خاموشی میں عافیت
فرانس جیسے اعلیٰ تہذیب کی علامت مانے جانیوالے ممالک بھی ان دنوں نسل پرست انتہا پسندوں کے قبضے میں جاتے محسوس ہورہے ہیں
ہمہ وقت غصے اور ہیجان میں مبتلا ہم لوگ کسی فرد کے بنیادی حقوق کا احساس ہی نہیں رکھتے۔ بدقسمتی سے ہمارے 24/7والوں نے ہمارے دلوں میں اپنے مخالفین کے لیے بھڑکنے والی آگ کو اپنی چیخ وپکار سے مزید ہوا دینے کی عادت بھی اپنا لی ہے۔ رات دن کے اس سیاپے نے ملزم اور مجرم کے درمیان موجود ایک باریک مگر بہت ہی اہم فرق کو ہمارے ذہنوں سے بالکل مٹاکر رکھ دیا ہے۔
میں ذاتی طور پر لسانی، نسلی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر سیاست کرنا سخت ناپسند کرتا ہوں۔ میری یہ سوچ مگر صرف ایک فرد کی سوچ ہے۔ پاکستان بے تحاشہ مسائل میں گھرا ایک نسبتاً نوزائیدہ ملک ہے۔ برطانیہ مگر جمہوریت کی ماں سمجھا جاتا ہے اور اس کے شہر لندن میں قائم ہائیڈ پارک اس بات کی بھرپور علامت کہ وہاں کا معاشرہ ''سو پھولوں کو اپنی بہار'' دکھانے والے عمل کو پورے خلوص سے سراہتا ہے۔ حال ہی میں لیکن اس ملک کے شہریوں نے یورپی پارلیمان کے لیے اپنے رکن منتخب کیے ہیں۔
انتخابی عمل کے دوران UKIPنام کی جماعت نے حیران کن کامیابیاں حاصل کیں۔ یہ جماعت برطانوی نسل پرستوں کے بدترین تعصبات کا بڑے جارحانہ انداز میں اظہار کیا کرتی ہے۔ مسئلہ صرف برطانیہ تک ہی محدود نہیں۔ فرانس جیسے اعلیٰ تہذیب کی علامت مانے جانے والے ممالک بھی ان دنوں نسل پرست انتہاء پسندوں کے قبضے میں جاتے محسوس ہو رہے ہیں۔ یونان میں نوجوانوں کی ایسی کئی تنظیمیں وجود میں آچکی ہیں جو فسطائی غنڈوں کے انداز میں وہاں مقیم غیر ملکیوں کے جان ومال کو بڑی وحشت سے اپنا نشانہ بنائے رکھتے ہیں۔
1980کے وسط میں ایم کیو ایم حیران کن طورپر ہمارے سیاسی منظر نامے پر اُبھری تو اس کی بنیاد اُردو بولنے والے مہاجرین کے دلوں میں کئی برسوں سے پلنے والی بیگانگی اور کئی حوالوں سے جائز یا ناجائز شکایات تھیں۔ میں ان صحافیوں میں شمار ہوتا ہوں جنہوں نے ان جذبات کو کھلے ذہن کے ساتھ سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ موقعہ ملتے ہی ایم کیو ایم کے اندازِ سیاست پر کبھی کھل کر اور کبھی ملفوف انداز میں تنقیدی فقرے لکھ ڈالتا۔ اپنے اس رویے کی وجہ سے ایم کیو ایم کے رہنمائوں کے ساتھ معمول کے وہ تعلقات بھی نہ بنا پایا جو ایک صحافی کو اپنے پیشہ وارانہ فرائض کو پوری طرح ادا کرنے کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔
