یوم یکجہتی کشمیر

پوری دنیا کے کشمیری حق خودارادیت کے لیے اقوام عالم کی جانب دیکھ رہے ہیں

پوری دنیا کے کشمیری حق خودارادیت کے لیے اقوام عالم کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

یوم یکجہتی کشمیر منانے کا مقصد آزادی کی جدوجہد میں جہاں کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا ہے تو وہاں دوسری طرف عالمی برادری کی توجہ بھارتی جاری مظالم کی طرف دلانا ہے۔

پوری دنیا کے کشمیری حق خودارادیت کے لیے اقوام عالم کی جانب دیکھ رہے ہیں اور پاکستانی عوام اپنی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت لیے ان کے شانہ بشانہ ہیں۔ اس موقعے پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ بھارت کو پانچ اگست 2019 کے یک طرفہ اور غیرقانونی اقدامات کو واپس لینا ہوگا۔

مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بنیادی انسانی حقوق کی ہر تعریف کے مطابق بدترین ظلم و ستم ہے۔ دوسری جانب دنیا کی تمام لاتعلقیوں کے باوجود مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی دستاویزات میں اب بھی ایک حل طلب تنازعہ ہے۔ کشمیریوں کا مقدمہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کھلی کتاب کی طرح پڑا عالمی نظام انصاف سے داد رسی کا طالب ہے۔

تنازع کشمیر کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے مابین تین جنگیں 1947سے 1948 تک، 1965 اور کارگل جنگ بھی ہو چکی ہیں۔ تحریکِ آزادی کشمیر پون صدی پر محیط مثلِ آب رواں جاری و ساری اور اپنے اندر جرأت و بہادری، غیر متزلزل جذبہ حریت اور لازوال قربانیوں کی داستان تھامے ہوئے ہے۔

اس عرصے میں کشمیریوں پر غیر قانونی طور پر قابض بھارتی فورسز کی جانب سے طرح طرح کے مظالم اور غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا جس میں کشمیری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتیں تک پا مال کی گئیں لیکن اکھنڈ بھارت کی دعویدار شدت پسندانہ سوچ غیور کشمیری قوم کو غلام بنانے اور ان کی حقِ خود ارادیت کے لیے آواز دبانے میں بری طرح نا کام رہی ہے۔

ان تمام مظالم کے باوجود کشمیریوں کے جذبے سرد نہیں پڑے اور اپنی خاک ِضمیر میں آتش چنار کی حامل یہ قوم روز بروز ایک مضبوط قوم کی حیثیت سے ابھری اور غاصب بھارت کو یہ باور کرایا کہ نہ تو کبھی وہ مظالم کے آگے جھکیں گے اور نہ ہی کبھی اپنی جدوجہد آزادی ترک کریں گے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں جانوروں کی ہلاکتوں پر تو شور مچاتی ہیں اور دنیا بھر میں آسمان سر پر اُٹھا لیتی ہیں مگر ان کو مقبوضہ کشمیر میں 80 لاکھ مظلوم کشمیری نظر نہیں آتے جنھیں ظالم مودی سرکار نے 9 لاکھ مسلح فوجیوں کے حصار میں دے رکھا ہے۔

عالمی برادری کا ضمیر بھی سویا ہوا ہے، جو صرف غیر مسلم کے قتل پر جاگتا ہے، اگر کسی کو دنیا میں فکر نہیں تو کشمیر کے جلتے چناروں کی فکر نہیں جہاں پر ہر روز بہتے لہو، کٹتے سروں بھوک و پیاس سے بلبلاتے اور تڑپتے، مرتے معصوم بچوں کی فکر نہیں، عالمی برادری کا یہ کیا برتاؤ اور سلوک ہے کہ وہ کشمیر میں بہتے ٹھنڈے چشموں اور گنگناتی آبشاروں کے بجائے لہو کی بہتی ندیاں دیکھنا چاہتی ہے۔

