وزیر اعظم بننے کا خواب
وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھنا مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا حق ہے اور دونوں پارٹیاں طویل عرصے تک اقتدار میں رہی ہیں
آج ملک میں عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں جس میں وزیر اعظم بننے کے خواب کی تعبیر ملک کے عوام کو تین سو یونٹ مفت بجلی کی فراہمی کا خواب دکھانے والے کو ملتی ہے یا چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے خواہش مند کو ، ان کا کہنا ہے کہ میرے دور میں ملک ترقی کرتا ہے اور مجھے فارغ کیا گیا مگر میں نے ظلم برداشت کیا ملک پر زخم لگنے دیا نہ قومی راز فاش کیے۔
اگر قوم نے مجھ پر ایک بار پھر اعتماد کیا تو ملک کو دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن کر دوں گا کیونکہ ہمارے تین ادوار میں ہم نے ملک کو ترقی دی اور ملک کے ہر ترقی کے منصوبے پر مسلم لیگ (ن) کے نشان موجود ہیں جو ہماری کارکردگی اور عوام سے کیے گئے وعدوں کا ثبوت ہے کیونکہ ہم کام کرتے آئے ہیں اور اپنی تین بار کی حکومتوں کی کارکردگی پر میں سرخرو ہو کر عوام کے سامنے کھڑا ہوں۔
تین سو یونٹ کے منشور کو خود خواب ماننے والے اور سولہ ماہ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اتحادی حکومت میں جوانی میں پہلی بار وزیر خارجہ رہ کر ملک کے اندر کم اور ریکارڈ بیرونی دورے کرنے والے پیپلز پارٹی کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ چلنا ناممکن اور مولانا فضل الرحمن اور سزا یافتہ بانی پی ٹی آئی آؤٹ ہو چکے اور مسلم لیگ (ن) کا مقصد صرف میاں صاحب کو چوتھی بار اقتدار میں لانا ہے اور میں میاں نواز شریف کو چوتھی بار وزیر اعظم نہیں بننے دوں گا ۔
بلاول بھٹو زرداری کے والد سابق صدر آصف علی زرداری بھی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف کو چوتھی بار وزیر اعظم نہیں بننے دوں گا اور پیپلز پارٹی 8فروری کو الیکشن جیت کر بلاول بھٹو زرداری کو وزیر اعظم بنائے گی۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ (ن) لیگ پیپلز پارٹی کے بغیر وزیر اعظم نہیں بناسکتی۔ سابق صدر حالیہ انتخابی مہم یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ ہم نواز شریف کے ساتھ آیندہ حکومت میں شامل نہیں ہوں گے بلکہ ہم سندھ کے بعد اب ملک کا اقتدار حاصل کر کے پاکستان کو دوبارہ بنائیں گے اور ملک کو موجودہ برے حالات سے نکالیں گے۔
اس وقت مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف کو پیپلز پارٹی نے بلاول بھٹو کو وزیر اعظم بنانے کا اعلان کیا ہے اور کوئی تیسری پارٹی وزیر اعظم بنانے کی دوڑ میں شامل نہیں ہے البتہ انتخابات کے بعد آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن صدارتی انتخابات میں صدر مملکت بننے کے ضرور خواہش مند ہیں کیونکہ ملک کے نئے صدر کا انتخاب ہونا ہے ۔
پونے چار سال وزیر اعظم رہنے والے اب عدالتوں سے سزا کے بعد دس سال کے لیے نااہل ہو چکے ہیں اور 24 سال سزائے قید کے مجرم قرار دیے جا چکے ہیں اور پی ٹی آئی اپنا انتخابی نشان گنوا کر الیکشن میں تو موجود ہے اور اس کے لوگ آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں مختلف نشانوں پر مقابلہ کر رہے ہیں۔ ان تینوں بڑی پارٹیوں کے علاوہ درجنوں پارٹیاں انتخاب لڑ رہی ہیں جن میں وزیر اعظم کا کوئی امیدوار نہیں ہے۔
وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھنا مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا حق ہے اور دونوں پارٹیاں طویل عرصے تک اقتدار میں رہی ہیں اور متعدد بار اپنے وزیر اعظم بھی منتخب کرا چکی ہیں۔ دونوں بڑی پارٹیاں اپنے اپنے منشور میں عوام کے مستقبل کے سنہری خواب دکھا رہی ہیں اور کامیابی کے لیے پر عزم ہیں۔
دونوں پارٹیاں ملک کے عوام کو اپنی طرف راغب کر رہی ہیں اور عوام آج جس کے حق میں فیصلہ دیتے ہیں اسی پارٹی کو اپنی اکثریت کے بل بوتے پر وزیر اعظم منتخب کرانے کا حق ہوگا اور یہی جمہوری طریقہ ہے اور دونوں پارٹیوں نے اپنی بھرپور انتخابی مہم کامیابی سے چلائی ہے۔
سندھی کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ بار بار آزمائے گئے کو ایک بار پھر آزمانا اپنے منہ پر دھول مارنے کے مترادف ہے، اس لیے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) متعدد بار حکومتوں میں لا کر آزمائی جا چکی ہیں اور 2018 میں ان دونوں سے مایوس عوام اور انھیں لانے والوں نے باریوں کے بعد پی ٹی آئی کو وفاق میں پونے چار سال اور کے پی میں پونے دس سال آزمایا اور ماضی کے حکمرانوں کا توڑ کیا گیا تھا جو بری طرح ناکام رہا جس کی سزا ملک و قوم نے تو بھگتی ہی اور اب سابق وزیر اعظم خود بھی بھگت رہے ہیں ۔
جنھوں نے اپنی ذاتی شہرت کی بنیاد پر اقتدار حاصل کیا تھا جن سے قوم اور بالاتروں کو بے حد توقعات وابستہ تھیں مگر انھوں نے پہلی بار کے اقتدار میں وہ کچھ کر دکھایا جو ماضی میں بار بار اقتدار میں رہنے والے نہیں دکھا سکے تھے۔
یہ بھی نہیں کہ آزمائے ہوؤں نے کارکردگی نہ دکھائی ہو کارکردگی سب ہی کی عوام پر عیاں ہے مگر ہر ایک کی کارکردگی میں فرق ہے جس کا موازنہ کرنے کا عوام کو پانچ سال بعد آج پھر موقعہ ملا ہے اور وہ جس کی کارکردگی کو بہتر سمجھیں گے اسے پھر آزمائیں گے۔
یہ بھی ہے کہ عوام کسی اور کو ووٹ دیتے ہیں مگر رات گئے ایسا کچھ ہو جاتا ہے کہ عوام خود بھی حیران رہ جاتے ہیں اس لیے اس بار ووٹ پر پہرہ دینے کے اعلانات بھی ہو رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب عوام پرانوں کو پھر آزمائیں گے یا نئے چہرے سامنے آئیں گے۔
اگر قوم نے مجھ پر ایک بار پھر اعتماد کیا تو ملک کو دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن کر دوں گا کیونکہ ہمارے تین ادوار میں ہم نے ملک کو ترقی دی اور ملک کے ہر ترقی کے منصوبے پر مسلم لیگ (ن) کے نشان موجود ہیں جو ہماری کارکردگی اور عوام سے کیے گئے وعدوں کا ثبوت ہے کیونکہ ہم کام کرتے آئے ہیں اور اپنی تین بار کی حکومتوں کی کارکردگی پر میں سرخرو ہو کر عوام کے سامنے کھڑا ہوں۔
تین سو یونٹ کے منشور کو خود خواب ماننے والے اور سولہ ماہ مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اتحادی حکومت میں جوانی میں پہلی بار وزیر خارجہ رہ کر ملک کے اندر کم اور ریکارڈ بیرونی دورے کرنے والے پیپلز پارٹی کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ چلنا ناممکن اور مولانا فضل الرحمن اور سزا یافتہ بانی پی ٹی آئی آؤٹ ہو چکے اور مسلم لیگ (ن) کا مقصد صرف میاں صاحب کو چوتھی بار اقتدار میں لانا ہے اور میں میاں نواز شریف کو چوتھی بار وزیر اعظم نہیں بننے دوں گا ۔
