چنو نئی سوچ کو
پیپلز پارٹی کے منشور میں ایک نکتہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی ہے
'' چنو نئی سوچ کو''، پیپلز پارٹی نے پہلے 10 نکاتی انتخابی منشور کا اجراء کیا۔ سینیٹر شیری رحمنٰ نے 62 نکات پر مشتمل ایک جامع منشور انگریزی زبان میں پیش کیا۔ پیپلز پارٹی کے اس منشور کے بعض نکات انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں۔سب سے اہم نکتہ ریاستی اداروں کو شہریوں کو لاپتہ کرنے کو مجرمانہ فعل قرار دلوایا ہے۔
آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے تحت اختیارات نچلی سطح پر منتقلی، تمام نوآبادیاتی اور امتیازی قوانین کا خاتمہ اور آرمی ایکٹ کی شق 2(1d) بھی شامل ہے۔
اسی طرح منشور میں یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ پاکستان لاپتہ افراد کے بارے میں بین الاقوامی کنونشن کی توثیق کرے گا اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی ہوگی۔ انسانی حقوق کے تحفظ کرنے والے کارکنوں کے تحفظ کے لیے قانون بنایا جائے گا۔ مظلوم طبقات جن میں ٹرانس جینڈر، خواتین اور بچوں کے تحفظ کے لیے قوانین نافذ کیے جائیں گے۔ اس منشور کے ایک باب کا عنوان '' انصاف سب کے لیے '' ہے۔
اس باب میں یہ تحریر کیا گیا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے تقرر کے لیے پارلیمنٹ کے کردار کو بااختیارکیا جائے گا۔ خفیہ سرکاری ایجنسیوں کے احتساب کا طریقہ کار وضح کیا جائے گا اور پاکستان کو سیکیورٹی اسٹیٹ سے فلاحی ریاست بنانے کے بھی اقدامات ہوںگے۔ اس کے ساتھ اسکول جانے والے بچوں کو کھانا، ہر ضلع میں یونیورسٹی، سیلاب سے متاثرہ افراد کو مکانات کی فراہمی اور اس طرح کے دیگر نکات بھی شامل ہیں۔
گزشتہ 23برسوں سے ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال ابتری کا شکار ہے۔ اس صدی کے آغاز کے ساتھ ہی شہریوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ شروع ہوا۔ بلوچستان میں مری قبیلہ کے بعض افراد اغواء ہوئے۔ خیبر پختون خوا سے القاعدہ اور طالبان سے تعلق رکھنے والے افراد لاپتہ ہونے لگے۔
پنجاب اور سندھ سے بھی ایسی خبریں آنے لگیں۔ سابق صدر پرویز مشرف نے اپنی کتاب ''سب سے پہلے پاکستان'' میں تحریر کیا ہے کہ ان کی حکومت نے القاعدہ اور طالبان کے متعدد افراد کو گرفتار کرکے امریکا کے حوالے کیا ۔
لاپتہ افراد کا مسئلہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سالانہ اجلاس کے ایجنڈے میں بھی شامل ہوگیا ۔ اجلاس میں جب پاکستانی مندوب مقبوضہ کشمیر میں لاپتہ افراد کا مسئلہ اٹھاتے ہیں تو بھارتی مندوب پاکستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے کو اٹھا کر اپنا ہدف پورا کرتے ہیں۔
سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار نے سب سے پہلے لاپتہ افراد کے کیس پر سماعت کی اور ایک عدالتی کمیشن قائم کیا جس کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں کمیشن کے چیئرپرسن جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی برطرفی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے رولنگ دی کہ لاپتہ فرد سے مراد وہ شخص ہے جس کو سرکاری ایجنسیوں نے لاپتہ کیا ہو۔ سندھ ہائی کورٹ نے اسی تناظر میں لاپتہ افراد کے لواحقین کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا مگر پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اس فیصلہ پر عمل نہیں کر پائی۔