میرے ذاتی رویے کو ذہن میں رکھیے تو منگل کی دوپہر لندن سے جو ''بریکنگ نیوز'' آئی اسے اچک کر مجھے ''میں نہ کہتا تھا'' والے دعوے کرنا شروع ہوجانا چاہیے تھا۔ میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا۔ لندن کی ''بریکنگ نیوز'' کی ہمارے 24/7چینل والوں نے جوTreatment کی اس کا بلکہ بڑے ٹھنڈے انداز میں برطانوی پولیس اور وہاں کے ذرایع ابلاغ کے رویے سے تقابل کرتا رہا۔ چند گھنٹوں کی اس مشق کے ذریعے سب سے زیادہ اہم بات جو میں نے ازسر نو بڑی صراحت کے ساتھ دریافت کی یہ حقیقت تھی کہ مہذب معاشروں میں کوئی ملزم اس وقت تک ملزم ہی رہتا ہے جب تک اس پر لگائے گئے الزامات کو پہلے طویل اور جاں گسل تحقیق وتفتیش اور بعدازاں عدالتوں کے سامنے ثابت نہ کیا جائے۔ دوسری اہم بات یہ بھی ہے ملزم کو مجرم ثابت کرنے کی قطعی ذمے داری الزام لگانے والوں پر عائد ہوتی ہے۔
یہ ''اعزاز'' صرف ہمیں حاصل ہوا ہے کہ کسی معروف شخص، خاص طور پر اگر وہ ایک کامیاب سیاستدان بھی ہو پر جو چاہیے الزام لگاکر اسے ''چورلٹیرا''کہنا شروع ہوجائیں۔ افتخار چوہدری کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر بحالی کے بعد پورے دو سال تک ہم سوئس بینکوں میں مبینہ طورپر چھپائے لاکھوں یا کروڑوں ڈالروں کو 'قومی خزانے'' میں واپس لانے کی کوششوں میں مصروف رہے۔ یہ رقم واپس لانے کے لیے حکومتِ پاکستان کو ایک چٹھی لکھنا تھی۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے صدارتی استثنیٰ کے حوالے دیتے ہوئے یہ چٹھی لکھنے سے بچنا چاہا۔ تاریخ پر تاریخ پڑتی رہی۔ بالآخر فیصلہ آیا اور پارلیمان میں قطعی اکثریت رکھنے کے باوجود وزیر اعظم کو فارغ کردیا گیا۔ گیلانی کے بعد راجہ پرویز اشرف آئے۔
انھوں نے وہ چٹھی لکھ کر اپنی نوکری بچائی۔ اب آصف علی زرداری اس ملک کے صدر بھی نہیں رہے۔ مگر دو سالوں تک سرخی پائوڈر لگاکر ایئرکنڈیشنڈ اسٹوڈیوز میں بیٹھے ''قومی خزانے'' کے بارے میں فکر مند اینکروں کو اب مبینہ طورپر سوئس بینکوں میں رکھے وہ لاکھوں کروڑوں ڈالر بھول گئے ہیں۔ خلقتِ شہر کو ہر شام سننے کو ایک نیا فسانہ چاہیے ہوتا ہے۔ ہم نئے افسانے گھڑتے رہتے ہیں۔ جن کا نشانہ بظاہر نامور اور طاقتور افراد ہوتے ہیں۔ ہم ان کی ذات پر کیچڑ اچھال کر خود کو باغی، انقلابی اور حق پرست وغیرہ ثابت کرتے رہتے ہیں۔ اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی کبھی زحمت ہی نہیں فرماتے۔ دُکھ مگر اس بات کا بھی ہے کہ دوسروں کے منہ پر کالک ملنے والا دھندا چلتا بھی خوب ہے۔ Ratings یہی دلواتا ہے۔
خلقِ خدا کے دلوں میں پکتے غصے اور ہیجان کو پارسا جذبات کے ذریعے بھڑکانا کوئی ہم سے سیکھے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ منگل کی دوپہر لندن سے آئی ''بریکنگ نیوز''اب آنے والے کئی دنوں تک ہماری اسکرینوں پر بڑی رونق لگائے گی۔ یہ رونق بالآخر کیا گل کھلائے گی اس کے بارے میں کوئی نہیں سوچے گا۔ میری اپنی عافیت اسی میں ہے کہ خاموشی سے ایک کونے میں دبک کر بیٹھ جائوں۔ آپ کو پورا حق ہے کہ میری خاموشی کو بزدلی کہہ کر اس کی مذمت کیجیے۔ میں بس پوٹھوہار کے عظیم شاعر میاں محمد کا حوالہ دوں گا جن کا ''خوشی نہ کریے'' والا شعر آپ نے بھی یقینا کبھی نہ کبھی سن رکھا ہوگا۔
