انتخابات اور عوامی مسائل کا حل
موسلا دھار بارش کے بعد بجلی کا نظام فیل اور آٹھ سو سے زائد فیڈر متاثر ہونے سے شہر میں تاریکی چھا گئی
ملک میں عام انتخابات کی گہما گہمی آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہے، سیاسی جماعتیں اور امیدوار ووٹروں کو متاثر کرنے کے لیے خوشنما وعدے کررہے ہیں، آسمان سے تارے توڑکر لانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
دوسری جانب ہمارے عوام اتنے سادہ لوح ہیں کہ ان وعدوں پر آنکھیں بند کرکے حسب روایت پھر یقین کر رہے ہیں، جب کہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہرکراچی میں صرف ایک گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی بارش میں شہر ڈوب گیا۔
موسلا دھار بارش کے بعد بجلی کا نظام فیل اور آٹھ سو سے زائد فیڈر متاثر ہونے سے شہر میں تاریکی چھا گئی، اہم شاہراہوں اور سڑکوں پرکئی فٹ پانی جمع ہونے سے ٹریفک کا نظام درہم برہم جب کہ کئی مقامات پر بارش کا پانی گھروں میں داخل ہوگیا، یوں صوبائی محکموں اور بلدیاتی اداروں کی ناقص کارکردگی ایک بار پھر کھل کر سامنے آگئی۔
اب تک کی انتخابی مہم اپنے آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں نے عوام سے جلسے جلوسوں میں جوکہنا تھا کہہ دیا، لیکن ماہرین کے مطابق یہ مہم داخلی معاشی صورت حال اور سیاست پر زیادہ مرکوز رہی، اس میں خارجہ امور، معاشی اصلاحات، ماحولیاتی تبدیلی یا سیکیورٹی مسائل پرکوئی بات نہیں ہوئی۔
انتخابی مہم کے دوران آج بجلی یونٹ مفت دینے کی بات ہورہی ہے کوئی پوچھے کہ کیا آئی ایم ایف اپنا بوریا بستر اُٹھا کر چلا جائے گا؟ کیا قرضے ختم ہوجائیں گے اور دودھ و شہد کی نہریں بہنے لگیں گی؟ آخر ہوگا کیا کہ جن کی بنیاد پر ایسے وعدے کیے جا رہے ہیں۔
سیاسی جماعتیں اپنا حقیقی معاشی پلان عوام کے سامنے رکھیں تاکہ انھیں حقائق کی بنیاد پر فیصلہ کرنے میں آسانی رہے، مگر جھوٹے نعروں کی گونج میں ایسا کرنے کا رسک کون مول لے سکتا ہے؟ ہمارے یہاں موسمیاتی تبدیلی کے لیے مناسب بجٹ نہیں رکھا جاتا۔کئی جگہوں پر اب اولے کئی گنا بڑے پڑے، یہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی نے دو شعبوں آبی ذخائر اور زراعت پر بہت منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے دنیا میں سب سے زیادہ متاثرہ تیسرے ملک کے طور پر سامنے آیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہماری زراعت کا شعبہ بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی نے ہمارے نہری نظام کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ ہمارے یہاں بیجوں پرکوئی تحقیق نہیں ہورہی ہے۔ آنے والے وقت میں پانی کے ریزوائر ختم ہوجائیں گے، گلیشیئر ختم ہوجائیں گے۔
بیس برس بعد ہماری آبادی چالیس کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ اس وقت عام آدمی مہنگائی اور بے روزگاری سے پریشان ہے اور مزدوروکسان مسائل سے عاجز آکر اپنی جان دے رہے ہیں۔ غربت کا سلسلہ چل رہا تھا اور چل رہا ہے اور یہ سلسلہ نہ رک رہا ہے اور نہ روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پھر بھی دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے کہ ملک آگے بڑھ رہا ہے، ترقی کررہا ہے حالانکہ ترقی صرف جاگیردار اور سرمایہ دار کررہے ہیں۔
