بلوچستانی ادب
سو، سیاسی سطح پر متاثرہ بلوچستان میں بھی وہ ساری سماجی سرگرمیاں کسی نہ کسی سطح پر چل رہی ہوتی ہیں ۔۔۔
SUKKUR:
حسین عورت خواہ کتنی ہی ذہین و فطین کیوں نہ ہو، اکثریت کی نگاہ اُس کے حسن پہ ہی مرکوز رہتی ہے۔ بعینہٰ بلوچستان کا سیاسی بیانیہ اس کے باقی تمام پہلوؤں پہ اس قدر حاوی ہے، کہ نہ تو لکھاری نہ ہی قاری کا ذہن اس طرف مائل ہوتا ہے۔ یہ درست کہ معروض سے فرار ممکن نہیں، لیکن معروض محض سیاسی سرگرمیوں تک محدود نہیں ہوتا حتیٰ کہ جو سماج حالتِ جنگ میں ہوں، وہاں بھی محض جنگی سرگرمی نہیں ہوتی، لوگ محبت بھی کر رہے ہوتے ہیں، دھوکے بھی ہو رہے ہوتے ہیں، بازار بھی چل رہے ہوتے ہیں، بازاری پن بھی جاری ہوتا ہے۔
سو، سیاسی سطح پر متاثرہ بلوچستان میں بھی وہ ساری سماجی سرگرمیاں کسی نہ کسی سطح پر چل رہی ہوتی ہیں، جو کسی بھی سماج کی فعالیت کا مظہر ہوتی ہیں۔ انھی میں ایک ادبی سرگرمی بھی ہے۔ اس لیے کچھ عرصے کے لیے ہم سیاسی منظر سے ہٹ کر بلوچستان میں تخلیق ہونے والے ادب پہ بات کریں گے ... درحالانکہ کوئی بھی سماجی سرگرمی غیر سیاسی نہیں ہوتی! اس لیے بلوچستانی ادب کے تذکرے میں سیاست کا ذکر بارہا آتا رہے گا ... بالکل ایسے ہی جیسے کسی حسین و ذہین خاتون کی ذہانت پہ بات کرتے ہوئے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے حسن پہ بار بار نگاہیں جا ٹکتی ہیں!
بلوچستان میں تخلیق ہونے والے ادب سے متعلق بات کرنے سے پہلے ہمیں یہ طے کرنا ہو گا کہ ہم کس زبان میں تخلیق ہونے والے ادب پہ بات کر رہے ہیں، کہ یہاں اردو سمیت بیک وقت بلوچی، براہوی، پشتو، فارسی، ہزارگی میں ادب تخلیق ہو رہا ہے۔ سرسری تذکرہ ہم ان سب کا کریں گے۔ لیکن چونکہ بہرحال حاوی زبان اردو ہے، اس لیے اسی کا تذکرہ بھی حاوی رہے گا۔ بلکہ بلوچ دانش وروں کا ایک حلقہ جو بلوچوں کو سات قومی و مادری زبانوں کا حامل قرار دیتا ہے، اردو کو بھی بلوچوں کی مادری زبان کے بطور دیکھتا ہے۔ قطع نظر اس سے، اردو سے بلوچوں اور اہلِ بلوچستان کا رشتہ موجودہ پاکستان کے تمام خطوں میں سب سے زیادہ قدیم اور مستحکم رہا ہے۔
بیسویں صدی کے آغاز سے شروع ہونے والی ہماری اولین سماجی و سیاسی سرگرمیوں کا میڈیم اردو ہی رہی ہے۔ بلوچستان کے اولین سیاسی رہنما یوسف عزیز مگسی کے مکاتیب ہوں کہ تقاریر، شاعری ہو کہ پمفلٹ یا پھر بندش کا شکار ہونے والے ایک درجن سے زائد اخبارات و جرائد، سبھی کی زبان اردو رہی۔ بلوچستان کے پہلے سیاسی گروہ انجمن اتحادِ بلوچاں سے، پہلی باضابطہ سیاسی جماعت قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کے دساتیر اردو میں ہی تحریر ہوتے رہے۔
