے، جو بہت اچھا لگتا ہے۔'' جمال الدین صاحب پھر بولنے لگے۔ سچ کہوں میں آپ سے، بہت دن بعد میں کسی سے اس طرح باتیں کر رہا ہوں۔ یہاں تو اب کسی کو کسی کے پاس بیٹھنے کی یا دل ٹٹولنے کی فرصت ہی نہیں۔ بس اپنی اپنی میں لگے ہوئے ہیں سب کے سب، زندگی اور تنہائی کی کھیتی کاٹ رہے ہیں۔''
ایک اور افسانہ '' آدمی اور شہر'' سے اقتباس پڑھیے۔
'' ان برسوں میں یک بہ یک جو مذہبی لہر ملک کی اکثریت کو اپنی لپیٹ میں لیتی چلی گئی، بھائی شمو اس سے پریشان تھے۔ وہ کوئی مذہب مخالف آدمی نہیں تھے، خود نماز روزہ کرتے تھے، لیکن اس تبدیلی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ مذہب پہلے جتنا بھی تھا، وہ ہمارے خون میں تھا، لیکن اس زمانے میں وہ ہمارے اندر سے زیادہ ہمارے باہر رونما ہوا تھا۔ مذہب کی جگہ مذہب کا دکھاؤا عام ہو گیا تھا، اور اسے عام کیا تھا اقتدار نے۔''
ایک اور افسانہ ہے ''جنگ دغل'' اس افسانے میں مصنف نے ملک میں پیش آنے والے چند خوف ناک واقعات کو موضوع بنا کر ثابت کیا ہے کہ افسانے کا کینوس بھی بہت وسیع ہے اور اس میں کسی بھی سیاسی، سماجی، تہذیبی اور مذہبی واقعے کو موضوع بنایا جاسکتا ہے۔ مصنف نے ہائی وے پہ بے آبرو ہونے والی مظلوم عورت کو بھی موضوع بنایا ہے۔
چودہ اگست کو مینار پاکستان پہ ہونے والے بدترین واقعے کا بھی ذکرکیا ہے۔ اسلام آباد میں اپنے بوائے فرینڈ کے ہاتھوں قتل ہونے والی نور مقدم کا مقدمہ بھی پیش کیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی ان ہولناک واقعات کے پیش آنے والے اسباب و علل کا بھی ذکرکیا ہے اور ان عوامل کا بھی ذکر کیا ہے بلکہ تجزیہ کیا ہے جن کی وجہ سے یہ واقعات ظہور پذیر ہوئے۔ ایک جگہ ایک کردار یوں کہتا ہے '' ہائبرڈ وار، ففتھ جنریشن وار ایسی جنگ ہے جس میں کوئی دشمن باہر سے آ کر آپ پر حملہ نہیں کرتا، آپ کے اپنے ہی لوگ آپ پر حملہ کرتے ہیں۔''
'' شام کی دہلیز پر'' بھی ایک بہت دلکش افسانہ ہے، اس میں دادی کا کردار بڑا جان دار ہے۔ آپ پڑھتے چلے جائیے، افسانے کی جاذبیت اور دلکشی مسلسل قائم رہتی ہے۔
مناری خالہ جو دراصل منہیاری تھیں، ان کی بیٹی نرگس، راجہ بھائی، ففی بھابھی، سب کردار اپنی اپنی جگہ پرفیکٹ اور پھر خود کلامی کا بیانیہ انداز کے ساتھ ہی تجسس بھی اس افسانے کی جان ہے۔
نرگس کے گولی لگی تو کیا وہ بچ جائے گی، راجہ بھائی پہ کیا گزرے گی، ففی بھابھی کیوں گھر چھوڑ کر میکے جارہی تھیں، افسانے کا مرکزی کردار ایک نو عمر لڑکا ہے جو ساری صورت حال کو سمجھ رہا ہے لیکن وہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے کسی سے کچھ پوچھ نہیں سکتا، لیکن شفیق اور مخلص دادی کی باتیں اس کی رہنمائی کرتی ہیں۔
ایک جگہ دادی کہتی ہیں '' جنت کے ممنوعہ پھل سے لے کر اس دنیا کی ہلچل تک، آدمی کی زندگی میں جتنے بڑے بڑے موڑ آئے ہیں یا اس پر جو معرکے اور ماجرے گزرے ہیں، ان سب ہی کے پیچھے کسی نہ کسی عنوان میں عورت موجود رہی ہے۔''
