سرگزشت۔۔۔آپ بیتی

یہ تمہید نہایت بھونڈی ہے مگر کیا کروں، اپنی جوانی کا قصہ بیان کرنے کے لیے بہانہ ڈھونڈ رہا ہوں

''سرگزشت...آپ بیتی'' ذوالفقار علی بخاری کی خود نوشت آپ بیتی ہے۔

فیض صاحب ''آزاد مرد'' کے عنوان سے اس کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں '' عام محفلوں کی گفتگو میں صرف بخاری یا بخاری صاحب کہتے تو اشارہ سید ذوالفقار بخاری کی طرف ہوتا۔ بڑے بھائی کو عموماً بڑے بخاری یا پطرس کہتے جو ان کا ادبی نام تھا۔ کسی نشست میں بیک وقت دونوں کا تذکرہ ہوتا تو بڑے بخاری اور چھوٹے بخاری کہتے یا اے۔ ایس۔ بی اور زیڈ۔ اے۔ بی۔

''بڑے بھائی بے حد فہیم اور دانش مند تھے۔ ان کی فراست اتنی ثقہ تھی کہ مجھے کسی اور شخصیت میں آج تک نظر نہ آئی۔ چھوٹے بخاری صاحب کی ذہانت عوامی تھی اور عملی بھی۔ دربارکے دونوں قائل تھے اور دونوں نے اپنے اپنے دربار سجائے، مگر بڑے بھائی ہر ایک سے کھلتے نہیں تھے۔

ان کے مخصوص و محدود احباب اور رفیق تھے۔ وہی ان کے اطراف ہار بنائے رہتے۔ ان کے دربار خاص میں ہر ایک کی رسائی ممکن نہ تھی۔ چھوٹے بھائی کا دربار، دربار عام تھا۔ افسر بھی موجود، اہل کار بھی حاضر۔ شاعر بھی آئے ہیں، ادیب بھی بیٹھے ہیں،گلوکار اور سازکار بھی، مصور بھی، محتاج و غنی بھی بلکہ وہ جو شاعر نے کہا ہے:

غریب خانہ کھلا ہے ہر اک بلا کے لیے

ذوالفقار علی بخاری اپنی آپ بیتی کی ابتدا بسم اللہ سے کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں '' یوں تو مثل مشہور ہے کہ سانچ کو آنچ نہیں، لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ سچ بولو تو سننے والے کے آگ لگ جاتی ہے۔

یہی باعث ہے کہ میں نے آج تک اپنا روزنامچہ لکھنے سے گریزکیا، چپ سادھے رکھی اور اگر کبھی بہ امر مجبوری بولنا بھی پڑا تو ایسے الفاظ ڈھونڈ کر نکالے جن کو سن کر سننے والا تھوڑا بہت دھواں دے جائے مگر اس کے تن بدن میں آگ نہ لگنے پائے۔''

''آپ میرے اس رویے کو جو چاہیں نام دے لیں لیکن میں کیا کروں۔ بندگی، بے چارگی۔ میرا معاملہ مرتا کیا نہ کرتا والا تھا۔ خیر، جو ہوا سو ہوا، اب تو الحمدللہ، جی حضوری کر کے روٹی کمانے کی عمر تمام ہوئی، جوانی کا طوفان گزر گیا، حصول دوست کی خاطر دل پکڑے پکڑے، گلی گلی اور کوچے کوچے پھرنے کا زمانہ بیت گیا۔

اب میں آزاد ہوں، دنیا و مافیہا سے آزاد۔ اب مجھے سچ بولنے میں کیا عذر ہے، چاہے وہ سچ اپنے متعلق ہو یا دوسروں کے متعلق۔ لیکن اس راہ میں بھی دو چار سخت مقام آتے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ اپنے متعلق سچ بولوں تو ان لوگوں پرکیا بیتے گی جو اپنی محبت، اپنے خلوص اور اپنی شفقت کے سبب خدا جانے مجھے کیا کیا سمجھتے رہے ہیں، اور اگر دوسروں کے متعلق سچ بولوں توکیا گناہوں کے اس پشتارے میں اضافہ نہ ہو جائے گا جو میں اپنے کندھوں اٹھائے اٹھائے پھرتا ہوں... بہتر یہی ہے کہ زندگی کے چند واقعات بیان کروں اور وہ بھی اس انداز سے کہ میرا بھرم کھلتا ہے تو کھلے، کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ میری دانست میں میرے ساتھ آج تک کسی نے کوئی برائی نہیں کی تو میں کسی کی برائی کر کے اپنے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ کیوں لگاؤں۔ انسان ادب و وفا کی خلوت سے ایک دفعہ باہر قدم رکھ دے تو پھر عمر بھر کے لیے واپسی کے تمام دروازے اس پر بند ہو جاتے ہیں۔''


