ووٹ کا درست استعمال قومی ذمے داری
بہت سے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے ووٹ نہ ڈالنے سے کیا ہوگا؟
پاکستان کا قیام پون صدی قبل ووٹ کی طاقت سے عمل میں آیا، ملک کی تاریخ میں یہ بارہویں عام انتخابات ہیں۔ان انتخابات کے نتیجے میں عوام کو حق رائے دہی کا موقع ملے گا جس کے تحت وہ اپنے پسندیدہ منتخب نمایندے اسمبلیوں میں بھیج سکیں گے۔
دنیا کی تاریخ کئی ایسے انقلابی واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں عوام نے انتخابات میں اپنے ووٹوں کی قوت سے جمہوری، سیاسی اور معاشی انقلاب برپا کیے۔
مغرب کے امیر ترین ممالک کے سائنسی، معاشی، سماجی اور سیاسی انقلابات کا راز جمہوریت اور انتخابی عمل کے باقاعدہ تسلسل میں پنہاں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں برادری ازم، لسانیت اور فرقہ وارانہ گروہی تضادات کے بجائے عوام کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ کا دانشمندانہ استعمال کرتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان، ایک جمہوری ملک ہے اور اس کی جمہوریت کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے۔ ووٹ کا درست استعمال جمہوریت کو مضبوط کرتا ہے۔ اس کے صحیح استعمال کے نتیجے میں ایک مثبت شخص اسمبلی میں پہنچ سکتا ہے اور یوں معاشرے میں مثبت تبدیلی آسکتی ہے۔ جمہوری نظام کی مضبوطی، پاکستان کی مضبوطی ہے اور اس کی مضبوطی میں ہی ہماری بقاء ہے۔
بہت سے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے ووٹ نہ ڈالنے سے کیا ہوگا؟ یہ صرف ناخواندہ ہی نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی رائے رکھتے ہیں۔
ذرا سوچیے کہ آپ کے ووٹ نہ دینے سے صرف نقصان آپ کو نہیں بلکہ ایک ایسے فرد کو بھی نقصان پہنچے گا جو قانون سازی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے لیکن آپ کے ایک ووٹ نہ ڈالنے سے وہ اسمبلی میں نہیں پہنچے گا، اس سے پوری ریاست کا نقصان ہوگا۔ ملکی سلامتی کے لیے بہرحال سیاسی استحکام بے حد ضروری ہے۔
ہماری معاشی صورت حال پچھلے چند برسوں سے اچھی نہیں ہے، اس میں بہت زیادہ بگاڑ آیا ہے، اس کی بہتری سیاسی استحکام سے ہی جڑی ہوئی ہے۔
اب یہ سیاسی جماعتوں پر منحصر ہے کہ وہ کتنی بڑی تعداد میں ووٹرزکوگھروں سے نکال پاتی ہیں جب کہ ووٹرز بھی ووٹ کے استعمال میں کتنی دلچسپی لیتے ہیں۔ ووٹرز نے بہت بڑی تعداد میں پولنگ اسٹیشنز کا رخ کیا تو نتائج میں بہت سے اپ سیٹ ہوسکتے ہیں۔
ایک جمہوری ملک میں ہرمنصب کا فیصلہ ووٹ سے کیا جاتا ہے۔ایک خاص مدت کے لیے حکمران وقت کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ کون وزیراعظم بنے گا اورکون وزیراعلیٰ؟ یہ تمام فیصلے ووٹ سے ہی کیے جاتے ہیں۔
آپ کا ایک، ایک ووٹ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ووٹنگ کے ذریعے آپ اپنی حکومت پر ملکیت کا احساس پیدا کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی خاطر خواہ تبدیلی بھی لا سکتے ہیں۔ ووٹنگ افراد کو ملک، مقامی حلقے یا انتخابی امیدوارکے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی بھی اجازت دیتی ہے۔
آپ کا ووٹ ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ آپ کس کو حکومت میں بٹھانا چاہتے ہیں؟ اپنی نسلوں کے لیے ووٹ کا درست استعمال کیجیے۔ ہر فرد کو اپنی مرضی سے، اپنی سوچ اور فہم کے مطابق ووٹ کا حق حاصل ہے اور اس نے اس کا درست استعمال کرنا ہے۔ ووٹ صرف اسے دینا ہے جو اس کے قابل ہے اور اس کے لیے ہر طبقے اور ذات کے فرق کو پس پشت ڈال کر اچھے کردار اور قابل انسان کو چننا ہے اور انھیں آگے لانا ہے تا کہ ہم سب کی بہتری ہو سکے نہ کہ چند طبقوں کی۔
