کتابیں قاری کی تلاش میں
جب لٹریچر فیسٹیول ہوتا ہے یا کوئی اردو کانفرنس ہوتی ہے تو وہاں کتابوں کے اسٹال بھی آراستہ نظر آتے ہیں۔۔۔
اے روشنی طبع تو برمن بلا شدی۔ ویسے تو یہ خوشی کی بات ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اردو صحافت کو بہت فروغ حاصل ہوا ہے لیکن اس فروغ سے ہم جیسے اخباری قاری کے لیے کیسے کیسے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ پاکستان میں وہ زمانہ کتنا اچھا تھا جب اخبار کم تھے۔ انگریزی کے لے دے کے دو نمایندہ اخبار تھے۔ کراچی سے ڈان۔ لاہور سے پاکستان ٹائمز۔ اردو کے اخبار گنتی میں زیادہ تھے لیکن کتنے ایسے تھے کہ انھیں آسانی سے نظر انداز کیا جا سکتا تھا۔ سمجھ لیجیے کہ وہ کسی گنتی ہی میں نہیں تھے۔ جو گنتی میں تھے' ان میں خبروں تبصروں تجزیوں کے سوا ایک کالم بھی ہوا کرتا تھا۔ کوئی اخبار ایک سے زیادہ کالم کا مشکل ہی سے متحمل ہو سکتا تھا مگر وہ ایک کالم ایسا ہوتا تھا کہ قاری کی اس سے پوری تشفی ہو جاتی تھی۔ جیسے مرحوم 'امروز' میں مولانا چراغ حسن حسرت کا کالم۔
اب اخبار ان گنت ہیں۔ انگریزی سے کہیں بڑھ کر اردو کے اخبار اور ایک سے بڑھ کر ایک اور ہر اخبار میں کالموں کا ایک پورا جمعہ بازار اب آپ سوچئے کہ ع
اس مختصر حیات میں کیا کیا کرے کوئی
اور ہماری مشکل یہ ہے کہ ان کالم نگاروں میں کتنے تو ہمارے دوست ہیں ونیز رفقائے کار۔ انھیں کے ساتھ انصاف کرنے بیٹھیں تو ہماری زندگی نبڑ جائے گی اور ان کالموں کا انت ہوتا نظر نہیں آئے گا۔ سو ہم کرتے یہ ہیں کہ یا قسمت یا نصیب کہہ کر اخبار کو بیچ سے کھولتے ہیں جہاں کالم قطار اندر قطار نظر آتے ہیں اور سب پر اچٹتی سی نظر ڈالتے جاتے ہیں اس توقع کے ساتھ کہ جس کالم میں کوئی کام کی بات ہو گی وہ خود ہی ہماری دوڑتی نظر کو پکڑے گی کہ جاتے کہاں ہو۔ پہلے مجھے پڑھو۔ مثال کے طور پر ابھی تک پرسوں کی بات ہے کہ ایک کالم کے بیچ کی سطروں پر ہماری نظر پڑی اور وہیں ٹھٹھک گئی۔ کالم نگار بیان یہ کر رہا تھا کہ آرٹ کونسل کی بین الاقوامی کانفرنس میں کس کس ادیب نے انھیں اپنی تصنیف لطیف پیش کی۔ کس کس نے اور کتنوں نے؎
ایک دو تین چار پانچ چھ سات
آٹھ نو دس تلک تو تھی اک بات
ارے وہاں تو کتاب پیش کرنے والوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں اب ہمیں تجسس ہوا کہ یہ خوش قسمت کالم نگار کون ہے۔ نظر ڈالی تو پتہ چلا کہ جبار مرزا صاحب ہیں۔ آغاز کلام یوں کیا ہے کہ ''عطاء الحق قاسمی صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے سیکڑوں' قلم کاروں' شاعروں' ادیبوں' نقادوں' صحافیوں اور ماہرین تعلیم کو ایک جگہ اکٹھا کیا'' آگے پڑھنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ ہم نے فقرے کو اس طرح پایہ تکمیل تک پہنچایا کہ وہ قطار اندر قطار آ رہے تھے اور اپنی اپنی تصنیف ہمیں نذر کرتے گزر رہے تھے۔ ان سب مصنفین کے نام اگر ہم نے یہاں لکھے تو کالم کا کام تمام ہو جائے گا اور اپنی اپنی کتاب نذر کرنے والے ادیبوں کی گنتی ختم نہیں ہو گی۔ ایک نام جس پر انھوں نے بہت زور دیا ہے وہ سن لیجیے ''کتابیں دینے والوں میں یونس جاوید صاحب سرفہرست ہیں''۔ یہ نام پڑھ کر ہم نے خوشی سے اپنا ماتھا پیٹ لیا۔ وجہ مت پوچھئے۔ حساب دوستاں در دل۔
