کشکول ہمارا اٹوٹ انگ ہے
تاریخی کشکول کے توڑنے تاڑنے کی ناممکن باتیں ہو رہی ہیں یہ ساری باتیں ہی باتیں ہیں ورنہ اسے توڑنا اتنا ہی ناممکن ہے ۔۔۔
عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت نے ''کشکول''... کے بجائے ... قرضہ لینے کے ''ریکارڈ'' توڑ دیے ہیں اور ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ عمران خان آخر چاہتے کیا ہیں، آخر کچھ نہ کچھ تو ''ٹوٹ'' ہی گیا نا ... عار کی بات تب ہوتی جب کچھ بھی نہ توڑا جاتا اب یہ تو قسمت کی یا اتفاق کی یا سیاست کی بات ہے کہ کشکول کے بجائے ریکارڈ ٹوٹ گیا اور اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں ... جب مقابلہ ہوتا ہے تو کسی نہ کسی فریق کو شکست ہونی ہی ہوتی ہے اور جب کسی ایک کی جیت ہوتی ہے تو دوسرے کی ہار ہوتی ہے نہ دونوں جیتتے ہیں نہ دونوں ہارتے ہیں ایسا تو بہت کم ہوتا ہے کہ لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور سانپ بھی مر جائے، ہاں البتہ یہ اچھی بات نہیں ہو گی کہ سانپ بھی نہ مرے اور لاٹھی یونہی ٹوٹ جائے، اصل بات یہ ہے کہ
شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میرؔ
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا
ویسے دیکھا جائے تو یہ جو کشکول ہے یہ بڑا ہی انمول ہے نہ صرف یہ کہ گول مٹول ہے بلکہ اس کے بیچوں بیچ ایک ''ہول'' ہے اور اس ''ہول'' کے نیچے ''سیاسیوں'' کا ایک غول ہے جو منہ کھول ہے اور ہول سے جو بھی قطرہ ٹپکتا ہے وہ انمول ہے اس لیے دنیا گول ہے اور اس گول دنیا میں سوئٹزر لینڈ نام کا ایک پول ہے، یہ کوئی عام سا کشکول نہیں ہے جو لکڑی کا یا کسی عام دھات کا بنایا جاتا ہے اور اکثر نہ صرف ٹوٹ جاتا ہے بلکہ لوگ اس پر ٹانکے لگا کر بھی کام چلاتے ہیں اس سلسلے میں پشتو کا ایک ٹپہ بھی سند کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے کہ
خہ دہ چہ تہ د خیرہ راغے
ما پہ کچکول پتری وہل درپسے تلمہ
ترجمہ : اچھا ہوا کہ تم خیر سے آ گئے ورنہ میں اپنے کشکول کو ٹانکے لگا کر تیرے پیچھے نکلنے والا ہی تھا، سوچا جائے تو اس ٹپے کی بنیاد پر ایک پورا منظر ترتیب دیا جا سکتا ہے جو کچھ یوں ہوں گا کہ کوئی آئی ایم ایف خان نام کا محبوب چلا آ رہا ہے اور پاکستان نام کا عاشق ہاتھوں میں ہار لیے اہلاً و سہلاً کو کھڑا ہے پہلے اس کے گلے میں پھولوں کی مالا ڈالتا ہے اور پھر مالا کی آواز میں جب گلے ملنے لگتا ہے تو یہ ٹپہ الاپتا ہے کہ اچھا ہوا تم آ گئے ورنہ میں کشکول کو ٹانکے لگا کر نکلنے والا تھا ... خیر نال آ ... تے خیر نال جا... خوش آمدید ، ویل کم ، جی آیاں نو ... اے آمدنت باعث آبادی ما
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
