انسانی غلامی کا دور
وقت کے ساتھ ساتھ جدید دور میں انسانوں کو غلام بنانے کا رواج تو ختم ہو گیا
انسان نے ہزاروں سال سے اپنے ہی جیسے انسانوں کو غلام بنایا ہوا ہے۔ لیکن ابتدا میں ایسا نہیں تھا جب مدرسری نظام تھا۔ انسانی تہذیب کی شروعات میں گھر ہو یا قبیلہ اس کی سربراہ عورت ہوتی تھی۔
تمام نظم و نسق عورت کے پاس تھا۔ اس لیے امن بھی تھا اور انصاف بھی۔ جیسے جیسے انسان نے زرعی معاشرت اپنائی عورت کا کنٹرول گھر اور معاشرے پر کم ہوتا گیا۔ زراعت کا علم سیکھنے سے پہلے انسان کی خوراک کا انحصار شکار پر تھا۔ صبح اٹھتے ہی دور دراز شکار پر نکل جاتا۔ اگر شکار مل جاتا تو ٹھیک ورنہ فاقہ۔ عورتیں بھی پانی کی تلاش میں نکل جاتیں۔
انسانی آبادیاں زیادہ تر دریاؤں اور سمندروں کے قریب ہوتیں۔ کیونکہ اس طرح پانی اور خوراک کا حصول آسان ہوجاتا۔ جو آبادیاں صحراؤں میں ہوتیں وہاں انسانی زندگی بہت مشکل نہ پانی اور نہ مناسب خوراک۔ خوراک کے لیے وہ کیڑے مکوڑے کھانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ کھلا آسمان اوپر سے درندے جو انسانوں کو ہڑپ کرنے کے لیے تیار رہتے، دن رات موت کا خوف رہتا ۔ان سے محفوظ رہنے کے لیے یا تو غار تھے یا بلند درخت۔ لیکن غار صرف انسانوں کی ہی پناہ گاہ نہیں تھے بلکہ درندے بھی ادھر آنکلتے تھے۔
اس صورت میں کوئی جائے اماں نہیں تھی ۔ انسانوں کے اندر کے خوف نے مذاہب کو جنم دیا۔ کوئی سورج تو کوئی آتش ،ستارہ پرست ہو گیا۔ درختوں اور گائے کی پوجا ہونے لگی جیسے جیسے انسان کی زندگی میں مویشیوں کی اہمیت بڑھنے لگی۔ بیل اونٹ زراعت کے لیے استعمال ہونے لگے گھوڑا جنگی مقاصد کے لیے استعمال ہونے لگا۔ یہاں سے ہی بت پرستی کی ابتدا ہوئی ۔بیماریاں الگ سے مصیبت تھیں ۔انسانوں کی اوسط عمر 40سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔کئی فرعون چالیس برس کی عمر میں ہی فوت ہو گئے۔ ان کے پھیپھڑے ریت اور مٹی کے ذرات سے بھرے ہوئے تھے۔
لوہے اور آگ کی دریافت نے انسان کی ترقی میں انقلابی کردار ادا کیا۔ اس طرح انسانوں نے تلور تیر کمان بنانے شروع کر دیے اور بڑے پیمانے پر جنگ وجدل کا آغاز ہو گیا۔ پہلے نزدیکی پھر دور دراز کے علاقے فتح ہونے لگے۔ دشمن قبیلوں کی عورتیں مال غنیمت کے طور پر لائی جانے لگیں۔ یہیں سے مرد کی عورت پر برتری کا آغاز ہوا۔
مردوں نے صرف مردوں کو ہی غلام نہیں بنایا بلکہ عورتوں کو بھی اپنا غلام بنا لیا۔ عورت اپنی فطری کمزوریوں کے سبب اس غلامی کے جال سے نہ نکل سکی۔ گھر سے باہر تک اب سب کچھ مرد کی مرضی سے ہونے لگا۔ پورے معاشرے اور نظام پر اس کا کنٹرول ہو گیا۔ تمام قوانین اس کی مرضی سے بننے لگے۔