ہمارے تعلیمی ڈھانچے کے جو نتائج سامنے آرہے ہیں وہ افسوسناک ہیں اور المناک صورتحال یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام لارڈ میکالے کا بنایا ہوا جو صرف نظام کے کلرک پیدا کرتا ہے۔ سرمایہ داری نظام معیشت معاشرے میں ایک خاص طبقے کی اجارہ داری قائم کر کے 98 فیصد طبقے کو محروم معیشت بناتا ہے اور یہ نظام سماج میں غربت و افلاس اور بیروزگاری پیدا کرتا ہے، سوسائٹی کو آگے بڑھانے کے بجائے عالمی سامراج کے قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیتا ہے۔
اصل مسائل سے فرار ہمارا مجموعی مزاج بن چکا ہے۔افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ سب اچھا کی رٹ ہے اور عوامی مسائل کا حل کسی کے پاس نہیں۔ عوام کے اندر پیدا ہونے والی یہ بے چینی کی کیفیت، مایوسی کا یہ عالم اور دلوں میں پلنے والا یہ غم و غصہ کس انجام کو پہنچے گا، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اگر بروقت اس جانب توجہ نہیں دی گئی اور اس مسئلے کے سد باب کے لیے سرکارکی سطح پرکوشش نہیں کی گئی، توخدشہ ہے کہ یہ حالات ملک کی تصویر نہ بدل دیں۔
تمام سیاسی لیڈروں کی ناکامی کی بڑی وجہ ہمارا انتخابی نظام ہے جو جاگیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ ہے۔ اس انتخابی نظام میں صرف وہی لوگ منتخب ہو سکتے ہیں جن کے پاس کروڑوں روپے ہوں۔ مالدار امیدوار کروڑوں روپے خرچ کرکے ایوانوں میں پہنچتے ہیں، لہٰذا ان کی پہلی ترجیح عوام نہیں بلکہ مال اور آنے والے انتخابات ہوتے ہیں۔ وہ پانچ سال انتخابات پر خرچ کیے ہوئے مال کو دوگنا، تین گنا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
ان کی تنخواہوں اور مراعات پر عوام کے اربوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ عدالتی اور پولیس اصلاحات کسی سیاسی رہنما کے خطاب کا موضوع نہیں بنتا۔ عوام کو حشرات الارض سمجھ لیا گیا جن کا مسئلہ صرف پیٹ کی بھوک ہے گویا پچاس سال پہلے کی سیاست بھی اسی نکتے کے گرد گھوم رہی تھی اور آج کی سیاست کا محور بھی یہی نکتہ ہے۔ عوام ان سیاست دانوں کے نزدیک مٹی کے مادھو ہیں، جنھیں لایعنی اور بے معنی وعدوں سے بہلایا جا سکتا ہے۔
سیاست دان بھی یہ جانتے ہیں کہ اس ملک میں جھوٹے وعدوں پر کوئی گرفت نہیں ہوتی ہے ، اس لیے وعدے کرتے جاؤ اور عوام کے زخموں پر نمک چھڑکتے رہو۔ عوام نے انھی میں سے سامنے آنے والے لوگوں کو ووٹ دینا ہے جب ہر سیاسی جماعت ایک سے بڑھ کر ایک خوشنما خواب دکھانے لگے تو عوام کہاں جائیں۔ اُن کی چکا چوند سے متاثر نہ ہوں تو کیا کریں۔
پاکستان کے جمہوری سیاسی نظام میں عوام محض انتخابات کے دوران ہی شریک سفر نظر آتے ہیں پھر اس کے بعد عوام اور ان کے منتخب کردہ حکمرانوں کے درمیان ایک نہ عبور ہونے والی دیوار حائل ہوجاتی ہے۔
اقتدارکی بے حس راہ داریوں میں حکمرانوں کو عوام، ان سے کیے گئے وعدے اور دکھائے جانے والے سارے خواب یاد نہیں رہتے۔ اقتدار کی ان دیکھی بہت ساری مجبوریاں عوام اور حکمرانوں کے درمیان فاصلے بن جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ کراچی سمیت ملک کے دیگر بڑے شہر انفرا اسٹرکچر کی عدم دستیابی کے باعث گونا گوں مسائل کا شکار ہیں۔