میں ذاتی طور پر لسانی، نسلی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر سیاست کرنا سخت ناپسند کرتا ہوں۔ میری یہ سوچ مگر صرف ایک فرد کی سوچ ہے۔ پاکستان بے تحاشہ مسائل میں گھرا ایک نسبتاً نوزائیدہ ملک ہے۔ برطانیہ مگر جمہوریت کی ماں سمجھا جاتا ہے اور اس کے شہر لندن میں قائم ہائیڈ پارک اس بات کی بھرپور علامت کہ وہاں کا معاشرہ ''سو پھولوں کو اپنی بہار'' دکھانے والے عمل کو پورے خلوص سے سراہتا ہے۔ حال ہی میں لیکن اس ملک کے شہریوں نے یورپی پارلیمان کے لیے اپنے رکن منتخب کیے ہیں۔
انتخابی عمل کے دوران UKIPنام کی جماعت نے حیران کن کامیابیاں حاصل کیں۔ یہ جماعت برطانوی نسل پرستوں کے بدترین تعصبات کا بڑے جارحانہ انداز میں اظہار کیا کرتی ہے۔ مسئلہ صرف برطانیہ تک ہی محدود نہیں۔ فرانس جیسے اعلیٰ تہذیب کی علامت مانے جانے والے ممالک بھی ان دنوں نسل پرست انتہاء پسندوں کے قبضے میں جاتے محسوس ہو رہے ہیں۔ یونان میں نوجوانوں کی ایسی کئی تنظیمیں وجود میں آچکی ہیں جو فسطائی غنڈوں کے انداز میں وہاں مقیم غیر ملکیوں کے جان ومال کو بڑی وحشت سے اپنا نشانہ بنائے رکھتے ہیں۔
1980کے وسط میں ایم کیو ایم حیران کن طورپر ہمارے سیاسی منظر نامے پر اُبھری تو اس کی بنیاد اُردو بولنے والے مہاجرین کے دلوں میں کئی برسوں سے پلنے والی بیگانگی اور کئی حوالوں سے جائز یا ناجائز شکایات تھیں۔ میں ان صحافیوں میں شمار ہوتا ہوں جنہوں نے ان جذبات کو کھلے ذہن کے ساتھ سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ موقعہ ملتے ہی ایم کیو ایم کے اندازِ سیاست پر کبھی کھل کر اور کبھی ملفوف انداز میں تنقیدی فقرے لکھ ڈالتا۔ اپنے اس رویے کی وجہ سے ایم کیو ایم کے رہنمائوں کے ساتھ معمول کے وہ تعلقات بھی نہ بنا پایا جو ایک صحافی کو اپنے پیشہ وارانہ فرائض کو پوری طرح ادا کرنے کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔
میرے ذاتی رویے کو ذہن میں رکھیے تو منگل کی دوپہر لندن سے جو ''بریکنگ نیوز'' آئی اسے اچک کر مجھے ''میں نہ کہتا تھا'' والے دعوے کرنا شروع ہوجانا چاہیے تھا۔ میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا۔ لندن کی ''بریکنگ نیوز'' کی ہمارے 24/7چینل والوں نے جوTreatment کی اس کا بلکہ بڑے ٹھنڈے انداز میں برطانوی پولیس اور وہاں کے ذرایع ابلاغ کے رویے سے تقابل کرتا رہا۔ چند گھنٹوں کی اس مشق کے ذریعے سب سے زیادہ اہم بات جو میں نے ازسر نو بڑی صراحت کے ساتھ دریافت کی یہ حقیقت تھی کہ مہذب معاشروں میں کوئی ملزم اس وقت تک ملزم ہی رہتا ہے جب تک اس پر لگائے گئے الزامات کو پہلے طویل اور جاں گسل تحقیق وتفتیش اور بعدازاں عدالتوں کے سامنے ثابت نہ کیا جائے۔ دوسری اہم بات یہ بھی ہے ملزم کو مجرم ثابت کرنے کی قطعی ذمے داری الزام لگانے والوں پر عائد ہوتی ہے۔