عام انتخابات میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے سیاسی جماعتوں کی جانب سے جمع کرائی گئی فہرستوں نے یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ بار بار ان سیٹوں پر وہی نام چُنے جاتے ہیں جو یا توکسی جوڑ توڑ کا حصہ ہوتے ہیں، یا پھر کسی اہم رہنما کے رشتے دار۔ گزشتہ انتخابات کی طرح اس بار بھی اِن خواتین نے آواز اٹھائی ہے۔
جنھیں پارٹی سے طویل وابستگی کے باوجود قیادت کے قریب نہ ہونے یا مالی طور پر مستحکم نہ ہونے کی وجہ سے مخصوص نشستوں کے لیے نہیں چُنا گیا۔ جنرل نشستوں پر ٹکٹوں کی تقسیم کا فیصلہ بھی پارٹی چیئرمین ہی کرتے ہیں تو پھر خواتین کی مخصوص نشستوں پر خواتین امیدواروں کی نامزدگی کیا حیثیت رکھتی ہے؟ بلاشبہ خواتین آج اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ آج بھی پاکستان کی کثیر آبادی پر مشتمل خواتین'' ووٹ کیا ہے۔
اس کا استعمال کیسے کرنا چاہیے؟ '' سے واقفیت نہیں رکھتیں، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں آبادی کی کثیر تعداد پر مشتمل خواتین ووٹ کے متعلق آگاہی نہیں رکھتی۔ عموماً پسماندہ علاقوں اور دیہی علاقوں کی خواتین میں یہ چیز نمایاں ہے۔ تاہم کچھ پڑھی لکھی خواتین ایسی بھی ہیں جو اپنے خاندان کے مرد حضرات کے نقش قدم پر چلتی ہیں یعنی اگر مرد حضرات نے کسی جماعت کو ووٹ دیا ہے تو خواتین بھی وہی عمل دہراتی ہے۔
خدا نے ہر شخص کو عقل، فکر اور علم عطا کیا ہے۔ اب انسان پر ہے کہ وہ اس علم کوکس طرح استعمال کرتا ہے۔ خواتین کو ووٹ دینے سے پہلے اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ آپ کا ووٹ بہت قیمتی ہے اور یہ ملک کی تقدیرکا فیصلہ کرتا ہے۔ صرف ایک غلط ووٹ سے قوم کی تقدیرکا دھارا بھنور میں پھنس سکتا ہے۔
گزشتہ سات دہائیوں سے انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے لیکن عوام اب بھی سمجھتے ہیں کہ ان کی امنگوں کی ترجمان قیادت کا فقدان ہی رہا ہے۔ عوام کو سیاسی تاریخ کا جائزہ لے کر نتیجہ اخذ کرنا ہوگا کہ قیادت کے انتخاب میں کیا کوتاہی برتی جا رہی ہے۔
ووٹرز کے ذہن نشین ہونا چاہیے کہ عام انتخابات میں گلی یا نالی کی پختگی کے لیے قیادت کا انتخاب نہیں کیا جاتا، حکومتوں یا نمایندوں کو اپنے چہیتوں میں ملازمتیں بانٹنے کے لیے مینڈیٹ نہیں دیا جاتا بلکہ ملک میں رائج نظام کی خامیاں دور کر کے قوم کا معیار زندگی بہتر بنانے کی خاطر قیادت کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
عوام کی جانب سے منتخب قیادت کو بین الاقوامی سطح پر ملکی وقار بلند کرنے کی ذمے داری سونپی جاتی ہے۔ بہت غفلت اور لاپرواہی برتی گئی جس کا خمیازہ ہم لاقانونیت، بے امنی، کرپشن اور مہنگائی جیسے بے پناہ مسائل کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔
تحقیق اور غور و فکر کے بعد عام انتخابات میں ایسی قیادت منتخب کرنے کی کوشش کریں جسے ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی مسائل کا ادراک ہو اوروہ انھیں حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔
ایسی جماعت کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا جائے جس کو مختلف شعبوں کے ماہرین پر مشتمل تجربہ کار ٹیم کی مدد حاصل ہو تاکہ قدرتی وسائل سے مالا مال اس ملک کی خداداد نعمتوں کو بروئے کار لانے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائے جا سکیں۔ کرپٹ اور ناتجربہ کار افراد کو منتخب کرنے سے گریز کریں۔ایک جرات مند قیادت ہی ملک کو مسائل کی دلدل بالخصوص قرض کے بوجھ سے نکالنے کے لیے مشکل فیصلے کر سکتی ہے۔
عوام دوستی کا منشور رکھنے والی قیادت منتخب کی جائے جو اچھے طرز حکمرانی کو فروغ دینے کے لیے حکومتی معاملات میں مختلف طبقات کی شمولیت کو یقینی بنائے۔ووٹرز تہیہ کر لیں کہ ایسے نمایندے منتخب کرنے ہیں جو عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوں۔ استحصالی نظام کا خاتمہ کر کے ملک کے کونے کونے میں بسنے والوں کو آئین کے مطابق عزت و ناموس اور جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دے۔
انتخابات اور حکومت عوام کی، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ پتہ لگانا ہمارا فرض ہے کہ ہم غریبی کو کم کرنے، بچوںکی تعلیم، بنیادی سہولتوں، ماحولیاتی تحفظ، زراعت اور یہاں تک کہ شہری ترقی جیسے مسائل پرکہاں کھڑے ہیںاور ان مسائل کو کیسے حل کرنا ہے۔
دنیا میں ابھی کچھ ممالک ایسے ہیں، جہاں لوگ اپنی حکومت کا انتخاب نہیں کرسکتے، کیونکہ ان کو ووٹ دینے کا حق نہیں ہے۔ ووٹنگ ایک حق اور خصوصی استحقاق ہے جسے پانے کے لیے ہمارے آبا و اجداد نے لڑائی لڑی ہے۔ لوگوں کو صرف ناظرین بنے رہنے اور شکایت کرنے کے بجائے جمہوریت کی کامیابی کے لیے اس میں حصہ لینا ہو گا، کیونکہ اگر آپ اپنے مفادات کے لیے ووٹ نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا؟
آج کے دن عوام سوچ سمجھ کر حق رائے دہی استعمال کریں۔ ووٹ کی پرچی کو محض ایک کاغذ کا ٹکڑا نہ سمجھیں، اس سے قوم کی تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں۔ یہ سوچنا بھی جہالت ہے کہ میرے ایک ووٹ سے کیا فرق پڑے گا۔ یہ صرف ووٹ ہی نہیں بلکہ ضمیر کی آواز ہے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
دنیا کی تاریخ کئی ایسے انقلابی واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں عوام نے انتخابات میں اپنے ووٹوں کی قوت سے جمہوری، سیاسی اور معاشی انقلاب برپا کیے۔
مغرب کے امیر ترین ممالک کے سائنسی، معاشی، سماجی اور سیاسی انقلابات کا راز جمہوریت اور انتخابی عمل کے باقاعدہ تسلسل میں پنہاں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں برادری ازم، لسانیت اور فرقہ وارانہ گروہی تضادات کے بجائے عوام کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ کا دانشمندانہ استعمال کرتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان، ایک جمہوری ملک ہے اور اس کی جمہوریت کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے۔ ووٹ کا درست استعمال جمہوریت کو مضبوط کرتا ہے۔ اس کے صحیح استعمال کے نتیجے میں ایک مثبت شخص اسمبلی میں پہنچ سکتا ہے اور یوں معاشرے میں مثبت تبدیلی آسکتی ہے۔ جمہوری نظام کی مضبوطی، پاکستان کی مضبوطی ہے اور اس کی مضبوطی میں ہی ہماری بقاء ہے۔
بہت سے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے ووٹ نہ ڈالنے سے کیا ہوگا؟ یہ صرف ناخواندہ ہی نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی رائے رکھتے ہیں۔
ذرا سوچیے کہ آپ کے ووٹ نہ دینے سے صرف نقصان آپ کو نہیں بلکہ ایک ایسے فرد کو بھی نقصان پہنچے گا جو قانون سازی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے لیکن آپ کے ایک ووٹ نہ ڈالنے سے وہ اسمبلی میں نہیں پہنچے گا، اس سے پوری ریاست کا نقصان ہوگا۔ ملکی سلامتی کے لیے بہرحال سیاسی استحکام بے حد ضروری ہے۔