ویسے جب تک ٹی ہائوس شاد آباد تھا
ایک یونس جاوید کیا کسی بھی یار عزیز کو کسی بھی کانفرنس میں جا کر اپنی تصنیف بانٹنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔ پہلے ایڈیشن کی کھپت تو ٹی ہائوس ہی میں ہو جاتی تھی۔ دو ڈھائی سو عدد پر مشتمل پورا ایڈیشن چٹکیوں میں اُڑ جاتا تھا۔ جلد ہی دوسرا تیسرا اڈیشن آ جاتا اور اس تصنیف کی مقبولیت کی دلیل بن جاتا۔
ایک اینگری ینگ مین ادیب کا قصہ اس طرح تھا کہ ہر مہینے وہ اپنا رسالہ نکالتے تھے اور ٹی ہائوس کی ہر میز پر پہنچا کر مطمئن ہو جاتے تھے۔ صفحہ اول سے آخری ورق تک ان کی اپنی نگارشات سے لبریز ہوتا تھا۔ پھر بھی بہت کچھ کہنے سے رہ جاتا تھا جو اگلی اشاعت کے لیے محفوظ کر لیا جاتا تھا۔ اس کی ایک عدد کاپی ہمیں ادبدا کر موصول ہوتی تھی اس باعث کہ ہر اشاعت میں ہمارا حساب بیباق کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ مگر زاہد ڈار کو انھوں نے بلیک لسٹ کر رکھا تھا۔ اس لیے ہمارا پرچہ فوراً ہی اچک کر وہ لے جاتا تھا۔ سو ہمیں کبھی یہ پتہ نہ چل سکا کہ ہمارا حساب کتنا بیباق ہوا ہے کتنا باقی ہے۔ زاہد ڈار نے کبھی ہمیں بتایا نہیں۔ ہم نے کبھی پوچھا نہیں۔ اس اینگری ینگ مین کو علی گڑھ کے حلقوں میں البتہ ایک مستند نقاد کا درجہ حاصل تھا۔ الہ آباد کا حوالہ ہم نے اس لیے نہیں دیا کہ وہ تو ظفر اقبال کا مفتوحہ علاقہ ہے۔
مگر ٹی ہائوس کے بند ہو جانے سے ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ اردو کی کتنی قابل قدر تصانیف کو اپنے قاری کی تلاش میں دربدر بھٹکنا پڑ رہا ہے۔ مگر اب جب سے لٹریچر فیسٹیول اور اردو کانفرنسوں کا باب کھلا ہے تو ایسی تصانیف کو اپنے قاری کی تلاش میں سہولت پیدا ہو گئی ہے۔ واضح ہو کہ اردو میں فی زمانہ دو قسم کی کتابیں چھپتی ہیں۔ ایک وہ کتابیں جنھیں قارئین تلاش کر کے حاصل کرتے ہیں۔ باقی وہ کتابیں اور وہی کتابیں زیادہ چھپتی ہیں جو خود قاری کی تلاش میں بھٹکتی پھرتی ہیں لٹریچر فیسٹیول اور اردو کانفرنسوں میں ان دونوں قسم کی کتابوں کو اپنے قاری میسر آ جاتے ہیں مگر اپنے اپنے حساب سے۔
جب لٹریچر فیسٹیول ہوتا ہے یا کوئی اردو کانفرنس ہوتی ہے تو وہاں کتابوں کے اسٹال بھی آراستہ نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر باہر سے جو مندوبین آتے ہیں تو انھیں جن نئی شایع ہونے والی معقول کتابوں کی سن گن ملی ہوتی ہے ان کی تلاش میں وہ ان اسٹالوں کی طرف لپکتے ہیں۔ مقامی قارئین کو بھی سہولت اسی میں نظر آتی ہے کہ جب لٹریچر فیسٹیول میں جائیں گے تو فلاں فلاں کتاب جو ان دنوں چھپی ہے وہ وہاں سجے کسی بک اسٹال سے خرید لیں گے۔
باقی رہیں وہ کتابیں جو خود قاری کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہیں ان کے مصنفین اپنی نئی تصانیف تھیلوں میں بھر بھر کر لٹریچر فیسٹیول میں پہنچتے ہیں۔ لٹریچر فیسٹیول واقعی لٹریچر فیسٹیول ہوتا ہے۔ وہاں ہجوم کو دیکھ کر مصنفین کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ انھیں وہاں ہر فرد اپنی تصنیف کا ممکنہ قاری نظر آتا ہے۔ کتنے کھلے دل سے وہ ان ممکنہ قارئین کو اپنی تصانیف آٹو گراف کے ساتھ نذر کرتے ہیں اور وہ قارئین کتنی کشادہ قلبی سے مصنف سے کتاب وصول کر کے اس تھیلے میں ٹھونس لیتے ہیں جو تحفہ میں ملی ہوئی کتابوں سے پہلے ہی لبالب بھر چکا ہوتا ہے۔