ایک تو ہماری سمجھ میں یہ بات بالکل بھی نہیں آ رہی ہے کہ آخر لوگ اس ''کشکول'' کو توڑنے کے اتنے درپے کیوں ہیں، جو سچ پوچھیے تو ہمارا کل ''اثاثہ'' ہے کیوں کہ اسی کا دیا ہم کھاتے ہیں پیتے ہیں بلکہ اڑاتے بھی ہیں، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہ کشکول ہی ہمارا ہنر ہے، دھندہ ہے، جائیداد ہے، میراث ہے اسے توڑ دیا تو باقی کیا رہ جائے گا
مہا بلی شہنشاہ من
بھیک و کشکول اپنا فن
اور آپ تو جانتے ہیں کہ بزرگوں نے ''آن'' پر کتنا زور دیا ہے جان جائے پر آن نہ جائے ... کہتے ہیں ایک جدی پشتی نسلی خاندانی بزرگ نے جب اپنے پیشے پر آنچ آتے دیکھی تو اپنے سگے بیٹے کو بھی لاٹھی کی دھار پر رکھ لیا یہ جس بزرگ کا ذکر ہے بھیک مانگنے کو اپنا باعزت پیشہ مانتے تھے اور شاید نسلی شجرات میں ہمارا بھی اس سے کوئی رشتہ جڑتا ہے، ایک دن لوگوں نے دیکھا کہ وہ اپنے اکلوتے اور جواں جہاں بیٹے کو بری طرح دھنک رہے تھے شور و غل پر سارا محلہ اکٹھا ہو کر آ گیا جو اس پیشے والوں پر مبنی تھا، محلے کے ایک بزرگ نے وجہ پوچھی کہ آخر اپنے بیٹے کو پرائے بیٹے کی طرح مار رہے ہو، تم کہیں کسی پچھلے جنم میں پرائمری کے استاد تو نہیں رہے ... اس نے کہا نہیں ایسی کوئی بات نہیں خدا کے فضل سے اور بزرگوں کی دعاؤں سے ہمارے خاندان میں کوئی کھوٹ نہیں ہے بلکہ
سو پشت سے پیشۂ آبا گداگری
کوئی ''نوکری'' ذریعہ عزت نہیں مجھے
بلکہ اس ناہنجار نے کام ہی ایسا کیا ہے اگر مجھے اپنی نسل اور باعزت خاندان کے ختم ہونے کا خدشہ نہ ہوتا تو میں آج اس کی گردن دبا دیتا اور چمڑی ادھیڑ کر اور اس کی کھوپڑی خالی کر کے کشکول بنا لیتا، پوچھنے والے نے مزید تفصیل چاہی ... تو بولا آج میں نے اپنی اس بے گناہ آنکھوں اور بے خطا کانوں سے اسے اپنے پیشے کے ساتھ غداری کرتے ہوئے دیکھا اور سنا ہے، بازار میں ایک آدمی سودا خرید رہا تھا اور یہ اس کے آگے کشکول پھیلائے آن ڈیوٹی تھا کہ اس بزرگ نے اس سے کہا کہ تم ویسے ہی کھڑے ہو تو ذرا سا یہ سامان اٹھا کر گاڑی تک پہنچانے میں میری مدد کرو ... اور آپ یقین کریں اس کم بخت بدبخت ناہنجار نابکار نے اس کی بات مان لی اور اپنے پیشے کو رسوا کرتے ہوئے اس کی مدد کی اور اس سے دس روپے لے لیے، یہ سن کر اس سارے محلے کو جس کا نام غالباً پاکستان تھا سانپ سونگھ گیا سارے گنگ ہو کر رہ گئے ایسے کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں ... صرف ایک بزرگ کے منہ سے اتنا نکلا کہ پھر؟ اس پر وہ بزرگ بھکاری بولا ... ذرا سوچو تو سہی آج اس نے ایک شخص کی مدد کی کل کو باقاعدہ مزدوری کر کے خاندان کا نام ڈبوئے گا،یہ کہہ کر اس نے ایک مرتبہ بیٹے کی دھنائی کا سلسلہ وہیں سے جوڑا جہاں سے توڑا تھا۔
ہم کو ''کشکول'' عزیز اور ''کشکول'' کو ہم عزیز