ہماری معاشی صورت حال پچھلے چند برسوں سے اچھی نہیں ہے، اس میں بہت زیادہ بگاڑ آیا ہے، اس کی بہتری سیاسی استحکام سے ہی جڑی ہوئی ہے۔
اب یہ سیاسی جماعتوں پر منحصر ہے کہ وہ کتنی بڑی تعداد میں ووٹرزکوگھروں سے نکال پاتی ہیں جب کہ ووٹرز بھی ووٹ کے استعمال میں کتنی دلچسپی لیتے ہیں۔ ووٹرز نے بہت بڑی تعداد میں پولنگ اسٹیشنز کا رخ کیا تو نتائج میں بہت سے اپ سیٹ ہوسکتے ہیں۔
ایک جمہوری ملک میں ہرمنصب کا فیصلہ ووٹ سے کیا جاتا ہے۔ایک خاص مدت کے لیے حکمران وقت کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ کون وزیراعظم بنے گا اورکون وزیراعلیٰ؟ یہ تمام فیصلے ووٹ سے ہی کیے جاتے ہیں۔
آپ کا ایک، ایک ووٹ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ووٹنگ کے ذریعے آپ اپنی حکومت پر ملکیت کا احساس پیدا کر سکتے ہیں اور ساتھ ہی خاطر خواہ تبدیلی بھی لا سکتے ہیں۔ ووٹنگ افراد کو ملک، مقامی حلقے یا انتخابی امیدوارکے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی بھی اجازت دیتی ہے۔
آپ کا ووٹ ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ آپ کس کو حکومت میں بٹھانا چاہتے ہیں؟ اپنی نسلوں کے لیے ووٹ کا درست استعمال کیجیے۔ ہر فرد کو اپنی مرضی سے، اپنی سوچ اور فہم کے مطابق ووٹ کا حق حاصل ہے اور اس نے اس کا درست استعمال کرنا ہے۔ ووٹ صرف اسے دینا ہے جو اس کے قابل ہے اور اس کے لیے ہر طبقے اور ذات کے فرق کو پس پشت ڈال کر اچھے کردار اور قابل انسان کو چننا ہے اور انھیں آگے لانا ہے تا کہ ہم سب کی بہتری ہو سکے نہ کہ چند طبقوں کی۔
عام انتخابات میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے سیاسی جماعتوں کی جانب سے جمع کرائی گئی فہرستوں نے یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ بار بار ان سیٹوں پر وہی نام چُنے جاتے ہیں جو یا توکسی جوڑ توڑ کا حصہ ہوتے ہیں، یا پھر کسی اہم رہنما کے رشتے دار۔ گزشتہ انتخابات کی طرح اس بار بھی اِن خواتین نے آواز اٹھائی ہے۔
جنھیں پارٹی سے طویل وابستگی کے باوجود قیادت کے قریب نہ ہونے یا مالی طور پر مستحکم نہ ہونے کی وجہ سے مخصوص نشستوں کے لیے نہیں چُنا گیا۔ جنرل نشستوں پر ٹکٹوں کی تقسیم کا فیصلہ بھی پارٹی چیئرمین ہی کرتے ہیں تو پھر خواتین کی مخصوص نشستوں پر خواتین امیدواروں کی نامزدگی کیا حیثیت رکھتی ہے؟ بلاشبہ خواتین آج اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ آج بھی پاکستان کی کثیر آبادی پر مشتمل خواتین'' ووٹ کیا ہے۔
اس کا استعمال کیسے کرنا چاہیے؟ '' سے واقفیت نہیں رکھتیں، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں آبادی کی کثیر تعداد پر مشتمل خواتین ووٹ کے متعلق آگاہی نہیں رکھتی۔ عموماً پسماندہ علاقوں اور دیہی علاقوں کی خواتین میں یہ چیز نمایاں ہے۔ تاہم کچھ پڑھی لکھی خواتین ایسی بھی ہیں جو اپنے خاندان کے مرد حضرات کے نقش قدم پر چلتی ہیں یعنی اگر مرد حضرات نے کسی جماعت کو ووٹ دیا ہے تو خواتین بھی وہی عمل دہراتی ہے۔
خدا نے ہر شخص کو عقل، فکر اور علم عطا کیا ہے۔ اب انسان پر ہے کہ وہ اس علم کوکس طرح استعمال کرتا ہے۔ خواتین کو ووٹ دینے سے پہلے اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ آپ کا ووٹ بہت قیمتی ہے اور یہ ملک کی تقدیرکا فیصلہ کرتا ہے۔ صرف ایک غلط ووٹ سے قوم کی تقدیرکا دھارا بھنور میں پھنس سکتا ہے۔