یورپی یونین نے پاکستان کی برآمدات کو GSP+ کا درجہ دیا تو لاپتہ افراد سمیت انسانی حقوق سے متعلق قوانین کے نفاذ پر زور دیا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے شہری کو لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دینے کے لیے مسودہ قانون پارلیمنٹ میں پیش کیا۔ سینیٹ نے اس مسودے کی منظوری دیدی مگر تحریک انصاف کی انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ مسودہ سینیٹ سے لاپتہ ہوگیا ہے۔
گزشتہ مہینہ جب سپریم کورٹ نے بلوچ خواتین، بچوں اور بوڑھوں کے اسلا م آباد میں دھرنا کا نوٹس لیا اور لاپتہ افراد کے مقدمے کی تاریخ کا نوٹیفکیشن جاری کیا تو سینیٹ سیکریٹریٹ نے ایک اعلامیے میں اس بات کی تردید کی کہ یہ مسودہ لاپتہ نہیں ہوا ہے اور یہ مسودہ قومی اسمبلی کے سیکریٹریٹ کو بھجوادیا گیا تھا۔ بہرحال پیپلز پارٹی کے منشور میں یہ قانون بنانے اور اقوام متحدہ کے لاپتہ افراد کے کنونشن کی توثیق کا وعدہ کرنا ایک اہم قدم ہے۔
اب پیپلز پارٹی کے منشور میں ایک نکتہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی ہے۔ یورپی یونین کا ہمیشہ سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے مؤثر قانون سازی کی جائے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے وفاق میں اس بارے میں ایک قانون بنایا مگر اس قانون پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں اس بارے میں کوئی قانون سازی نہیں کی گئی مگر بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر سندھ میں صحافیوں کا تحفظ کا کمیشن قائم ہوا۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ رشید رضوی کی سربراہی میں اس کمیشن نے صحافیوں کے تحفظ کے لیے خاصا کام کیا ہے مگر ایسا قانون وفاق اور صوبوں میں بھی بننا ضروری ہے۔ شیری رحمن نے خاص طور پر آرمی ایکٹ 2(1d) کی تنسیخ کا بھی وعدہ کیا ہے۔
اس قانون کے تحت سویلین کا فوجی عدالت میں مقدمہ چل سکتا ہے مگر شیری رحمن نے فخر سے یہ وعدہ بھی صحافیوں کے سامنے کیا مگر گزشتہ سال ہی پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی کے اراکین سینیٹر نے مخلوط حکومت کے سویلین کے فوجی عدالتوں میں مقدمات کے قانون کی منظور دی تھی۔
پیپلزپارٹی کے منشور میں اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے تقرر کے لیے پارلیمنٹ کے کردار کو مؤثر بنانے کی تجویز بھی شامل کی گئی ہے۔ آئین میں کی گئی 18ویں اور 19ویں ترمیم کے تحت ججوں کے تقرر کمیشن کی رپورٹ پارلیمنٹ کی کمیٹی کے سامنے پیش ہوتی ہے مگر پارلیمانی پارٹی بے اختیار ہے۔
پیپلز پارٹی اس کمیٹی کو بااختیار بنانا چاہتی ہے تاکہ پارلیمنٹ کی کمیٹی کے فیصلے تسلیم کیے جائیں۔ اصولی طور پر یہ بات درست ہے کہ ججوں کے تقرر کے لیے پارلیمنٹ کا کردار وسیع ہونا چاہیے مگر پھر پارلیمنٹ کے اراکین کی مداخلت اگر میرٹ سے ہٹ کر ہوئی اور سیاسی تناظر میں فیصلے ہوئے تو پھر اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے تقرر کا معاملہ متنازع ہوجائے گا۔ پیپلز پارٹی نے 18ویں ترمیم کے تحت اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے کا بھی وعدہ کیا۔
پیپلز پارٹی نے کبھی نچلی سطح کے بلدیاتی نظام کے نظریہ کو قبول نہیں کیا جس کے نتیجے میں سندھ کے شہر موئنجودڑو کے دور تک پہنچ گئے۔
پیپلز پارٹی نچلی سطح تک اختیار منتقلی پر تیار ہو جائے اور کونسلر اور یونین کونسل کو بااختیار کردیا جائے تو شہری مسائل بھی حل ہوسکتے ہیں مگر عجیب صورتحال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنے انگریزی منشور کے اہم نکات کو اپنی انتخابی پبلسٹی کے لیے استعمال نہیں کیا ہے، یوں یہ منشور صرف سفارت کاروں اور غیر ممالک کے مبصرین تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔
یہ پیپلز پارٹی کے قول و فعل میں تضاد کی نشاندہی کررہا ہے، مگر یہ حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی کے منشور میں انسانی حقوق سے متعلق جو نکات شامل کیے گئے ہیں ان پر عمل درآمد ملک کے مفاد میں ہیں۔
آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے تحت اختیارات نچلی سطح پر منتقلی، تمام نوآبادیاتی اور امتیازی قوانین کا خاتمہ اور آرمی ایکٹ کی شق 2(1d) بھی شامل ہے۔
اسی طرح منشور میں یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ پاکستان لاپتہ افراد کے بارے میں بین الاقوامی کنونشن کی توثیق کرے گا اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی ہوگی۔ انسانی حقوق کے تحفظ کرنے والے کارکنوں کے تحفظ کے لیے قانون بنایا جائے گا۔ مظلوم طبقات جن میں ٹرانس جینڈر، خواتین اور بچوں کے تحفظ کے لیے قوانین نافذ کیے جائیں گے۔ اس منشور کے ایک باب کا عنوان '' انصاف سب کے لیے '' ہے۔
اس باب میں یہ تحریر کیا گیا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے تقرر کے لیے پارلیمنٹ کے کردار کو بااختیارکیا جائے گا۔ خفیہ سرکاری ایجنسیوں کے احتساب کا طریقہ کار وضح کیا جائے گا اور پاکستان کو سیکیورٹی اسٹیٹ سے فلاحی ریاست بنانے کے بھی اقدامات ہوںگے۔ اس کے ساتھ اسکول جانے والے بچوں کو کھانا، ہر ضلع میں یونیورسٹی، سیلاب سے متاثرہ افراد کو مکانات کی فراہمی اور اس طرح کے دیگر نکات بھی شامل ہیں۔
گزشتہ 23برسوں سے ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال ابتری کا شکار ہے۔ اس صدی کے آغاز کے ساتھ ہی شہریوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ شروع ہوا۔ بلوچستان میں مری قبیلہ کے بعض افراد اغواء ہوئے۔ خیبر پختون خوا سے القاعدہ اور طالبان سے تعلق رکھنے والے افراد لاپتہ ہونے لگے۔
پنجاب اور سندھ سے بھی ایسی خبریں آنے لگیں۔ سابق صدر پرویز مشرف نے اپنی کتاب ''سب سے پہلے پاکستان'' میں تحریر کیا ہے کہ ان کی حکومت نے القاعدہ اور طالبان کے متعدد افراد کو گرفتار کرکے امریکا کے حوالے کیا ۔
لاپتہ افراد کا مسئلہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سالانہ اجلاس کے ایجنڈے میں بھی شامل ہوگیا ۔ اجلاس میں جب پاکستانی مندوب مقبوضہ کشمیر میں لاپتہ افراد کا مسئلہ اٹھاتے ہیں تو بھارتی مندوب پاکستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے کو اٹھا کر اپنا ہدف پورا کرتے ہیں۔
سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار نے سب سے پہلے لاپتہ افراد کے کیس پر سماعت کی اور ایک عدالتی کمیشن قائم کیا جس کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں کمیشن کے چیئرپرسن جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی برطرفی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے رولنگ دی کہ لاپتہ فرد سے مراد وہ شخص ہے جس کو سرکاری ایجنسیوں نے لاپتہ کیا ہو۔ سندھ ہائی کورٹ نے اسی تناظر میں لاپتہ افراد کے لواحقین کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا مگر پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اس فیصلہ پر عمل نہیں کر پائی۔
یورپی یونین نے پاکستان کی برآمدات کو GSP+ کا درجہ دیا تو لاپتہ افراد سمیت انسانی حقوق سے متعلق قوانین کے نفاذ پر زور دیا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے شہری کو لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دینے کے لیے مسودہ قانون پارلیمنٹ میں پیش کیا۔ سینیٹ نے اس مسودے کی منظوری دیدی مگر تحریک انصاف کی انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ مسودہ سینیٹ سے لاپتہ ہوگیا ہے۔
