نئے چہرے تو آزمائیں مگر۔۔۔

اپنی حکومت کی کارکردگی کاچیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹوذکر کم ہی کرتے ہیں اوراقتدار کے لیے وہ اب عوام کے پاس آئے ہیں

m_saeedarain@hotmail.com

ملک میں بعض سیاسی حلقوں سے یہ مطالبہ تو سالوں سے ہوتا آ رہا ہے کہ '' چہرے نہیں، نظام بدلو'' مگر بعض چہرے بدلے بھی مگر وہی فرسودہ نظام برقرار ہے۔

اب پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم بننے کے لیے بے چین چیئرمین بلاول زرداری نے حالیہ انتخابی مہم کا آغاز اپنے اس مطالبے سے کیا تھا کہ پرانے سیاستدانوں سے جان چھڑائیں اور نئے چہروں کو اقتدار میں لانا چاہیے کیونکہ پرانے سیاست دان آزمائے جا چکے جن سے ملک کو فائدہ نہیں ہوا۔

بلاول بھٹو کے اس مطالبے کی تائید ان کے والد آصف زرداری نے بھی نہیں کی جس کے بعد بلاول زرداری نے اس سلسلے میں خاموشی اختیار کر لی اور اب وہ میاں نواز شریف کے پیچھے پڑ گئے ہیں کہ میں انھیں چوتھی بار وزیر اعظم نہیں بننے دوں گا۔ بلاول زرداری یہ بھول رہے ہیں کہ سندھ میں پیپلز پارٹی بھی تین بار مسلسل اقتدار میں رہنے کے بعد چوتھی بار سندھ میں اور پاکستان کا وزیر اعظم بلاول کو بنوانے کے لیے پیپلز پارٹی بھی (ن) لیگ کی طرح کوشش کر رہی ہے۔

پیپلز پارٹی 2008 سے قبل تین بار ملک کے اور متعدد بار سندھ کے اقتدار میں رہی ہے اور 2008 میں آصف زرداری ملک کے صدر مملکت اور یوسف رضا گیلانی ملک کے وزیر اعظم بنے تھے جو پیپلز پارٹی کے تھے اور دونوں نے پہلی بار اپنی مقررہ مدت پوری کی تھی جب کہ اس سے قبل پی پی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی بیٹی اپنی اپنی دو بار مدت پوری نہیں کر سکے تھے مگر آصف زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی کو پہلی بار اپنی مدت پوری کرنے کا موقعہ ملا اور 2008 سے 2023 تک پیپلز پارٹی مسلسل سندھ میں اپنے مضبوط اقتدار میں رہی جب کہ بھٹو صاحب اور بے نظیر بھٹو کے ادوار میں بھی پیپلز پارٹی کو سندھ میں اتنی واضح کامیابی کبھی نہیں ملی تھی اور اب چوتھی بار بھی سندھ میں پیپلز پارٹی ہی کی حکومت بننے کا واضح امکان ہے۔

بے نظیر بھٹو کو تو اپنے والد کی شہادت کے بعد اقتدار میں آنے کا موقعہ ملا تھا اور 1997 کے بعد ملک اور سندھ کی حکومت ملی تھی اور آصف زرداری نے اپنے اکلوتے بیٹے بلاول زرداری کے بجائے بلاول بھٹو زرداری بنا کر اقتدار میں لانے کی منصوبہ بندی شروع کردی تھی اور بلاول اس بات پر ہی فخر کرتے ہیں کہ وہ بھٹو کے نواسے اور بے نظیر کے صاحبزادے ہیں۔

وہ کبھی نہیں کہتے کہ وہ صدر آصف زرداری کے بیٹے ہیں کیونکہ آصف زرداری کی سندھ میں وہ حیثیت نہیں ہے جو ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو آج بھی حاصل ہے۔ آصف زرداری کی صدارت 2013 میں ختم ہو گئی تھی مگر بلاول بھٹو اب بھی اپنے والد کا نام صدر زرداری کے طور پر ہی لیتے ہیں۔