افسانہ ''چوہا اور آدمی'' بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کردیتا ہے، یہ ایک بیانیہ افسانہ ہے۔ اس میں تجسس ہے قاری مسلسل آگے بڑھتا ہے۔ ایک جگہ اماں جی جو اس افسانے کا مرکزی کردار ہیں وہ کہتی ہیں ''عورت چاہے تو اپنے گھر کو خانۂ خدا کی طرح پاک رکھ سکتی ہے اور چاہے تو اسے چوہے کا بل بنا دے اور نجاست اور طاعون پھیلا دے۔''
'' نجیب کی بیوی جب بھابی سے صرف '' شمسہ'' بنی تو کیا ہوا۔ ''اچھا بھئی تم بڑی اور تمہاری محبت بڑی۔ بھئی ایک بات تو بتاؤ، تمہارے پورے چہرے پر تو کہیں ایک بھی تل نہیں، اور یہ کمر پر درجن بھر سے زیادہ؟''
''آپ نے صرف کمر کے تل دیکھے ہیں۔'' یہ کہہ کر وہ یوں کھلکھلائی کہ دہری ہو کر پھر برابر میں آ لیٹی۔''
''کتنی ہی باتیں تہہ در تہہ کھلتی چلی گئیں، تب نجیب اور شمسہ کے گھر میں، میں نے کسی نئے چوہے کی بُو محسوس کی۔ بس اس کے بعد ہمارے درمیان حالات بدل گئے، یک بہ یک اور مکمل طور پر۔
''احوال و آثار'' کے تمام افسانے پڑھنے والے پر ایک نئی جہت کھولتے ہیں اور قاری کو اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں، قاری ان افسانوں میں گم ہوکر رہ جاتا ہے۔
ان میں مبین مرزا کا نام بھی سرفہرست ہے، وہ ایک کامیاب ادیب اور مدیر ہیں۔ ان کا ادارہ '' بازیافت'' ایک بڑا ادارہ ہے جو اچھی کتابیں شایع کرنے میں اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ مبین مرزا ایک بہت اچھے کہانی کار ہیں، حال ہی میں ان کا افسانوی مجموعہ '' احوال و آثار'' سامنے آیا ہے جو اس وقت میرے زیر مطالعہ ہے۔
احوال و آثار میں کل بارہ افسانے شامل ہیں۔ بے دیارم، آدمی اور شہر، زنجیری، ایک اور پھانس، منجمد لمحہ، وقت اور لوگ، جنگ دغل، سکات، چوہا اور آدمی، یار دل دار، نشان دار، شام کی دہلیز پر۔ یہ تمام افسانے قاری کو کچھ نہ کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ افسانے عام ڈگر سے مختلف ہیں، کہیں یہ شعورکی رو کے زمرے میں آتے ہیں اور کہیں بیانیہ انداز قاری کی دلچسپی کو بڑھاتا ہے۔
یوں تو تمام افسانے ہی سوچ کی کوئی نہ کوئی گرہ کھولتے ہیں۔ کوئی مسئلہ سامنے لاتے ہیں، لیکن پہلا افسانہ ''بے دیارم'' نوسٹلجیا کا شاہکار ہے، اس کے مرکزی کردار افتخار کو جو گزشتہ چالیس سال سے کراچی میں رہ رہا ہے، اس کا نام ہے، پیسہ ہے، جوان بچے اچھی نوکریاں کر رہے ہیں، بیٹی کی شادی ہو چکی ہے۔
ہر طرح سے ایک آسودہ اور مطمئن زندگی گزارنے کے باوجود اچانک اس کے اندر اپنی جنم بھومی ملتان انگڑائیاں لینے لگتی ہے، اس کا رُواں رُواں ملتان کے لیے مچلتا ہے، جہاں اس نے جنم لیا، بچپن، لڑکپن گزارا، کالج کا زمانہ گزارا۔ چالیس سال پہلے اپنی آنکھوں میں زندگی سے کچھ کشید کرنے کے خواب سجائے وہ کراچی آتا ہے، لیکن سب کچھ حاصل ہونے کے باوجود، اچانک ملتان اس کے اندر جاگ اٹھتا ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے خاموش پڑا تھا۔