گزشتہ مہینہ جب سپریم کورٹ نے بلوچ خواتین، بچوں اور بوڑھوں کے اسلا م آباد میں دھرنا کا نوٹس لیا اور لاپتہ افراد کے مقدمے کی تاریخ کا نوٹیفکیشن جاری کیا تو سینیٹ سیکریٹریٹ نے ایک اعلامیے میں اس بات کی تردید کی کہ یہ مسودہ لاپتہ نہیں ہوا ہے اور یہ مسودہ قومی اسمبلی کے سیکریٹریٹ کو بھجوادیا گیا تھا۔ بہرحال پیپلز پارٹی کے منشور میں یہ قانون بنانے اور اقوام متحدہ کے لاپتہ افراد کے کنونشن کی توثیق کا وعدہ کرنا ایک اہم قدم ہے۔
اب پیپلز پارٹی کے منشور میں ایک نکتہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون سازی ہے۔ یورپی یونین کا ہمیشہ سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ صحافیوں کے تحفظ کے لیے مؤثر قانون سازی کی جائے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے وفاق میں اس بارے میں ایک قانون بنایا مگر اس قانون پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں اس بارے میں کوئی قانون سازی نہیں کی گئی مگر بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر سندھ میں صحافیوں کا تحفظ کا کمیشن قائم ہوا۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ رشید رضوی کی سربراہی میں اس کمیشن نے صحافیوں کے تحفظ کے لیے خاصا کام کیا ہے مگر ایسا قانون وفاق اور صوبوں میں بھی بننا ضروری ہے۔ شیری رحمن نے خاص طور پر آرمی ایکٹ 2(1d) کی تنسیخ کا بھی وعدہ کیا ہے۔
اس قانون کے تحت سویلین کا فوجی عدالت میں مقدمہ چل سکتا ہے مگر شیری رحمن نے فخر سے یہ وعدہ بھی صحافیوں کے سامنے کیا مگر گزشتہ سال ہی پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی کے اراکین سینیٹر نے مخلوط حکومت کے سویلین کے فوجی عدالتوں میں مقدمات کے قانون کی منظور دی تھی۔
پیپلزپارٹی کے منشور میں اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے تقرر کے لیے پارلیمنٹ کے کردار کو مؤثر بنانے کی تجویز بھی شامل کی گئی ہے۔ آئین میں کی گئی 18ویں اور 19ویں ترمیم کے تحت ججوں کے تقرر کمیشن کی رپورٹ پارلیمنٹ کی کمیٹی کے سامنے پیش ہوتی ہے مگر پارلیمانی پارٹی بے اختیار ہے۔
پیپلز پارٹی اس کمیٹی کو بااختیار بنانا چاہتی ہے تاکہ پارلیمنٹ کی کمیٹی کے فیصلے تسلیم کیے جائیں۔ اصولی طور پر یہ بات درست ہے کہ ججوں کے تقرر کے لیے پارلیمنٹ کا کردار وسیع ہونا چاہیے مگر پھر پارلیمنٹ کے اراکین کی مداخلت اگر میرٹ سے ہٹ کر ہوئی اور سیاسی تناظر میں فیصلے ہوئے تو پھر اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے تقرر کا معاملہ متنازع ہوجائے گا۔ پیپلز پارٹی نے 18ویں ترمیم کے تحت اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے کا بھی وعدہ کیا۔
پیپلز پارٹی نے کبھی نچلی سطح کے بلدیاتی نظام کے نظریہ کو قبول نہیں کیا جس کے نتیجے میں سندھ کے شہر موئنجودڑو کے دور تک پہنچ گئے۔
پیپلز پارٹی نچلی سطح تک اختیار منتقلی پر تیار ہو جائے اور کونسلر اور یونین کونسل کو بااختیار کردیا جائے تو شہری مسائل بھی حل ہوسکتے ہیں مگر عجیب صورتحال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے اپنے انگریزی منشور کے اہم نکات کو اپنی انتخابی پبلسٹی کے لیے استعمال نہیں کیا ہے، یوں یہ منشور صرف سفارت کاروں اور غیر ممالک کے مبصرین تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔
یہ پیپلز پارٹی کے قول و فعل میں تضاد کی نشاندہی کررہا ہے، مگر یہ حقیقت ہے کہ پیپلزپارٹی کے منشور میں انسانی حقوق سے متعلق جو نکات شامل کیے گئے ہیں ان پر عمل درآمد ملک کے مفاد میں ہیں۔