یہ ''اعزاز'' صرف ہمیں حاصل ہوا ہے کہ کسی معروف شخص، خاص طور پر اگر وہ ایک کامیاب سیاستدان بھی ہو پر جو چاہیے الزام لگاکر اسے ''چورلٹیرا''کہنا شروع ہوجائیں۔ افتخار چوہدری کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر بحالی کے بعد پورے دو سال تک ہم سوئس بینکوں میں مبینہ طورپر چھپائے لاکھوں یا کروڑوں ڈالروں کو 'قومی خزانے'' میں واپس لانے کی کوششوں میں مصروف رہے۔ یہ رقم واپس لانے کے لیے حکومتِ پاکستان کو ایک چٹھی لکھنا تھی۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے صدارتی استثنیٰ کے حوالے دیتے ہوئے یہ چٹھی لکھنے سے بچنا چاہا۔ تاریخ پر تاریخ پڑتی رہی۔ بالآخر فیصلہ آیا اور پارلیمان میں قطعی اکثریت رکھنے کے باوجود وزیر اعظم کو فارغ کردیا گیا۔ گیلانی کے بعد راجہ پرویز اشرف آئے۔
انھوں نے وہ چٹھی لکھ کر اپنی نوکری بچائی۔ اب آصف علی زرداری اس ملک کے صدر بھی نہیں رہے۔ مگر دو سالوں تک سرخی پائوڈر لگاکر ایئرکنڈیشنڈ اسٹوڈیوز میں بیٹھے ''قومی خزانے'' کے بارے میں فکر مند اینکروں کو اب مبینہ طورپر سوئس بینکوں میں رکھے وہ لاکھوں کروڑوں ڈالر بھول گئے ہیں۔ خلقتِ شہر کو ہر شام سننے کو ایک نیا فسانہ چاہیے ہوتا ہے۔ ہم نئے افسانے گھڑتے رہتے ہیں۔ جن کا نشانہ بظاہر نامور اور طاقتور افراد ہوتے ہیں۔ ہم ان کی ذات پر کیچڑ اچھال کر خود کو باغی، انقلابی اور حق پرست وغیرہ ثابت کرتے رہتے ہیں۔ اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی کبھی زحمت ہی نہیں فرماتے۔ دُکھ مگر اس بات کا بھی ہے کہ دوسروں کے منہ پر کالک ملنے والا دھندا چلتا بھی خوب ہے۔ Ratings یہی دلواتا ہے۔
خلقِ خدا کے دلوں میں پکتے غصے اور ہیجان کو پارسا جذبات کے ذریعے بھڑکانا کوئی ہم سے سیکھے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ منگل کی دوپہر لندن سے آئی ''بریکنگ نیوز''اب آنے والے کئی دنوں تک ہماری اسکرینوں پر بڑی رونق لگائے گی۔ یہ رونق بالآخر کیا گل کھلائے گی اس کے بارے میں کوئی نہیں سوچے گا۔ میری اپنی عافیت اسی میں ہے کہ خاموشی سے ایک کونے میں دبک کر بیٹھ جائوں۔ آپ کو پورا حق ہے کہ میری خاموشی کو بزدلی کہہ کر اس کی مذمت کیجیے۔ میں بس پوٹھوہار کے عظیم شاعر میاں محمد کا حوالہ دوں گا جن کا ''خوشی نہ کریے'' والا شعر آپ نے بھی یقینا کبھی نہ کبھی سن رکھا ہوگا۔