بُک شیلف

ادبی کتابوں کا دلچسپ مجموعہ

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو: فائل

'اہم ادبی مشاہیر سے
نشست'


کوچۂ صحافت میں حالات حاضرہ اور روزمرہ امور کا اظہار خیال تو ہوتا ہی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ زمانۂ حال سے جڑے ہوئے مزید پہلوئوں کے حوالے سے بھی تشنگی دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس کا ایک بڑا ذریعہ انٹرویو ہی ہوتے ہیں۔ اسی انٹرویو کے ذریعے نہ صرف موجودہ صورت حال کے مختلف پہلو اور نئے استدلال سامنے آتے ہیں، بلکہ کچھ ماضی قریب کی بھی تاریخی شہادتیں درج ہو جاتی ہیں اور کچھ مستقبل کے دعوئوں اور منصوبوں کی خبر بھی مل جاتی ہے۔

یوں بھی مورخ کی نگاہ سے دیکھیے تو صحافت کو تاریخ کی پہلی یا خام شکل کہا جاتا ہے، تو اس کا ایک اہم وسیلہ خبروں کے ساتھ ساتھ یہ انٹرویو بھی ہوتے ہیں۔ ایک وہ انٹرویو جو خبرنگار خبروں کے حصول کے واسطے کرتا ہے، دوم وہ انٹرویو جو اخبار کے شعبۂ میگزین کے لیے تفصیلاً کیے جاتے ہیں۔

یہ انٹرویو اپنی نوعیت میں ایک الگ اور منفرد ہی شکل رکھتے ہیں۔ اس میں مندرجہ بالا تمام امور کا احاطہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، یوں کسی بھی فرد کی شخصی اہمیت کی معلومات کے ساتھ آنے والے وقتوں میں بھی یہ مکالمہ خوب کارآمد رہتا ہے اور قارئین کے ذوق کی تسکین اور علمی تشنگی کو دور کرتا ہے۔

یہ انٹرویو اگرچہ صحافتی صنف ہے، لیکن اسے نیم صحافتی رسائل یا ادبی جرائد میں بھی خوب برتا جاتا ہے، جیسے اخبارات میں کبھی سیاسی وسماجی شخصیت کے ساتھ کچھ ادبی شخصیات سے بھی گفتگو کرلی جاتی ہے، ایسے بہت سے جرائد میں انٹرویو تخصیص کے ساتھ ادبی شخصیات ہی کے کیے جاتے ہیں۔

روزنامہ ایکسپریس کے سابق انٹرویو نگار اور افسانہ نگار اقبال خورشید کی کتاب 'فکشن سے مکالمہ' ایک ایسی ہی دستاویز ہے، جو 16 اہم ادبی مشاہیر سے اہم گفتگو پر مشتمل ہے۔ اس تصنیف میں اردو ادب کی دنیا کے مختلف ستاروں سے کی گئی گفتگو کا احوال یک جا کیا گیا ہے، جن میں انتظار حسین، عبداللہ حسین، مستنصر حسین تارڑ، اسد محمد خان، شکیل عادل زادہ، حسن منظر، فہمیدہ ریاض، محمد حمید شاہد، مرزااطہر بیگ، انورسجاد، محمدحنیف، اخلاق احمد، آصف فرخی، خالد جاوید، اے خیام اور آمنہ مفتی سے تفصیلی مکالمہ شامل کیا گیا ہے۔

اقبال خورشید نے یہ انٹرویو روزنامہ ایکسپریس اور ادبی جریدے '' اجرا'' کے لیے کیے تھے، لیکن کتاب میں اس کے بارے میں وضاحت موجود نہیں۔ اس لیے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کون سا انٹرویو کب کیا گیا یا کہاں شایع ہوا۔ یہ تمام انٹرویو سوالاً جواباً ہیں، تاہم ہر ایک سے گفتگو کی شروعات ایک جامع سرخی اور ایک مضبوط ابتدائیے سے آراستہ ہے۔

کتاب کے 'پیش لفظ' میں فقط احسن سلیم (مرحوم) کی ایک بات 'واوین' میں درج کی گئی ہے، جب کہ مستنصر حسین تارڑ، محمد حمید شاہد، عرفان جاوید کے علاوہ عامر ہاشم خاکوانی کی آرا کو بھی کتاب کے ابتدائی صفحات میں جگہ دی گئی ہے۔ دیدہ زیب سرورق کی اس مجلد کتاب کا انتساب 'بدھ کے نام' ہے۔ 229 صفحات کا یہ مجموعہ 'سنگ میل پبلی کیشنز' (042-37220100, 042-37228143) لاہور سے شایع ہوا ہے، قیمت 1400 روپے ہے۔

'زندگی زندہ دلی کا نام ہے!'