جو کام کرے گا وہ مرا ''خاندان'' نہیں
جس کشکول بلکہ تاریخی کشکول کے توڑنے تاڑنے کی ناممکن باتیں ہو رہی ہیں یہ ساری باتیں ہی باتیں ہیں ورنہ اسے توڑنا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا کسی بھکاری کو کام کرنے پر مجبور کرنا ... اسے دیکھا تو نہیں ہے لیکن سنا ہے کہ اس کشکول کی تیاری میں بہت لمبا لگ بھگ ستاسٹھ سال کا عرصہ لگا ہے اور اس کا میٹریل بھی کوئی عام میٹریل نہیں ہے پہلے تو ڈھیر ساری ''خودی'' کو جسے علامہ اقبال کے کہنے پر بہت زیادہ بلندی پر لے جایا گیا تھا، وہاں سے گرا کر بے شرمی کے ہاتھی کے پیروں تلے کچلا گیا پھر اسے بے غیرتی کی چکی میں خوب پیس کر ''کوفتہ بخیتہ'' کر دیا گیا اس کے بعد آنکھوں کی شرم کا پانی ڈال کر گوندھا گیا۔
اس کے بعد اس میں نکمے پن کا خمیر ڈال کر اٹھایا گیا جب سے یہ مصالحہ تیار ہو گیا تو واشنگٹن سے ایک خاص بینکنگ ماسٹر کو بلوا کر اسے پی ایل چار سو اسی نامی اوون میں ڈال کر پکایا گیا اس کے بعد جب یہ پک کر تیار ہو گیا تو ڈھٹائی اور بے حمیتی کے سارے مصالحے ملائے گئے اس کے بعد اسے سیاست کی بھٹی میں ڈال کر کتے کے بالوں کی آگ میں خوب تپایا گیا آخر میں اس پر سبز قدموں کا رنگ چڑھایا گیا اور ہمارا کشکول تیار ہوگیا۔
ظاہر ہے اب اسے توڑنے کے لیے ان سارے مفردات کے علاوہ تمام مصالحے درکار ہوں گے جو اس ملک میں اب اگتے ہی نہیں، خودی کا تو بیج ہی گم ہو چکا ہے، شرم کی ماں مر گئی ہے، حیا کسی کے ساتھ بھاگ چکی ہے، غیرت کا ڈالر سے نکاح ہو گیا ہے، حب الوطنی اب سوئٹرز لینڈ میں مستقل طور پر سٹل ہو گئی ہے اس لیے اگر کوئی توڑنا بھی چاہے تو اسے توڑ نہیں سکتا، نہ کوئی ہتھوڑا ہے نہ پتھر ہے نہ لکڑی ہے ... اور پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا ۔۔۔ پھونکوں کو آپ جانتے ہیں نا پاکستان میں انھیں بیانات کہا جاتا ہے ... مطلب یہ کہ
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں
ایک نوجوان بادشاہ کی بیٹی پر عاشق ہو گیا اور اپنی ماں کو رشتے کے لیے بادشاہ کے پاس بھیج دیا، بادشاہ نے اس کی ماں سے کہا کہ تم ذرا لڑکے کو میرے پاس بھیج دینا، نوجوان آیا بادشاہ نے کہا ...تم ایسا کرو میری دو شرطیں پوری کرو، پھر میں خوشی سے تمہارا خسر بن جاؤں گا، نوجوان نے سینہ پھلا کر شرطیں بتانے کو کہا تو بادشاہ نے کہا ایک شرط تو یہ ہے کہ تم ایک سال تک بھیک مانگ کر گزارہ کرو گے کوئی کام نہیں کرو گے پورے پاکستانی لیڈر بن جاؤ گے اور دوسری شرط اس شرط کے پورا ہونے پر بتاؤں گا۔
