’’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو‘‘

صنف نازک کی پیدائش کے حوالے سے پست سوچ تاحال جاری ہے۔۔۔

سوال یہ ہے کہ کچرے کے ڈھیر سے مردہ ملنے والی اکثر بچیاں کیوں ہوتی ہیں؟ ۔ فوٹو : فائل

''کیوں آئی ہو یہاں۔۔۔ وہیں جاؤ جہاں علاج چل رہا ہے۔۔۔! ڈاکٹر نے فائل گویا میرے منہ پر دے ماری۔ باجی، انھوں نے مجھے بہت ذلیل کیا۔ میں روتی رہی، ڈاکٹر کے آگے ہاتھ بھی جوڑے۔ منتیں کیں کہ میرا کیس لے لیں، لیکن ان ڈاکٹروں میں ذرا انسانیت نہیں۔ وہ سخت لہجے میں مجھے وہاں سے نکلنے کے لیے کہتی رہیں۔''

یہ کوئی فرضی کہانی نہیں بلکہ کراچی جیسے بڑے شہر کی ایک غریب نوجوان ماں کی آہیں ہیں، جس کا تعلق اورنگی ٹاؤن کے انتہائی پس ماندہ علاقے سے ہے۔

2019ء میں شادی ہوئی۔ سسرال میں گزرے ہوئے دن ان کی زندگی کے اذیت ناک ترین دنوں میں سے تھے۔ 2020ء میں ان کے پہلے بچے کی پیدائش ہوئی۔کہنے کو وہ سرکاری اسپتال تھا، جہاں علاج مفت ہے، لیکن تمام دوائیں وغیرہ ہر چیز باہر سے منگوائی گئی۔ اسپتال کا سارا خرچ لڑکی کے والدین نے اٹھایا۔ دوسری ولادت کے موقع پر ان کے شوہر نے بہادر آباد کے ایک مہنگے نجی اسپتال میں چھے مہینے تک ان کا چیک اپ کرایا۔

سسرال اور شوہر کے انتہائی ناروا سلوک کے باوجود وہ دوسرے بچے کی پیدائش پر خوش تھی، لیکن یہ خوشی اس وقت کافور ہوگئی جب بچے کی صنف کا انکشاف ہوگیا۔ جس کے بعد ان کے شوہر نے اپنے مذہبی پس منظر ہونے کے باوجود اسقاط پر زور دینا شروع کر دیا، تشدد تک اختیار کیا اور انکار پر اسے گھر سے نکال دیا اور حمل ضائع نہ کرنے کی صورت میں طلاق کی دھمکیاں بھی دیں۔

اس صورت حال کے بعد وہ قطر اسپتال پہنچیں، جہاں لیڈی ڈاکٹر نے بات سنتے ہی اسپتال سے نکل جانے کا حکم دیتے ہوئے کہا وہیں علاج کراؤ جہاں سے آئی ہو۔ اس نے گڑگڑاتے ہوئے اپنے ساتھ پیش آنے والے تمام واقعات کا اظہار کیاکہ وہ اب نجی اسپتال نہیں جا سکتیں، لیکن ڈاکٹر نے سنا ان سنا کر دیا کہ اپنے گھر کے مسئلے گھر میں نبٹاؤ۔ نتیجتاً انھیں اپنے گھر پر ہی ایک دائی کی خدمات لینی پڑیں، جس کی وجہ سے انھیں نہ صرف شدید پیچیدگیاں لاحق ہوئیں، بلکہ ان کی مجموعی صحت بھی داؤ پر لگ چکی ہے۔

پہلے وہ کئی ماہ تک اس کے اثرات اور انفیکشن سے نبردآزما رہیں۔ انھیں کمزوری اس حد تک بڑھی کہ ان کا اٹھنا بیٹھنا مشکل ہوگیا اور آج دو سال بعد بھی ان کا بہ آسانی چلنا پھرنا اور اٹھنا بیٹھنا دشوار ہو چکا ہے اور یہ سارا نتیجہ اس پس ماندہ اور غیر انسانی سوچ کا نتیجہ ہے، جو بیٹی کی پیدائش کو کم تر سمجھنے سے منسلک ہے۔

کیا کوئی ڈاکٹر زچگی کے کیس لینے سے انکار کرسکتی ہے؟

معروف گائنا کالوجسٹ ڈاکٹر شیر شاہ سید اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ڈاکٹر کسی بھی مریض کی بے عزتی نہیں کر سکتے، لیکن اسپتال کی پالیسی ہوتی ہے کہ وہ اٹھائیس ہفتے کے بعد زچگی کے کیس نہیں لیتے۔

اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کے پاس کوئی 'ہسٹری' نہیں ہوتی، لیکن کچھ ہنگامی نوعیت کے کیس میں ہمیں مریض کی حالت کے حساب سے پالیسی میں نرمی بھی کرنی پڑتی ہے۔ یہاں کیس مختلف تھا۔ ان کے پاس تو اپنا پچھلا سارا ریکارڈ موجود تھا، اس لیے اس معاملے میں انکار کی کسی صورت میں گنجائش نہیں بنتی۔ ڈاکٹر کو کیس لینے سے انکار نہیں کرنا چاہیے تھا، ان کا یہ رویہ ناقابل قبول ہے۔