زندگی کی نعمت کو بہت سوچ سمجھ کر اور بہت اچھے طریقے سے گزارنا چاہیے۔ ہوتا یہ ہے کہ اکثر زندگی سمجھنے سمجھنے میں آدھی اور کبھی تو پوری بھی گزری جاتی ہے۔ پھر جب رائیگانی کا احساس ہوتا ہے، تو ساتھ بہت سے پچھتاوے شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ زیرِتبصرہ کتاب 'کاش' کا موضوع کچھ یہی ہے۔

اس کا ذیلی عنوان ہے: 'موت سے پہلے پچھتاووں سے جان چھڑائیں' کتاب کے اوائل میں عام زندگی کے پچاس کے قریب اہم پچھتاوے شمار کیے گئے ہیں۔ یقیناً ہم عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں، کہیں نہ کہیں ہمیں یہ احساس ضرور ہوتا ہی ہے، کہ فلاں چیز ایسی ہونی چاہیے تھی یا ایسی نہیں ہونی چاہیے تھی، اگر ہماری عمر زیادہ ہو تو اس کی فہرست بہت طویل بھی ہوتی جاتی ہے۔ 'سید عرفان احمد' نے اپنی اس کتاب میں کچھ انھی چیزوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

انھوں نے بڑی جزئیات کے ساتھ باری باری ان سب معاملات کا تجزیہ کر کے مسئلے کو حل کرنے کی ایک کوشش کی ہے۔ پچھتاوے دراصل ہماری زندگی کے ایسے بڑے افسوس ہوتے ہیں، جن کو اب درست کیا جانا تو ممکن نہیں ہوتا، کیوں کہ زندگی آگے بڑھ گئی اور مزید آگے بڑھ رہی ہے۔

اس لیے گزرے زمانے کے ان پچھتاووں کے چکر میں پڑ کر ہم اپنے حال میں مزید پچھاووں کا سامان ضرور کر لیتے ہیں، جس سے نہ صرف ہماری باقی کی زندگی اذیت ناک ہو جاتی ہے، بلکہ اس کا حاصل بھی کچھ نہیں ہوتا۔ اس کتاب کے 18 ابواب میں گاہے گاہے یہ راہ نمائی ہے کہ ہم اپنی زندگی کو ماضی کے واقعات اور مسائل کی ان غیرضروری تکالیف سے کیوں کر الگ کر سکتے ہیں۔

ہمیں یہ بات سمجھ لینے کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو ہوگیا، وہ ہوگیا، لیکن ابھی جو کچھ ہونا ہے، اس پر فیصلہ کرنے یا اثرانداز ہونے کے لیے ہمارے پاس مواقع زمانہ حال میں موجود ہیں۔ ابھی کچھ وقت ہے، کچھ لمحے میسر ہیں اور کچھ طریقے موجود ہیں۔ تو کیوں نہ جو کر سکتے ہیں اسے کرلیا جائے، نہ کہ جو نہیں کر سکے اس کا سوگ مناتے ہوئے خود کو مزید گھاٹے اور خسارے میں دھکیلا جائے۔

228 صفحات کی اس کتاب کے مصنف 'شخصی نمو' یا پرسنالٹی ڈیولپمنٹ کے موضوع پر 30 سے زائدکتب کے مصنف اور ماہ نامہ 'کام یابی ڈائجسٹ' کے مدیر بھی ہیں۔ یہ کتاب فضلی بک سپر مارکیٹ (0336-2633887) پر دست یاب ہے، قیمت 1200 روپے ہے۔

بحری قزاقوں کے درمیان



'صومالیہ کا قیدی' ایک ایسی سچی سرگزشت پر مبنی کتاب ہے، جو بحری قزاقوں کے درمیان گزاری گئی ہے۔ 136 دن کی یہ تحیرانگیز آپ بیتی یا اغوا کی داستان مختلف ڈرامائی موڑ سے گزرتی ہے، جس میں بحری سفر پر روانگی اور معمول کے سفر سے سمندری ڈاکوئوں کے نرغے میں آنے اور اس کے بعد ان کے چنگل سے نکلنے تک کا سارا احوال رقم ہے۔ اس کہانی کے راوی کیپٹن کاظم عباس ہیں، جب کہ لکھاری صغیر زیدی ہیں۔

