پاک وہند کا تاریخی بازار

 معیاری اشیاء کے متلاشی مردوزن کے لیے یہ خریداری کا من پسند و محبوب مرکز کہلاتا ہے

معیاری اشیاء کے متلاشی مردوزن کے لیے یہ خریداری کا من پسند و محبوب مرکز کہلاتا ہے ۔ فوٹو : فائل

انارکلی کون تھی؟یہ سچائی سچ اور جھوٹ کے پردوں میں گم ہو چکی۔ مغلیہ دور کے اس انوکھے کردار کا پہلا ذکر انگریز سیاح ولیم قنچ کی تحریر میں ملتا ہے جو 1608ء میں لاہور آیا۔

اس سے پہلے کسی مورخ نے انارکلی کا ذکر نہیں کیا۔جن تاریخی کتب میں انارکلی کا ذکر ہے' ان کے مطابق وہ اکبر بادشاہ کی ایک خوبصورت کنیز تھی جس کا اصل نام نادرہ بیگم یا شرف النساء تھا۔ اس کی بے پناہ خوبصورتی کے باعث اکبر بادشاہ نے اس کا نام انارکلی رکھا۔

یہ خاتون تو تاریخ کی بھول بھلیوں میں گم ہو گئی مگر اس کے نام سے منسوب لاہور کا ایک بازار جنوبی ایشیا میں ''بازاروں کی ملکہ'' کہلاتا ہے۔ اس کے آغاز کی کہانی دلچسپ ہے۔ سکھ دور میں اس علاقے میں فرانسیسی افسروں کی زیر نگرانی سکھ سپاہیوں نے چھاؤنی بنالی۔ بعد میں یہاں برطانوی فوجی مقیم رہے۔ رفتہ رفتہ وہاں قدیم اور جدید طرز کی کئی دکانیں کھل گئیں ۔یہ علاقہ بتدریج ''انارکلی بازار' 'کہلانے لگا کیونکہ قریب ہی ایک وسیع'انارکلی باغ'موجود تھا جو اب مٹ چکامگر اس میں واقع کسی خاتون کا مقبرہ باقی ہے۔

انارکلی کی داستانِِ محبت کا انجام دردناک ہے مگر اس کے نام سے موسوم بازار میں زندگی تمام تر رعنائیوں اور جلوؤں سمیت جلوہ گر نظر آتی ہے۔ اس پُررونق بازار کو نہ صرف لاہور بلکہ پاک و ہند کے بازاروں میں منفرد حیثیت حاصل ہے۔یہ خوش پوش لوگوں کا پسندیدہ بازار ہے۔ دوردراز علاقوں سے لوگ یہاں خریداری کرنے آتے ہیں۔ اکثر کے نزدیک انارکلی سے خریداری کرنا امارت کی علامت (status symbol)ہے۔ خصوصاً خواتین جب خریداری کے منصوبے بناتی ہیں' تو انارکلی جانا نہیں بھولتیں۔

انارکلی کون تھی؟ اس سوال پر تاریخ کم معلومات دیتی ہے لیکن انارکلی بازار کیا ہے' اس کے متعلق بچہ بچہ جانتا ہے۔ بچوں کے کپڑوں سے لے کر عروسی ملبوسات تک ہر چیز یہاںبا آسانی دستیاب ہے۔ بڑی دکانوں میں گو سامان مہنگا ہے مگر وہ معیاری بھی ہوتاہے۔ مثل ہے: مہنگا روئے ایک بار سستا روئے بار بار۔

انارکلی کی آبادی جین مندر (موجودہ بابری چوک) سے شروع ہوتی ہے جو بڑھتے بڑھتے مال روڈ تک پھیل گئی ہے اور اب 'نئی انارکلی' کا روپ دھار چکی ۔ کئی لوگ پرانی انارکلی کے متعلق جانتے ہی نہیں جو اصل بازار ہے۔

نیلا گنبد کی جانب سے انارکلی میں داخل ہوتے ہی محکم الدین بیکری واقع ہے جو 1879 ء میں سید محکم الدین شاہ نے قائم کی تھی۔ مشہور ہے کہ اس کی عمدہ مصنوعات بکنگھم پیلس بھی بھیجی جاتی تھیں۔ علامہ اقبالؒ' مولانا ابوالکلام آزاداور چراغ حسن حسرت اکثر اس جگہ آتے اور خستہ کیکوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

اسی جگہ لاہور جمخانہ کلب بھی واقع تھا جو 1878ء میں جناح باغ (لارنس گارڈن) منتقل ہو گیا۔ اس کی جگہ 1925ء میں نگینہ بیکری کھل گئی جس کے مالک کا تعلق بجنور کے قصبے نگینہ سے تھا۔نگینہ بیکری بھی ادبی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گئی۔