قبل از اسلام عورتوں کے حقوق تو درکنار اسے انسان ہی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ بعد از اسلام عورتوں اور غلاموں سے بہترین سلوک کرنے کا حکم دیا گیا۔ انھیں وہ حقوق دیے گئے جسکی اس وقت کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ عورتوں اور مردوں کی خرید و فروخت پوری دنیا میں ایک عام اور مقبول کاروبار تھا۔ خاص طور پر عورتوں کی حیثیت تو مویشیوں سے بھی بدتر تھی۔ صرف ڈیڑھ دو سو سال پہلے انگلینڈ میں مرد اپنی عورت کے گلے میں رسہ ڈال کر گھسیٹتے ہوئے منڈی میں بیچ آتا تھا۔ ویسے تو کہا جاتا ہے کہ عورتوں کی منڈیاں آج بھی پسماندہ ترین علاقوں میں قائم ہیں۔ نابالغ اور بالغ لڑکیوں کے علیحدہ ریٹ ہیں۔
غلامی کی داستان بڑی قدیم ہے۔ شاید انسان جتنی ہی ۔غلامی کے معاملے میں سب سے بڑا ظلم براعظم افریقہ کے انسانوں کے ساتھ ہوا ۔ ایک زمانے میں حبشی غلام رکھنا فیشن تھا۔ زراعت کے لیے 40لاکھ افریقیوں کو براعظم افریقہ سے اغوا کر کے امریکا لایا گیا۔ ان کو اس طرح شکار کیا گیاجس طرح جانوروں کو کیا جاتا ہے۔
گورے جدید ترین ہتھیاروں سے مسلح جب کہ افریقیوں کے پاس فرسودہ ہتھیار۔ اس طرح افریقیوں کو اغوا کر کے بحری جہازوں میں ٹھونس کر امریکا پہنچایا جاتا تھا۔ جگہ کی تنگی بھوک اور بیماریوں کی وجہ سے کثیر تعداد دوران سفر ہی موت کے گھاٹ اتر جاتی۔ اگر یہ کام کرنے سے انکار کرتے تو ان کے سامنے ان کے بیوی بچوں پر ظلم کیے جاتے۔
ان مظلوم افراد کی خرید و فروخت کے لیے باقاعدہ بازار لگائے جاتے تھے اور مالک ان زر خرید غلاموں پر نہ صرف انسانیت سوز مظالم ڈھاتے بلکہ ان کو موت کے گھاٹ اتارنے کا بھی انھیں حق حاصل تھا۔ بہر حال امریکی صدر ابرہام لنکن نے غلامی کا خاتمہ کر کے تاریخ میں سنہری حرفوں سے اپنا نام لکھوا لیا جس میں غلاموں کو برابر کے سماجی حقوق دیے گئے۔
اس مسئلے پر امریکا کی شمالی اور جنوبی ریاستوں میں جنگ چھڑ گئی۔ اس خانہ جنگی میں لاکھوں امریکی مارے گئے کیونکہ جنوبی ریاستیں غلامی کے خاتمے کے لیے رضامند نہیں تھیں۔ ابراہم لنکن نے یکم فروری1865کو غلامی کے خاتمے کے بل پر دستخط کیے۔ اب ہر سال امریکا میں یکم فروری نیشنل فریڈم ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ جدید دور میں انسانوں کو غلام بنانے کا رواج تو ختم ہو گیا لیکن جسمانی غلامی سے بدتر ایک اور خوفناک غلامی وجود میں آگئی جو بظاہر نظر نہیں آتی۔
اس غلامی کی تین قسمیں ہیں پہلی معاشی غلامی دوسری غلامی فرد کی یا بالا دست طاقتور طبقوں کی یا مقامی سامراج یا عالمی سامراج کی۔ان سب میں سے تیسری خوفناک بدترین غلامی نظریاتی ہے اور اس غلامی سے انسان زندگی بھر نجات حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ یہ نظر نہیں آتی۔ نظریاتی اور سامراجی غلامی کا چولی دامن کا ساتھ ہے جس میں آپکے ذہن کا کنٹرول کسی اور کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔
تمام نظم و نسق عورت کے پاس تھا۔ اس لیے امن بھی تھا اور انصاف بھی۔ جیسے جیسے انسان نے زرعی معاشرت اپنائی عورت کا کنٹرول گھر اور معاشرے پر کم ہوتا گیا۔ زراعت کا علم سیکھنے سے پہلے انسان کی خوراک کا انحصار شکار پر تھا۔ صبح اٹھتے ہی دور دراز شکار پر نکل جاتا۔ اگر شکار مل جاتا تو ٹھیک ورنہ فاقہ۔ عورتیں بھی پانی کی تلاش میں نکل جاتیں۔
انسانی آبادیاں زیادہ تر دریاؤں اور سمندروں کے قریب ہوتیں۔ کیونکہ اس طرح پانی اور خوراک کا حصول آسان ہوجاتا۔ جو آبادیاں صحراؤں میں ہوتیں وہاں انسانی زندگی بہت مشکل نہ پانی اور نہ مناسب خوراک۔ خوراک کے لیے وہ کیڑے مکوڑے کھانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ کھلا آسمان اوپر سے درندے جو انسانوں کو ہڑپ کرنے کے لیے تیار رہتے، دن رات موت کا خوف رہتا ۔ان سے محفوظ رہنے کے لیے یا تو غار تھے یا بلند درخت۔ لیکن غار صرف انسانوں کی ہی پناہ گاہ نہیں تھے بلکہ درندے بھی ادھر آنکلتے تھے۔
اس صورت میں کوئی جائے اماں نہیں تھی ۔ انسانوں کے اندر کے خوف نے مذاہب کو جنم دیا۔ کوئی سورج تو کوئی آتش ،ستارہ پرست ہو گیا۔ درختوں اور گائے کی پوجا ہونے لگی جیسے جیسے انسان کی زندگی میں مویشیوں کی اہمیت بڑھنے لگی۔ بیل اونٹ زراعت کے لیے استعمال ہونے لگے گھوڑا جنگی مقاصد کے لیے استعمال ہونے لگا۔ یہاں سے ہی بت پرستی کی ابتدا ہوئی ۔بیماریاں الگ سے مصیبت تھیں ۔انسانوں کی اوسط عمر 40سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔کئی فرعون چالیس برس کی عمر میں ہی فوت ہو گئے۔ ان کے پھیپھڑے ریت اور مٹی کے ذرات سے بھرے ہوئے تھے۔
لوہے اور آگ کی دریافت نے انسان کی ترقی میں انقلابی کردار ادا کیا۔ اس طرح انسانوں نے تلور تیر کمان بنانے شروع کر دیے اور بڑے پیمانے پر جنگ وجدل کا آغاز ہو گیا۔ پہلے نزدیکی پھر دور دراز کے علاقے فتح ہونے لگے۔ دشمن قبیلوں کی عورتیں مال غنیمت کے طور پر لائی جانے لگیں۔ یہیں سے مرد کی عورت پر برتری کا آغاز ہوا۔
مردوں نے صرف مردوں کو ہی غلام نہیں بنایا بلکہ عورتوں کو بھی اپنا غلام بنا لیا۔ عورت اپنی فطری کمزوریوں کے سبب اس غلامی کے جال سے نہ نکل سکی۔ گھر سے باہر تک اب سب کچھ مرد کی مرضی سے ہونے لگا۔ پورے معاشرے اور نظام پر اس کا کنٹرول ہو گیا۔ تمام قوانین اس کی مرضی سے بننے لگے۔