اس وقت عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی اور غربت ہے اس لیے اُن سے نجات کے لیے وعدے کیے جارہے ہیں، پاکستان میں سیاسی جماعتیں عموماً بلند و بانگ دعوے کرتی ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کرنا مشکل ہوتا ہے، درحقیقت دنیا جمہوری سیاست کو عمومی طور پر عوامی مفادات کے تحفظ کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ سیاست دان اور سیاسی جماعتیں عوامی بہبود اور ریاستی ترقی کے منصوبوں کے ساتھ عوامی حمایت کے حصول کے لیے انتخابی عمل میں حصہ لیتی ہیں۔
اکثریت کی حمایت مل جانے پر حکومت کی تشکیل کرتی ہیں اور پھر اپنے منشور اور وعدوں کے مطابق حکومتی دورانیے میں ان کی تکمیل کرتی ہیں۔ جمہوری سیاسی نظام میں انتخابات کے موقع پر سیاسی جماعتوں، بالخصوص حکمران سیاسی جماعتوں کا سیاسی اور عوامی احتساب ان کے منشور اور وعدوں کی روشنی میں کیا جاتا ہے مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔
یہ ہی وہ موقع ہے جس میں عوام کو اپنے اور ریاست کے بہتر مستقبل کے لیے ہر قسم کے تعصبات سے بالا تر ہو کر اپنے سیاسی شعور کو بروئے کار لانا ہوگا سیاسی قائدین سے ان کے وعدوں کی روشنی میں ان کا محاسبہ کر نا ہوگا۔ یہ روایت ایک بار بھی اگر جڑ پکڑ جائے تو یقین جانیے پھر سیاسی قائدین کی جانب سے کیے جانے والے وعدے محض وعدے نہیں رہیں گے بلکہ ان کا پورا کیا جانا بھی ضروری قرار پائے گا۔
سیاسی لیڈر اتنے بڑے بڑے وعدے تو کر رہے ہیں لیکن عوام اور میڈیا ان سے پتہ کریں کہ بڑے بڑے منصوبوں کی تکمیل کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا؟ سیاسی لیڈر جو مرضی وعدے کرتے رہیں جب تک آئی ایم ایف کا معاہدہ برقرار ہے یہ اپنی مرضی سے سبسڈی تک نہیں دے سکیں گے۔ منصوبوں کے لیے خطیر رقم چاہیے۔
قرض تو پہلے ہی اتنے بڑھ چکے ہیں کہ ان کی قسط دینے میں ہمارا بجٹ متاثر ہوجاتا ہے۔ عوام کو سہولت دینا ہر حکومت کی یقینی طور پر ترجیح ہوتی ہے۔ ماضی میں حکومتوں نے کئی وعدے پورے کیے بھی ہیں، لیکن بیشتر صرف وعدے ہی رہ گئے عملی طور پر کسی کو کچھ نہیں مل سکا۔
گزشتہ 15 سال کے دوران کسی قومی یا صوبائی اسمبلی نے مفاد عامہ کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی، اگر انتخابی نظام کو تبدیل نہ کیا گیا تو اگلے انتخابات میں بھی روایتی چہرے اور ان کی اولادیں ہی منتخب ہوکر آجائیں گے اور عوام کے مسائل حل نہیں ہو سکیں گے۔
ہم ان سطور کے ذریعے خواہش رکھتے ہیں کہ جمہوری نظام کا تسلسل بلا رکاوٹ قائم رہنا چاہیے، اگر انتخابات میں سیاسی انجینئرنگ نہ کی جائے اور شفاف انتخابات ہوتے رہیں تو پاکستان کی جمہوریت سے سرمایہ کا عمل دخل ختم ہو جائے گا۔ پاکستان کے عوام کو بیدار اور باشعورکرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ شخصیت پرستی، برادری، قبیلہ اور فرقہ کے بجائے پارٹیوں کے منشور اور امیدوار کے کردار کی روشنی میں ووٹ دینے پر آمادہ ہو جائیں۔
