سماجی رابطوں کا موسم
زندگی حقیقت پسندی اور منطق کے اردگرد گھومتی ہے، جس میں جھوٹ، دھوکے اور منافقت کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔۔۔
ہر موسم کی اپنی خوبصورتی اور مزاج ہے۔ یہ بدلتے موسم اپنے ساتھ فطرت کے حسین رنگ لے کر آتے ہیں، گرمی کا موسم اپنے ساتھ جھلستی دھوپ، حبس اور صحت بخش غذا لے کر آتا ہے۔ اس موسم کی نعمتیں بے شمار ہیں۔ اکثر لوگ باغوں اور کھلی فضا میں زیادہ تر وقت گزارتے ہیں۔ دریا اور سمندر کے کنارے آباد ہو جاتے ہیں۔ آج کل پاکستان کے مختلف علاقوں میں شدید گرمی پڑ رہی ہے۔
سندھ کے دیہی علاقے شدید ترین گرمی کی لپیٹ میں ہیں۔گرمیاں شروع ہوتے ہی مزاج بھی بدلنے لگتے ہیں۔ ایک لحاظ سے گرمی کو ذات سے علیحدگی کا موسم بھی کہا جاتا ہے۔ ایک طرف گرمی کی شدت تو دوسری طرف بجلی کی آنکھ مچولی شروع ہو جاتی ہے۔ لوگ چڑچڑے اور حواس باختہ ہو جاتے ہیں۔ پانی کی قلت پریشانی میں اضافہ کر دیتی ہے۔ لیکن ذات سے بیزاری کے اس موسم میں بھی شادیوں کے دعوت نامے ملے ہیں۔
گرمی کی تعطیلات کا آغاز ہو چکا ہے، لہٰذا ماحول میں تخلیقی اثر اور تحرک پایا جاتا ہے۔ مہمانوں کی آمد و رفت کے سلسلے جاری ہیں۔ کچھ لوگ بیرون ملک سفر کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ذہن نئے منصوبے اور آنکھیں سہانے سفر کے خواب بن رہی ہیں۔ بچوں کے تھکا دینے والے امتحانات کے بعد مائیں بھی سکون کا سانس لیتی ہیں۔ ماحول میں بھی ٹھہراؤ آ جاتا ہے۔ گرمی کے دنوں میں سماجی رابطے عروج پر پہنچ جاتے ہیں۔ بہت سے گھروں میں مہمان پہنچ چکے ہیں۔ اور کہیں پر سفر کی تیاری چل رہی ہے۔ یہ تمام تر ہلچل محسوس کرنے پر ذہن کو جیسے نئے موسم کی نوید ملنے لگتی ہے۔
ہمارے ملک میں چاروں موسم طرح طرح کے کھانوں، مشروبات و دلچسپیوں سے سرشار ہیں۔ موسموں کے ساتھ وقت کے اوقات اور رہن سہن کے طریقے کار بھی بدل جاتے ہیں۔ جیسے سردیوں میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ رات ہوتے ہی گھر واپس لوٹ جائیں۔ جب کہ گرمی کے موسم میں رات گئے راستے، شاہراہیں و بازار لوگوں کے پر ہجوم بے کراں سے پر رونق رہتے ہیں۔قانون فطرت بھی عجب ہے۔ جس میں یہ عناصر ہم مزاج ہوں یا متضاد اپنے دائرے سے باہر نہیں جاتے۔ فطرت کے تمام تر اجزا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، ان میں انحصار، قربت، یقین اور مطلوبہ نتیجہ بھی برآمد ہوتا ہے۔ یہ ترتیب و توازن ہمیشہ مظاہر فطرت کا انمٹ حصہ ہے۔
زندگی حقیقت پسندی اور منطق کے اردگرد گھومتی ہے، جس میں جھوٹ، دھوکے اور منافقت کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ آپ جتنی محنت کریں گے، اتنا ہی صلہ ملے گا۔ قدرت کے اس نظام میں، انسان کے لیے سہولت و شفا کا حیران کن امتزاج ملتا ہے۔ جیسے گرمیوں کی سبزیوں و پھل، انسانی جسم کو ریشہ و پانی کی وافر مقدار مہیا کرتے ہیں۔ اس غذا میں موجود صحت بخش جزئیات جسم میں مختلف کیمیائی اجزا کی کمی کو پورا کرتے ہیں۔ گرمی کے موسم میں دستیاب ہونے والی غذا تاثیر میں ٹھنڈی اور معتدل پائی جاتی ہے۔ جھیلیں، دریا و سمندر گرمی کے موسم میں انسانی مزاج کو ٹھنڈا رکھتے ہیں۔ انسان نے پانی سے ہمیشہ تحرک حاصل کیا ہے۔
