جرائم کی بنیاد
کیا یہ کوئی وائرس یا جراثیم ہیں جو ہمارے ملک میں زیادہ ہیں اور دوسرے ملکوں میں کم یا بالکل نہیں ہیں
جب میں نے ایک روزنامہ میں کالم لکھنا شروع کیا تو دوسرا یا تیسرا کالم میں نے ایک چشم دید واقعے پر لکھا۔ایک شخص نے مجھے بتایا کہ کل جی ٹی ایس اڈے میں لوگوں نے ایک جیب کترے کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا تو اسے اڈے میں موجود ایک پولیس سپاہی کے حوالے کیا کہ وہ اسے تھانے لے جائے سپاہی اسے بازو سے پکڑ کر لے گیا۔تھوڑی دیر بعد جب میں باہر نکلا تو دیکھا کہ وہی جیب کترا بڑے آرام سے سڑک پر سیٹی بجاتا ہوا جارہا ہے گویا سپاہی نے اسے چھوڑ دیاتھا۔
یہ (68,67) یعنی ایوب خان کا زمانہ تھا اور جیب کترے ہرجگہ سرگرم ہوتے تھے۔اب تو وہ سارے دوسرے اور زیادہ منافع بخش دھندوں جیسے بارگیننگ پراپرٹی،ویزے فروشی اور سیاسی وسماجی خدمت میں آگئے ہیں لیکن اس زمانے میں ان کا باقاعدہ ایک نیٹ ورک ہوتا تھا اور جیب کاٹنے کے بڑے بڑے فنکار اس میں سرگرم ہوتے تھے۔
اکثر طریقہ واردات یہ ہوتاتھا کہ جیب کترے کے ساتھ ایک ساتھی یا مددگار یا سہولت کار بھی ہوتاتھا اور اگر جیب کترا پکڑا جاتاتھا تو وہ سہولت کار آگے بڑھ کر لات مکا کرتا اور اسے بازو سے پکڑ کر کہتا چلو تھانے اور اسے لوگوں کی بھیڑ سے نکال لیتا۔بعد میں اس سہولت کار کاکام پولیس والے کرنے لگے۔میں نے اس واقعہ پر خوب نمک مرچ ڈال کر کالم لکھا دوسرے دن دفتر پہنچا تو ایک آدمی دفتر میں میرا منتظر تھا۔
علیک سلیک کے بعد میں نے اس سے تعارف چاہا۔تو وہ بولا میں وہی سپاہی ہوں جس کا ذکر آپ نے اپنے کالم میں کیا ہے میں نے ہی اس جیب تراش کو لے جاکر اور باہر بیس روپے لے کر چھوڑدیا تھا۔
میں تعجب سے اس کو دیکھ رہاتھا کس صفائی اور سچائی سے وہ اپنے جرم کا اعتراف کررہاتھا۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہوں لیکن اس نے خود ہی سلسلہ کلام آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔اگر میں اسے بیس روپے لے کر نہ چھوڑتا تو تھانے میں ایس ایچ او''سو''روپے لے کر چھوڑتا ایس ایچ او بھی اگر نہ چھوڑتا تو مجسٹریٹ دوتین یا پانچ سو روپے لے کر چھوڑ دیتا، چھوٹنا تو اسے بہرحال تھا کہ اس سسٹم میں ''مجرم'' کے لیے بے شمار سہولتیں ہیں۔
اگر نہیں ہیں تو ان کے لیے نہیں ہیں جو جرم نہیں کرتے۔ اب اوپر والوں کی اچھی خاصی تنخواہیں بھی ہیں اوپر کی آمدنیاں بھی ہیں جب کہ میرے چار بچے ہیں بیوی ہے بوڑھے ماں باپ ہیں اور تنخواہ اتنی ہے کہ سر چھپاؤں تو پیر ننگے ہوجاتے ہیں اور پیر چھپاؤں تو سر ننگا ہوجاتا ہے، اگر میں نے بیس روپے لے کر اسے چھوڑ دیا تو اس میں مجھ جیسے مستحق کا بھی فائدہ ہوا اور عوام کا بھی فائدہ ہوا۔