وہ اپنے اصل کی تلاش میں بیوی بچوں کو چھوڑ ملتان کے لیے نکل پڑتا ہے، لیکن اسے اپنی جنم بھومی کہیں نہیں ملتی، سب کچھ بدل چکا ہوتا ہے، نہ وہ نہاری کا ہوٹل ہے، نہ گھنٹہ گھرکا علاقہ، وہ ہر جگہ اپنے بچپن کی یادوں میں بسے شہر کو کھوجتا ہے، لیکن وہ کہیں نہیں ملتا۔
تب وہ مایوس ہو کر شاہ رکن عالم کے مزار پہ پہنچتا ہے تو وہاں کچھ بھی بدلا ہوا نہیں ہوتا۔ بس پورے شہر میں یہی ایک جگہ ہوتی ہے جہاں ٹھہراؤ ہوتا ہے، لوگ دبے پاؤں آہستہ آہستہ مزار تک آتے ہیں، اپنی ضرورتوں کے دھاگے باندھتے ہیں، دعائیں مانگتے ہیں، عقیدت کے پھول چڑھاتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں۔
ایک جگہ خود کلامی کی کیفیت میں کہتا ہے '' یہ شہر تو مجھ سے بیگانہ ہوگیا ہے، شہر بے سبب نہیں بدلتے۔ ان کے ساتھ نوچ کھسوٹ کی جاتی ہے، تہہ و بالا کیا جاتا ہے انھیں، تب ان کے اندر تبدیلی آتی ہے۔ اس شہر کے چالیس برس۔۔۔۔ ان برسوں کے شب و روز تمہارے سامنے ہیں، کیا نہیں کیا گیا اس شہر کے ساتھ۔'' یہ منظر بدلتا ہے، کردار اب ملتان میں ہے اور وہ شاہ رکن عالم کے مزار پہ ہے۔
'' قلعہ کہنہ قاسم باغ شاہ رکن عالم کے مزار پر چلا آیا۔ یہ واحد جگہ تھی جو مجھے اس وقت بھی ویسی ہی لگ رہی تھی، جیسی میں نے پہلے دیکھی تھی، وہی دلوں کی کیفیت کا اثر چہرے پر لیے آتے جاتے لوگ۔ شاید اس لیے بھی کہ اس جگہ دنیا کی افراتفری اور ٹریولنگ کا اثر آدمی پر سے زائل ہو جاتا ہے۔ یہاں کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا، میں نے خود سے کہا۔''
یہ افسانہ اس مجموعے کا سب سے پرتاثر افسانہ ہے جس میں مصنف نے جگہ جگہ خود کلامی سے بھی کام لیا ہے، جو بہت اچھا لگتا ہے۔'' جمال الدین صاحب پھر بولنے لگے۔ سچ کہوں میں آپ سے، بہت دن بعد میں کسی سے اس طرح باتیں کر رہا ہوں۔ یہاں تو اب کسی کو کسی کے پاس بیٹھنے کی یا دل ٹٹولنے کی فرصت ہی نہیں۔ بس اپنی اپنی میں لگے ہوئے ہیں سب کے سب، زندگی اور تنہائی کی کھیتی کاٹ رہے ہیں۔''
ایک اور افسانہ '' آدمی اور شہر'' سے اقتباس پڑھیے۔
'' ان برسوں میں یک بہ یک جو مذہبی لہر ملک کی اکثریت کو اپنی لپیٹ میں لیتی چلی گئی، بھائی شمو اس سے پریشان تھے۔ وہ کوئی مذہب مخالف آدمی نہیں تھے، خود نماز روزہ کرتے تھے، لیکن اس تبدیلی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ مذہب پہلے جتنا بھی تھا، وہ ہمارے خون میں تھا، لیکن اس زمانے میں وہ ہمارے اندر سے زیادہ ہمارے باہر رونما ہوا تھا۔ مذہب کی جگہ مذہب کا دکھاؤا عام ہو گیا تھا، اور اسے عام کیا تھا اقتدار نے۔''
ایک اور افسانہ ہے ''جنگ دغل'' اس افسانے میں مصنف نے ملک میں پیش آنے والے چند خوف ناک واقعات کو موضوع بنا کر ثابت کیا ہے کہ افسانے کا کینوس بھی بہت وسیع ہے اور اس میں کسی بھی سیاسی، سماجی، تہذیبی اور مذہبی واقعے کو موضوع بنایا جاسکتا ہے۔ مصنف نے ہائی وے پہ بے آبرو ہونے والی مظلوم عورت کو بھی موضوع بنایا ہے۔