بلاول بھٹو زرداری کے والد سابق صدر آصف علی زرداری بھی پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف کو چوتھی بار وزیر اعظم نہیں بننے دوں گا اور پیپلز پارٹی 8فروری کو الیکشن جیت کر بلاول بھٹو زرداری کو وزیر اعظم بنائے گی۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ (ن) لیگ پیپلز پارٹی کے بغیر وزیر اعظم نہیں بناسکتی۔ سابق صدر حالیہ انتخابی مہم یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ ہم نواز شریف کے ساتھ آیندہ حکومت میں شامل نہیں ہوں گے بلکہ ہم سندھ کے بعد اب ملک کا اقتدار حاصل کر کے پاکستان کو دوبارہ بنائیں گے اور ملک کو موجودہ برے حالات سے نکالیں گے۔
اس وقت مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف کو پیپلز پارٹی نے بلاول بھٹو کو وزیر اعظم بنانے کا اعلان کیا ہے اور کوئی تیسری پارٹی وزیر اعظم بنانے کی دوڑ میں شامل نہیں ہے البتہ انتخابات کے بعد آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن صدارتی انتخابات میں صدر مملکت بننے کے ضرور خواہش مند ہیں کیونکہ ملک کے نئے صدر کا انتخاب ہونا ہے ۔
پونے چار سال وزیر اعظم رہنے والے اب عدالتوں سے سزا کے بعد دس سال کے لیے نااہل ہو چکے ہیں اور 24 سال سزائے قید کے مجرم قرار دیے جا چکے ہیں اور پی ٹی آئی اپنا انتخابی نشان گنوا کر الیکشن میں تو موجود ہے اور اس کے لوگ آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں مختلف نشانوں پر مقابلہ کر رہے ہیں۔ ان تینوں بڑی پارٹیوں کے علاوہ درجنوں پارٹیاں انتخاب لڑ رہی ہیں جن میں وزیر اعظم کا کوئی امیدوار نہیں ہے۔
وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھنا مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا حق ہے اور دونوں پارٹیاں طویل عرصے تک اقتدار میں رہی ہیں اور متعدد بار اپنے وزیر اعظم بھی منتخب کرا چکی ہیں۔ دونوں بڑی پارٹیاں اپنے اپنے منشور میں عوام کے مستقبل کے سنہری خواب دکھا رہی ہیں اور کامیابی کے لیے پر عزم ہیں۔
دونوں پارٹیاں ملک کے عوام کو اپنی طرف راغب کر رہی ہیں اور عوام آج جس کے حق میں فیصلہ دیتے ہیں اسی پارٹی کو اپنی اکثریت کے بل بوتے پر وزیر اعظم منتخب کرانے کا حق ہوگا اور یہی جمہوری طریقہ ہے اور دونوں پارٹیوں نے اپنی بھرپور انتخابی مہم کامیابی سے چلائی ہے۔
سندھی کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ بار بار آزمائے گئے کو ایک بار پھر آزمانا اپنے منہ پر دھول مارنے کے مترادف ہے، اس لیے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) متعدد بار حکومتوں میں لا کر آزمائی جا چکی ہیں اور 2018 میں ان دونوں سے مایوس عوام اور انھیں لانے والوں نے باریوں کے بعد پی ٹی آئی کو وفاق میں پونے چار سال اور کے پی میں پونے دس سال آزمایا اور ماضی کے حکمرانوں کا توڑ کیا گیا تھا جو بری طرح ناکام رہا جس کی سزا ملک و قوم نے تو بھگتی ہی اور اب سابق وزیر اعظم خود بھی بھگت رہے ہیں ۔
جنھوں نے اپنی ذاتی شہرت کی بنیاد پر اقتدار حاصل کیا تھا جن سے قوم اور بالاتروں کو بے حد توقعات وابستہ تھیں مگر انھوں نے پہلی بار کے اقتدار میں وہ کچھ کر دکھایا جو ماضی میں بار بار اقتدار میں رہنے والے نہیں دکھا سکے تھے۔
یہ بھی نہیں کہ آزمائے ہوؤں نے کارکردگی نہ دکھائی ہو کارکردگی سب ہی کی عوام پر عیاں ہے مگر ہر ایک کی کارکردگی میں فرق ہے جس کا موازنہ کرنے کا عوام کو پانچ سال بعد آج پھر موقعہ ملا ہے اور وہ جس کی کارکردگی کو بہتر سمجھیں گے اسے پھر آزمائیں گے۔
یہ بھی ہے کہ عوام کسی اور کو ووٹ دیتے ہیں مگر رات گئے ایسا کچھ ہو جاتا ہے کہ عوام خود بھی حیران رہ جاتے ہیں اس لیے اس بار ووٹ پر پہرہ دینے کے اعلانات بھی ہو رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب عوام پرانوں کو پھر آزمائیں گے یا نئے چہرے سامنے آئیں گے۔