کیا بچے کی جنس بتائی جا سکتی ہے؟

ایک ایسے ملک میں جہاں سالانہ 22 لاکھ سے زائد اسقاط حمل ہوتے ہوں، اور بیٹیوں کے حوالے سے رویے غیر انسانی حد تک خراب سامنے آئیں، تو کیا ڈاکٹروں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ پیدائش سے قبل بچے کی صنف یا جنس بتا دیں۔ ڈاکٹر شیر شاہ سید کہتے ہیں کہ والدین کا یہ حق ہے کہ انہیں اپنی ہونے والی اولاد کے حوالے سے ہر بات معلوم ہو۔ اگر ہمیں واضح طور پر معلوم ہو کہ لڑکا ہے یا لڑکی تو ہم ضرور بتا دیتے ہیں، لیکن کیا واقعی بچوں کی جنس کے بارے میں بتا دینا اتنا ہی سادہ معاملہ ہے۔

یہی بات جب ہم نے قانونی امور کے ماہر سندھ ہائی کورٹ سے وابستہ لیاقت علی خان ایڈوکیٹ سے دریافت کی تو ان کا کہنا تھا کہ پیدائش سے قبل بچے کی جنس بتانا قانوناً منع ہے۔ ڈاکٹر اور الٹراساؤنڈ کرنے والے سونوگرافر صرف بچے کی صحت کے بارے میں والدین کو آگاہ کر سکتے ہیں، لیکن صنف بتانا غیر قانونی ہے۔ اگر کوئی ڈاکٹر بچے کی صنف بتا دیتا ہے اور اس کے بعد اسقاط حمل کرایا جائے تو والدین ڈاکٹر اور الٹراساؤنڈ کے ماہر پر قانون کی دفعہ 322 کا کیس بنتا ہے۔ انھیں قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکتا ہے۔

گھر پر زچگی کے عمل سے گزرنے والی ماؤں کی صحت :

ملک میں آج بھی 34 فی صد مائیں گھروں ہی پر بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ اسپتال آنا جانا اور خرچے کے مقابلے میں چند ہزار میں یہ سہولت میسر آجاتی ہے۔ عموماً خواتین کا خیال یہ بھی ہوتا ہے کہ پیسے بنانے کی خاطر اکثر ڈاکٹر نارمل کیس کا بھی آپریشن کر دیتے ہیں۔ اس لیے ان کے پاس نہیں جانا چاہیے۔ گھر پر یہ خرچہ زیادہ سے زیادہ پانچ سے دس ہزار روپے کا ہوتا ہے، جب کہ معمولی اسپتال میں خرچہ 50 سے 80 ہزار ہونا عام بات ہے۔

خرچہ تو واقعی بچ جاتا ہے، لیکن اس سے ماؤں کی صحت داؤ پر لگ جاتی ہے۔ آج بھی ایک لاکھ میں سے 186 مائیں بچے کی پیدائش پر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ گذشتہ برسوں میں یہ شرح کم ہونے کے بہ جائے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ شہروں کی بہ نسبت گاؤں دیہات میں یہ شرح کہیں زیادہ ہے۔جہاں صحت کی سہولتوں کی قلت ہے۔ اس کے علاوہ غذائی قلت کے ساتھ ساتھ ضروری ادویات بھی نہیں دی جاتیں، جس کی وجہ سے تولیدی پیچیدگیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔

ہمارا وہ معاشرہ جہاں مذہب کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ وہ مذہب جو بیٹی کو رحمت کا نام دیتا ہے، وہ معاشرہ آج بھی بیٹی کھلے دل اور بغیر کسی عار کے قبول کرنے کو تیار نہیں ہو سکا ہے۔ کتنی خوف ناک بات ہے کہ آج بھی ایسی ہزاروں خواتین بیٹی کی ماں بننے کے ''جرم'' میں طلاق کے ساتھ گھر بھیج دی جاتی ہیں۔ وہ یقیناً اس حوالے سے 'خوش قسمت' ٹھیرتی ہیں، کیوں کہ یہاں تو اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر جان لینے تک کا ارتکاب کرلیا جاتا ہے۔

آئے دن کوڑے کے ڈھیر سے کسی لاوارث نومولود کی لاش ملتی ہے۔ عام تاثر اور خیال یہی ہوتا ہے کہ یہ ناجائز اولادیں ہوتی ہیں، لیکن اس کے اعداد وشمار یہ بتاتے ہیں کہ ایسی 99 فی صد لاشیں لڑکیوں کی ہوتی ہیں! تو اس حوالے سے سوال ضرورکھڑا ہواتا ہے کہ یقیناً یہ بات ایسے نہیں ہے، جیسے عام طور پر سمجھ لی جاتی ہے۔ نہ ہی اس حوالے سے کبھی کوئی بات کرتا ہے کہ یہ کیا ماجرا ہے؟

اس سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ دراصل وہ بد قسمت بچیاں ہیں، جو ایسے گھروں میں پیدا ہوئیں، جہاں بیٹی ہونا کسی جرم سے کم نہیں سمجھا جاتا، دوسری طرف ان کی لاش ملنے پر بھی ہمارا نظام اور سماج کچھ اور سمجھ کرآگے بڑھ جاتا ہے۔
Load Next Story