چودہ اگست کو مینار پاکستان پہ ہونے والے بدترین واقعے کا بھی ذکرکیا ہے۔ اسلام آباد میں اپنے بوائے فرینڈ کے ہاتھوں قتل ہونے والی نور مقدم کا مقدمہ بھی پیش کیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی ان ہولناک واقعات کے پیش آنے والے اسباب و علل کا بھی ذکرکیا ہے اور ان عوامل کا بھی ذکر کیا ہے بلکہ تجزیہ کیا ہے جن کی وجہ سے یہ واقعات ظہور پذیر ہوئے۔ ایک جگہ ایک کردار یوں کہتا ہے '' ہائبرڈ وار، ففتھ جنریشن وار ایسی جنگ ہے جس میں کوئی دشمن باہر سے آ کر آپ پر حملہ نہیں کرتا، آپ کے اپنے ہی لوگ آپ پر حملہ کرتے ہیں۔''
'' شام کی دہلیز پر'' بھی ایک بہت دلکش افسانہ ہے، اس میں دادی کا کردار بڑا جان دار ہے۔ آپ پڑھتے چلے جائیے، افسانے کی جاذبیت اور دلکشی مسلسل قائم رہتی ہے۔
مناری خالہ جو دراصل منہیاری تھیں، ان کی بیٹی نرگس، راجہ بھائی، ففی بھابھی، سب کردار اپنی اپنی جگہ پرفیکٹ اور پھر خود کلامی کا بیانیہ انداز کے ساتھ ہی تجسس بھی اس افسانے کی جان ہے۔
نرگس کے گولی لگی تو کیا وہ بچ جائے گی، راجہ بھائی پہ کیا گزرے گی، ففی بھابھی کیوں گھر چھوڑ کر میکے جارہی تھیں، افسانے کا مرکزی کردار ایک نو عمر لڑکا ہے جو ساری صورت حال کو سمجھ رہا ہے لیکن وہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے کسی سے کچھ پوچھ نہیں سکتا، لیکن شفیق اور مخلص دادی کی باتیں اس کی رہنمائی کرتی ہیں۔
ایک جگہ دادی کہتی ہیں '' جنت کے ممنوعہ پھل سے لے کر اس دنیا کی ہلچل تک، آدمی کی زندگی میں جتنے بڑے بڑے موڑ آئے ہیں یا اس پر جو معرکے اور ماجرے گزرے ہیں، ان سب ہی کے پیچھے کسی نہ کسی عنوان میں عورت موجود رہی ہے۔''
افسانہ ''چوہا اور آدمی'' بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کردیتا ہے، یہ ایک بیانیہ افسانہ ہے۔ اس میں تجسس ہے قاری مسلسل آگے بڑھتا ہے۔ ایک جگہ اماں جی جو اس افسانے کا مرکزی کردار ہیں وہ کہتی ہیں ''عورت چاہے تو اپنے گھر کو خانۂ خدا کی طرح پاک رکھ سکتی ہے اور چاہے تو اسے چوہے کا بل بنا دے اور نجاست اور طاعون پھیلا دے۔''
'' نجیب کی بیوی جب بھابی سے صرف '' شمسہ'' بنی تو کیا ہوا۔ ''اچھا بھئی تم بڑی اور تمہاری محبت بڑی۔ بھئی ایک بات تو بتاؤ، تمہارے پورے چہرے پر تو کہیں ایک بھی تل نہیں، اور یہ کمر پر درجن بھر سے زیادہ؟''
''آپ نے صرف کمر کے تل دیکھے ہیں۔'' یہ کہہ کر وہ یوں کھلکھلائی کہ دہری ہو کر پھر برابر میں آ لیٹی۔''
''کتنی ہی باتیں تہہ در تہہ کھلتی چلی گئیں، تب نجیب اور شمسہ کے گھر میں، میں نے کسی نئے چوہے کی بُو محسوس کی۔ بس اس کے بعد ہمارے درمیان حالات بدل گئے، یک بہ یک اور مکمل طور پر۔
''احوال و آثار'' کے تمام افسانے پڑھنے والے پر ایک نئی جہت کھولتے ہیں اور قاری کو اپنے ساتھ لیے پھرتے ہیں، قاری ان افسانوں میں گم ہوکر رہ جاتا ہے۔