اُنیس سو بیس کی دَہائی میں تخلیق ہونے والا بلوچستان کا پہلا اردو افسانہ اسی یوسف عزیز مگسی کے زورِ قلم کا نتیجہ تھا۔بلوچستان میں چونکہ ادب کی تخلیق کا سہرا آغاز سے ہی اُن احباب کے سر رہا جو بیک وقت سیاسی و سماجی سطح پہ بھی سرگرم تھے، اس لیے ان کے قلم سے تخلیق ہونے والا ادب اپنے عہد کی سیاسی و سماجی تاریخ کا سادہ سا بیانیہ ہے۔ موجودہ بلوچستان کی ادبی تخلیقات اسی کا تسلسل ہیں۔
واضح رہے کہ اُس زمانے میں اردو میں ایک تو وہ لوگ لکھ رہے تھے جو یہاں کے مستقل باسی تھے، جن کا جینا مرنا یہیں اسی مٹی سے وابستہ تھا،اس لیے ان کے ہاں سارا ادب مقامی مسائل سے جڑا ہوا تھا۔ لیکن بیک وقت ایک اور طبقہ بھی اردو میں لکھ رہا تھا، یہ وہ لوگ تھے جو ہندوستان کی تقسیم سے قبل اور بعد میں بلوچستان منتقل ہوئے، اور بلوچستان کے نامور افسانہ نگار آغا گل کے بقول، وہاں سے یہ لوگ 'جعلی کلیم کے ساتھ اپنا ناسٹیلجیا بھی لے کر آئے۔' اس ناسٹیلجیا سے وہ آخری دم تک پیچھا نہ چھڑا سکے۔ اس لیے ان کی تخلیقات میں نہ یہاں کی بوباس رچی، نہ مقامی رنگ آیا۔ یہ تحریریں پڑھتے ہوئے اگر مصنف کا پس منظر معلوم نہ ہو تو آپ کو آج بھی یہ قدیم ہندوستان کے کسی فرد کی تحریریں معلوم ہوں گی۔ دلچسپ بات یہ کہ یہ تسلسل بھی آج تک اسی طرح قائم ہے۔
جیسے عالمی دنیا میں 'جدید دنیا' کی اصطلاح نائن الیون کے بعد کی دنیا کے لیے استعمال ہوتی ہے، اسی طرح بلوچستان میں نئی سیاست ہو کہ صحافت یا نیا ادب، اس کا تذکرہ مابعد بگٹی (اگست 2006) سے شروع ہوتا ہے۔ نواب بگٹی کا قتل، بلوچستان کا نائن الیون تھا۔ اس واقعے نے بلوچستان کے سیاسی و سماجی فیبرکس کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ بلوچستان کے شہروں سے لے کر دیہات تک ایک آگ سی لگ گئی۔ اس واقعے اور اس سے جڑے متعلقات پہ بے تحاشا ادب تخلیق ہوا۔ کہانیاں، نظمیں، گیت... گویا کوئی صنفِ ادب ایسی نہ تھی جو اس واقعے سے متاثر نہ ہوئی ہو۔ حتیٰ کہ دیہات میں مائیں اپنے بچوں کو اکبرخان اور بالاچ کے نام کی لوریاں سنانے لگیں۔
گلوکاروں نے گیت گائے۔ اکبر خان کے بعد نوابزادہ بالاچ اور پھر غلام محمد بلوچ اور ان کے ساتھیوں کے قتل کے تسلسل نے اس بابت تخلیق کو بھی گویا ازخود تسلسل مہیا کر دیا۔ صرف سن دوہزار دس کے بعد سے مکران سے شایع ہونے والے ادبی جرائد کی تعداد چند ایک سے بڑھ کر دو درجن تک پہنچ گئی۔ بالخصوص بلوچی کتابیں ہزاروں کی تعداد میں بکنے اور پڑھی جانے لگیں۔ جامعہ بلوچستان کا شعبہ بلوچی جہاں اساتذہ، طلبا کے داخلوں کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے رہتے تھے، محض شعبے میں جان ڈالنے کے لیے یار دوستوں کو داخلے دیے جاتے تھے، وہاں طلبا کا جم غفیر جمع ہو گیا۔ یہاں تک کہ اس شعبے کو داخلے کے لیے ایک سخت امتحان کا انعقاد کرنا پڑا، اس کے باوجود تعداد اس قدر بڑھ گئی کہ داخلے کے لیے منتظر طلبا کی تعداد، داخل طلبہ کی فہرست سے طویل ہوتی چلی گئی۔