یہاں تاجور نجیب آبادی' عبدالمجید سالک'باری علیگ، عاشق بٹالوی' شورش کاشمیری اور کئی اہم شخصیات آنے لگیں۔ جو سڑک پیسہ اخبار کی طرف جاتی ہے' اس کے نکڑ پر سرائے شفیع محمد کے قریب 'واحد چائے خانہ' تھا۔ اس جگہ اب ممتاز جفت ساز کمپنی کی دوکان بن گئی ہے اور سرائے شفیع محمد 'دہلی مسلم ہوٹل' میں تبدیل ہو چکا۔ جب پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہوتا، ارکان اسمبلی دہلی مسلم ہوٹل ہی آ کر ٹھہرتے۔ معروف رقاص، مہاراج غلام حسین کتھک نے اپنی بیشتر زندگی اسی ہوٹل میں گزاری۔

اس علاقے کا بازار پرانے زمانے میں 'رسالہ بازار' کہلاتا تھا کیونکہ یہاں انگریز فوجیوں کی بیرکیں تھیں۔ سب سے پہلے انگریزوں کے ملبوسات اور وردیاں دھونے کے لیے یہاں دھوبی منڈی آباد ہوئی۔

آہستہ آہستہ یہاں مختلف اشیا کی دکانیں اور کھوکھے وجود میں آئے۔ ٹولنٹن مارکیٹ بنی جہاں انگریزوں کے لیے اشیائے ضرورت فروخت ہوتی تھیں۔ نیلا گنبد کے علاقے میں فوجی افسروں کے لیے میس قائم تھا۔ 1879ء میں جب چھاؤنی میاں میر کے علاقے میں منتقل ہوئی تو 'رسالہ بازار' میں سول حکام کی کوٹھیاں بننے لگیں۔ اسی حوالے سے یہ علاقہ سول لائنز بھی کہلایا۔


انیسویں صدی کے آغاز میں انارکلی کو باقاعدہ بازار کی شکل مل گئی۔ تاجروں نے اپنی مرضی سے پسندیدہ جگہ پر چار دیواری تعمیر کی اور زمین کے مالک بن گئے۔ بعد کو دکانیں بنیں۔ آج کوئی انارکلی میں کرائے پر دکان لینا چاہے' تو اسے کروڑوں روپے پگڑی کے طور پر دینے کے علاوہ لاکھوں روپے ماہانہ کرایہ پر دکان ملتی ہے۔ اس کے باوجود کاروباری حضرات اس بازار کو کامیابی کی کنجی سمجھتے ہیں۔

جب انارکلی بازار نوزائیدہ تھا تب بھی اس کی حیثیت دوسرے بازاروں سے بلند تر تھی۔ عام متوسط طبقے کے لوگ کشمیری بازار (جو کبھی ڈبی بازار کہلاتا تھا) اور گمٹی بازار سے خریداری کرتے تھے۔ مگر دولت مند انارکلی ہی سے خریداری کرنا شایان شان تصّور کرتے۔ اس دور میں بھی انارکلی میں پکی نالیاں تھیں لہٰذا دوسرے نشیبی علاقوں کے برعکس یہاں بارش ہونے سے زیادہ پانی جمع نہیں ہوتا تھا۔

انارکلی میں دھنی رام روڈ پر ہندوؤں کی اکثریت تھی۔ اس علاقے کا نام ایک امیر ہندو، لالہ دھنی رام کے نام سے منسوب ہے جس کی ہارڈ وئیر کی بہت بڑی دکان تھی۔ یہیں ڈاکٹر رحیم' اعزازی سرجن وائسرائے ہند کا گھر تھا۔ ڈاکٹر رحیم کے نام پر کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں نمایاں حیثیت سے کامیاب ہونے والے طلبہ کو تمغے دیے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر رحیم قابل مسلمان ڈاکٹر تھے۔ ان کے پوتے اعظم خان پنجاب مسلم لیگ کے آفس سیکرٹری تھے۔

مقامی لوگوں کی سہولت کے لیے 1871ء میں انجینئر رائے بہادر کہنیا لال کی زیرنگرانی میو ہسپتال تعمیر کروایا گیا۔ اس جگہ پہلے بڑے گوشت کا بازار تھا جہاں سے انگریز چھاؤنی کے رہائشیوں کو گوشت مہیا کیا جاتا۔1876ء میں یہاں جامع مسجد میوہسپتال بنائی گئی جس میں مولانا احمد علی لاہوری علیہ الرحمہ بطور امام خدمات انجام دیتے رہے۔ علامہ اقبال بھی کچھ عرصہ انارکلی میں مقیم رہے۔ ان کا دفتر شیخ عنایت اللہ اینڈ سنز کی دکان کے سامنے والی عمارت میں اور مکان قریب کی ایک گلی میں تھا جو آج تک موجود ہے۔

جس جگہ آج بخشی مارکیٹ واقع ہے وہ کبھی نقی خاندان کی ملکیت تھی جو انارکلی کا ایک مالدار خاندان تھا۔ اس جگہ ایک ہندو، بخشی رام نے انارکلی کی پہلی مارکیٹ تعمیر کروائی۔ وہاں خواتین کی ضروریات کی اشیا مثلاً جوتے' سلے سلائے ملبوسات چوڑیاں وغیرہ فروخت ہوتی ہیں۔ بعد کو تعمیر ہونے والے بانو بازار اور بابر مارکیٹ نے انارکلی بازار کی اہمیت اور افادیت میں اضافہ کیا۔ بانو بازار میں صرف خواتین کا سامان ملتا ہے۔