اقوام متحدہ اور عالمی برادری آج بھارت میں بھارتی کسانوں اور سکھوں کے حقوق کے حصول کے لیے چلائی جانے والی تحریک کو تو حق پر سمجھتی ہے لیکن معصوم و مظلوم کشمیریوں کے جائز حقوق اور ان پر پون صدی سے ہونے والے درد ناک مظالم نظر نہیں آتے جب کہ کشمیر، ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک فلیش پوائنٹ بن چکا ہے۔

ایک طرف بھارت مسئلہ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی سنگین خلاف ورزیاں کررہا ہے، دوسری طرف وہ اپنے ہاں تمام اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم کررہا ہے۔

مساجد اور گھروں کو جلانے، تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا قتل عام کرتے ہوئے آر ایس ایس کے غنڈے پولیس اور فوج کی موجودگی میں لاشوں کی بے حرمتی کررہے ہیں۔ یہ درد ناک مناظر پوری دنیا دیکھ چکی، لیکن بنیادی انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار بھارتی ہولو کاسٹ پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس تنازعے کو اقوام متحدہ میں 1948میں بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو لے کر گئے تھے، جب مبینہ طور پر قبائلیوں کے حملے کے بعد جموں و کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے انڈیا سے الحاق کا اعلان کر دیا تھا۔

اقوام متحدہ کی کوششوں سے دسمبر 1948کے آخری ہفتے میں دونوں حکومتوں نے دو قراردادوں کو قبول کر لیا تھا۔ اس پر کمیشن نے دونوں کو دعوت دی کہ اب فیصلے پر اتفاق ہوگیا ہے، لہٰذا جنگ بند کر دی جائے، چنانچہ یکم جنوری 1949کو جنگ بند ہوگئی۔1948میں تنازعہ کشمیر پر 4 قراردادیں منظور ہوئی تھیں۔ 1950میں ایک قرارداد 1952میں اور 1957 میں 3 قراردادیں کشمیر کے بارے میں سلامتی کونسل میں منظور ہوئی تھیں۔


5 اگست 2019 کو بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی اور اس وادی کو جبراً اپنے ساتھ ملا لیا۔ بھارتیوں نے مسئلہ کشمیر کے بارے میں خود کو دنیا کا سب سے بڑا دھوکا باز ثابت کیا، انھوں نے کشمیریوں سے استصواب کا وعدہ کر کے وقت حاصل کیا تاکہ اپنے روایتی تاخیری حربوں کے ذریعے وہ اپنے پاؤں مضبوط کرسکیں اور پھر جونہی ہندو توا کی پروردہ آر ایس ایس کی نمایندہ جماعت بی جے پی کو موقع ملا انھوں نے بھارت نواز کشمیریوں کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ اپنی اتحادی حکومت ختم کر کے ملک میں گورنر راج نافذ کر کے اس کی خود مختاری کی آئینی دفعات 370 اور35A کو ختم کردیا۔

بھارتیوں کا یہ فعل مقبوضہ جموں وکشمیر پر اپنا ناجائز قبضہ مضبوط کرنے اور مسلمانوں کی نسل کشی کرنا ہے، تاکہ ان کے قتل عام سے آبادی کا تناسب تبدیل کیا جائے۔ اسی مقصد کے لیے وہ جنیوا کے چارٹر فور کی خلاف ورزیاں کررہا ہے۔

بھارتی دستور کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد کشمیری راتوں رات بھارت میں تیسرے درجہ کے غلام شہری بن کر رہ گئے ہیں۔ کشمیریوں کے قائدین کی بڑی تعداد نا معلوم مقامات پر بند ہے اخبارات کی اشاعت معطل ہے، سوال یہ ہے کہ بھارت کی اس ننگی بربریت پر عالمی ضمیر بیدار کیوں نہیں ہوتا؟ کیا اقوام عالم کو آخری کشمیری کے مرنے کا انتظار ہے؟

