حماس اور اسرائیل میں جنگ بندی کا عندیہ

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے جو خوش کن اشارے مل رہے ہیں

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے جو خوش کن اشارے مل رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

قطر کا کہنا ہے کہ حماس اور اسرائیل قیدیوں کے تبادلے اور جنگ بندی معاہدے پر متفق ہو گئے ہیں۔ عالمی خبررساں ادارے کے مطابق قطر نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا سمیت دیگر فریقوں کی ثالثی کے نتیجے میں اسرائیل اور حماس سیزفائر معاہدے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔

فرانس میں قطر، امریکا، مصر اور اسرائیل کے حکام کے درمیان غزہ پر ہونے والی ملاقات میں اہم امور طے پا گئے اور اسرائیل نے جنگ بندی پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ اس حوالے سے قطر کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ پیرس میں ہونے والی اس ملاقات میں اسرائیل کو جنگ بندی کے بدلے اسرائیلی یرغمالی اور فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کی نئی پیشکش کی گئی جو اس نے قبول کر لی۔

حماس نے بھی اس نئی پیش کش پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔ اگلے چند ہفتوں میں معاہدہ طے پا جانے کا قوی امکان ہے۔ جنگ بندی معاہدے سے متعلق تفصیلات جلد سامنے آ جائیں گی۔ یاد رہے اس سے قبل اسرائیل نے فریقین کی جانب سے پیش کی گئی جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے سے متعلق معاہدے کے کچھ نکات پر اعتراض کرتے ہوئے معاہدے سے انکار کر دیا تھا۔

نومبر 2023میں بھی اسرائیل اور حماس کے درمیان سات روزہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا۔ جنگ بندی کے اس معاہدے کے دوران حماس نے 80 اسرائیلی یرغمالیوں جب کہ اس کے جواب میں اسرائیل نے 240 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا تھا۔ اس معاہدے سے یہ امید بندھی تھی کہ یہ معاہدہ طول پکڑے گا اور اسرائیل اور حماس میں مستقل جنگ بندی ہونے سے علاقے میں امن قائم ہو جائے گا اور فریقین دوبارہ جنگ شروع کرنے سے گریز کریں گے۔

اس معاہدے سے یہ حقیقت بھی عیاں ہو گئی کہ اسرائیل نے حماس کو ایک متبادل قوت تسلیم کر لیا ہے لیکن اس معاہدے کے سات روز بعد ہی اسرائیل نے خلاف ورزی کرتے ہوئے جنگ بندی توڑ دی اور دسمبر 2023 کو فلسطینی علاقوں پر شدید بمباری شروع کر دی۔ حماس کے مطابق اس بمباری سے 109 فلسطینی شہید جب کہ سیکڑوں زخمی ہو گئے۔

اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ اس نے زمینی، فضائی اور بحری حملوں میں فلسطینی علاقوں خان یونس، رفح اور جنوبی وشمالی غزہ میں 200 اہداف کو نشانہ بنایا۔ اس کے بعد بھی اسرائیل کی جارحیت رکی نہیں اور اس نے غزہ پر حملوں میں تیزی پیدا کر دی جس سے فلسطینیوں کی شہادتوں میں روزبروز اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اسرائیل نے اپنے انتقام کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لیے حماس کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی دھمکیاں دینی شروع کر دیں۔

فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے دوبارہ حملوں سے اس صورت حال کی عکاسی ہوئی کہ وہ اس جنگ کی آڑ میں اپنے کئی اہداف حاصل کرنا چاہتا تھا جن میں سرفہرست حماس کا مکمل خاتمہ اور غزہ سے فلسطینیوں کی مکمل بے دخلی تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اسرائیل نے جنگ بندی کا ڈرامہ رچایا اور اپنے قیدیوں کو حماس سے رہا کروا لیا اور اس کے بعد اس نے فلسطینی علاقوں پر پھر سے حملے شروع کر دیے۔

جنگ بندی کے معاہدے کی اس خلاف ورزی پر اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس نے سخت افسوس کا اظہار کیا اور سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں یہ امید ظاہر کی کہ جنگ بندی کی تجدید ممکن ہے، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے غزہ میں دوبارہ جنگ کے آغاز کو تباہ کن قرار دیتے ہوئے اسے بدترین بحران سے تعبیر کیا۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے جنگ بندی کے فوری بعد اسرائیل کی دوبارہ وحشیانہ بمباری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ غزہ پر جو ظلم ڈھایا جا رہا ہے، وہ جنگی جرائم میں شمار ہوتا ہے۔ فلسطینی صحافیوں نے اسرائیل کی بمباری سے ہونے والی تباہی کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا کہ ان کے گھر، اہم مقامات، اسکول، یونیورسٹیاں اور ریسٹورنٹس صفحۂ ہستی سے مٹا دیے گئے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کا مقصد ہمیشہ سے غزہ کو نقشے سے ختم کرنا اور جان بوجھ کر اس شہر کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل پر جنگ بندی کا دباؤ جاری رہا مگر اس نے کسی بھی قوت کی کوئی پرواہ نہیں کی۔