پانی اور احساس کا قریبی تعلق رہا ہے ۔ پانی کی قربت سکون، تخیل اور توانائی عطا کرتی ہے۔ جاپان کے سائنسدان ڈاکٹر مسارو اموٹو کہتے ہیں کہ ''نہ فقط پانی ہماری سوچ اور احساس پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ انسانی سوچ و جذبات بھی پانی کے مالیکیول اسٹرکچر (سالماتی ڈھانچے) پر اثرانداز ہوتے ہیں۔'' سمندر کی لہروں کا آہنگ اور تسلسل ذہن میں ٹھہراؤ کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ سمندر کی ہوا صحت بخش منفی آئرن (جوہری ذرات) سے بھری ہوئی ہے۔ جو جسم میں آکسیجن کو جذب کرنے کی صلاحیت بڑھاتے ہیں۔ یہ منفی آئرن انسانی جسم کے کیمیائی عمل Serotonin سیروٹنن میں توانائی پیدا کرتے ہیں۔ جسم میں ان کیمیائی اجزا کا توازن ذہنی و جسمانی دباؤ کو اعتدال پر لے کر آتا ہے۔
گرمی میں لو لگنے کے واقعات عام ہوتے ہیں۔ چھوٹے بچے گرمی کی شدت سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ شدید گرمی میں سر ڈھانپ کر باہر نکلنا چاہیے۔ لو لگنے کی صورت میں کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے قریبی سپر مارکیٹ، چوک اسٹور، سینیما یا ایسی جگہ جہاں ایئرکنڈیشن چلتے ہوں، پناہ لینی چاہیے۔ یا کسی سایہ دار ٹھنڈی جگہ آرام سے بیٹھ جائیں۔ کیونکہ اس وقت دماغ گھومتا ہے۔ دل کی دھڑکن بے قابو ہو جاتی ہے، سر درد بڑھ جاتا ہے۔ انسان کو خود کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ لہٰذا سب سے پہلے اس کیفیت کا تدارک ضروری ہے۔ اس کے بعد پانی پینے کا مرحلہ ہے۔ اگر بہت شدید گرمی ہے تو جسم کو پانی کی وافر مقدار چاہیے۔ اس کے بعد سر پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے تواتر سے برسائے جائیں۔ گیلا ٹھنڈا کپڑا گردن کے گرد لپیٹ کر بھی کچھ دیر میں آرام آ جاتا ہے۔ یا پھر کوئی رومال برف کے پانی سے تر کر کے سر پر لپیٹ دیا جائے۔
ایسی حالت میں زمین پر لیٹ کر پیر اوپر ٹکا لینے چاہئیں۔ پیروں کو جسم سے دو یا تین فٹ اونچا رکھنا ہے۔ میرے سامنے جب بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں، تو لوگوں پر گھبراہٹ طاری ہو جاتی ہے۔ گرمی کا ستایا ہوا شخص اور بھی حال سے بے حال ہو جاتا ہے۔تیز گرمی میں باہر نکلنے سے پہلے وافر مقدار میں پانی پی کر نکلنے سے لو لگنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ لو لگنے کی صورت میں املی، کیری، سبز دھنیے لیموں و نیازبو کا پانی فائدے مند رہتا ہے۔ اس کے علاوہ لسی، ستو، کم دودھ میں وافر مقدار میں پانی کے ساتھ چینی و نمک ملا کر مستقل استعمال سے بھی افاقہ ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر بیس منٹ کے بعد پانی کا گلاس پینا چاہیے۔
گرمی کے موسم میں باہر کی ناقص غذا، آلودہ پانی، برف کا استعمال کئی وبائی بیماریوں کو متعارف کروا دیتا ہے۔ گرمی میں کالرا، آنتوں کی بیماریاں، ڈینگی، ٹائیفائیڈ، پیلیا، ملیریا، جسم میں پانی کا انحطاط اور لو لگنا وغیرہ شامل ہے۔ بچوں کو پہلے سے چکن پاکس، مینرلز (خسرے) ربیلا سے بچاؤ کے ٹیکے لگوانے چاہئیں۔ ہر سال ہزاروں بچے گیسٹرو کے مرض کا شکار ہو کے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ویکسین الگ غیر موثر ہو جاتی ہے۔ گرمیوں کے دنوں میں باہر کی غذا استعمال نہ کی جائے، پانی ابال کر پیا جائے اور صفائی و ستھرائی پر دھیان دینے سے کئی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔
گرمی کے دنوں میں چمڑی کی بیماریاں عام ہو جاتی ہیں۔ جس کا بھی ایک سادہ سا علاج ہے۔ نیم کے پتوں کو ابال کر مستقل ان سے غسل کرتے رہنا۔ قدیم زمانے میں نیم کا پانی ایسے مریضوں کو پلایا جاتا تھا۔ان دنوں فریج میں رکھا ہوا باسی کھانا بعض اوقات نقصان دے ثابت ہوتا ہے۔ بجلی دیر تک چلے جانے سے جمے ہوئے کھانوں کی افادیت متاثر ہوتی ہے۔ پروسیسڈ فوڈ یا گوشت فقط ان دکانوں سے لینا چاہیے، جہاں جنریٹر پر چوبیس گھنٹے فرج چلنے کی سہولت موجود ہو۔ اکثر خواتین بھی سہولت کی خاطر ایک وقت میں دنوں کا کھانا فریز کر لیتی ہیں۔ یہ سہولت گرمی کے دنوں کے لیے موزوں نہیں ہے۔ انھیں گھر والوں کو باسی کھانا کھلانے کے بجائے تازہ کھانا کھلانا چاہیے۔ تا کہ اہل خانہ صحتمند رہیں۔ اور انھیں بار بار اسپتال جانے کی نوبت نہ پیش آئے۔
آج کل ناقص غذا اور غیر شفاف پانی کی وجہ سے جگر کی بیماریوں میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ دوست کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ کھانے میں مزیدار قسم کی بریانی اور زردہ بھی تھا۔ کھانے کے بعد فرماتی ہیں کہ یہ کھانا دو مہینے پہلے ان کے بھائی کی شادی کا ہے، جو اس نے فریز کر دیا تھا۔ یہ سن کر تو اس وقت میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے! پھر وہ مجھے کفایت اور سہولت کے حوالے سے فریز کیے گئے کھانوں کے فوائد بتانے لگیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ایسی سہولتیں، اس موسم میں جان لیوا ثابت ہو سکتی ہیں۔
گرمی کے موسم کے آتے ہی ہر طرف ٹھیلے آموں سے سج جاتے ہیں۔ سگھڑ خواتین چٹنیاں، مربے اور اچار بناتی ہیں۔ جو تحفے کے طور پر ایک دوسرے کو بھیجے جاتے ہیں۔ آم کے تحائف رابطوں کو اور بھی مستحکم بنا دیتے ہیں۔ میل جول اور سماجی رابطوں کا یہ موسم ہر طرف مہک رہا ہے۔
سندھ کے دیہی علاقے شدید ترین گرمی کی لپیٹ میں ہیں۔گرمیاں شروع ہوتے ہی مزاج بھی بدلنے لگتے ہیں۔ ایک لحاظ سے گرمی کو ذات سے علیحدگی کا موسم بھی کہا جاتا ہے۔ ایک طرف گرمی کی شدت تو دوسری طرف بجلی کی آنکھ مچولی شروع ہو جاتی ہے۔ لوگ چڑچڑے اور حواس باختہ ہو جاتے ہیں۔ پانی کی قلت پریشانی میں اضافہ کر دیتی ہے۔ لیکن ذات سے بیزاری کے اس موسم میں بھی شادیوں کے دعوت نامے ملے ہیں۔
گرمی کی تعطیلات کا آغاز ہو چکا ہے، لہٰذا ماحول میں تخلیقی اثر اور تحرک پایا جاتا ہے۔ مہمانوں کی آمد و رفت کے سلسلے جاری ہیں۔ کچھ لوگ بیرون ملک سفر کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ذہن نئے منصوبے اور آنکھیں سہانے سفر کے خواب بن رہی ہیں۔ بچوں کے تھکا دینے والے امتحانات کے بعد مائیں بھی سکون کا سانس لیتی ہیں۔ ماحول میں بھی ٹھہراؤ آ جاتا ہے۔ گرمی کے دنوں میں سماجی رابطے عروج پر پہنچ جاتے ہیں۔ بہت سے گھروں میں مہمان پہنچ چکے ہیں۔ اور کہیں پر سفر کی تیاری چل رہی ہے۔ یہ تمام تر ہلچل محسوس کرنے پر ذہن کو جیسے نئے موسم کی نوید ملنے لگتی ہے۔