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے وقت بھارتی حکومت نے جس بیل آؤٹ پیکیج کا اعلان کیا تھا اس پر رتی برابر بھی عمل نہیں ہوا بلکہ ماضی کے مقابلہ میں قابض فوج کے نہ صرف مظالم بڑھے ہیں بلکہ کشمیری عوام یہ الزام لگا رہے ہیں کہ بھارت فوجی وردیوں میں آر ایس ایس کے غنڈوں کو مقبوضہ وادی میں لے آیا ہے جو مقبوضہ وادی میں طوفان بدتمیزی برپا کیے ہوئے ہیں۔

اقوام عالم اور عالمی اداروں کو اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ یہ ایک کروڑ انسانوں کی زندگی کا سوال ہے۔ ادویات، خوراک اور شہری آزادیوں سے محروم کشمیری آہستہ آہستہ موت کی دلدل میں دھنس رہے ہیں۔ پاکستانی حکومت اور عوام کو بخوبی احساس ہے کہ بھارت کے گھناؤنے عزائم کیا ہیں۔

بھارتی وزیر داخلہ سمیت دیگر متعدد رہنما کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے اور دیگر اقدامات کے حوالے سے تواتر کے ساتھ جن خیالات کا اظہار کر رہے ہیں ان پر پاکستان اور کشمیریوں کی تشویش بجا ہے۔

آرٹیکل370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد پاکستان کی کوششوں سے مسئلہ کشمیر اب پوری طرح دنیا کے سامنے واضح ہو چکا ہے اور عالمی ذرایع ابلاغ میں یہ بات زور شور سے اٹھ رہی ہے کہ جب مسئلہ کشمیر 76 سالوں سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے، تو پھر بھارت کے ایک ہندو مہاراجہ کی من گھڑت دستاویز کو جواز بنا کر مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے پر قبضہ جائز نہیں۔ بھارت سرکار نے قانون سازی کر کے فوج کو خصوصی اختیارات دیے ہیں۔

ملک کے اندر بھی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کرنے والے فوجیوں کو استثناء دے دیا گیا ہے کہ وہ جس طرح چاہیں اپنی من مانیاں کریں۔ یہ انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے منشور اور بین الاقوامی قوانین کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف ہے۔ اس سے لاکھوں انسانوں کی زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں۔

یہ کالا قانون فرد کی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی ہے، جسے بھارت اپنے داخلی سلامتی پروگرام کا حصہ قرار دے رہا ہے۔ در حقیقت اس کی آڑ میں بھارت کی مودی سرکار ملک میں شخصی آزادیوں اور انسانی حقوق کا گلا گھونٹ کر جمہوریت کی جڑوں کو کاٹنے کے لیے کمربستہ ہے۔

پاکستان نے پوری دنیا پر بھارتی ناپاک عزائم واضح کیے اور یہ بھی کہ، بھارتی حکومت اور میڈیا جھوٹی اور جعلی خبریں پھیلا کر خطے میں جنگی جنون پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جو نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہے۔ بھارت اپنی فطرت سے مجبور ہوکر دنیا کا امن تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔

اقوام متحدہ انسانی حقوق کا ذمے دار ادارہ اتنا تو کر سکتا ہے کہ کشمیریوں کی خود مختاری تک ان کے جائز شہری و انسانی حقوق کو بحال کروائے، ریاستی طاقت کے ناجائز استعمال کو رکوائے اور بھارت کو اپنے فاشسٹ قوانین واپس لینے پر مجبور کرے۔

اقوام متحدہ کے جسم میں اتنی تو جان باقی ہوگی کہ وہ کشمیریوں کے حقوق اور آزادی کے احترام کی بات کرسکے۔ باقی رہی بات مقبوضہ وادی کشمیر سے بھارت کے جبری قبضے کے ختم ہونے کی، تو اقوام متحدہ سے تو اس کی توقع نہیں رکھی جاسکتی تاہم کشمیر کی موجودہ صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے وہ دن بھی دور نہیں جب کشمیریوں کی جدوجہد رنگ لائے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا مجبور و محکوم کشمیریوں کی مدد کے لیے آگے بڑھے تاکہ مقبوضہ وادی میں کوئی بھیانک المیہ جنم نہ لینے پائے۔
Load Next Story