جب تک عوام اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ نہیں دیں گے ان کا اپنا اور پاکستان کا مقدر مخدوش ہی رہے گا۔ ماضی کی حکمران جماعتوں نے کسی نہ کسی صورت اپنے حجم کے مطابق کام کرنے کی کوشش کی لیکن اس بار معاملہ یہ ہے کہ معاشی حالات بہت برے ہیں اس لیے آیندہ حکومت کو ان چیلنجز سے نمنٹنا ہوگا۔
دوسری جانب ہمارے عوام اتنے سادہ لوح ہیں کہ ان وعدوں پر آنکھیں بند کرکے حسب روایت پھر یقین کر رہے ہیں، جب کہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہرکراچی میں صرف ایک گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی بارش میں شہر ڈوب گیا۔
موسلا دھار بارش کے بعد بجلی کا نظام فیل اور آٹھ سو سے زائد فیڈر متاثر ہونے سے شہر میں تاریکی چھا گئی، اہم شاہراہوں اور سڑکوں پرکئی فٹ پانی جمع ہونے سے ٹریفک کا نظام درہم برہم جب کہ کئی مقامات پر بارش کا پانی گھروں میں داخل ہوگیا، یوں صوبائی محکموں اور بلدیاتی اداروں کی ناقص کارکردگی ایک بار پھر کھل کر سامنے آگئی۔
اب تک کی انتخابی مہم اپنے آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں نے عوام سے جلسے جلوسوں میں جوکہنا تھا کہہ دیا، لیکن ماہرین کے مطابق یہ مہم داخلی معاشی صورت حال اور سیاست پر زیادہ مرکوز رہی، اس میں خارجہ امور، معاشی اصلاحات، ماحولیاتی تبدیلی یا سیکیورٹی مسائل پرکوئی بات نہیں ہوئی۔
انتخابی مہم کے دوران آج بجلی یونٹ مفت دینے کی بات ہورہی ہے کوئی پوچھے کہ کیا آئی ایم ایف اپنا بوریا بستر اُٹھا کر چلا جائے گا؟ کیا قرضے ختم ہوجائیں گے اور دودھ و شہد کی نہریں بہنے لگیں گی؟ آخر ہوگا کیا کہ جن کی بنیاد پر ایسے وعدے کیے جا رہے ہیں۔
سیاسی جماعتیں اپنا حقیقی معاشی پلان عوام کے سامنے رکھیں تاکہ انھیں حقائق کی بنیاد پر فیصلہ کرنے میں آسانی رہے، مگر جھوٹے نعروں کی گونج میں ایسا کرنے کا رسک کون مول لے سکتا ہے؟ ہمارے یہاں موسمیاتی تبدیلی کے لیے مناسب بجٹ نہیں رکھا جاتا۔کئی جگہوں پر اب اولے کئی گنا بڑے پڑے، یہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی نے دو شعبوں آبی ذخائر اور زراعت پر بہت منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے دنیا میں سب سے زیادہ متاثرہ تیسرے ملک کے طور پر سامنے آیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہماری زراعت کا شعبہ بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی نے ہمارے نہری نظام کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ ہمارے یہاں بیجوں پرکوئی تحقیق نہیں ہورہی ہے۔ آنے والے وقت میں پانی کے ریزوائر ختم ہوجائیں گے، گلیشیئر ختم ہوجائیں گے۔
بیس برس بعد ہماری آبادی چالیس کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ اس وقت عام آدمی مہنگائی اور بے روزگاری سے پریشان ہے اور مزدوروکسان مسائل سے عاجز آکر اپنی جان دے رہے ہیں۔ غربت کا سلسلہ چل رہا تھا اور چل رہا ہے اور یہ سلسلہ نہ رک رہا ہے اور نہ روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پھر بھی دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے کہ ملک آگے بڑھ رہا ہے، ترقی کررہا ہے حالانکہ ترقی صرف جاگیردار اور سرمایہ دار کررہے ہیں۔
