پروین شاکر… ادبی میلہ

پروین کی برسی کے حوالے سے ہر برس ایک بڑی تقریب کا اہتمام تو ہوتا ہی تھا لیکن اس بار ۔۔۔

Amjadislam@gmail.com

گزشتہ چند برسوں سے ادب پر نہ سہی ادبی میلوں پر ضرور بہار آئی ہوئی ہے' بیرون وطن اردو کی نئی بستیوں کے حوالے سے اور وطن عزیز میں ادب' ادیب اور کتاب کی معرفت نمائشوں، میلوں اور کانفرنسوں کا اہتمام زوروں پر ہے اس اکھاڑے میں اگرچہ بہت سے درشنی پہلوان بھی لہو لگا کے شہیدوں میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں مگر خوبصورت' بھرپور' معنی آفرین' منظم اور ادب آموز اور ادب آمیز تقریبات کی بھی کمی نہیں اس سلسلے کی ایک شاندار مثال پروین شاکر ٹرسٹ کے زیر اہتمام اسلام آباد میں منعقد کیا جانے والا وہ دو روزہ ادبی میلہ ہے جس میں مجھے بھی شامل ہونے کا موقع ملا ہے۔

1995 میں پروین شاکر کی پہلی برسی کی آمد پر اس کی محترم دوست اورسرپرست پروین قادر آغا نے ایک ٹرسٹ کا ڈول ڈالا تاکہ نہ صرف ہر سال اس کی برسی منائی جائے بلکہ اس کے نام اور کام کو زندہ رکھنے کے لیے ایک باقاعدہ تحریک چلائی جائے پروین شاکر نے گزشتہ بیس برس میں یہ دونوں کام بہت تسلسل اور سلیقے سے انجام دیے ہیں' پروین نوجوان نسل کی نمایندہ تھی اس رعایت سے ہر برس نوجوان شعراء کی (متعلقہ کیلنڈر سال میں) چھپنے والی بہترین کتابوں پر انعامات کا آغاز کیا گیا۔

مختلف یونیورسٹیوں میں ایم اے انگریزی کے امتحانات میں اول آنے والے طالب علموں کو ایوارڈ اور وظائف دیے گئے (کہ پروین نے انگریزی زبان اور ادب دونوں میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی تھی) اس ٹرسٹ کے بنیادی ممبران میں مجھے بھی شامل کیا گیا یہ اور بات ہے کہ لاہورمیں رہائش اور دیگر معروضیات کے باعث میں اس کے اجلاسوں میں پابندی سے شریک نہیں ہوپاتا لیکن یہ تعلق غالب کے اس شعر جیسا ہے کہ

گو میں رہا نہیں ستم ہائے روز گار

لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

پروین قادر آغا اور ان کے شوہر آغا افضال حسین نے (جن سے ہمارا بہت پرانا محبت کا رشتہ اور یاد اللہ ہے) صحیح معنوں میں اس وعدے کو نبھایا ہے جس کا اعلان انھوں نے اس ٹرسٹ کے قیام کے موقعے پر کیا تھا ایک طرف انھوں نے پروین کے گیتو عزیزی مراد علی کی تعلیم و تربیت اور دیکھ بھال سگے والدین کی طرح سے کی اور دوسری طرف پروین کے ادبی ورثے یعنی کتابوں کی اشاعت اور فروغ پر بھی مسلسل نظر رکھی یہ کتابیں پہلے مظہر الاسلام کے زیر انتظام اور اب جہانگیر بکس کی وساطت سے بہتر سے بہتر انداز میں شایع ہو رہی ہیں۔ مراد کی اعلیٰ تعلیم کی تکمیل میں ان کتابوں کی رائلٹی بہت مدد گار ثابت ہوئی اب وہ ماشاء اللہ ایک بیٹی کا باپ ہے اور کینیڈا میں اپنی فیملی کے ساتھ ہر اعتبار سے بہت اچھی زندگی گزار رہا ہے۔