نوجوان چلا گیا اس زمانے کے لوگ بات کے پکے ہوتے تھے آج کے لیڈر نہیں ہوتے تھے چنانچہ ایک سال تک بھیک مانگتا رہا ٹھیک ایک سال بعد بادشاہ کے حضور پہنچا اور اپنی کامیابی کی خبر دی ... بادشاہ نے شاباش دی اور کہا اب دوسری شرط سن ... تم نے کہا تھا کہ تم میری بیٹی کے لیے جان بھی دے سکتے ہو، نوجوان نے کہا بے شک آزما کر دیکھ لو، بادشاہ نے کہا اب تم میری بیٹی سے شادی کر سکتے ہو لیکن اس شرط کے ساتھ کہ آیندہ محنت کر کے اسے کھلاؤ گے اور کسی سے کچھ نہیں مانگو گے، نوجوان نے تھوڑی دیر سوچا پھر کشکول اٹھایا لاٹھی لی یہ کہتے ہوئے چلا گیا
یہی ٹھہری ہے شرط وصل لیلیٰ
تو استعفا مرا باحسرت و یاس
بھلا اٹوٹ انگ بھی کبھی ٹوٹا ہے۔
شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میرؔ
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا
ویسے دیکھا جائے تو یہ جو کشکول ہے یہ بڑا ہی انمول ہے نہ صرف یہ کہ گول مٹول ہے بلکہ اس کے بیچوں بیچ ایک ''ہول'' ہے اور اس ''ہول'' کے نیچے ''سیاسیوں'' کا ایک غول ہے جو منہ کھول ہے اور ہول سے جو بھی قطرہ ٹپکتا ہے وہ انمول ہے اس لیے دنیا گول ہے اور اس گول دنیا میں سوئٹزر لینڈ نام کا ایک پول ہے، یہ کوئی عام سا کشکول نہیں ہے جو لکڑی کا یا کسی عام دھات کا بنایا جاتا ہے اور اکثر نہ صرف ٹوٹ جاتا ہے بلکہ لوگ اس پر ٹانکے لگا کر بھی کام چلاتے ہیں اس سلسلے میں پشتو کا ایک ٹپہ بھی سند کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے کہ
خہ دہ چہ تہ د خیرہ راغے
ما پہ کچکول پتری وہل درپسے تلمہ
ترجمہ : اچھا ہوا کہ تم خیر سے آ گئے ورنہ میں اپنے کشکول کو ٹانکے لگا کر تیرے پیچھے نکلنے والا ہی تھا، سوچا جائے تو اس ٹپے کی بنیاد پر ایک پورا منظر ترتیب دیا جا سکتا ہے جو کچھ یوں ہوں گا کہ کوئی آئی ایم ایف خان نام کا محبوب چلا آ رہا ہے اور پاکستان نام کا عاشق ہاتھوں میں ہار لیے اہلاً و سہلاً کو کھڑا ہے پہلے اس کے گلے میں پھولوں کی مالا ڈالتا ہے اور پھر مالا کی آواز میں جب گلے ملنے لگتا ہے تو یہ ٹپہ الاپتا ہے کہ اچھا ہوا تم آ گئے ورنہ میں کشکول کو ٹانکے لگا کر نکلنے والا تھا ... خیر نال آ ... تے خیر نال جا... خوش آمدید ، ویل کم ، جی آیاں نو ... اے آمدنت باعث آبادی ما
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
ایک تو ہماری سمجھ میں یہ بات بالکل بھی نہیں آ رہی ہے کہ آخر لوگ اس ''کشکول'' کو توڑنے کے اتنے درپے کیوں ہیں، جو سچ پوچھیے تو ہمارا کل ''اثاثہ'' ہے کیوں کہ اسی کا دیا ہم کھاتے ہیں پیتے ہیں بلکہ اڑاتے بھی ہیں، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہ کشکول ہی ہمارا ہنر ہے، دھندہ ہے، جائیداد ہے، میراث ہے اسے توڑ دیا تو باقی کیا رہ جائے گا
مہا بلی شہنشاہ من
بھیک و کشکول اپنا فن