ہمارے تعلیمی ڈھانچے کے جو نتائج سامنے آرہے ہیں وہ افسوسناک ہیں اور المناک صورتحال یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام لارڈ میکالے کا بنایا ہوا جو صرف نظام کے کلرک پیدا کرتا ہے۔ سرمایہ داری نظام معیشت معاشرے میں ایک خاص طبقے کی اجارہ داری قائم کر کے 98 فیصد طبقے کو محروم معیشت بناتا ہے اور یہ نظام سماج میں غربت و افلاس اور بیروزگاری پیدا کرتا ہے، سوسائٹی کو آگے بڑھانے کے بجائے عالمی سامراج کے قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیتا ہے۔
اصل مسائل سے فرار ہمارا مجموعی مزاج بن چکا ہے۔افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ سب اچھا کی رٹ ہے اور عوامی مسائل کا حل کسی کے پاس نہیں۔ عوام کے اندر پیدا ہونے والی یہ بے چینی کی کیفیت، مایوسی کا یہ عالم اور دلوں میں پلنے والا یہ غم و غصہ کس انجام کو پہنچے گا، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اگر بروقت اس جانب توجہ نہیں دی گئی اور اس مسئلے کے سد باب کے لیے سرکارکی سطح پرکوشش نہیں کی گئی، توخدشہ ہے کہ یہ حالات ملک کی تصویر نہ بدل دیں۔
تمام سیاسی لیڈروں کی ناکامی کی بڑی وجہ ہمارا انتخابی نظام ہے جو جاگیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ ہے۔ اس انتخابی نظام میں صرف وہی لوگ منتخب ہو سکتے ہیں جن کے پاس کروڑوں روپے ہوں۔ مالدار امیدوار کروڑوں روپے خرچ کرکے ایوانوں میں پہنچتے ہیں، لہٰذا ان کی پہلی ترجیح عوام نہیں بلکہ مال اور آنے والے انتخابات ہوتے ہیں۔ وہ پانچ سال انتخابات پر خرچ کیے ہوئے مال کو دوگنا، تین گنا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
ان کی تنخواہوں اور مراعات پر عوام کے اربوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ عدالتی اور پولیس اصلاحات کسی سیاسی رہنما کے خطاب کا موضوع نہیں بنتا۔ عوام کو حشرات الارض سمجھ لیا گیا جن کا مسئلہ صرف پیٹ کی بھوک ہے گویا پچاس سال پہلے کی سیاست بھی اسی نکتے کے گرد گھوم رہی تھی اور آج کی سیاست کا محور بھی یہی نکتہ ہے۔ عوام ان سیاست دانوں کے نزدیک مٹی کے مادھو ہیں، جنھیں لایعنی اور بے معنی وعدوں سے بہلایا جا سکتا ہے۔
سیاست دان بھی یہ جانتے ہیں کہ اس ملک میں جھوٹے وعدوں پر کوئی گرفت نہیں ہوتی ہے ، اس لیے وعدے کرتے جاؤ اور عوام کے زخموں پر نمک چھڑکتے رہو۔ عوام نے انھی میں سے سامنے آنے والے لوگوں کو ووٹ دینا ہے جب ہر سیاسی جماعت ایک سے بڑھ کر ایک خوشنما خواب دکھانے لگے تو عوام کہاں جائیں۔ اُن کی چکا چوند سے متاثر نہ ہوں تو کیا کریں۔
پاکستان کے جمہوری سیاسی نظام میں عوام محض انتخابات کے دوران ہی شریک سفر نظر آتے ہیں پھر اس کے بعد عوام اور ان کے منتخب کردہ حکمرانوں کے درمیان ایک نہ عبور ہونے والی دیوار حائل ہوجاتی ہے۔
اقتدارکی بے حس راہ داریوں میں حکمرانوں کو عوام، ان سے کیے گئے وعدے اور دکھائے جانے والے سارے خواب یاد نہیں رہتے۔ اقتدار کی ان دیکھی بہت ساری مجبوریاں عوام اور حکمرانوں کے درمیان فاصلے بن جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ کراچی سمیت ملک کے دیگر بڑے شہر انفرا اسٹرکچر کی عدم دستیابی کے باعث گونا گوں مسائل کا شکار ہیں۔
