کارکردگی

تمام ہی سیاسی پارٹیاں اپنی جیت کوممکن بنانے کے لیے جلسے منعقدکرکے عوام کواپنی جانب متوجہ کرنے میں پورا زور لگارہی ہیں

usmandamohi@yahoo.com

اس وقت ملک میں انتخابی سرگرمیاں زور شور سے جاری ہیں۔ تمام ہی سیاسی پارٹیاں اپنی جیت کو ممکن بنانے کے لیے جلسے منعقد کرکے عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں پورا زور لگا رہی ہیں۔

ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں میں سے پاکستان تحریک انصاف اس وقت اپنے بانی کی سزا اور انتخابی نشان بلّے کے کھو جانے کی وجہ سے سخت تذبذب کا شکار ہے۔ اب ایسی صورت حال میں اس کے امیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن لڑیں گے۔ پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کو دیکھ کر کئی سیاسی پارٹیوں کے منہ میں پانی آ رہا ہے کہ انھیں کسی طرح اپنے ساتھ ملا لیا جائے۔

لگتا بھی ایسا ہی ہے کہ الیکشن جیتنے کے بعد اکثر پی ٹی آئی ممبران بڑی سیاسی پارٹیوں میں اپنی جگہ بنا لیں گے۔ پی ٹی آئی کے ایک سابق رہنما فیصل واؤڈا پہلے ہی پیش گوئی کر چکے ہیں کہ الیکشن کے بعد پی ٹی آئی کے کئی کامیاب ممبران خود کو فروخت کے لیے پیش کر سکتے ہیں۔ دوسری سیاسی پارٹیوں سے زیادہ اس وقت بلاول بھٹو نے پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے آزاد کامیاب ارکان کو ملا کر مرکز میں اپنی حکومت تشکیل دے لیں گے۔ انھوں نے گزشتہ دنوں لاہور میں منعقد ہونے والے ایک جلسے میں پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کو پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دے دی ہے۔

انھوں نے پی ٹی آئی کے ممبران کو اپنی جانب کھینچنے کے لیے یہ بھی کہنا شروع کردیا ہے کہ (ن) لیگ پی ٹی آئی سے انتقام لے رہی ہے ان سے پہلے پیپلز پارٹی والے بھی (ن) لیگ کے انتقام کا نشانہ بن چکے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے لاہور کے جلسے میں اچانک اعتزاز احسن نے بھی شرکت کر کے پیپلز پارٹی سے اپنیدوری کو دور کر دیا ہے۔ ان کے پی پی میں واپس آنے سے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم کچھ تیز ہوتی نظر آ رہی ہے تاہم اکثر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی پی کا پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کو اپنی جانب راغب کرنے میں کافی مشکلات حائل ہیں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی اپنے کسی بھی ممبر کے پی پی پی کی حمایت کرنے کے سخت خلاف ہیں پھر اگر کچھ آزاد پی ٹی آئی امیدوار انتخابات میں کامیابی کے بعد پی پی پی کی حمایت کرتے بھی ہیں تو بھی پی پی پی کا زیادہ فائدہ نہیں ہوگا۔


اسے دراصل اپنے زیادہ سے زیادہ امیدواروں کو جتوانے کی کوشش کرنا ہوگی تب ہی اس کی وفاق یا پنجاب میں حکومت بن پائے گی۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پنجاب میں تحریک لبیک پاکستان بھی جادو دکھا سکتی ہے۔

ان کی انتخابی مہم پنجاب میں کافی تیزی دکھائی دے رہی ہے چنانچہ بڑی سیاسی جماعتوں کو اس پارٹی سے بھی خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ ادھر سندھ میں بظاہر پیپلز پارٹی سب سے آگے نظر آ رہی ہے مگر اسے گرانڈ ڈیموکریٹک الائنس سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ یہ تو ہے اندرون سندھ کی صورت حال، البتہ شہروں میں متحدہ قومی موومنٹ کافی متحرک نظر آرہی ہے تاہم تحریک انصاف کے آزاد امیدوار بھی اپنا زور دکھا رہے ہیں۔

کراچی میں انتخابی جمود توڑنے میں متحدہ قومی موومنٹ کامیاب رہی ہے، اس نے گزشتہ اتوارکو ایک بڑا سیاسی جلسہ باغ جناح میں منعقد کیا ہے۔ یہ جلسہ بقول تجزیہ کاروں کے کافی کامیاب رہا ہے اس میں کراچی کے عوام نے بھرپور شرکت کی ہے جس سے ایم کیو ایم کے رہنما کافی خوش اور پرجوش نظر آتے ہیں۔ ان کا نواب شاہ کا جلسہ بھی بہت کامیاب رہا ہے۔

نواب شاہ دراصل پیپلز پارٹی کے لیے ایک اہم شہر ہے کیونکہ وہاں زرداری خاندان آباد ہے۔ متحدہ کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سندھ کے عوام نئی ایم کیو ایم کی امن پسندی سے بہت خوش ہیں وہ اس کے امیدواروں کو ضرور کامیاب بنائیں گے۔ پیپلز پارٹی کی دیہی علاقوں سے لے کر شہروں تک کارکردگی عوامی معیار کے مطابق نہیں رہی ہے وہ صوبے میں پندرہ سال سے حکومت کر رہی ہے مگر صوبے کو ترقی دینے کے بجائے پیچھے دھکیل دیا ہے۔

سندھ کی خراب کارکردگی بلاول کے وزیر اعظم بننے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اس وقت پیپلز پارٹی اپنا سارا وقت پنجاب میں انتخابی مہم جوئی میں صرف کر رہی ہے۔

اس کا خیال ہے کہ سندھ میں تو اسے کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ وہاں شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی قربانیوں کا اب بھی عوام پر گہرا اثر ہے اور وہ ان شہیدوں کی پارٹی کو کسی حال میں فراموش نہیں کریں گے اور پیپلز پارٹی کو جتوائیں گے مگر مبصرین کا کہنا ہے کہ جن بزرگوں کو عوام نے اپنے دلوں میں جگہ دی ہے وہ ان کی کارکردگی کے بھی معترف ہیں چنانچہ پیپلز پارٹی کو اس وقت کارکردگی دکھانے کی ضرورت ہے عوام ہر انتخابات میں کسی بھی سیاسی پارٹی کو اس کی کارکردگی کی بنیاد پر ہی ووٹ دیتے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے پیپلز پارٹی پر وار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ کو اجاڑنے کے بعد اب کیا پیپلز پارٹی پنجاب کو بھی ویسا ہی کرنا چاہتی ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنما مصطفیٰ کمال نے بھی کچھ ایسا ہی کہا کہ بلاول سندھ کی کارکردگی پر لاہور سے ووٹ نہیں مانگ سکتے۔ بہرحال اس وقت یہی کہا جائے گا کہ کہیں پیپلز پارٹی پنجاب کے چکر میں سندھ سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے اور پھر پیپلز پارٹی کے بزرگوں کی قربانیاں بھی اس کی کوئی مدد نہ کر سکیں۔
Load Next Story