عوام کا فائدہ کیسے ہوا۔میں نے پوچھا۔فائدہ یہ ہوا کہ رشوت میں دیا ہوا پیسہ وہ عوام ہی سے وصول کرے گا۔اور جتنا پیسہ وہ رشوت میں دے گا، بیس روپے دیے تو بیس وصول کرے گا سو دیے تو سو،ہزار دیے تو ہزار اور لاکھ دیے تو لاکھ کہ اس کا تو کام ہی عوام سے وصولی ہے، کیا یہ مجرم لوگ مقدمات کے اخراجات اپنی جیب سے دیتے ہیں۔
اس شخص کی باتیں سن کر دفتر کا عملہ کاتب قاصد وغیرہ بھی اکٹھے ہوکر آگئے اور سب ہی ہنس ہنس کر اس کی تائید کرنے لگے کیونکہ وہ بھی سب''چھوٹی چادر''والے لوگ تھے۔
اس کے بعد میں نے اپنا نظریہ بنالیا کہ چھوٹی چادر والوں کو کبھی نشانہ نہیں بنانا ہے اور اس پر آج تک کاربند ہوں بلکہ اس سوچ نے میری سوچ کو مہمیز کرکے کچھ اور وسیع کردیا۔اب میں کسی مجرم کو مجرم نہیں سمجھتا اور نیک آدمی کو نیک نہیں سمجھتا۔کیونکہ یہ معاشرہ اور نظام ہوتا ہے جو کسی کو اچھا اور برا بناتا ہے اچھائی اور برائی کسی انسان میں پیدا نہیں ہوتی بلکہ وہ نظام وہ ماحول اور وہ معاشرہ ہی انسان کو اچھا یا برا بناتا ہے۔
آج ہم اخبارات میں پڑھ رہے ہیں کہ جرائم بڑھتے جارہے ہیں کرپشن میں بے پناہ اضافہ ہورہاہے دیانت اور ایمانداری ہمارے معاشرے سے اٹھ چکی ہے، کیوں؟ کیا یہ کوئی وائرس یا جراثیم ہیں جو ہمارے ملک میں زیادہ ہیں اور دوسرے ملکوں میں کم یا بالکل نہیں ہیں۔بہت سارے ممالک دنیا میں ایسے ہیں جہاں جرائم کا نام و نشان نہیں ہے۔
یہ ہمارا پڑوسی ملک افغانستان بھی اس تباہ کار انقلاب سے پہلے ایک بہت ہی پرامن خوشحال اور جرائم سے خالی ملک تھا اور یہ ہم نے خود دیکھا ہے ہم ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں ہر سال ''میلہ گل سرخ'' میں جاتے تھے جو افغانستان کے شہر مزار شریف میں منعقد ہوتاتھا اسے جشن نوروز بھی کہتے ہیں جو ان کے شمسی کیلنڈر میں سال کا پہلا دن(مہینہ حمل) ہوتا تھا اور ہمارے 21مارچ کو پڑتا تھا چنانچہ وہاں ہر علاقے اور ہر طرح کے لوگوں سے ملنا جلنا بھی ہوتاتھا۔
پورے افغانستان میں جرائم کا تصور تک نہیں تھا قتل کی واردات پورے افغانستان میں سالانہ ایک دو سے زیادہ نہیں ہوتی تھی، نہ ہی چوری لوٹ مار ہوتی تھی، ''کرپشن'' کا تو کوئی نام ونشان ہی نہیں، حالانکہ غربت بہت زیادہ تھی ہاں کبھی کبھی کسی دیہاتی علاقے میں کوئی قبیلوی لڑائی ہوجاتی تھی اور آج جاکر دیکھیے تو بدامنی جرائم کرپشن کی انتہا ہے۔
جب ایک طرف نہایت نالائق نااہل اور نکمے لوگوں کے وارے نیارے ہوتے ہیں اور دوسری طرف لائق، اہل اور کام کرنے والے لوگ نان نفقہ کو ترستے ہیں۔