کیپٹن کاظم عباس نے 1995ء میں مرچنٹ نیوی میں بطور ڈیک کیڈٹ شمولیت اختیار کی، 39 مہینے مختلف جہازوں پر سروس کے بعد 2000ء میں سیکنڈ آفیسر کا لائسنس حاصل کیا اور ترقی کرتے ہوئے 2018ء میں دبئی کی 'ڈی پی ورلڈ' کمپنی میں بطور میرین ملازمت اختیار کی اور دبئی میں بطور سینئر میرین پائلٹ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

کاظم عباس کی اس بپتا میں مختلف تہواروں سے لے کر صوم وصلاۃ کے معاملات بھی بیان کیے گئے ہیں، امیدوبیم کے درمیان گزرے ہوئے روز وشب، جس میں کبھی مایوسی کے ڈیرے ہیں تو کہیں گلوخلاصی کی کرن جھلملانے لگتی ہے، اس داستانِ اسیری میں ذہنی اذیت بھی ہے اور جسمانی تشدد بھی ملتا ہے۔

کمال یہ ہے کہ انھوں نے ان واقعات کو کتابی شکل دے کر ایک اچھی کتاب کا اضافہ کردیا ہے۔ جو قارئین سنسنی خیز ادب اور سسپنس سے آراستہ کہانیوں اور داستانوں سے دل چسپی رکھتے ہیں، انھیں دل چسپی کے بہت سے لوازمات اس کتاب میں ضرور ملیں گے، پھر اس کہانی کا سچا ہونا ایک اضافی خوبی شمار کی جانی چاہیے۔ 'ادیب آن لائن' کے تحت شایع ہونے والی اس کتاب کے صفحات 291 اور قیمت 1200 روپے ہے اور یہ فضلی سنز (0336-2633887) کراچی میں دست یاب ہے۔

'ایک سرکش پرندے کا سفرنامہ'


دیکھیے، اگر سوچا جائے تو کس طرح ایک بات سے کئی بات اور بعضے وقت پوری پوری کتابیں بھی بن جاتی ہیں۔ ان دنوں بھی موسم کچھ سرد ہی ہے، اور ہمارے مختلف علاقوں میں دنیا کے سخت ٹھنڈے علاقوں سے کچھ مہمان پرندے آتے ہیں اور ہمارے آبی ذخائر پر اٹھکلیاں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

ایک طرف جہاں ہم اپنے گندے جوہڑ، نالوں اور آلودہ ساحلوں پر انھیں دیکھ کر شرمندہ ہوتے ہیں کہ یہ پرندے بھی کیا سوچتے ہیں کہ یہ کتنے گندے لوگوں کا ملک ہے کہ اپنے سارے صاف پانی کو خراب یا زہریلا بنا رکھا ہے۔ بہرحال، سردیوں میں آنے والے ان مہمان پرندوں سے جڑا ہوا ایک تلخ رخ یہاں پر ان کا شکار کیا جانا بھی ہے، بہت سے دوسرے ممالک سے باقاعدہ لوگ اس مقصد کے لیے یہاں آتے ہیں، جب کہ کچھ ہم اور آپ جیسے لوگ بھی کبھی اپنی بندوق ان پرندوں کی جانب کر لیتے ہیں۔

یہ کتاب بھی ایک ایسے ہی واقعے کا نتیجہ ہے، کہ جب مصنفہ نشاط یاسمین خان کے صاحب زادے نے بڑوں کے اس عمل پر احتجاج کیا تھا، تب سے ان کے ذہن میں یہ سب بیٹھ گیا تھا۔ بچے کی یہ شکایت کہ ''یہ پرندے کتنی کٹھنائیاں طے کر کے یہاں آتے ہیں'' اپنے آپ میں ایک پورا مرکزی خیال اور 'یک سطری' تھا، جس کا احوال بچوں کے لیے 'ایک سرکش پرندے کا سفرنامہ' کے عنوان سے 88 صفحات میں سجا دیا گیا ہے اور دل چسپ بات یہ ہے کہ کتاب میں شامل سادہ خاکے بھی انھی صاحب زادے کے بنائے ہوئے ہیں، جن کی بات کے ردعمل میں یہ 'ناولچہ' منصۂ شہود پر آیا ہے۔

اس مجلد کتاب کی قیمت ابتدائی صفحات پر 400 اور پشت پر 450 روپے درج ہے، اشاعت 'بچوں کا کتاب گھر' (03004611953, 04237300590) لاہور سے کی گئی ہے۔ یہ کتاب بچوں کے اندر دوسروں کا احساس پیدا کرنے کے حوالے سے ایک قابل ذکر کاوش ہے۔