بے نظیر بھٹو پہلی بار ہی وزیر اعظم کے عہدے پر منتخب ہوئی تھیں مگر آصف زرداری نے اپنے منصوبے کے تحت بلاول کو اتحادی حکومت میں وزیر خارجہ بنوا کر انھیں دنیا میں متعارف کرایا تھا اور اب وہ لاہور سے بلاول بھٹو کو منتخب کرا کر وزیر اعظم بنوانے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں اور دونوں باپ بیٹے مل کر یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ نواز شریف کو چوتھی بار وزیر اعظم نہیں بننے دیں گے۔

یہ دونوں کی خواہش اور کوشش تو ہے مگر دیکھیں کون کامیاب ہوتا ہے جب کہ گزشتہ 28 سالوں میں پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنا وزیر اعلیٰ بھی منتخب نہیں کرا سکی ہے اور اب پنجاب میں پیپلز پارٹی کی جگہ پی ٹی آئی لے چکی ہے اور مسلم لیگ (ن) کا پنجاب میں اصل مقابلہ پی پی سے نہیں پی ٹی آئی سے ہے۔

پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین نے 2011 میں بالاتروں کی مدد سے سیاست میں کامیابی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی شدید مخالفت سے شروع کی تھی جو ملکی سیاست میں نیا چہرہ اور پی ٹی آئی ملک میں تیسری سیاسی قوت تھی جسے 2018 میں بہت زیادہ توقعات کے ساتھ اقتدار میں لایا گیا تھا جس کے بانی ماضی میں اقتدار میں رہنے والے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے حکمرانوں کو ملک لوٹنے والا قرار دیتے تھے جس کے عدالتوں میں تو ثبوت پیش نہیں کیے گئے مگر پی ٹی آئی کے حامی اب بھی ان پر الزامات عائد کرتے ہیں اور دونوں سابق حکمران پارٹیوں کے سربراہ اپنے اوپر عائد الزامات کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج یا پی ٹی آئی کے الزامات کا توڑ نہیں کرسکے ہیں جس کی وجہ سے پی ٹی آئی اب بھی اپنے الزامات پر قائم ہے اور اسے دونوں پارٹیوں کے مقابلے میں پی ٹی آئی حکومت کے پونے چار سالہ دور میں ہونے والی کرپشن اور من مانیاں یاد نہیں جس کی وجہ سے اس کے سربراہ پانچ ماہ سے قید اور بے شمار مقدمات بھگت رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے وزیر اعظم ملکی سیاست میں نیا چہرہ اور پہلی بار اقتدار میں آئے تھے اور انھوں نے عوام سے وعدے بھی کیے تھے مگر انھوں نے اقتدار میں آتے ہی اپنے وعدے پورے کرنے کے بجائے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع کیں بلکہ نیا ریکارڈ قائم کیا جو خود کو ایماندار اور سچا اور دوسروں کو جھوٹا سمجھتا تھا۔

وہ عوام کے ووٹوں سے نہیں بلکہ بالاتروں اور عدلیہ کی مدد سے اقتدار میں آئے تھے۔ وہ خود کو عقل کل سمجھتے تھا جنھوں نے بیڈ گورننس سے ملک کا بیڑا غرق اور دنیا میں تنہا کر دیا اور محسن کشی کا بھی ریکارڈ بنایا تھا۔

بلاول بھٹو اقتدار اور ملکی سیاست میں نیا چہرہ نہیں نہ وہ اپنے نانا کی طرح عوامی رہنما ہیں۔ پی پی کی سندھ حکومت نے 15 سالوں میں سندھ میں جو کچھ کیا وہ سندھ کے عوام بہتر جانتے ہیں۔ پی پی کی سندھ حکومت مثالی نہیں وڈیروں اور سیاسی مفاد پرستوں کی حکومت تھی۔

اپنی حکومت کی کارکردگی کا چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو ذکر کم ہی کرتے ہیں اور اقتدار کے لیے وہ اب عوام کے پاس آئے ہیں اور وہ بھی آزمائے ہوئے صوبائی حکمران ہیں جنھیں عوام کے مسائل کا صرف زبانی پتا ہے اگر پیپلز پارٹی کبھی اقتدار میں نہ رہی ہوتی تو وہ واقعی نیا چہرہ ہوتے اس لیے اقتدار میں رہنے والوں کو کیوں آزمایا جائے؟
Load Next Story