ان چند برسوں میں ایک درجن سے زائد نئے پبلشرز سامنے آئے۔ بلوچی ادب میں یہ ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ کہاں تو ایک ادیب کو کتاب چھاپنے کے لیے بجار (چندہ) کرنا پڑتا تھا، اور کہاں اب مفت کتاب چھاپنے کے لیے پبلشرز کی فرمائشیں آنے لگیں۔ اس وقت بلوچی کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر کی ایک کتاب گزشتہ برس شایع ہوئی تو محض پندرہ دن میں اس کا پہلا ایڈیشن ختم ہو گیا۔ ایک ہزار کا دوسرا ایڈیشن بھی ایک ماہ میں تمام ہوا۔ بلوچستان اور بالخصوص بلوچی میں لکھنے والوں کو پہلی بار قارئین کا ایک وسیع حلقہ میسر آیا۔ انھیں وسیع پیمانے پر پڑھا، اور سراہا جانے لگا۔
یہ اور بات کہ زیادہ سے زیادہ پڑھے اور سراہے جانے کی خواہش میں لکھنے والوں کی اکثریت کلیشے کا شکار ہو گئی اور ایک ہی موضوع پہ اس قدر لکھا گیا کہ خیالات کی تکرار سے ابکائیاں آنے لگیں۔ المختصر، گزشتہ دس برس سے بلوچستان کی سیاست، صحافت اور ادب ایک ہی احساس کے گرد گھوم رہے ہیں، جسے ایک لفظ میں بیان کیاجائے تو وہ ہوگا؛ 'مزاحمت!' بلوچستان میں کتابوں کی دکانوں، تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز پر چھاپوں اور بعض کتابوں کی بندش کو اسی پس منظر میں رکھ کر دیکھیںتو ان کی تفہیم سہل ہوجاتی ہے۔
تو یہ رہا بلوچستان کے ادب اور جدید ادبی رحجانات کا سرسری تذکرہ۔ آیندہ نشستوں میں ہم بلوچستان کی مختلف زبانوں میں تخلیق ہونے والے ادب کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لیں گے۔ اور دیکھیں گے بلوچستان کے جدید ادبی رحجانات کون سے ہیں ... ایک وجیہہ خاتون کی ذہانت سے آشنائی یقینا آپ کو اس کی چاہت میں مبتلا کر دے گی!
حسین عورت خواہ کتنی ہی ذہین و فطین کیوں نہ ہو، اکثریت کی نگاہ اُس کے حسن پہ ہی مرکوز رہتی ہے۔ بعینہٰ بلوچستان کا سیاسی بیانیہ اس کے باقی تمام پہلوؤں پہ اس قدر حاوی ہے، کہ نہ تو لکھاری نہ ہی قاری کا ذہن اس طرف مائل ہوتا ہے۔ یہ درست کہ معروض سے فرار ممکن نہیں، لیکن معروض محض سیاسی سرگرمیوں تک محدود نہیں ہوتا حتیٰ کہ جو سماج حالتِ جنگ میں ہوں، وہاں بھی محض جنگی سرگرمی نہیں ہوتی، لوگ محبت بھی کر رہے ہوتے ہیں، دھوکے بھی ہو رہے ہوتے ہیں، بازار بھی چل رہے ہوتے ہیں، بازاری پن بھی جاری ہوتا ہے۔
سو، سیاسی سطح پر متاثرہ بلوچستان میں بھی وہ ساری سماجی سرگرمیاں کسی نہ کسی سطح پر چل رہی ہوتی ہیں، جو کسی بھی سماج کی فعالیت کا مظہر ہوتی ہیں۔ انھی میں ایک ادبی سرگرمی بھی ہے۔ اس لیے کچھ عرصے کے لیے ہم سیاسی منظر سے ہٹ کر بلوچستان میں تخلیق ہونے والے ادب پہ بات کریں گے ... درحالانکہ کوئی بھی سماجی سرگرمی غیر سیاسی نہیں ہوتی! اس لیے بلوچستانی ادب کے تذکرے میں سیاست کا ذکر بارہا آتا رہے گا ... بالکل ایسے ہی جیسے کسی حسین و ذہین خاتون کی ذہانت پہ بات کرتے ہوئے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے حسن پہ بار بار نگاہیں جا ٹکتی ہیں!