گزشتہ دنوں دی ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے بعد اسرائیلی حکومت پر دباؤ بڑھنا شروع ہوا، عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو جنگ بندی کا حکم دیا، بظاہر اسرائیل اس فیصلے کی مخالفت کر رہا ہے لیکن صورت حال اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے بعد اسرائیل اور امریکا دونوں دباؤ میں آئے ہیں اور اب اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے اشارے عالمی عدالت انصاف کے اسی فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کی عکاسی کرتے ہیں۔

ایک جانب اسرائیل نے فلسطین پر حملوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے تو دوسری جانب امریکا نے شام اور عراق میں ایرانی اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے حملوں کے منصوبوں کی منظوری دے دی ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ایک امریکی سینئر عہدیدار نے بتایا کہ یہ حملے آیندہ آنے والے دنوں میں کیے جائیں گے اور موسم کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کیا جائے گا کہ ان حملوں کا آغاز کب سے ہو گا۔ یہ فیصلہ چند دن قبل اردن پر امریکی اڈے پر حملے میں تین امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد کیا گیا۔

امریکا نے ان حملوں کے بعد الزام عائد کیا تھا کہ ایران کے حمایت یافتہ شدت پسندوں نے امریکی اڈے کو نشانہ بنایا تھا۔ یہ مانا جا رہا ہے کہ عراق میں اسلامی مزاحمتی فرنٹ نے امریکی اڈوں کو نشانہ بنایا تھا جس کے بارے میں امریکا نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے ایران کے پاسداران انقلاب کی جانب سے ہتھیار اور فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں۔

امریکا کی جانب سے شام اور عراق میں حملوں کی دھمکی کے بعد واضح ہوتا ہے کہ یہ علاقہ ایک بار پھر جنگ وجدل کا میدان بننے والا ہے اور یہاں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلنے کا امکان ہے اور خطے میں امن قائم کرنے کی خواہش دم توڑ جائے گی۔ اگر امریکا اور اس کے اتحادیوں نے خطے میں حملے شروع کیے تو اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ جنگ ختم ہونے کے بجائے مزید پھیل سکتی ہے اور اگر ایران نے بھی امریکا پر جوابی حملے شروع کر دیے تو پھر پورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔

اس جنگ کے پاکستان کی معیشت پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اس خطے کو مسلسل جنگ زدہ رکھنا امریکا اور اسرائیل کی سازش معلوم ہوتا ہے۔ اس سے امریکا کیا اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے ابھی تک صورت حال واضح نہیں ہو سکی۔ ایسی صورت میں اسلامی ممالک کو باہمی اختلافات ختم کر کے مضبوط آواز اٹھانی چاہیے ، امریکا اور اس کے اتحادیوں کو اس خطے میں مزید کسی جنگی کارروائی سے روکنے کے لیے میدانِ عمل میں آنا چاہیے۔

اس خطے میں ہونے والی کسی بھی جنگی کارروائی کے منفی اثرات مسلم ممالک پر ہی مرتب ہوں گے اور اس کا خمیازہ بھی انھیں ہی بھگتنا پڑے گا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ خطے کی جنگی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو امریکا یمن میں 10 حملہ آور ڈرونز اور ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں سے تعلق رکھنے والے ایک زمینی کنٹرول اسٹیشن کو فضائی حملوں میں نشانہ بنا چکا ہے۔

ادھر یمنی حوثی گروپ بھی اسرائیل کی طرف جانے والے جہازوں کو نشانہ بنانے کی دھمکیاں دے چکے ہیں۔ یہ صورت حال کوئی خوش آیند نہیں۔ جو اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی ایک منصوبے کے تحت اس خطے میں امن قائم نہیں رکھنا چاہتے اور اسے جنگ زدہ رکھ کر اپنے کچھ اہداف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

اب اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے جو خوش کن اشارے مل رہے ہیں، اس سلسلے میں یہ کوشش کی جانی چاہیے کہ یہ جنگ بندی پہلے کی طرح عارضی نہ ہو کہ اسرائیل چند دنوں کے بعد پھر سے فلسطینی علاقوں پر حملے شروع کر دے، اس جنگ بندی معاہدے کو مستقل شکل دی جانی چاہیے ، اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مستقل امن قائم کرنے کے لیے کسی پائیدار نتیجے پر پہنچنا ناگزیر ہو چکا ہے۔

اگر اسرائیل نے پہلے کی طرح خلاف ورزی کرتے ہوئے جنگ بندی معاہدے کو پھر توڑ دیا اور فلسطین پر حملے شروع کر دیے تو فلسطینیوں اور ان کے حمایتیوں کا اسرائیل اور امریکا پر سے اعتبار اٹھ جائے گا اور وہ دوبارہ کسی جنگ بندی معاہدے پر پہنچنے کے لیے جلد راضی نہ ہوں گے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ دونوں طرف سے فریقین ایک دوسرے پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے جس سے خطے میں تباہی اور ہلاکتوں کا سلسلہ بڑھتا چلا جائے گا۔ لہٰذا اقوام متحدہ اور جنگ بندی میں شریک قوتوں کو چاہیے کہ وہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے کو مستقل شکل دیں۔
Load Next Story