پروین کی برسی کے حوالے سے ہر برس ایک بڑی تقریب کا اہتمام تو ہوتا ہی تھا لیکن اس بار برادرم مظہر الاسلام کے مشورے اور ذمے داری قبول کرنے پر ایک خصوصی ادبی میلے کا انعقاد کیا گیا جس کے مختلف پروگراموں میں سو سے زیادہ ادیبوں اور شاعروں نے عملی طور پر شرکت کی اور سامعین کے ساتھ مل کر دو دن تک ایک ایسا ماحول پیدا کیے رکھا کہ جس میں چاروں طرف ادب کی خوشبو اور رنگ پھیلے ہوئے تھے پہلے روز یعنی 30 مئی کے دن کے تمام پروگرام COMSAT یونیورسٹی کی ایک عمارت کے چوتھے فلور پر واقع ایک خوبصورت آڈیٹوریم میں منعقد ہوئے جب کہ شام کے تینوں پروگرام اسلام آباد ہوٹل کے ہال میں پیش کیے گئے دونوں جگہوں پر سامعین کی تعداد موجود نشستوں سے کچھ زیادہ ہی رہی پہلے دن کے پروگراموں کے عنوانات کچھ اس طرح سے تھے۔

-1 بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے

30منٹ غالب کے ساتھ

-2بیاض۔ سات شاعر۔ کلام شاعر میزبان شاعر

-3 نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر

30منٹ اقبال کے ساتھ

-4بیاض۔ خواب لے لو خواب

سات نظم گو۔ کلام شاعر میزبان شاعر

-5 زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں...؟

30منٹ فیض احمد فیض کے ساتھ

-6بیاض۔ سات شاعر۔ کلام شاعر میزبان شاعر

-7اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

30منٹ منیر نیازی کے ساتھ

-8 ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا

30منٹ پروین شاکر کے ساتھ

-9 بیاض۔ آٹھ شاعر۔ کلام شاعر میزبان شاعر

اسلام آباد ہوٹل کے ہال میں شام 6 بجے کے بعد جو تین پروگرام رکھے گئے تھے ان کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے


-1 زندگی سے ڈرتے ہو

30منٹ ن م راشد کے ساتھ

(طلعت حسین کی آواز میں گونجتی خوبصورتی کے سروں سے ہم آہنگ ہو کر ن م راشد کی شاعری ہمیں ایک نئے جہان معنی سے روشناس کراتی ہے)

-2ڈولی چڑھدیاں ماریاں ہیر چیکاں

30منٹ وارث شاہ کے ساتھ(ہیر خوانی)

-3شام غزل۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا

فن کار۔ سارہ رضا خان

اگلے دن یعنی31مئی کے تمام پروگرام اسلام آباد ہوٹل میں ہوئے پہلا تقریباً تین گھنٹوں پر پھیلا ہوا سیشن کئی حصوں پر مشتمل تھا اور اس کی صدارت کے لیے اٹلی کے سفیر Aziand Chiodi cianfarani کو دعوت دی گئی تھی جو وقت پر آئے اور مقررہ وقت سے ایک گھنٹے بعد تک موجود رہے کیونکہ طے شدہ پروگرام بوجوہ طویل ہوتا چلا گیا (یہاں اس بات کا اظہار بھی ضروری ہے کہ گزشتہ روز کے پروگرام جن کی میزبانی مظہر الاسلام کے سپرد تھی تعداد میں بہت زیادہ ہونے کے باوجود بھی وقت پر شروع اور ختم ہوئے جس کا سارا کریڈٹ مظہر کی تنظیمی صلاحیتوں اور اس مخصوص نوع کی بدلحاظی کو جاتا ہے جو شاید اب ضروری ہو گئی ہے کہ وقت ہمیشہ قیمتی ہوتا ہے چاہے وہ ہمارا ہو یا کسی دوسرے کا) اس پروگرام میں تین اردو مصنفین کے منتخب کام کے اٹالین زبان میں کیے گئے تراجم پر بات کی گئی۔