قبل از اسلام عورتوں کے حقوق تو درکنار اسے انسان ہی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ بعد از اسلام عورتوں اور غلاموں سے بہترین سلوک کرنے کا حکم دیا گیا۔ انھیں وہ حقوق دیے گئے جسکی اس وقت کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔ عورتوں اور مردوں کی خرید و فروخت پوری دنیا میں ایک عام اور مقبول کاروبار تھا۔ خاص طور پر عورتوں کی حیثیت تو مویشیوں سے بھی بدتر تھی۔ صرف ڈیڑھ دو سو سال پہلے انگلینڈ میں مرد اپنی عورت کے گلے میں رسہ ڈال کر گھسیٹتے ہوئے منڈی میں بیچ آتا تھا۔ ویسے تو کہا جاتا ہے کہ عورتوں کی منڈیاں آج بھی پسماندہ ترین علاقوں میں قائم ہیں۔ نابالغ اور بالغ لڑکیوں کے علیحدہ ریٹ ہیں۔
غلامی کی داستان بڑی قدیم ہے۔ شاید انسان جتنی ہی ۔غلامی کے معاملے میں سب سے بڑا ظلم براعظم افریقہ کے انسانوں کے ساتھ ہوا ۔ ایک زمانے میں حبشی غلام رکھنا فیشن تھا۔ زراعت کے لیے 40لاکھ افریقیوں کو براعظم افریقہ سے اغوا کر کے امریکا لایا گیا۔ ان کو اس طرح شکار کیا گیاجس طرح جانوروں کو کیا جاتا ہے۔
گورے جدید ترین ہتھیاروں سے مسلح جب کہ افریقیوں کے پاس فرسودہ ہتھیار۔ اس طرح افریقیوں کو اغوا کر کے بحری جہازوں میں ٹھونس کر امریکا پہنچایا جاتا تھا۔ جگہ کی تنگی بھوک اور بیماریوں کی وجہ سے کثیر تعداد دوران سفر ہی موت کے گھاٹ اتر جاتی۔ اگر یہ کام کرنے سے انکار کرتے تو ان کے سامنے ان کے بیوی بچوں پر ظلم کیے جاتے۔
ان مظلوم افراد کی خرید و فروخت کے لیے باقاعدہ بازار لگائے جاتے تھے اور مالک ان زر خرید غلاموں پر نہ صرف انسانیت سوز مظالم ڈھاتے بلکہ ان کو موت کے گھاٹ اتارنے کا بھی انھیں حق حاصل تھا۔ بہر حال امریکی صدر ابرہام لنکن نے غلامی کا خاتمہ کر کے تاریخ میں سنہری حرفوں سے اپنا نام لکھوا لیا جس میں غلاموں کو برابر کے سماجی حقوق دیے گئے۔
اس مسئلے پر امریکا کی شمالی اور جنوبی ریاستوں میں جنگ چھڑ گئی۔ اس خانہ جنگی میں لاکھوں امریکی مارے گئے کیونکہ جنوبی ریاستیں غلامی کے خاتمے کے لیے رضامند نہیں تھیں۔ ابراہم لنکن نے یکم فروری1865کو غلامی کے خاتمے کے بل پر دستخط کیے۔ اب ہر سال امریکا میں یکم فروری نیشنل فریڈم ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ جدید دور میں انسانوں کو غلام بنانے کا رواج تو ختم ہو گیا لیکن جسمانی غلامی سے بدتر ایک اور خوفناک غلامی وجود میں آگئی جو بظاہر نظر نہیں آتی۔
اس غلامی کی تین قسمیں ہیں پہلی معاشی غلامی دوسری غلامی فرد کی یا بالا دست طاقتور طبقوں کی یا مقامی سامراج یا عالمی سامراج کی۔ان سب میں سے تیسری خوفناک بدترین غلامی نظریاتی ہے اور اس غلامی سے انسان زندگی بھر نجات حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ یہ نظر نہیں آتی۔ نظریاتی اور سامراجی غلامی کا چولی دامن کا ساتھ ہے جس میں آپکے ذہن کا کنٹرول کسی اور کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