اس وقت عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی اور غربت ہے اس لیے اُن سے نجات کے لیے وعدے کیے جارہے ہیں، پاکستان میں سیاسی جماعتیں عموماً بلند و بانگ دعوے کرتی ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کرنا مشکل ہوتا ہے، درحقیقت دنیا جمہوری سیاست کو عمومی طور پر عوامی مفادات کے تحفظ کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ سیاست دان اور سیاسی جماعتیں عوامی بہبود اور ریاستی ترقی کے منصوبوں کے ساتھ عوامی حمایت کے حصول کے لیے انتخابی عمل میں حصہ لیتی ہیں۔
اکثریت کی حمایت مل جانے پر حکومت کی تشکیل کرتی ہیں اور پھر اپنے منشور اور وعدوں کے مطابق حکومتی دورانیے میں ان کی تکمیل کرتی ہیں۔ جمہوری سیاسی نظام میں انتخابات کے موقع پر سیاسی جماعتوں، بالخصوص حکمران سیاسی جماعتوں کا سیاسی اور عوامی احتساب ان کے منشور اور وعدوں کی روشنی میں کیا جاتا ہے مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔
یہ ہی وہ موقع ہے جس میں عوام کو اپنے اور ریاست کے بہتر مستقبل کے لیے ہر قسم کے تعصبات سے بالا تر ہو کر اپنے سیاسی شعور کو بروئے کار لانا ہوگا سیاسی قائدین سے ان کے وعدوں کی روشنی میں ان کا محاسبہ کر نا ہوگا۔ یہ روایت ایک بار بھی اگر جڑ پکڑ جائے تو یقین جانیے پھر سیاسی قائدین کی جانب سے کیے جانے والے وعدے محض وعدے نہیں رہیں گے بلکہ ان کا پورا کیا جانا بھی ضروری قرار پائے گا۔
سیاسی لیڈر اتنے بڑے بڑے وعدے تو کر رہے ہیں لیکن عوام اور میڈیا ان سے پتہ کریں کہ بڑے بڑے منصوبوں کی تکمیل کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا؟ سیاسی لیڈر جو مرضی وعدے کرتے رہیں جب تک آئی ایم ایف کا معاہدہ برقرار ہے یہ اپنی مرضی سے سبسڈی تک نہیں دے سکیں گے۔ منصوبوں کے لیے خطیر رقم چاہیے۔
قرض تو پہلے ہی اتنے بڑھ چکے ہیں کہ ان کی قسط دینے میں ہمارا بجٹ متاثر ہوجاتا ہے۔ عوام کو سہولت دینا ہر حکومت کی یقینی طور پر ترجیح ہوتی ہے۔ ماضی میں حکومتوں نے کئی وعدے پورے کیے بھی ہیں، لیکن بیشتر صرف وعدے ہی رہ گئے عملی طور پر کسی کو کچھ نہیں مل سکا۔
گزشتہ 15 سال کے دوران کسی قومی یا صوبائی اسمبلی نے مفاد عامہ کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی، اگر انتخابی نظام کو تبدیل نہ کیا گیا تو اگلے انتخابات میں بھی روایتی چہرے اور ان کی اولادیں ہی منتخب ہوکر آجائیں گے اور عوام کے مسائل حل نہیں ہو سکیں گے۔
ہم ان سطور کے ذریعے خواہش رکھتے ہیں کہ جمہوری نظام کا تسلسل بلا رکاوٹ قائم رہنا چاہیے، اگر انتخابات میں سیاسی انجینئرنگ نہ کی جائے اور شفاف انتخابات ہوتے رہیں تو پاکستان کی جمہوریت سے سرمایہ کا عمل دخل ختم ہو جائے گا۔ پاکستان کے عوام کو بیدار اور باشعورکرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ شخصیت پرستی، برادری، قبیلہ اور فرقہ کے بجائے پارٹیوں کے منشور اور امیدوار کے کردار کی روشنی میں ووٹ دینے پر آمادہ ہو جائیں۔
جب تک عوام اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ نہیں دیں گے ان کا اپنا اور پاکستان کا مقدر مخدوش ہی رہے گا۔ ماضی کی حکمران جماعتوں نے کسی نہ کسی صورت اپنے حجم کے مطابق کام کرنے کی کوشش کی لیکن اس بار معاملہ یہ ہے کہ معاشی حالات بہت برے ہیں اس لیے آیندہ حکومت کو ان چیلنجز سے نمنٹنا ہوگا۔