ہمارے ملک میں چاروں موسم طرح طرح کے کھانوں، مشروبات و دلچسپیوں سے سرشار ہیں۔ موسموں کے ساتھ وقت کے اوقات اور رہن سہن کے طریقے کار بھی بدل جاتے ہیں۔ جیسے سردیوں میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ رات ہوتے ہی گھر واپس لوٹ جائیں۔ جب کہ گرمی کے موسم میں رات گئے راستے، شاہراہیں و بازار لوگوں کے پر ہجوم بے کراں سے پر رونق رہتے ہیں۔قانون فطرت بھی عجب ہے۔ جس میں یہ عناصر ہم مزاج ہوں یا متضاد اپنے دائرے سے باہر نہیں جاتے۔ فطرت کے تمام تر اجزا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، ان میں انحصار، قربت، یقین اور مطلوبہ نتیجہ بھی برآمد ہوتا ہے۔ یہ ترتیب و توازن ہمیشہ مظاہر فطرت کا انمٹ حصہ ہے۔
زندگی حقیقت پسندی اور منطق کے اردگرد گھومتی ہے، جس میں جھوٹ، دھوکے اور منافقت کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ آپ جتنی محنت کریں گے، اتنا ہی صلہ ملے گا۔ قدرت کے اس نظام میں، انسان کے لیے سہولت و شفا کا حیران کن امتزاج ملتا ہے۔ جیسے گرمیوں کی سبزیوں و پھل، انسانی جسم کو ریشہ و پانی کی وافر مقدار مہیا کرتے ہیں۔ اس غذا میں موجود صحت بخش جزئیات جسم میں مختلف کیمیائی اجزا کی کمی کو پورا کرتے ہیں۔ گرمی کے موسم میں دستیاب ہونے والی غذا تاثیر میں ٹھنڈی اور معتدل پائی جاتی ہے۔ جھیلیں، دریا و سمندر گرمی کے موسم میں انسانی مزاج کو ٹھنڈا رکھتے ہیں۔ انسان نے پانی سے ہمیشہ تحرک حاصل کیا ہے۔
پانی اور احساس کا قریبی تعلق رہا ہے ۔ پانی کی قربت سکون، تخیل اور توانائی عطا کرتی ہے۔ جاپان کے سائنسدان ڈاکٹر مسارو اموٹو کہتے ہیں کہ ''نہ فقط پانی ہماری سوچ اور احساس پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ انسانی سوچ و جذبات بھی پانی کے مالیکیول اسٹرکچر (سالماتی ڈھانچے) پر اثرانداز ہوتے ہیں۔'' سمندر کی لہروں کا آہنگ اور تسلسل ذہن میں ٹھہراؤ کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ سمندر کی ہوا صحت بخش منفی آئرن (جوہری ذرات) سے بھری ہوئی ہے۔ جو جسم میں آکسیجن کو جذب کرنے کی صلاحیت بڑھاتے ہیں۔ یہ منفی آئرن انسانی جسم کے کیمیائی عمل Serotonin سیروٹنن میں توانائی پیدا کرتے ہیں۔ جسم میں ان کیمیائی اجزا کا توازن ذہنی و جسمانی دباؤ کو اعتدال پر لے کر آتا ہے۔
گرمی میں لو لگنے کے واقعات عام ہوتے ہیں۔ چھوٹے بچے گرمی کی شدت سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ شدید گرمی میں سر ڈھانپ کر باہر نکلنا چاہیے۔ لو لگنے کی صورت میں کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے قریبی سپر مارکیٹ، چوک اسٹور، سینیما یا ایسی جگہ جہاں ایئرکنڈیشن چلتے ہوں، پناہ لینی چاہیے۔ یا کسی سایہ دار ٹھنڈی جگہ آرام سے بیٹھ جائیں۔ کیونکہ اس وقت دماغ گھومتا ہے۔ دل کی دھڑکن بے قابو ہو جاتی ہے، سر درد بڑھ جاتا ہے۔ انسان کو خود کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ لہٰذا سب سے پہلے اس کیفیت کا تدارک ضروری ہے۔ اس کے بعد پانی پینے کا مرحلہ ہے۔ اگر بہت شدید گرمی ہے تو جسم کو پانی کی وافر مقدار چاہیے۔ اس کے بعد سر پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے تواتر سے برسائے جائیں۔ گیلا ٹھنڈا کپڑا گردن کے گرد لپیٹ کر بھی کچھ دیر میں آرام آ جاتا ہے۔ یا پھر کوئی رومال برف کے پانی سے تر کر کے سر پر لپیٹ دیا جائے۔