بظاہر یہ تصانیف یہاں آ کر منزل مقصود پر پہنچ جاتی ہیں لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ ایسی نذر کردہ کتابوں کو اس انجان ممکنہ قاری کی کتابوں کی الماری میں جب جگہ نہیں مل پاتی تو وہاں سے نکل کر بالآخر وہ شہر کے فٹ پاتھ پر پہنچتی ہیں جہاں سیکنڈ ہینڈ کتابوں کی قطار میں وہ بھی سج جاتی ہیں اور اپنے قاری کا انتظار کرتی ہیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
اب اخبار ان گنت ہیں۔ انگریزی سے کہیں بڑھ کر اردو کے اخبار اور ایک سے بڑھ کر ایک اور ہر اخبار میں کالموں کا ایک پورا جمعہ بازار اب آپ سوچئے کہ ع
اس مختصر حیات میں کیا کیا کرے کوئی
اور ہماری مشکل یہ ہے کہ ان کالم نگاروں میں کتنے تو ہمارے دوست ہیں ونیز رفقائے کار۔ انھیں کے ساتھ انصاف کرنے بیٹھیں تو ہماری زندگی نبڑ جائے گی اور ان کالموں کا انت ہوتا نظر نہیں آئے گا۔ سو ہم کرتے یہ ہیں کہ یا قسمت یا نصیب کہہ کر اخبار کو بیچ سے کھولتے ہیں جہاں کالم قطار اندر قطار نظر آتے ہیں اور سب پر اچٹتی سی نظر ڈالتے جاتے ہیں اس توقع کے ساتھ کہ جس کالم میں کوئی کام کی بات ہو گی وہ خود ہی ہماری دوڑتی نظر کو پکڑے گی کہ جاتے کہاں ہو۔ پہلے مجھے پڑھو۔ مثال کے طور پر ابھی تک پرسوں کی بات ہے کہ ایک کالم کے بیچ کی سطروں پر ہماری نظر پڑی اور وہیں ٹھٹھک گئی۔ کالم نگار بیان یہ کر رہا تھا کہ آرٹ کونسل کی بین الاقوامی کانفرنس میں کس کس ادیب نے انھیں اپنی تصنیف لطیف پیش کی۔ کس کس نے اور کتنوں نے؎
ایک دو تین چار پانچ چھ سات
آٹھ نو دس تلک تو تھی اک بات
ارے وہاں تو کتاب پیش کرنے والوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں اب ہمیں تجسس ہوا کہ یہ خوش قسمت کالم نگار کون ہے۔ نظر ڈالی تو پتہ چلا کہ جبار مرزا صاحب ہیں۔ آغاز کلام یوں کیا ہے کہ ''عطاء الحق قاسمی صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے سیکڑوں' قلم کاروں' شاعروں' ادیبوں' نقادوں' صحافیوں اور ماہرین تعلیم کو ایک جگہ اکٹھا کیا'' آگے پڑھنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ ہم نے فقرے کو اس طرح پایہ تکمیل تک پہنچایا کہ وہ قطار اندر قطار آ رہے تھے اور اپنی اپنی تصنیف ہمیں نذر کرتے گزر رہے تھے۔ ان سب مصنفین کے نام اگر ہم نے یہاں لکھے تو کالم کا کام تمام ہو جائے گا اور اپنی اپنی کتاب نذر کرنے والے ادیبوں کی گنتی ختم نہیں ہو گی۔ ایک نام جس پر انھوں نے بہت زور دیا ہے وہ سن لیجیے ''کتابیں دینے والوں میں یونس جاوید صاحب سرفہرست ہیں''۔ یہ نام پڑھ کر ہم نے خوشی سے اپنا ماتھا پیٹ لیا۔ وجہ مت پوچھئے۔ حساب دوستاں در دل۔
ویسے جب تک ٹی ہائوس شاد آباد تھا
ایک یونس جاوید کیا کسی بھی یار عزیز کو کسی بھی کانفرنس میں جا کر اپنی تصنیف بانٹنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی۔ پہلے ایڈیشن کی کھپت تو ٹی ہائوس ہی میں ہو جاتی تھی۔ دو ڈھائی سو عدد پر مشتمل پورا ایڈیشن چٹکیوں میں اُڑ جاتا تھا۔ جلد ہی دوسرا تیسرا اڈیشن آ جاتا اور اس تصنیف کی مقبولیت کی دلیل بن جاتا۔