بخاری صاحب کی زندگی کے طوفان کی منجدھار ریڈیو تھا اور ان کی '' سرگزشت'' اسی کی داستان کے گرد گھومتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں '' ناامیدی کے کفر نے بارہا میرے ایمان پر حملہ کیا، کئی بارکفرکے لشکر نے میرے ایمان کو پسپا کردیا۔ کئی بار میں نے خدائے حقیقی کے آستانے کو چھوڑ کر خداوندانِ مجازی کی چوکھٹ کو سجدہ کیا لیکن اس منعم حقیقی و برحق کا ہزار ہزار شکر ہے کہ مجھے ان مجازی خداوندوں کے گھر سے کچھ نہ ملا۔ اس سے میری یہ مراد نہیں کہ مجھے دوستوں اور بزرگوں سے کوئی فیض نہیں پہنچا، وہ ہمیشہ میرے معاون و مددگار رہے۔

دنیا میں روپے پیسے کی ضرورت کس کو نہیں ہوتی۔ پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کے لیے اس دنیاوی حاجت روا روپے پیسے کی تلاش کرنا ہی پڑتی ہے۔

میں نے بھی جب سے ہوش سنبھالا ہے، نان شبینہ کے حصول کے لیے تگ و دو کر رہا ہوں۔ بسا اوقات میں نے قرض لے کر روٹی کھائی، نہ صرف روٹی کھائی بلکہ قرض لے کر فاقہ مستی بھی کی اور اب بھی کم و بیش یہی حال ہے، مگر میں خوش ہوں، ایسا خوش ہوں کہ اگر آواگون کا قائل ہوتا تو خدا سے دعا مانگتا کہ اے خدا ! اس زندگی کے بعد بھی مجھے یہی زندگی عطا فرما۔ میری خوشی اور اطمینان کا باعث میرے قلب کی ایک ایسی کیفیت ہے کہ جس کا کوئی نام نہیں رکھ سکتا۔ اس کو روحانیت کہتے ہوئے ڈرتا ہوں کہ ایک تو مجھ جیسا گناہ گار،گرگِ معاصی کا شکار، روحانیت کا دعویٰ کس منہ سے کرے اور دوسرے یہ کہ یہ زمانہ روحانیت کا نام لینے کا نہیں۔''

بخاری صاحب اپنی داستان حیات میں مولانا روم کے ایک شعر کے حوالے سے لکھتے ہیں '' جو عشق محض رنگ کے لیے یعنی جسمانی کشش کے باعث ہوتا ہے، وہ دراصل عشق نہیں ہوتا، رسوائی کا سامان ہوتا ہے، جو محبت محض جسم کے لیے ہو وہ جسم کے ڈھلتے ہی ڈھل جاتی ہے۔ محبت درحقیقت وہ ہے جو ذہنی مماثلت اور روحانی کشش کا باعث ہو، اگر ذہنی یگانگت اور روحانی کشش کارفرما ہو تو سیاہ فام لیلیٰ بھی قیسِ عامری کو مجنوں بنا دیتی ہے۔

یہ تمہید نہایت بھونڈی ہے مگر کیا کروں، اپنی جوانی کا قصہ بیان کرنے کے لیے بہانہ ڈھونڈ رہا ہوں۔ زندگی کی اس منزل پر ہوں جہاں جوانی کے قصے بیان کرتے ہوئے شرم سی آتی ہے اور پھر جوانی کے طوفان میں کیا کیا غوطے لگائے اور کیا کیا غوطے کھائے، اب کس کو یاد ہیں اور کس کی جرأت ہے کہ یاد کرنے کی کوشش کرے۔ ہاں جب کسی اور جگہ کوئی طوفان اٹھتا ہے تو میرے حافظے کے مٹے ہوئے نقش ابھر آتے ہیں اور اپنے طوفان کی بھولی بسری یادیں عرقِ انفعال بن کر میرے ماتھے پر پھیل جاتی ہیں۔''

بخاری صاحب کو گاہے گاہے جوانی یاد آتی تھی اور وہ کسی نہ کسی عنوان اس کا ذکر بھی کرتے ہیں۔

لکھتے ہیں '' جوانی دیوانی نہیں ہوتی، بعض جوان آدمی دیوانے ہوتے ہیں۔ میں نے بعض کہا ہے، سب نہیں کہا۔ اگر سب دیوانے ہوں تو دنیا میں رہنا مشکل ہوجائے۔

صرف بعض کا دیوانہ ہونا زندگی کے لیے ایسا ناخوشگوار بھی نہیں۔ آخر زندگی میں تھوڑا بہت تفنن بھی تو ہونا چاہیے، سو وہ چند دیوانے مہیا کر دیتے ہیں۔ مگر میں اپنی جوانی کا ذکر نہیں کر رہا بلکہ میں تو جب کسی عمر رسیدہ شخص سے ہائے جوانی کا نعرہ سنتا ہوں تو لاحول پڑھتا ہوں۔

اس ہائے جوانی کے نعرے پر بھی اور اس شخص پر بھی جو نہ اپنے سفید بالوں کو دیکھے، نہ اپنی خمیدہ پشت کو، نہ اپنے پوپلے منہ کو، نہ اپنے گالوں کی جھریوں کو اور لگے ہائے جوانی کہہ کر اپنا کچا چٹھا سنانے۔ یہ بھی نہیں سوچتے کہ سننے والے نوجوان دل ہی دل میں ہنس رہے ہیں کہ بڑے میاں کوکیا ہوگیا۔''
Load Next Story