ایسی حالت میں زمین پر لیٹ کر پیر اوپر ٹکا لینے چاہئیں۔ پیروں کو جسم سے دو یا تین فٹ اونچا رکھنا ہے۔ میرے سامنے جب بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں، تو لوگوں پر گھبراہٹ طاری ہو جاتی ہے۔ گرمی کا ستایا ہوا شخص اور بھی حال سے بے حال ہو جاتا ہے۔تیز گرمی میں باہر نکلنے سے پہلے وافر مقدار میں پانی پی کر نکلنے سے لو لگنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ لو لگنے کی صورت میں املی، کیری، سبز دھنیے لیموں و نیازبو کا پانی فائدے مند رہتا ہے۔ اس کے علاوہ لسی، ستو، کم دودھ میں وافر مقدار میں پانی کے ساتھ چینی و نمک ملا کر مستقل استعمال سے بھی افاقہ ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر بیس منٹ کے بعد پانی کا گلاس پینا چاہیے۔
گرمی کے موسم میں باہر کی ناقص غذا، آلودہ پانی، برف کا استعمال کئی وبائی بیماریوں کو متعارف کروا دیتا ہے۔ گرمی میں کالرا، آنتوں کی بیماریاں، ڈینگی، ٹائیفائیڈ، پیلیا، ملیریا، جسم میں پانی کا انحطاط اور لو لگنا وغیرہ شامل ہے۔ بچوں کو پہلے سے چکن پاکس، مینرلز (خسرے) ربیلا سے بچاؤ کے ٹیکے لگوانے چاہئیں۔ ہر سال ہزاروں بچے گیسٹرو کے مرض کا شکار ہو کے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ویکسین الگ غیر موثر ہو جاتی ہے۔ گرمیوں کے دنوں میں باہر کی غذا استعمال نہ کی جائے، پانی ابال کر پیا جائے اور صفائی و ستھرائی پر دھیان دینے سے کئی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔
گرمی کے دنوں میں چمڑی کی بیماریاں عام ہو جاتی ہیں۔ جس کا بھی ایک سادہ سا علاج ہے۔ نیم کے پتوں کو ابال کر مستقل ان سے غسل کرتے رہنا۔ قدیم زمانے میں نیم کا پانی ایسے مریضوں کو پلایا جاتا تھا۔ان دنوں فریج میں رکھا ہوا باسی کھانا بعض اوقات نقصان دے ثابت ہوتا ہے۔ بجلی دیر تک چلے جانے سے جمے ہوئے کھانوں کی افادیت متاثر ہوتی ہے۔ پروسیسڈ فوڈ یا گوشت فقط ان دکانوں سے لینا چاہیے، جہاں جنریٹر پر چوبیس گھنٹے فرج چلنے کی سہولت موجود ہو۔ اکثر خواتین بھی سہولت کی خاطر ایک وقت میں دنوں کا کھانا فریز کر لیتی ہیں۔ یہ سہولت گرمی کے دنوں کے لیے موزوں نہیں ہے۔ انھیں گھر والوں کو باسی کھانا کھلانے کے بجائے تازہ کھانا کھلانا چاہیے۔ تا کہ اہل خانہ صحتمند رہیں۔ اور انھیں بار بار اسپتال جانے کی نوبت نہ پیش آئے۔
آج کل ناقص غذا اور غیر شفاف پانی کی وجہ سے جگر کی بیماریوں میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ دوست کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ کھانے میں مزیدار قسم کی بریانی اور زردہ بھی تھا۔ کھانے کے بعد فرماتی ہیں کہ یہ کھانا دو مہینے پہلے ان کے بھائی کی شادی کا ہے، جو اس نے فریز کر دیا تھا۔ یہ سن کر تو اس وقت میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے! پھر وہ مجھے کفایت اور سہولت کے حوالے سے فریز کیے گئے کھانوں کے فوائد بتانے لگیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ایسی سہولتیں، اس موسم میں جان لیوا ثابت ہو سکتی ہیں۔
گرمی کے موسم کے آتے ہی ہر طرف ٹھیلے آموں سے سج جاتے ہیں۔ سگھڑ خواتین چٹنیاں، مربے اور اچار بناتی ہیں۔ جو تحفے کے طور پر ایک دوسرے کو بھیجے جاتے ہیں۔ آم کے تحائف رابطوں کو اور بھی مستحکم بنا دیتے ہیں۔ میل جول اور سماجی رابطوں کا یہ موسم ہر طرف مہک رہا ہے۔