اور آپ تو جانتے ہیں کہ بزرگوں نے ''آن'' پر کتنا زور دیا ہے جان جائے پر آن نہ جائے ... کہتے ہیں ایک جدی پشتی نسلی خاندانی بزرگ نے جب اپنے پیشے پر آنچ آتے دیکھی تو اپنے سگے بیٹے کو بھی لاٹھی کی دھار پر رکھ لیا یہ جس بزرگ کا ذکر ہے بھیک مانگنے کو اپنا باعزت پیشہ مانتے تھے اور شاید نسلی شجرات میں ہمارا بھی اس سے کوئی رشتہ جڑتا ہے، ایک دن لوگوں نے دیکھا کہ وہ اپنے اکلوتے اور جواں جہاں بیٹے کو بری طرح دھنک رہے تھے شور و غل پر سارا محلہ اکٹھا ہو کر آ گیا جو اس پیشے والوں پر مبنی تھا، محلے کے ایک بزرگ نے وجہ پوچھی کہ آخر اپنے بیٹے کو پرائے بیٹے کی طرح مار رہے ہو، تم کہیں کسی پچھلے جنم میں پرائمری کے استاد تو نہیں رہے ... اس نے کہا نہیں ایسی کوئی بات نہیں خدا کے فضل سے اور بزرگوں کی دعاؤں سے ہمارے خاندان میں کوئی کھوٹ نہیں ہے بلکہ
سو پشت سے پیشۂ آبا گداگری
کوئی ''نوکری'' ذریعہ عزت نہیں مجھے
بلکہ اس ناہنجار نے کام ہی ایسا کیا ہے اگر مجھے اپنی نسل اور باعزت خاندان کے ختم ہونے کا خدشہ نہ ہوتا تو میں آج اس کی گردن دبا دیتا اور چمڑی ادھیڑ کر اور اس کی کھوپڑی خالی کر کے کشکول بنا لیتا، پوچھنے والے نے مزید تفصیل چاہی ... تو بولا آج میں نے اپنی اس بے گناہ آنکھوں اور بے خطا کانوں سے اسے اپنے پیشے کے ساتھ غداری کرتے ہوئے دیکھا اور سنا ہے، بازار میں ایک آدمی سودا خرید رہا تھا اور یہ اس کے آگے کشکول پھیلائے آن ڈیوٹی تھا کہ اس بزرگ نے اس سے کہا کہ تم ویسے ہی کھڑے ہو تو ذرا سا یہ سامان اٹھا کر گاڑی تک پہنچانے میں میری مدد کرو ... اور آپ یقین کریں اس کم بخت بدبخت ناہنجار نابکار نے اس کی بات مان لی اور اپنے پیشے کو رسوا کرتے ہوئے اس کی مدد کی اور اس سے دس روپے لے لیے، یہ سن کر اس سارے محلے کو جس کا نام غالباً پاکستان تھا سانپ سونگھ گیا سارے گنگ ہو کر رہ گئے ایسے کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں ... صرف ایک بزرگ کے منہ سے اتنا نکلا کہ پھر؟ اس پر وہ بزرگ بھکاری بولا ... ذرا سوچو تو سہی آج اس نے ایک شخص کی مدد کی کل کو باقاعدہ مزدوری کر کے خاندان کا نام ڈبوئے گا،یہ کہہ کر اس نے ایک مرتبہ بیٹے کی دھنائی کا سلسلہ وہیں سے جوڑا جہاں سے توڑا تھا۔
ہم کو ''کشکول'' عزیز اور ''کشکول'' کو ہم عزیز
جو کام کرے گا وہ مرا ''خاندان'' نہیں
جس کشکول بلکہ تاریخی کشکول کے توڑنے تاڑنے کی ناممکن باتیں ہو رہی ہیں یہ ساری باتیں ہی باتیں ہیں ورنہ اسے توڑنا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا کسی بھکاری کو کام کرنے پر مجبور کرنا ... اسے دیکھا تو نہیں ہے لیکن سنا ہے کہ اس کشکول کی تیاری میں بہت لمبا لگ بھگ ستاسٹھ سال کا عرصہ لگا ہے اور اس کا میٹریل بھی کوئی عام میٹریل نہیں ہے پہلے تو ڈھیر ساری ''خودی'' کو جسے علامہ اقبال کے کہنے پر بہت زیادہ بلندی پر لے جایا گیا تھا، وہاں سے گرا کر بے شرمی کے ہاتھی کے پیروں تلے کچلا گیا پھر اسے بے غیرتی کی چکی میں خوب پیس کر ''کوفتہ بخیتہ'' کر دیا گیا اس کے بعد آنکھوں کی شرم کا پانی ڈال کر گوندھا گیا۔