گزشتہ سات دہائیوں سے انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے لیکن عوام اب بھی سمجھتے ہیں کہ ان کی امنگوں کی ترجمان قیادت کا فقدان ہی رہا ہے۔ عوام کو سیاسی تاریخ کا جائزہ لے کر نتیجہ اخذ کرنا ہوگا کہ قیادت کے انتخاب میں کیا کوتاہی برتی جا رہی ہے۔
ووٹرز کے ذہن نشین ہونا چاہیے کہ عام انتخابات میں گلی یا نالی کی پختگی کے لیے قیادت کا انتخاب نہیں کیا جاتا، حکومتوں یا نمایندوں کو اپنے چہیتوں میں ملازمتیں بانٹنے کے لیے مینڈیٹ نہیں دیا جاتا بلکہ ملک میں رائج نظام کی خامیاں دور کر کے قوم کا معیار زندگی بہتر بنانے کی خاطر قیادت کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
عوام کی جانب سے منتخب قیادت کو بین الاقوامی سطح پر ملکی وقار بلند کرنے کی ذمے داری سونپی جاتی ہے۔ بہت غفلت اور لاپرواہی برتی گئی جس کا خمیازہ ہم لاقانونیت، بے امنی، کرپشن اور مہنگائی جیسے بے پناہ مسائل کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔
تحقیق اور غور و فکر کے بعد عام انتخابات میں ایسی قیادت منتخب کرنے کی کوشش کریں جسے ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی مسائل کا ادراک ہو اوروہ انھیں حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔
ایسی جماعت کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچایا جائے جس کو مختلف شعبوں کے ماہرین پر مشتمل تجربہ کار ٹیم کی مدد حاصل ہو تاکہ قدرتی وسائل سے مالا مال اس ملک کی خداداد نعمتوں کو بروئے کار لانے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائے جا سکیں۔ کرپٹ اور ناتجربہ کار افراد کو منتخب کرنے سے گریز کریں۔ایک جرات مند قیادت ہی ملک کو مسائل کی دلدل بالخصوص قرض کے بوجھ سے نکالنے کے لیے مشکل فیصلے کر سکتی ہے۔
عوام دوستی کا منشور رکھنے والی قیادت منتخب کی جائے جو اچھے طرز حکمرانی کو فروغ دینے کے لیے حکومتی معاملات میں مختلف طبقات کی شمولیت کو یقینی بنائے۔ووٹرز تہیہ کر لیں کہ ایسے نمایندے منتخب کرنے ہیں جو عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوں۔ استحصالی نظام کا خاتمہ کر کے ملک کے کونے کونے میں بسنے والوں کو آئین کے مطابق عزت و ناموس اور جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دے۔
انتخابات اور حکومت عوام کی، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ پتہ لگانا ہمارا فرض ہے کہ ہم غریبی کو کم کرنے، بچوںکی تعلیم، بنیادی سہولتوں، ماحولیاتی تحفظ، زراعت اور یہاں تک کہ شہری ترقی جیسے مسائل پرکہاں کھڑے ہیںاور ان مسائل کو کیسے حل کرنا ہے۔
دنیا میں ابھی کچھ ممالک ایسے ہیں، جہاں لوگ اپنی حکومت کا انتخاب نہیں کرسکتے، کیونکہ ان کو ووٹ دینے کا حق نہیں ہے۔ ووٹنگ ایک حق اور خصوصی استحقاق ہے جسے پانے کے لیے ہمارے آبا و اجداد نے لڑائی لڑی ہے۔ لوگوں کو صرف ناظرین بنے رہنے اور شکایت کرنے کے بجائے جمہوریت کی کامیابی کے لیے اس میں حصہ لینا ہو گا، کیونکہ اگر آپ اپنے مفادات کے لیے ووٹ نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا؟
آج کے دن عوام سوچ سمجھ کر حق رائے دہی استعمال کریں۔ ووٹ کی پرچی کو محض ایک کاغذ کا ٹکڑا نہ سمجھیں، اس سے قوم کی تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں۔ یہ سوچنا بھی جہالت ہے کہ میرے ایک ووٹ سے کیا فرق پڑے گا۔ یہ صرف ووٹ ہی نہیں بلکہ ضمیر کی آواز ہے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