ایک اینگری ینگ مین ادیب کا قصہ اس طرح تھا کہ ہر مہینے وہ اپنا رسالہ نکالتے تھے اور ٹی ہائوس کی ہر میز پر پہنچا کر مطمئن ہو جاتے تھے۔ صفحہ اول سے آخری ورق تک ان کی اپنی نگارشات سے لبریز ہوتا تھا۔ پھر بھی بہت کچھ کہنے سے رہ جاتا تھا جو اگلی اشاعت کے لیے محفوظ کر لیا جاتا تھا۔ اس کی ایک عدد کاپی ہمیں ادبدا کر موصول ہوتی تھی اس باعث کہ ہر اشاعت میں ہمارا حساب بیباق کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ مگر زاہد ڈار کو انھوں نے بلیک لسٹ کر رکھا تھا۔ اس لیے ہمارا پرچہ فوراً ہی اچک کر وہ لے جاتا تھا۔ سو ہمیں کبھی یہ پتہ نہ چل سکا کہ ہمارا حساب کتنا بیباق ہوا ہے کتنا باقی ہے۔ زاہد ڈار نے کبھی ہمیں بتایا نہیں۔ ہم نے کبھی پوچھا نہیں۔ اس اینگری ینگ مین کو علی گڑھ کے حلقوں میں البتہ ایک مستند نقاد کا درجہ حاصل تھا۔ الہ آباد کا حوالہ ہم نے اس لیے نہیں دیا کہ وہ تو ظفر اقبال کا مفتوحہ علاقہ ہے۔
مگر ٹی ہائوس کے بند ہو جانے سے ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ اردو کی کتنی قابل قدر تصانیف کو اپنے قاری کی تلاش میں دربدر بھٹکنا پڑ رہا ہے۔ مگر اب جب سے لٹریچر فیسٹیول اور اردو کانفرنسوں کا باب کھلا ہے تو ایسی تصانیف کو اپنے قاری کی تلاش میں سہولت پیدا ہو گئی ہے۔ واضح ہو کہ اردو میں فی زمانہ دو قسم کی کتابیں چھپتی ہیں۔ ایک وہ کتابیں جنھیں قارئین تلاش کر کے حاصل کرتے ہیں۔ باقی وہ کتابیں اور وہی کتابیں زیادہ چھپتی ہیں جو خود قاری کی تلاش میں بھٹکتی پھرتی ہیں لٹریچر فیسٹیول اور اردو کانفرنسوں میں ان دونوں قسم کی کتابوں کو اپنے قاری میسر آ جاتے ہیں مگر اپنے اپنے حساب سے۔
جب لٹریچر فیسٹیول ہوتا ہے یا کوئی اردو کانفرنس ہوتی ہے تو وہاں کتابوں کے اسٹال بھی آراستہ نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر باہر سے جو مندوبین آتے ہیں تو انھیں جن نئی شایع ہونے والی معقول کتابوں کی سن گن ملی ہوتی ہے ان کی تلاش میں وہ ان اسٹالوں کی طرف لپکتے ہیں۔ مقامی قارئین کو بھی سہولت اسی میں نظر آتی ہے کہ جب لٹریچر فیسٹیول میں جائیں گے تو فلاں فلاں کتاب جو ان دنوں چھپی ہے وہ وہاں سجے کسی بک اسٹال سے خرید لیں گے۔
باقی رہیں وہ کتابیں جو خود قاری کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہیں ان کے مصنفین اپنی نئی تصانیف تھیلوں میں بھر بھر کر لٹریچر فیسٹیول میں پہنچتے ہیں۔ لٹریچر فیسٹیول واقعی لٹریچر فیسٹیول ہوتا ہے۔ وہاں ہجوم کو دیکھ کر مصنفین کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ انھیں وہاں ہر فرد اپنی تصنیف کا ممکنہ قاری نظر آتا ہے۔ کتنے کھلے دل سے وہ ان ممکنہ قارئین کو اپنی تصانیف آٹو گراف کے ساتھ نذر کرتے ہیں اور وہ قارئین کتنی کشادہ قلبی سے مصنف سے کتاب وصول کر کے اس تھیلے میں ٹھونس لیتے ہیں جو تحفہ میں ملی ہوئی کتابوں سے پہلے ہی لبالب بھر چکا ہوتا ہے۔
بظاہر یہ تصانیف یہاں آ کر منزل مقصود پر پہنچ جاتی ہیں لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ ایسی نذر کردہ کتابوں کو اس انجان ممکنہ قاری کی کتابوں کی الماری میں جب جگہ نہیں مل پاتی تو وہاں سے نکل کر بالآخر وہ شہر کے فٹ پاتھ پر پہنچتی ہیں جہاں سیکنڈ ہینڈ کتابوں کی قطار میں وہ بھی سج جاتی ہیں اور اپنے قاری کا انتظار کرتی ہیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