آخر میں حضرت بہلول دانا کی وہ بات یاد آتی ہے جو انھوں نے خلیفہ ہارون الرشید سے کہی تھی۔ خلیفہ ہارون الرشید نے بہلول دانا سے پوچھا اسلام میں یہ جو چور کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ تو بہلول دانا نے کہا کہ اگر کسی نے مستی میں چوری کی ہے تو اس کا ہاتھ کاٹنا چاہیے اور اگر نیستی سے کی ہے تو سر کاٹنا چاہیے لیکن ''حاکم وقت'' کا۔
یہ (68,67) یعنی ایوب خان کا زمانہ تھا اور جیب کترے ہرجگہ سرگرم ہوتے تھے۔اب تو وہ سارے دوسرے اور زیادہ منافع بخش دھندوں جیسے بارگیننگ پراپرٹی،ویزے فروشی اور سیاسی وسماجی خدمت میں آگئے ہیں لیکن اس زمانے میں ان کا باقاعدہ ایک نیٹ ورک ہوتا تھا اور جیب کاٹنے کے بڑے بڑے فنکار اس میں سرگرم ہوتے تھے۔
اکثر طریقہ واردات یہ ہوتاتھا کہ جیب کترے کے ساتھ ایک ساتھی یا مددگار یا سہولت کار بھی ہوتاتھا اور اگر جیب کترا پکڑا جاتاتھا تو وہ سہولت کار آگے بڑھ کر لات مکا کرتا اور اسے بازو سے پکڑ کر کہتا چلو تھانے اور اسے لوگوں کی بھیڑ سے نکال لیتا۔بعد میں اس سہولت کار کاکام پولیس والے کرنے لگے۔میں نے اس واقعہ پر خوب نمک مرچ ڈال کر کالم لکھا دوسرے دن دفتر پہنچا تو ایک آدمی دفتر میں میرا منتظر تھا۔
علیک سلیک کے بعد میں نے اس سے تعارف چاہا۔تو وہ بولا میں وہی سپاہی ہوں جس کا ذکر آپ نے اپنے کالم میں کیا ہے میں نے ہی اس جیب تراش کو لے جاکر اور باہر بیس روپے لے کر چھوڑدیا تھا۔
میں تعجب سے اس کو دیکھ رہاتھا کس صفائی اور سچائی سے وہ اپنے جرم کا اعتراف کررہاتھا۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہوں لیکن اس نے خود ہی سلسلہ کلام آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔اگر میں اسے بیس روپے لے کر نہ چھوڑتا تو تھانے میں ایس ایچ او''سو''روپے لے کر چھوڑتا ایس ایچ او بھی اگر نہ چھوڑتا تو مجسٹریٹ دوتین یا پانچ سو روپے لے کر چھوڑ دیتا، چھوٹنا تو اسے بہرحال تھا کہ اس سسٹم میں ''مجرم'' کے لیے بے شمار سہولتیں ہیں۔
اگر نہیں ہیں تو ان کے لیے نہیں ہیں جو جرم نہیں کرتے۔ اب اوپر والوں کی اچھی خاصی تنخواہیں بھی ہیں اوپر کی آمدنیاں بھی ہیں جب کہ میرے چار بچے ہیں بیوی ہے بوڑھے ماں باپ ہیں اور تنخواہ اتنی ہے کہ سر چھپاؤں تو پیر ننگے ہوجاتے ہیں اور پیر چھپاؤں تو سر ننگا ہوجاتا ہے، اگر میں نے بیس روپے لے کر اسے چھوڑ دیا تو اس میں مجھ جیسے مستحق کا بھی فائدہ ہوا اور عوام کا بھی فائدہ ہوا۔
عوام کا فائدہ کیسے ہوا۔میں نے پوچھا۔فائدہ یہ ہوا کہ رشوت میں دیا ہوا پیسہ وہ عوام ہی سے وصول کرے گا۔اور جتنا پیسہ وہ رشوت میں دے گا، بیس روپے دیے تو بیس وصول کرے گا سو دیے تو سو،ہزار دیے تو ہزار اور لاکھ دیے تو لاکھ کہ اس کا تو کام ہی عوام سے وصولی ہے، کیا یہ مجرم لوگ مقدمات کے اخراجات اپنی جیب سے دیتے ہیں۔