'پرانی تہذیب اور یادوں کی خوش بو'


'موتیا کی خوشبو، میپل کے رنگ' کہنے کو کینیڈا جا بسنے والی قرۃ العین صبا کی 'آن لائن' لکھی گئی مختلف تحریروں کا مجموعہ ہے، لیکن اس کی ورق گردانی کرتے ہوئے نہ صرف آپ کو کراچی شہر کے تہذیبی رکھ رکھائو، ریتی رواج اور معاشرت کی جھلک خوب ملے گی، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کینیڈا میں مقیم ایک حساس دل پاکستانی کے محسوسات بھی بدرجہ اتم محسوس ہوں گے۔

وہاں پاکستانی کیسے اپنے مختلف تیوہار مناتے ہیں اور تب انھیں کراچی میں اپنے بزرگوں کی سنگت میں بِتائے گئے وہ دن اور عیدیں یاد آتی ہیں، مصنفہ نے ایسی یادوں کو بھی اس کتاب میں سمویا ہے۔ ان اوراق میں آپ کو پچھلی صدی میں برپا وہ فرصت کے زمانے ابھرتے ہوئے نظر آئیں گے، اور اگر آپ بھی گذشتہ صدی کی ایسی یادوں اور ایسے بچپن کے حامل ہیں، تو یقیناً آپ کی پلکیں بھی اپنے بچھڑ جانے والوں کی یاد میں چھلک جائیں گی۔

تب کی گنگا جمنا تہذیب کی یادیں تو اب کتابوں میں ہی مل سکتی ہیں، کیوں کہ وقت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور گزرتے وقت سے ماضی کی مسافت اور دوری میں جتنا اضافہ ہوگا، اتنا ہی وہ روایتیں، وہ طور طریقے، انداز، فقرے، جملے اور وہ والا 'اپنا پن' کم سے کم تر ہوتا جائے گا۔ اس کتاب میں ہمیں آج کی تیزرفتار زندگی کی کٹھنائیاں اور گئے وقتوں کی وہ پرچھائیاں دکھائی دیتی ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ اس کی سب سے اہم خوبی شمار کی جانی چاہیے۔

قرۃ العین صبا نے کراچی سے کینیڈا چلے جانے کے بعد ان مضامین کو لکھنا شروع کیا اور جب انھیں پذیرائی ملی، تو پھر اسے ایک کتاب کی صورت میں محفوظ کرلیا۔ کتاب کے مندرجات چھوٹے چھوٹے مضامین پر مشتمل ہیں، اور ہر تحریر کا ایک الگ 'ذائقہ' محسوس ہوتا ہے۔

وقت کی تنگی کے شکار قارئین کی سہولت کے پیش نظر یہ انداز بہت اہم رہتا ہے۔ اس سے نہ صرف تحریر کی پیش کش اچھی ہوتی ہے، بلکہ ساتھ ساتھ پڑھنے والا بہت آسانی سے کوئی بھی ایک مضمون منتخب کرتا ہے اور شاید روانی سے پھر بہت ساری تحریریں پڑھتا چلا جاتا ہے، جو شاید ایک موضوع تلے ہوں تو اس طرح نہ پڑھی جا سکتی ہوں۔ لیکھک نے اپنی یادوں کے ساتھ ساتھ مختلف سماجی اور ادبی موضوعات پر بھی اظہارخیال کیا ہے۔ کتاب میں بہت سی شخصیات کو بھی موضوع بنایا ہے۔ اردو زبان کے لطف اور زبان وبیان کا ذکر بھی کئی جگہوں پر موجود ہے۔

ساتھ ہی خود اچھی اردو لکھنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے نہ صرف روزمرہ زبان میں درآنے والے انگریزی الفاظ کو اردو میں منتقل نہیں کیا، بلکہ جوں کا توں ہی استعمال کرلیا ہے۔

یہی نہیں بُہتیرے انگریزی میں لکھے گئے موضوعات بھی اس کتاب میں دکھائی دیتے ہیں، یہی کچھ صورت پنجابی زبان عنوانات کی صورت میں بھی انھی صفحات کے درمیان دکھائی دیتی ہے۔ کتاب پر جناب عارفہ زہرا سید جیسی علمی شخصیت کی ستائش اس پر ایک اور مہر ثبت کرتی ہے۔ 448 صفحات پر مشتمل مجلد کتاب کی قیمت 1500 روپے ہے۔ تقسیم کار 'فضلی بک سپر مارکیٹ' (0336-2633887) کراچی ہے۔
Load Next Story