پہلا حصہ اردو کے نامور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے بارے میں تھا جس میں شرکت کے لیے ان کی بیٹیوں کو خصوصی دعوت دی گئی تھی نزہت منٹو اور نصرت جلال اسٹیج پر موجود تھیں جب کہ ان کی تیسری بہن نگہت پٹیل کسی ذاتی مجبوری کے تحت نہ آ سکیں دوسرا حصہ پروین شاکر کی شادی اور تیسرا مظہر الاسلام کے افسانوں سے متعلق تھا۔ تینوں مصنفین کے بارے میں تعارفی مضامین بھی پڑھے گئے اور ان کے اٹالین میں ترجمہ شدہ ادب پاروں کے اقتباسات بھی سنائے گئے اس کے بعد ایوارڈ کی تقریب کا مرحلہ تھا اس برس پہلی بار شاعری کے علاوہ فکشن پر بھی ایک خصوصی ایوارڈ دیا گیا جو برطانیہ کی مصنفہ روزی دستگیر کو ان کے ناول A Small fortune پر ملا جن کا لندن میں ریکارڈڈ پیغام ریڈیو پر سنایا گیا (روزی کے والد پاکستانی اور والدہ انگریز نژاد ہیں)۔

اس کے بعد ''عکس خوشبو'' ایوارڈ کی باری تھی جو ہر برس شاعری کی بہترین کتاب پر دیا جاتا ہے 2012 کا ایوارڈ عنبریں حسیب عنبر کی کتاب ''دل کے افق پر'' اور 2013 کا سیما غزل کو ان کے شعری مجموعے ''میں سائے خود بناتی ہوں'' پر ملا ایک خصوصی ایوارڈ خیبر پختونخوا کے ایک بہت پسماندہ علاقے ہنگو سے تعلق رکھنے والی بی بی حلیمہ بشریٰ کو اردو ادب کے شعبے میں ان کی گراں قدر خدمات پر دیا گیا جب کہ تعلیم کے حوالے سے گولڈ میڈل پشاور یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کے امتحان میں اول آنے پر حنا حبیب کو ملا۔

بعد کے پروگرام کچھ اس طرح تھے

-1 نئی کتابوں سے ملیے

(صدارت امجد اسلام امجد)

پہلی کتاب فرحت جبیں ورک کی ''نسبت مجھے اس خاک سے ہے'' اور دوسری محترمہ رفاقت جاوید کی پروین کی شخصیت کے بارے میں لکھی گئی کتاب ''پروین شاکر۔ جیسا میں نے دیکھا) تھی

-2عاصم بٹ کی تصنیف ''ناتمام'' جس کی صدارت مسعود اشعر نے کی)

-3 مکالمہ۔(اردو ادب زوال پذیر ہے یا وقت سے پیچھے رہ گیا ہے یا کسی سوچے سمجھے منصوبے کا شکار ہے)

اس کی میزبانی کے فرائض مرزا حامد بیگ نے ادا کیے۔

-4 مستنصر حسین تارڑ اور ''خس و خاشاک زمانے''

-5ڈاکٹر وحید احمد اور زینو

6۔مسعود اشعر اور ''اپنا گھر''

-7مکالمہ۔اردو کہانی کی صورت حال

-8کہانیاں سنتے رہو(نامور کہانی کاروں سے ان کی کہانیاں سنیے)

-9 کہانی کی تلاش میں۔(وہ کہانیاں جو لکھنے سے رہ گئیں)

ان پروگراموں میں جن لکھنے والوں نے کسی نہ کسی انداز میں شرکت کی ان کے اسمائے گرامی لکھنے کی اس کالم میں اب گنجائش باقی نہیں رہی سو یہی سمجھ لیجیے کہ جو بھی ذرہ جس جگہ تھا آفتاب سے کم نہ تھا۔ مجموعی طور پر یہ ادب میلہ اس بات کا شاہد ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود ادب' ادیب اور قاری تینوں ابھی زندہ ہیں۔
Load Next Story