اس شخص کی باتیں سن کر دفتر کا عملہ کاتب قاصد وغیرہ بھی اکٹھے ہوکر آگئے اور سب ہی ہنس ہنس کر اس کی تائید کرنے لگے کیونکہ وہ بھی سب''چھوٹی چادر''والے لوگ تھے۔
اس کے بعد میں نے اپنا نظریہ بنالیا کہ چھوٹی چادر والوں کو کبھی نشانہ نہیں بنانا ہے اور اس پر آج تک کاربند ہوں بلکہ اس سوچ نے میری سوچ کو مہمیز کرکے کچھ اور وسیع کردیا۔اب میں کسی مجرم کو مجرم نہیں سمجھتا اور نیک آدمی کو نیک نہیں سمجھتا۔کیونکہ یہ معاشرہ اور نظام ہوتا ہے جو کسی کو اچھا اور برا بناتا ہے اچھائی اور برائی کسی انسان میں پیدا نہیں ہوتی بلکہ وہ نظام وہ ماحول اور وہ معاشرہ ہی انسان کو اچھا یا برا بناتا ہے۔
آج ہم اخبارات میں پڑھ رہے ہیں کہ جرائم بڑھتے جارہے ہیں کرپشن میں بے پناہ اضافہ ہورہاہے دیانت اور ایمانداری ہمارے معاشرے سے اٹھ چکی ہے، کیوں؟ کیا یہ کوئی وائرس یا جراثیم ہیں جو ہمارے ملک میں زیادہ ہیں اور دوسرے ملکوں میں کم یا بالکل نہیں ہیں۔بہت سارے ممالک دنیا میں ایسے ہیں جہاں جرائم کا نام و نشان نہیں ہے۔
یہ ہمارا پڑوسی ملک افغانستان بھی اس تباہ کار انقلاب سے پہلے ایک بہت ہی پرامن خوشحال اور جرائم سے خالی ملک تھا اور یہ ہم نے خود دیکھا ہے ہم ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں ہر سال ''میلہ گل سرخ'' میں جاتے تھے جو افغانستان کے شہر مزار شریف میں منعقد ہوتاتھا اسے جشن نوروز بھی کہتے ہیں جو ان کے شمسی کیلنڈر میں سال کا پہلا دن(مہینہ حمل) ہوتا تھا اور ہمارے 21مارچ کو پڑتا تھا چنانچہ وہاں ہر علاقے اور ہر طرح کے لوگوں سے ملنا جلنا بھی ہوتاتھا۔
پورے افغانستان میں جرائم کا تصور تک نہیں تھا قتل کی واردات پورے افغانستان میں سالانہ ایک دو سے زیادہ نہیں ہوتی تھی، نہ ہی چوری لوٹ مار ہوتی تھی، ''کرپشن'' کا تو کوئی نام ونشان ہی نہیں، حالانکہ غربت بہت زیادہ تھی ہاں کبھی کبھی کسی دیہاتی علاقے میں کوئی قبیلوی لڑائی ہوجاتی تھی اور آج جاکر دیکھیے تو بدامنی جرائم کرپشن کی انتہا ہے۔
جب ایک طرف نہایت نالائق نااہل اور نکمے لوگوں کے وارے نیارے ہوتے ہیں اور دوسری طرف لائق، اہل اور کام کرنے والے لوگ نان نفقہ کو ترستے ہیں۔
آخر میں حضرت بہلول دانا کی وہ بات یاد آتی ہے جو انھوں نے خلیفہ ہارون الرشید سے کہی تھی۔ خلیفہ ہارون الرشید نے بہلول دانا سے پوچھا اسلام میں یہ جو چور کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ تو بہلول دانا نے کہا کہ اگر کسی نے مستی میں چوری کی ہے تو اس کا ہاتھ کاٹنا چاہیے اور اگر نیستی سے کی ہے تو سر کاٹنا چاہیے لیکن ''حاکم وقت'' کا۔