انارکلی میں ایک مسئلہ ضرور ہے کہ پیدل چلنے والوں کو جگہ کم ملتی ہے کیونکہ سڑک کے عین درمیان میں دکاندار اپنی اپنی گاڑیاں کھڑی کرتے ہیں۔ یہ غیرقانونی حرکت ہے مگر ان کے اثر و رسوخ کی وجہ سے پولیس ان پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔ مال روڈ والے حصے میں زیادہ تر جوتوں اور سٹیشنری کی دکانیں ہیں۔ اسی چوک سے ایک راستہ نیلا گنبد کو نکلتا ہے۔ تیار شدہ ملبوسات اور پرانی کتابوں اور رسالوں کی دکانیںبھی یہیں موجود ہیں۔

اتوار کو یہاں 'اتوار بازار' لگتا ہے جس میں ہر قسم کی ضروریات زندگی فروخت ہوتی ہیںاور قیمت بھی قدرے کم بتائی جاتی ہے۔ البتہ گاہکوں کا تجربہ یہی ہے کہ انہیں ناپ تول کے ہیرپھیر میں الجھا کر دکاندار زیادہ نفع کماتے ہیں۔ اتوار ہی کو مال روڈ کی سمت نئی پرانی کتابوں کا 'بازار' لگتا ہے۔ یہاں اکثر قیمتی اور نایاب کتب دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مطالعے کے شیدائی جوق در جوق آتے ہیں کیونکہ کتابیں اور رسالے سستے داموں مل جاتے ہیں۔

اس وقت مرکزی انارکلی بازار میں تقریباً چار سو دکانیں ہیں' اگر اس سے ملحقہ بازاروں کی دکانوں کا بھی شمار کیا جائے تو تعداد ہزاروں تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ بازار لوہاری دروازے کے سامنے سے شروع ہو کر مال روڈ تک جاتا ہے۔ تقسیم ہند کے وقت نیلا گنبد میں سائیکلوں کی چند دکانیں تھیں۔ آہستہ آہستہ یہاں سائیکلوں کی بڑی منڈی بن گئی جس سے مسجد کا حسن کسی حد تک ماند پڑ گیا۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں سائیکلوں کی دکانیں مسمار کرانے کا منصوبہ بنایا گیا لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہوا۔ نیلا گنبد کے قریب ایک گلی میں ہندوؤں کا 'بالمیک مندر' واقع ہے۔

زندہ دلانِ لاہور دوستوں اور رشتے داروں کو فخر سے بتاتے ہیں کہ انھوں نے فلاں شے انارکلی سے خریدی ہے۔ بازار میں عموماً ایسے لوگوں کا ہجوم زیادہ ہوتا ہے جن کے کسی عزیز کی شادی ہو۔زیورات' عروسی ملبوسات' جوتے' کڑھائی کا سامان' بستر کی چادریں' کمبل غرض ضرورت کی ہر چیز اس بازار سے خریدی جا سکتی ہے۔

اکثر خواتین اپنی بیٹیوں کو ساتھ لئے خریداری کرتی ہیں۔ بازار میں چھوٹے بڑے خوانچے اور ریڑھیاں جا بجا نظر آتی ہیں۔ ان سے گاہکوں' دکانداروں اور انتظامیہ کو کئی مسائل کا سامنا ہے لیکن شاید وہ یہ سوچ کر چپ رہتے ہیں کہ روزگار کا معاملہ ہے' اگر انھیں ہٹا یا تو ان کے بال بچے معاشی پریشانی کا شکار ہو جائیں گے۔اگرچہ انارکلی کے تاجر بھی پاکستان کے دیگر تاجروں کی طرح ذہنی پریشانی کاشکار ہیں اور ہر سال بڑھائے جانے والے ٹیکس سے سخت نالاں۔ ایک تاجر نے بتایا کہ ٹیکس بڑھانے کے باعث انارکلی کے اکثرتاجر اپنا کاروبار بند کر رہے ہیں۔

ایک وقت تھا خواتین بگھیوں اور تانگوں میں باپردہ ہو کر انارکلی میں خریداری کے لیے آتیں اور بڑے وقار اور مہذب طریقے سے خریداری کرتیں۔لاہور کے ممتاز لکھاری،یونس ادیب اپنی کتاب ''میرا شہر لاہور'' میں لکھتے ہیں ''ایک زمانہ تھا کہ میں انارکلی آکر اپنے ذہن میں تازگی اور پھیلاؤ سا محسوس کرتا۔ ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ کبھی کبھی پرانی طرز کی کوئی ایک آدھ کار گزرتی البتہ تانگوں کے آگے جتے ہوئے گھوڑوں کی ٹپ ٹپ اکثر سنائی دیتی۔ ٹولنٹن مارکیٹ کے باہر میموں کو پہلی بار دیکھا مگر اب حالات یکسر مختلف ہیں۔
Load Next Story