بلوچستان میں تخلیق ہونے والے ادب سے متعلق بات کرنے سے پہلے ہمیں یہ طے کرنا ہو گا کہ ہم کس زبان میں تخلیق ہونے والے ادب پہ بات کر رہے ہیں، کہ یہاں اردو سمیت بیک وقت بلوچی، براہوی، پشتو، فارسی، ہزارگی میں ادب تخلیق ہو رہا ہے۔ سرسری تذکرہ ہم ان سب کا کریں گے۔ لیکن چونکہ بہرحال حاوی زبان اردو ہے، اس لیے اسی کا تذکرہ بھی حاوی رہے گا۔ بلکہ بلوچ دانش وروں کا ایک حلقہ جو بلوچوں کو سات قومی و مادری زبانوں کا حامل قرار دیتا ہے، اردو کو بھی بلوچوں کی مادری زبان کے بطور دیکھتا ہے۔ قطع نظر اس سے، اردو سے بلوچوں اور اہلِ بلوچستان کا رشتہ موجودہ پاکستان کے تمام خطوں میں سب سے زیادہ قدیم اور مستحکم رہا ہے۔
بیسویں صدی کے آغاز سے شروع ہونے والی ہماری اولین سماجی و سیاسی سرگرمیوں کا میڈیم اردو ہی رہی ہے۔ بلوچستان کے اولین سیاسی رہنما یوسف عزیز مگسی کے مکاتیب ہوں کہ تقاریر، شاعری ہو کہ پمفلٹ یا پھر بندش کا شکار ہونے والے ایک درجن سے زائد اخبارات و جرائد، سبھی کی زبان اردو رہی۔ بلوچستان کے پہلے سیاسی گروہ انجمن اتحادِ بلوچاں سے، پہلی باضابطہ سیاسی جماعت قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کے دساتیر اردو میں ہی تحریر ہوتے رہے۔
اُنیس سو بیس کی دَہائی میں تخلیق ہونے والا بلوچستان کا پہلا اردو افسانہ اسی یوسف عزیز مگسی کے زورِ قلم کا نتیجہ تھا۔بلوچستان میں چونکہ ادب کی تخلیق کا سہرا آغاز سے ہی اُن احباب کے سر رہا جو بیک وقت سیاسی و سماجی سطح پہ بھی سرگرم تھے، اس لیے ان کے قلم سے تخلیق ہونے والا ادب اپنے عہد کی سیاسی و سماجی تاریخ کا سادہ سا بیانیہ ہے۔ موجودہ بلوچستان کی ادبی تخلیقات اسی کا تسلسل ہیں۔
واضح رہے کہ اُس زمانے میں اردو میں ایک تو وہ لوگ لکھ رہے تھے جو یہاں کے مستقل باسی تھے، جن کا جینا مرنا یہیں اسی مٹی سے وابستہ تھا،اس لیے ان کے ہاں سارا ادب مقامی مسائل سے جڑا ہوا تھا۔ لیکن بیک وقت ایک اور طبقہ بھی اردو میں لکھ رہا تھا، یہ وہ لوگ تھے جو ہندوستان کی تقسیم سے قبل اور بعد میں بلوچستان منتقل ہوئے، اور بلوچستان کے نامور افسانہ نگار آغا گل کے بقول، وہاں سے یہ لوگ 'جعلی کلیم کے ساتھ اپنا ناسٹیلجیا بھی لے کر آئے۔' اس ناسٹیلجیا سے وہ آخری دم تک پیچھا نہ چھڑا سکے۔ اس لیے ان کی تخلیقات میں نہ یہاں کی بوباس رچی، نہ مقامی رنگ آیا۔ یہ تحریریں پڑھتے ہوئے اگر مصنف کا پس منظر معلوم نہ ہو تو آپ کو آج بھی یہ قدیم ہندوستان کے کسی فرد کی تحریریں معلوم ہوں گی۔ دلچسپ بات یہ کہ یہ تسلسل بھی آج تک اسی طرح قائم ہے۔
جیسے عالمی دنیا میں 'جدید دنیا' کی اصطلاح نائن الیون کے بعد کی دنیا کے لیے استعمال ہوتی ہے، اسی طرح بلوچستان میں نئی سیاست ہو کہ صحافت یا نیا ادب، اس کا تذکرہ مابعد بگٹی (اگست 2006) سے شروع ہوتا ہے۔ نواب بگٹی کا قتل، بلوچستان کا نائن الیون تھا۔ اس واقعے نے بلوچستان کے سیاسی و سماجی فیبرکس کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ بلوچستان کے شہروں سے لے کر دیہات تک ایک آگ سی لگ گئی۔ اس واقعے اور اس سے جڑے متعلقات پہ بے تحاشا ادب تخلیق ہوا۔ کہانیاں، نظمیں، گیت... گویا کوئی صنفِ ادب ایسی نہ تھی جو اس واقعے سے متاثر نہ ہوئی ہو۔ حتیٰ کہ دیہات میں مائیں اپنے بچوں کو اکبرخان اور بالاچ کے نام کی لوریاں سنانے لگیں۔