اس کے بعد اس میں نکمے پن کا خمیر ڈال کر اٹھایا گیا جب سے یہ مصالحہ تیار ہو گیا تو واشنگٹن سے ایک خاص بینکنگ ماسٹر کو بلوا کر اسے پی ایل چار سو اسی نامی اوون میں ڈال کر پکایا گیا اس کے بعد جب یہ پک کر تیار ہو گیا تو ڈھٹائی اور بے حمیتی کے سارے مصالحے ملائے گئے اس کے بعد اسے سیاست کی بھٹی میں ڈال کر کتے کے بالوں کی آگ میں خوب تپایا گیا آخر میں اس پر سبز قدموں کا رنگ چڑھایا گیا اور ہمارا کشکول تیار ہوگیا۔
ظاہر ہے اب اسے توڑنے کے لیے ان سارے مفردات کے علاوہ تمام مصالحے درکار ہوں گے جو اس ملک میں اب اگتے ہی نہیں، خودی کا تو بیج ہی گم ہو چکا ہے، شرم کی ماں مر گئی ہے، حیا کسی کے ساتھ بھاگ چکی ہے، غیرت کا ڈالر سے نکاح ہو گیا ہے، حب الوطنی اب سوئٹرز لینڈ میں مستقل طور پر سٹل ہو گئی ہے اس لیے اگر کوئی توڑنا بھی چاہے تو اسے توڑ نہیں سکتا، نہ کوئی ہتھوڑا ہے نہ پتھر ہے نہ لکڑی ہے ... اور پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا ۔۔۔ پھونکوں کو آپ جانتے ہیں نا پاکستان میں انھیں بیانات کہا جاتا ہے ... مطلب یہ کہ
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں
ایک نوجوان بادشاہ کی بیٹی پر عاشق ہو گیا اور اپنی ماں کو رشتے کے لیے بادشاہ کے پاس بھیج دیا، بادشاہ نے اس کی ماں سے کہا کہ تم ذرا لڑکے کو میرے پاس بھیج دینا، نوجوان آیا بادشاہ نے کہا ...تم ایسا کرو میری دو شرطیں پوری کرو، پھر میں خوشی سے تمہارا خسر بن جاؤں گا، نوجوان نے سینہ پھلا کر شرطیں بتانے کو کہا تو بادشاہ نے کہا ایک شرط تو یہ ہے کہ تم ایک سال تک بھیک مانگ کر گزارہ کرو گے کوئی کام نہیں کرو گے پورے پاکستانی لیڈر بن جاؤ گے اور دوسری شرط اس شرط کے پورا ہونے پر بتاؤں گا۔
نوجوان چلا گیا اس زمانے کے لوگ بات کے پکے ہوتے تھے آج کے لیڈر نہیں ہوتے تھے چنانچہ ایک سال تک بھیک مانگتا رہا ٹھیک ایک سال بعد بادشاہ کے حضور پہنچا اور اپنی کامیابی کی خبر دی ... بادشاہ نے شاباش دی اور کہا اب دوسری شرط سن ... تم نے کہا تھا کہ تم میری بیٹی کے لیے جان بھی دے سکتے ہو، نوجوان نے کہا بے شک آزما کر دیکھ لو، بادشاہ نے کہا اب تم میری بیٹی سے شادی کر سکتے ہو لیکن اس شرط کے ساتھ کہ آیندہ محنت کر کے اسے کھلاؤ گے اور کسی سے کچھ نہیں مانگو گے، نوجوان نے تھوڑی دیر سوچا پھر کشکول اٹھایا لاٹھی لی یہ کہتے ہوئے چلا گیا
یہی ٹھہری ہے شرط وصل لیلیٰ
تو استعفا مرا باحسرت و یاس
بھلا اٹوٹ انگ بھی کبھی ٹوٹا ہے۔