گلوکاروں نے گیت گائے۔ اکبر خان کے بعد نوابزادہ بالاچ اور پھر غلام محمد بلوچ اور ان کے ساتھیوں کے قتل کے تسلسل نے اس بابت تخلیق کو بھی گویا ازخود تسلسل مہیا کر دیا۔ صرف سن دوہزار دس کے بعد سے مکران سے شایع ہونے والے ادبی جرائد کی تعداد چند ایک سے بڑھ کر دو درجن تک پہنچ گئی۔ بالخصوص بلوچی کتابیں ہزاروں کی تعداد میں بکنے اور پڑھی جانے لگیں۔ جامعہ بلوچستان کا شعبہ بلوچی جہاں اساتذہ، طلبا کے داخلوں کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے رہتے تھے، محض شعبے میں جان ڈالنے کے لیے یار دوستوں کو داخلے دیے جاتے تھے، وہاں طلبا کا جم غفیر جمع ہو گیا۔ یہاں تک کہ اس شعبے کو داخلے کے لیے ایک سخت امتحان کا انعقاد کرنا پڑا، اس کے باوجود تعداد اس قدر بڑھ گئی کہ داخلے کے لیے منتظر طلبا کی تعداد، داخل طلبہ کی فہرست سے طویل ہوتی چلی گئی۔
ان چند برسوں میں ایک درجن سے زائد نئے پبلشرز سامنے آئے۔ بلوچی ادب میں یہ ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ کہاں تو ایک ادیب کو کتاب چھاپنے کے لیے بجار (چندہ) کرنا پڑتا تھا، اور کہاں اب مفت کتاب چھاپنے کے لیے پبلشرز کی فرمائشیں آنے لگیں۔ اس وقت بلوچی کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر کی ایک کتاب گزشتہ برس شایع ہوئی تو محض پندرہ دن میں اس کا پہلا ایڈیشن ختم ہو گیا۔ ایک ہزار کا دوسرا ایڈیشن بھی ایک ماہ میں تمام ہوا۔ بلوچستان اور بالخصوص بلوچی میں لکھنے والوں کو پہلی بار قارئین کا ایک وسیع حلقہ میسر آیا۔ انھیں وسیع پیمانے پر پڑھا، اور سراہا جانے لگا۔
یہ اور بات کہ زیادہ سے زیادہ پڑھے اور سراہے جانے کی خواہش میں لکھنے والوں کی اکثریت کلیشے کا شکار ہو گئی اور ایک ہی موضوع پہ اس قدر لکھا گیا کہ خیالات کی تکرار سے ابکائیاں آنے لگیں۔ المختصر، گزشتہ دس برس سے بلوچستان کی سیاست، صحافت اور ادب ایک ہی احساس کے گرد گھوم رہے ہیں، جسے ایک لفظ میں بیان کیاجائے تو وہ ہوگا؛ 'مزاحمت!' بلوچستان میں کتابوں کی دکانوں، تعلیمی اداروں کے ہاسٹلز پر چھاپوں اور بعض کتابوں کی بندش کو اسی پس منظر میں رکھ کر دیکھیںتو ان کی تفہیم سہل ہوجاتی ہے۔
تو یہ رہا بلوچستان کے ادب اور جدید ادبی رحجانات کا سرسری تذکرہ۔ آیندہ نشستوں میں ہم بلوچستان کی مختلف زبانوں میں تخلیق ہونے والے ادب کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لیں گے۔ اور دیکھیں گے بلوچستان کے جدید ادبی رحجانات کون سے ہیں ... ایک وجیہہ خاتون کی ذہانت سے آشنائی یقینا آپ کو اس کی چاہت میں مبتلا کر دے گی!